ان سب کے واقعات کئی مرتبہ بیان ہو چکے ہیں کہ کس طرح ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب ٹوٹ پڑے ۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو مال اولاد میں قوۃ و طاقت میں زور زور میں تمہارے زمانہ کے ان کٹر کافروں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن امر الٰہی کے آ چکنے کے بعد انہیں کوئی چیز کام نہ آئی ۔ پھر ان کی تباہی کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ یہ رسولوں کے دشمن تھے انہیں جھوٹا کہتے تھے ۔ انہیں صرف صور کا انتظار ہے اور اس میں بھی کوئی دیر نہیں بس وہ ایک آواز ہو گی کہ جس کے کان میں پڑی بیہوش و بےجان ہو گیا ۔ سوائے ان کے جنہیں رب نے مستثنیٰ کر دیا ہے ۔ قط کے معنی کتاب اور حصے کے ہیں ۔ مشرکین کی بیوقوفی اور ان کا عذابوں کو محال سمجھ کر نڈر ہو کر عذابوں کے طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اللہ اگر یہ صحیح ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب آسمانی ہمیں پہنچا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا جنت کا حصہ یہاں طلب کیا اور یہ جو کچھ کہا یہ بہ وجہ اسے جھوٹا سمجھنے اور محال جاننے کے تھا ۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ جس خیر و شر کے وہ دنیا میں مستحق تھے اسے انہوں نے جلد طلب کیا ۔ یہی بات ٹھیک ہے ضحاک اور اسماعیل کی تفسیر کا ماحصل بھی یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تکذیب اور ہنسی کے مقابلے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تعلیم دی اور برداشت کی تلقین کی ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی فراست ۔ ذالاید سے مراد علمی اور عملی قوت والا ہے اور صرف قوۃ والے کے معنی بھی ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47 ) 51- الذاريات:47 ) ، مجاہد فرماتے ہیں مراد اطاعت کی طاقت ہے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو عبادت کی قدرت اور اسلام کی فقہ عطا فرمائی گی تھی ۔ یہ مذکور ہے کہ آپ ہر رات تہائی رات تک تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور ایک دن بعد ایک دن ہمیشہ روزے سے رہتے تھے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد کی رات کی نماز اور انہی کے روزے تھے ۔ آپ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ رات کا پھر سو جاتے ، اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہ رکھتے اور دشمنان دین سے جہاد کرنے میں پیٹھ نہ دکھاتے اور اپنے ہر حال میں اللہ کی طرف رغبت و رجوع رکھتے ۔ پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کر دیا تھا ۔ وہ آپ کے ساتھ سورج کے ڈھلنے کے وقت اور دن کے آخری وقت تسبیح بیان کرتے ۔ جیسے فرمان ہے ( يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10ۙ ) 34- سبأ:10 ) یعنی اللہ نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کی آواز سن کر آپ کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرنے لگ جاتے اڑتے ہوئے پرند پاس سے گذرتے اور آپ توراۃ پڑھتے ہوتے تو آپ کے ساتھ وہ بھی تلاوت میں مشغول ہو جاتے اور اڑنا بھول جاتے بلکہ ٹھہر جاتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت حضرت ام ہانی کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی وقت نماز ہے جیسے فرمان ہے ( اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18ۙ ) 38-ص:18 ) ۔ عبداللہ بن حارث بنی نوفل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ضحیٰ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ایک دن میں انہیں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ہاں لے گیا اور کہا کہ آپ ان سے وہ حدیث بیان کیجئے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی ۔ تو مائی صاحبہ نے فرمایا فتح مکہ والے دن میرے گھر میں میرے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے ۔ پھر ایک برتن میں پانی بھروایا اور ایک کپڑا تان کر نہانے بیٹھ گئے پھر گھر کے ایک کونے میں پانی چھڑک کر آٹھ رکعت صلوۃ ضحیٰ کی ادا کیں ، ان کا قیام رکوع سجدہ اور جلوس سب قریب قریب برابر تھے حضرت ابن عباس جب یہ سن کر وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے پورے قرآن کو میں نے پڑھ لیا میں نہیں جانتا کہ ضحیٰ کی نماز کیا ہے آج مجھے معلوم ہوا کہ ( يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18ۙ ) 38-ص:18 ) والی آیت میں بھی اشراق سے مراد یہی ضحیٰ ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کر لیا ۔ جب حضرت داؤد اللہ کی پاکیزگی اور بزرگی بیان فرماتے تو پرندے بھی ہواؤں میں رک جاتے تھے اور حضرت داؤد کی ماتحتی میں ان کی تسبیح کا ساتھ دیتے تھے ۔ اور اس کی سلطنت ہم نے مضبوط کر دی اور بادشاہوں کو جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے اسے سب دے دیں ۔ چار ہزار تو ان کی محافظ سپاہ تھی ۔ اس قدر فوج تھی کہ ہر رات تینتیس ہزار فوجی پہرے پر چڑھتے تھے لیکن جو آج کی رات آتے پھر سال بھر تک ان کی باری نہ آتی ۔ چالیس ہزار آدمی ہر وقت ان کی خدمت میں مسلح تیار رہتے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں میں ایک مقدمہ ہوا ۔ ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس نے میری گائے غصب کرلی ہے ۔ دوسرے نے اس جرم سے انکار کیا حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی سے دلیل طلب کی وہ کوئی گواہ پیش نہ کر سکا آپ نے فرمایا اچھا تمہیں کل فیصلہ سنایا جائے گا ۔ رات کو حضرت داؤد کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویدار کو قتل کر دو ۔ صبح آپ نے دونوں بلوایا اور حکم دیا کہ اس مدعی کو قتل کر دیا جائے اس نے کہا اے اللہ کے نبی آپ میرے ہی قتل کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ اس نے میری گائے چرالی ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ میرا حکم نہیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور ناممکن ہے کہ یہ ٹل جائے تو تیار ہو جا ۔ تب اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں اپنے دعوے میں تو سچا ہوں اس نے میری گائے غصب کرلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے قتل کا حکم میرے اس مقدمے کی وجہ سے نہیں کیا ۔ اس کی وجہ اور ہی ہے اور اسے صرف میں ہی جانتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ آج میں نے اسے فریب سے قتل کر دیا ہے جس کا کسی کو علم نہیں ۔ پس اس کے بدلے میں اللہ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ وہ قتل کر دیا گیا ۔ اب تو حضرت داؤد کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بیٹھ گئی ہم نے اسے حکمت دی تھی یعنی فہم و عقل ، زیرکی اور دانائی ، عدل و فراست کتاب اللہ اور اس کی اتباع نبوت و رسالت وغیرہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا صحیح طریقہ ۔ یعنی گواہ لینا قسم کھلوانا ، مدعی کے ذمہ بار ثبوت ڈالنا مدعی علیہ سے قسم لینا ۔ یہی طریقہ فیصلوں کا انبیاء کا اور نیک لوگوں کا رہا اور یہی طریقہ اس امت میں رائج ہے ۔ غرض حضرت داؤد معاملے کی تہ کو پہنچ جاتے تھے اور حق و باطل سچ جھوٹ میں صحیح اور کھرے کا امتیاز کر لیتے تھے ۔ کلام بھی آپ کا صاف ہوتا تھا اور حکم بھی عدل پر مبنی ہوتا تھا ۔ آپ ہی نے اما بعد کا کہنا ایجاد کیا ہے اور فصل الخطاب سے اس کی طرف بھی اشارہ ہے ۔
12۔ 1 فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا کہ وہ ظالم جب کسی پر غضبناک ہوتا تو اس کے ہاتھوں پیروں اور سر میں میخیں گاڑ دیتا تھا۔
