22۔ 1 آنے والوں نے تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے، ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ حق کے ساتھ فیصلہ بھی فرمائیں اور سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی۔
[٢٥] ایک دن آپ عبادت میں مصروف تھے اور یہ دن آپ کی عبادت کا دن تھا۔ اس دن آپ خلوت میں رہتے اور دربان کسی کو آپ کے پاس نہ آتے دیتے تھے۔ ناگہانی طور دو شخص دیوار پھاند کر آپ کے پاس آن کھڑے ہوئے۔ سیدنا داؤد یہ ماجرا دیکھ کر گھبرا گئے کہ یہ آدمی ہیں یا کوئی اور مخلوق ہے ؟ آدمی ہیں تو انہیں اس وقت آنے کی کیسے ہمت ہوئی۔ دربانوں نے انہیں کیوں نہیں روکا۔ اتنی اونچی دیواروں کو پھاند کر کس نیت اور کس غرض سے آئے ہیں۔ اچانک یہ عجیب اور مہیب واقعہ دیکھ کر گھبرا گئے۔- [٢٦] دیوار پھاند کر اندر آنے والے دو شخص اور مقدمہ کی نوعیت :۔ اکثر مفسرین کا یہ خیال ہے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد کے پاس تنبیہ کے طور پر بھیجا تھا۔ جیسا کہ اگلے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ انہوں نے آپ کی گبھراہٹ کو محسوس کرلیا تو کہنے لگے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ہم دونوں میں ایک جھگڑا ہے۔ وہ سن کر آپ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کر دیجئے تاکہ کسی فریق پر زیادتی نہ ہونے پائے۔
اِذْ دَخَلُوْا عَلٰي دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ : داؤد (علیہ السلام) ان کے اس طرح دیوار پھاند کر اچانک آ دھمکنے سے گھبرا گئے کہ یہ دشمن نہ ہوں، جو قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کے لیے آئے ہیں، خصوصاً اس لیے کہ بنی اسرائیل کا اپنے انبیاء کو قتل کرنا معروف تھا۔ - قَالُوْا لَا تَخَفْ : انھوں نے آتے ہی سب سے پہلے تسلی دی کہ ڈرو نہیں، ہم کسی بری نیت سے نہیں آئے، بلکہ دونوں آپس کا ایک جھگڑا لے کر آپ کے پاس آئے ہیں، اس لیے آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور بےانصافی نہ کریں اور ہماری راہ نمائی سیدھے راستے کی طرف کریں۔
فَفَزِعَ مِنْهُمْ (پس حضرت داؤد ان سے گھبرا گئے) گھبرانے کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ دو آدمیوں کا بےوقت پہرہ توڑ کر اس طرح گھس آنا عموماً کسی بری نیت ہی سے ہوتا ہے۔- طبعی خوف نبوت یا ولایت کے منافی نہیں ہے :- اس سے معلوم ہوا کہ کسی خوفناک چیز سے طبعی طور پر گھبرا جانا نبوت اور ولایت کے منافی نہیں ہے۔ ہاں اس خوف کو دل و دماغ پر طاری کر کے اپنے فرائض کو چھوڑ دینا ضرور برا ہے۔ اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم میں انبیاء کی شان یہ بیان کی گئی ہے لایخشون احداً الا اللہ۔ (وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے) پھر یہاں حضرت داؤد (علیہ السلام) کو خوف کیوں ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ڈرنے کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک ڈر تو موذی اشیاء کے تکلیف پہنچانے سے ہوتا ہے، اسے عربی میں خوف کہتے ہیں۔ دوسرا ڈر کسی بڑے کی عظمت، جلالت شان اور رعب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسے خشیة کہا جاتا ہے۔ (مفردات، راغب) خشیت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہونی چاہئے، اور انبیاء (علیہم السلام) کی شان یہی ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا ان پر کسی کی خشیت طاری نہیں ہوتی۔ ہاں خوف طبعی موذی اشیاء سے ہوسکتا ہے۔- بے قاعدگی پر حقیقت حال کے منکشف ہونے تک صبر کرنا چاہئے :- قَالُوْا لَا تَخَفْ (انہوں نے کہا ڈریئے نہیں) آنے والوں نے یہ کہہ کر اپنی بات بیان کرنی شروع کردی اور حضرت داؤد (علیہ السلام) خاموشی سے ان کی بات سنتے رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اچانک کسی بےقاعدگی کا مرتکب ہو تو اسے فوراً ملامت اور زجر وتوبیخ شروع نہیں کر دینی چاہئے، بلکہ پہلے اس کی بات سن لینی چاہئے۔ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اس کے پاس اس بےقاعدگی کا جواز تھا یا نہیں۔ کوئی اور ہوتا تو آنے والوں پر فوراً برس پڑتا۔ لیکن حضرت داؤد (علیہ السلام) نے انکشاف حقیقت کا انتظار فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ معذور ہوں۔- ولاتشطط (اور بےانصافی نہ کیجئے) آنے والے کا یہ انداز خطاب بظاہر بڑا گستاخانہ تھا، اول تو دیوار پھاند کر بےوقت آنا، پھر آ کر حضرت داؤد (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر کو انصاف کرنے اور ظلم سے بچنے کا درس دینا، اس پر الھڑ پن کی باتیں تھیں لیکن حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ان سب باتوں پر صبر فرمایا اور انہیں کچھ برا بھلا نہیں کہا۔
اِذْ دَخَلُوْا عَلٰي دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْہُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْ ٠ ۚ خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰي بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَــقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاہْدِنَآ اِلٰى سَوَاۗءِ الصِّرَاطِ ٢٢- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- فزع - الفَزَعُ : انقباض ونفار يعتري الإنسان من الشیء المخیف، وهو من جنس الجزع، ولا يقال : فَزِعْتُ من الله، كما يقال : خفت منه .- وقوله تعالی: لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء 103] ، فهو الفزع من دخول النار .- فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل 87] ، وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل 89] ، وقوله تعالی: حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ 23] ، أي : أزيل عنها الفزع، ويقال : فَزِعَ إليه : إذا استغاث به عند الفزع، وفَزِعَ له : أغاثه . وقول الشاعر : كنّا إذا ما أتانا صارخ فَزِعٌ أي : صارخ أصابه فزع، ومن فسّره بأنّ معناه المستغیث، فإنّ ذلک تفسیر للمقصود من الکلام لا للفظ الفزع .- ( ف ز ع ) الفزع انقباض اور وحشت کی اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی خوفناک امر کی وجہ سے انسان پر طاری ہوجاتی ہے یہ جزع کی ایک قسم ہے اور خفت من اللہ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن فزعت منہ کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء 103] ان کو ( اس دن کا ) بڑا بھاری غم غمگین نہیں کرے گا ۔ میں فزع اکبر سے دوزخ میں داخل ہونیکا خوف مراد ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل 87] تو جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سبب گھبرا اٹھیں گے ۔ وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل 89] اور ایسے لوگ ( اس روز ) گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے ۔ حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ 23] یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا ۔ یعنی ان کے دلوں سے گبراہٹ دوری کردی جائے گی فزع الیہ کے معنی گھبراہٹ کے وقت کسی سے فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے ہیں اور فزع لہ کے معنی مدد کرنے کے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 339 ) ولنا اذا مااتانا صارع خ فزع یعنی جب کوئی فریاد چاہنے والا گھبرا کر ہمارے پاس آتا ۔ بعض نے فزع کے معنی مستغیت کئے ہیں تو یہ لفظ فزع کے اصل معنی نہیں ہیں بلکہ معنی مقصود کی تشریح ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔ - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- شطط - الشَّطَطُ : الإفراط في البعد . يقال : شَطَّتِ الدّارُ ، وأَشَطَّ ، يقال في المکان، وفي الحکم، وفي السّوم، قال : شطّ المزار بجدوی وانتهى الأمل«1» وعبّر بِالشَّطَطِ عن الجور . قال تعالی: لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف 14] ، أي : قولا بعیدا عن الحقّ. وشَطُّ النّهر حيث يبعد عن الماء من حافته .- ( ش ط ط ) الشطط ۔- کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کرنے کے ہیں جیسے شطت الدار واشط ( گھر کا دور ہونا ) اور یہ کسی مقام یا حکم یا نرخ میں حد مقررہ سے تجاوز کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے : ( البسیط ) یعنی حذوی ( محبوبہ ) کی زیارت مشکل ہوگئی اور ہر قسم کی امیدیں منقطع ہوگئیں ۔ اور کبھی شطط بمعنی جور بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف 14] تو ہم نے بعید از عقل بات کہی ۔ شط النھر ۔ دریا کا کنارا جہاں سے پانی دور ہو - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔
خصم کا اسم، واحد اور جماعت دونوں پر واقع ہوتا ہے ۔ حضرت دائود (علیہ السلام) ان آنے والوں سے اس لئے خوفزدہ ہوگئے تھے کہ یہ آپ کے پاس اجازت کے بغیر انسانوں کی صورت میں آپ کی نماز گاہ میں دیوار پھاند کر آئے تھے۔ آنے والوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) سے کہا (لا تخف خصمان بغی بعضنا علی بعض۔ آپ ڈریے نہیں، ہم دو اہل مقدمہ ہیں ایک نے دوسرے سے زیادتی کی ہے) اس کے معنی ہیں۔ دیکھیے، اگر آپ کے پاس دواہل مقدمہ آجائیں اور آکر یہ کہیں کہ ایک نے دوسرے کے ساتھ زیادتی ہے تو آپ کیا فیصلہ کریں گے۔ “- یہ بات اضمار کی صورت میں بیان ہوئی ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ مقدمہ کے دونوں فریق فرشتے تھے اور کسی نے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی تھی۔ نیز فرشتوں سے کذب بیانی کا جواز بھی نہیں ہے۔ ان باتوں سے ہمیں یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ ان دونوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) سے اشارے کنائے میں بات کی تھی جو انہیں کذب بیانی کے دائرے سے باہر رکھتا ہے۔ اور پھر انہوں نے مثال بیان کرکے مفہوم کو حضرت دائود (علیہ السلام) کے ذہن سے اور زیادہ قریب کردیا تھا۔- ان دونوں کا یہ قول (ان ھذا اخی لہ تسع وتسعون نعجۃ۔ یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں) معنوی طور پر اضمار پر محمول ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اضمار یہ ہے۔ ” دیکھئے، اگر میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہوں…“ دنبیوں سے عورتیں مراد ہیں۔ ایک قول کے مطابق حضرت دائود (علیہ السلام) کی ننانوے بیویاں تھیں اور یا بن حنان کی کوئی بیوی نہ تھی۔ اس نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا۔ حضرت دائود نے بھی اس عورت کو نکاح کا پیغام بھیج دیا حالانکہ آپ کو پتہ تھا کہ اور یا نے اسے پیغام بھیجا ہے۔ اس کے بعد اس عورت سے آپ کا نکاح ہوگیا۔- اس واقعہ میں دو باتیں ایسی تھیں جن سے انبیاء کو دامن کشاں رہنا چاہیے تھا۔ ایک تو یہ کہ پیغام نکاح پر پیغام نکاح بھیجنا دوسری یہ کہ بیویوں کی کثرت کے باوجود نکاح کی طرف میلان رکھنا جب کہ دوسرے شخص کے پاس کوئی بیوی نہیں تھی، یہ معصیت کی صورت تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس پر حضرت دائود (علیہ السلام) سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اگرچہ یہ ایک صغیرہ گناہ تھا۔- جب فرشتوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) سے خطاب کیا تھا اس وقت ہی وہ یہ بات سمجھ گئے تھے کہ انہیں پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ اور یہ یبات ان کے لئے بہتر تھی۔ قول باری (ولی نعجۃ واحدۃ۔ اور میری صرف ایک دنبی ہے) یعنی میں نے صرف ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا تھا اور دونوں طرف سے اس نکاح پر رضامندی بھی ہوگئی تھی۔- اس قصہ کی فضول روایات - روایات میں قصہ گو راویوں نے جس باتوں کا تذکرہ کیا ہے کہ حضرت دائود کی نظر ایک برہنہ عورت پر پڑگئی تھی اور آپ اس پر فریفتہ ہوگئے تھے پھر آپ نے اس کے شوہر کو قتل کرادیا اور اسے اپنے عقلہ میں لے آئے، وہ تمام باتیں بےسروپا قسم کی من گھڑت کہانیاں ہیں جن کا انبیاء کی ذات سے وقوع پذیر ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔- کیونکہ انبیاء کرام معاصی کو معاصی سمجھتے ہوئے کبھی ان کا ارتکاب نہیں کرتے کیونکہ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ معاصی کہیں کبائر نہ ہوں جن کے ارتکاب کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ انہیں عہدہ نبوت سے ہی معزول نہ کردے۔- پہلی تاویل کی صحت پر اس شخص کا قول (وعزنی فی الخطاب۔ اور بات چیت میں مجھے دباتا ہے) دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ اس فقرے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فریقین کے درمیان پیغام نکاح کے سلسلے میں گفتگو ہورہی تھی۔ یہ بات نہیں تھی کہ ایک نے نکاح کرنے میں دوسرے سے سبقت کرلی تھی۔- حاکم کو فریق مقدمہ کی سطح پر بات کرنی چاہیے - قول باری (قاحتکم بیننا بالحق ولاتشطط۔ سو آپ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کردیجئے اور بےانصافی نہ کیجئے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ مقدمہ کے فریق کے لئے حاکم کو اس جیسے الفاظ کے ساتھ خطاب کرنا جائز ہے۔
داؤد ان کے بےوقت آنے سے گھبرا گئے تو وہ دونوں کہنے لگے اے داؤد آپ ڈریں نہیں ہم دونوں کے درمیان ایک معاملہ ہے ایک نے دوسرے پر زیادتی و ظلم کیا ہے آپ ہم میں انصاف سے فیصلہ کردیجیے اور بےانصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھی راہ بتایے۔
آیت ٢٢ اِذْ دَخَلُوْا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْہُمْ ” جب وہ دائود ( علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ ان سے ڈرا۔ “- تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود دو افراد کا آپ ( علیہ السلام) کی خلوت گاہ میں اچانک در آنا ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) کو بجا طور پر تشویش ہوئی کہ نہ معلوم یہ لوگ کس نیت سے آئے ہیں۔- قَالُوْا لَا تَخَفْج خَصْمٰنِ بَغٰی بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ ” انہوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ‘ ہم دو مخالف فریق ہیں ‘ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے “- عربی میں ” خصم “ سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کے بالمقابل ہو ‘ یعنی دشمن یا مخالف فریق۔- فَاحْکُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِط ” تو آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیجیے اور آپ اسے ٹالیے نہیں “- یعنی یہ مقدمہ ہمارے لیے بہت اہم ہے اور ہم اس کا فوری طور پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ آپ ( علیہ السلام) اسے کسی اور وقت پر نہ ٹال دیجیے گا۔- وَاہْدِنَآ اِلٰی سَوَآئِ الصِّرَاطِ ” اور سیدھی راہ کی طرف ہماری راہنمائی کیجیے۔ “- ہمارے بیانات سن کر آپ ( علیہ السلام) ہمیں درست لائحہ عمل اختیار کرنے کی ہدایت فرمائیں۔ چناچہ ان میں سے جو مدعی تھا اس نے اپنا مقدمہ اس طرح پیش کیا :ـ
سورة صٓ حاشیہ نمبر :22 گھبرانے کی وجہ یہ تھی کہ دو آدمی فرمانروائے وقت کے پاس اس کی خلوت گاہ میں سیدھے راستے سے جانے کے بجائے یکایک دیوار چڑھ کر جا پہنچے تھے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :23 بھائی سے مراد حقیقی بھائی نہیں بلکہ دینی اور قومی بھائی ہے ۔