[١٤] میخوں والا فرعون :۔ اگر محاورۃً اس کے معنی لئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایک بڑی مضبوط سلطنت کا مالک تھا۔ تاہم اس کے لفظی معنی بھی لئے جاسکتے ہیں۔ فرعون کا دستور یہ تھا کہ جس شخص کو سولی پر چڑھانا ہوتا تو اسے تختے کے ساتھ کھڑا کرکے اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں چار میخیں ٹھونک دیا کرتا تھا اسی وجہ سے وہ ذِیْ الاَوْتَاد یعنی میخوں والا مشہور ہوگیا تھا۔ مزید تشریح سورة فجر کی آیت نمبر ١٠ کے حاشیہ میں دیکھئے۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ : یعنی ان بےچارے قریش اور ان کی ہمنوا جماعتوں کی کیا حیثیت ہے، ان سے پہلے تعداد اور قوت و شوکت میں ان سے کہیں زیادہ اقوام، یعنی قوم نوح، میخوں والا فرعون، عاد، ثمود، قوم لوط اور اصحاب الایکہ وہ بڑے بڑے لشکر تھے جن میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو ان پر میرا عذاب واقع ہوگیا۔ - وَّفِرْعَوْنُ ذُوالْاَوْتَادِ : ” الْاَوْتَادِ “ ” وَتَدٌ“ کی جمع ہے، میخ۔ فرعون کو میخوں والا کہنے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اس کے ہاتھ پاؤں میں میخیں ٹھکوا کر سزا دیا کرتا تھا، یا یہ کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا زمین میں میخیں ٹھکی ہوئی ہیں، یا اس کا لشکر اتنا زیادہ تھا کہ جہاں ٹھہرتا ہر طرف خیموں کی میخیں ہی میخیں نظر آتیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی عمارتیں زمین میں میخوں کی طرح ٹھکی ہوئی ہوں، جیسا کہ اہرام مصر ہزاروں سال سے زمین کے اندر گڑے ہوئے ہیں۔
وَّفِرْعَوْنُ ذُوالْاَوْتَادِ اس کے لفظی معنی ہیں ” میخوں والا فرعون “ اور اس کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے اس کی سلطنت کے استحکام کی طرف اشارہ ہے، اسی لئے حضرت تھانوی نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ” جس کے کھونٹے گڑ گئے تھے “ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ وہ لوگوں کو اس طرح سزا دیا کرتا تھا کہ اسے چت لٹا کر اس کے چاروں ہاتھ پاؤں میں میخیں گاڑ دیتا اور اس پر سانپ، بچھو چھوڑ دیتا تھا۔ اور بعض نے کہا کہ وہ رسی اور میخوں سے کوئی خاص کھیل کھیلا کرتا تھا۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ ” میخوں “ سے مراد عمارتیں ہیں اور اس نے بڑی مضبوط عمارتیں بنائی تھیں۔ (تفسیر قرطبی) واللہ سبحانہ، اعلم۔
كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ ١٢ۙ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- وتد - الوَتِدُ والوَتَدُ ، وقد وَتَدْتُهُ أَتِدُهُ وَتْداً. قال تعالی: وَالْجِبالَ أَوْتاداً- [ النبأ 7] وكيفية كون الجبال أوتادا يختصّ بما بعد هذا الباب، وقد يسكّن التاء ويدغم في الدال فيصير ودّا، والوَتِدَان من الأذن تشبيها بالوتد للنّتوّ فيهما .- ( و ت د ) الوتد والوتد ( ج اوتادا ) کے معنی میخ کے ہیں ۔ وتد تہ اتدہ وتدا کے معنی کسی چیز میں میخ لگا کر اسے مضبوط کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 7] اور پہاڑوں کو ( اس کی ) میخیں نہیں ٹھہرایا ۔ اور پہاڑوں کی زمین کی میخیں ٹھہرانے کی کیفیت اس کے بعد بیان ہوگی ۔ اور کبھی وتد کی تاء کو ساکن اور پھر دال میں ادغام کرکے ود بھی پڑھ لیتے ہیں ۔ الواتدان دونوں کانوں کے سامنے کے حصے جو میخ کی طرح ابھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔
آیت ١٢ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ ” ان سے پہلے جھٹلایا تھا قوم نوح ( علیہ السلام) ‘ قوم عاد اور میخوں والے فرعون نے۔ “- کہا جاتا ہے کہ فرعون جب اپنے لشکروں کے ساتھ سفر کرتا تھا تو گھوڑوں اور خچروں کی ایک کثیر تعداد کو صرف خیموں کے کھونٹے اٹھانے کے لیے مختص کیا جاتا تھا ‘ اس لیے اسے فِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ کہا گیا ہے۔ اس میں کثرت افواج کی طرف اشارہ ہے۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :13 فرعون کے لیے ذی الا وتاد ( میخوں والا ) یا تو اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا میخ پر ٹھکی ہوئی ہو ۔ یا اس بنا پر کہ اس کے کثیر التعداد لشکر جہاں ٹھہرتے تھے وہاں ہر طرف خیموں کی میخیں ہی میخیں ٹھکی نظر آتی تھیں ۔ یا اس بنا پر کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اسے میخیں ٹھنک کر عذاب دیا کرتا تھا ۔ اور ممکن ہے کہ میخوں سے مراد اہرام مصر ہوں جو زمین کے اندر میخ کی طرح ٹھکے ہوئے ہیں ۔