Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایاتوں سے لیا گیا ہے ۔ حدیث سے ثابت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف ۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے ۔ حضرت داؤد کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے ۔ عزنی الخ ، سے مطلب بات چیت میں غالب آ جانا دوسرے پر چھا جانا ہے ۔ حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے ۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا ۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لئے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لئے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں ۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں؟ اس کی بات امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ ص ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ( بخاری وغیرہ ) نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ حضرت داؤد کا تو توبہ کے لئے تھا اور ہمارا شکر کے لئے ہے ۔ ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا یعنی اے اللہ میرے اس سجدے کو تو میرے لئے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی ۔ ابن عباس اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی پس تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کی پیروی کر پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے سجدہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ سجدہ کیا ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورہ ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا ۔ انہوں نے اپنا یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے ( احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سورہ ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہو چنانچہ آپ اترے اور سجدہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا ۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہو گی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے ۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے ۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں ۔ ( ترمذی وغیرہ ) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد علیہ السلام کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو ۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی ۔ اب حضرت داؤد علیہ السلام اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 مِحْرَاب سے مراد کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آکر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آگئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] خصم کا لغوی مفہوم :۔ خصم بمعنی دعویدار، مدعی اور مدعا علیہ، دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک۔ فریق مخالف۔ خواہ ایک فرد ہو یا زیادہ ہوں۔ نیز ایسا جھگڑا یا مقدمہ بھی جس میں فریقین کے حقوق زیر بحث ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ : ” نَبَؤُا “ کسی اہم خبر کو کہتے ہیں۔ ” الْخَصْمِ “ واحد، تثنیہ اور جمع سب پر بولا جاتا ہے۔ ” تَسَوَّرُوا “ ” سُوْرٌ“ دیوار کو کہتے ہیں اور ” تَسَوَّرُوا “ کے ضمن میں ” دَخَلُوْا “ کا معنی شامل ہونے کی وجہ سے ” الْمِحْرَابَ “ کو اس کا مفعول بنایا گیا ہے، یعنی دیوار پھاند کر ” محراب “ میں داخل ہوئے۔ ” الْمِحْرَابَ “ عبادت کے لیے مخصوص کمرہ۔ ” وَلَا تُشْطِــطْ “ بےانصافی نہ کر۔ ” شَطَطٌ“ زیادتی، ظلم۔ ” أَشَطَّ الْحَاکِمُ إِذَا جَارَ “ (افعال) حاکم نے بےانصافی کی۔ ” نَعْجَةً “ ” أُنْثٰی مِنَ الضَّانِ “ بھیڑ یا دنبی۔ ” عَزَّ یَعِزُّ “ (ض) غالب آنا۔ ” الْخُلَطَاۗءِ “ ” خَلِیْطٌ“ کی جمع ہے، شریک۔ مگر ” خَلِیْطٌ“ عام ہے، اس میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جنھوں نے اپنا مال ملایا ہوا ہو، مگر ہر ایک اپنے اپنے مال کا الگ الگ مالک ہو۔ ” وَقَلِيْلٌ“ بہت کم۔ ” مَّا “ کے ساتھ تاکید کی وجہ سے ” بہت ہی کم۔ “- اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کرنے کا حکم دیا اور یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے بات کا آغاز اس طرح کیا کہ کیا تیرے پاس ان جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے ؟ مقصد اسے سننے کا شوق دلانا ہے۔ - اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ : جب وہ جھگڑنے والے دیوار پھاند کر داؤد (علیہ السلام) کے پاس ان کے عبادت کے لیے مخصوص کمرے میں آگئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ پہرے وغیرہ کی وجہ سے دروازے کی طرف سے داخل نہیں ہو سکے، ورنہ انھیں دیوار پھاندنے کی ضرورت نہیں تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور بھلا آپ کو ان اہل مقدمہ کی خبر بھی پہنچی ہے (جو داؤد (علیہ السلام) کے پاس مقدمہ لائے تھے) جبکہ وہ لوگ (داؤد (علیہ السلام) کے) عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر داؤد (علیہ السلام) کے پاس آئے (کیونکہ دروازے سے پہرہ داروں نے اس لئے نہیں آنے دیا کہ وہ وقت آپ کی عبادت کا تھا، مقدمات کے فیصلے کا نہیں) تو وہ (ان کے اس بےقاعدہ آنے سے) گھبرا گئے (کہ کہیں یہ لوگ دشمن نہ ہوں جو قتل کے ارادے سے اس طرح تنہائی میں آ گھسے ہوں) وہ لوگ (ان سے) کہنے لگے کہ آپ ڈریں نہیں، ہم دو اہل معاملہ ہیں کہ ایک نے دوسرے پر (کچھ) زیادتی کی ہے (اس کے فیصلے کے لئے ہم آئے ہیں، چونکہ پہرہ داروں نے دروازہ سے نہیں آنے دیا۔ اس لئے اس طرح آنے کے مرتکب ہوئے) سو آپ ہم میں انصاف سے فیصلہ کر دیجئے، اور بےانصافی نہ کیجئے، اور ہم کو (معاملہ کی) سیدھی راہ بتلا دیجئے (اور پھر ایک شخص بولا کہ صورت مقدمہ یہ ہے کہ) یہ شخص میرا بھائی ہے (یعنی دینی بھائی جیسا کہ در منثور میں حضرت ابن مسعود سے منقول ہے اور) اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس (کل) ایک دنبی ہے۔ سو یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھ کو دے ڈال اور بات چیت میں مجھ کو دباتا ہے (اور میری بات کو منہ زوری سے چلنے نہیں دیتا) داؤد (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کرتا ہے تو واقعی تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شرکاء (کی عادت ہے کہ) ایک دوسرے پر (یوں ہی) زیادتی کیا کرتے ہیں، مگر ہاں جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں، اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں (یہ بات آپ نے مظلوم کی تسلی کے لئے ارشاد فرمائی) اور داؤد (علیہ السلام) کو خیال آیا کہ (اس مقدمہ کو اس طرح پیش کر کے) ہم نے ان کا امتحان کیا ہے، سو انہوں نے اپنے رب کے سامنے توبہ کی اور سجدہ میں گر پڑے اور (خاص طور پر خدا کی طرف) رجوع ہوئے، سو ہم نے ان کو وہ (امر) معاف کردیا، اور ہمارے یہاں ان کے لئے (خاص) قرب اور (اعلیٰ درجہ کی) نیک انجامی (یعنی جنت کا درجہ علیا) ہے۔- معارف ومسائل - ان آیتوں میں باری تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں یہ واقعہ جس انداز سے بیان کیا گیا ہے، اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت گاہ میں دو فریقوں کو جھگڑتے ہوئے بھیج کر ان کا کوئی امتحان کیا تھا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس امتحان پر متنبہ ہو کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور سجدے میں گر پڑے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی۔ قرآن کریم کا اصل مقصد چونکہ یہاں یہ بیان کرنا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرماتے تھے، اور کبھی ذرا سی لغزش بھی ہوجائے تو فوراً استغفار کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اس لئے یہاں یہ تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ وہ امتحان کیا تھا ؟ حضرت داؤد (علیہ السلام) سے وہ کونسی لغزش ہوئی تھی جس سے انہوں نے استغفار کیا ؟ اور جسے اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ اسی لئے بعض محقق اور محتاط مفسرین نے ان آیات کی تشریح میں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت و مصلحت سے اپنے جلیل القدر پیغمبر کی اس لغزش اور امتحان کی تفصیل کو کھول کر بیان نہیں فرمایا، اس لئے ہمیں بھی اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے۔ اور جتنی بات قرآن کریم میں مذکور ہے، صرف اسی بات پر ایمان رکھنا چاہئے۔ حافظ ابن کثیر جیسے محقق مفسر نے اپنی تفسیر میں اسی پر عمل کرتے ہوئے واقعہ کی تفصیلات سے خاموشی اختیار کی ہے۔ اور کوئی شک نہیں کہ یہ سب سے زیادہ محتاط اور سلامتی کا راستہ ہے۔ اسی لئے علماء سلف سے منقول ہے کہ ابھموا ما ابھمہ اللہ، یعنی جس چیز کو اللہ نے مبہم چھوڑا ہے تم بھی اس کو مبہم رہنے دو ۔ اسی میں حکمت و مصلحت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد ایسے معاملات کا ابہام ہے جن سے ہمارے عمل اور حلال و حرام کا تعلق نہ ہو اور جن معاملات سے مسلمانوں کے عمل کا تعلق ہو اس ابہام کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے رفع کردیا ہے۔- البتہ دوسرے مفسرین نے روایات وآثار کی روشنی میں اس امتحان اور آزمائش کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک عامیانہ روایت تو یہ مشہور ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نظر ایک مرتبہ اپنے ایک فوجی افسر اور یا کی بیوی پر پڑگئی تھی۔ جس سے ان کے دل میں اس کے ساتھ نکاح کرنے کی خواہش پیدا ہوئی، اور انہوں نے اور یا کو قتل کرانے کی غرض سے اسے خطرناک ترین مشن سونپ دیا جس میں وہ شہید ہوگیا اور بعد میں آپ نے اس کی بیوی سے شادی کرلی۔ اس عمل پر تنبیہ کرنے کے لئے یہ دو فرشتے انسانی شکل میں بھیجے گئے۔- لیکن یہ روایت بلاشبہ ان خرافات میں سے ہے جو یہودیوں کے زیر اثر مسلمانوں میں بھی پھیل گئی تھیں۔ یہ روایت دراصل بائبل کی کتاب سموئیل دوم باب نمبر ١١ سے ماخوذ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بائبل میں کھلم کھلا حضرت داؤد (علیہ السلام) پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے معاذ اللہ اور یا کی بیوی سے نکاح سے قبل ہی زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ اور ان تفسیری روایتوں میں زنا کے جز کو حذف کردیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اس اسرائیلی روایت کو دیکھا اور اس میں سے زنا کے قصے کو نکال کر اسے قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں پر چسپاں کردیا۔ حالانکہ یہ کتاب سموئیل ہی سرے سے بےاصل ہے اور یہ روایت قطعی کذب وافتراء کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے تمام محقق مفسرین نے اس کی سخت تردید کی ہے۔- حافظ ابن کثیر کے علاوہ علامہ ابن جوزی، قاضی ابو السعود، قاضی بیضاوی، قاضی عیاض، امام رازی، علامہ ابو حیان اندلسی، خازن، زمحشری، ابن حزم، علامہ خفاجی، احمد بن تصر، ابو تمام اور علامہ آلوسی وغیرہ نے بھی اسے کذب وافتراء قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں :۔- ” بعض مفسرین نے یہاں ایک قصہ ذکر کیا ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں کوئی ایسی بات ثابت نہیں جس کا اتباع واجب ہو، صرف ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث روایت کی ہے۔ مگر اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ “- غرض بہت سے دلائل کی روشنی میں جن کی کچھ تفصیل امام رازی کی تفسیر کبیر اور ابن جوزی کی زاد المسیر وغیرہ میں موجود ہے، یہ روایت تو اس آیت کی تفسیر میں قطعاً خارج از بحث ہوجاتی ہے۔- حکیم الامت حضرت تھانوی نے اس آزمائش اور لغزش کی تشریح اس طرح فرمائی ہے کہ مقدمہ کے یہ دو فریق دیوار پھاند کر داخل ہوئے، اور طرز مخاطبت بھی انتہائی گستاخانہ اختیار کیا کہ شروع ہی میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کو انصاف کرنے اور ظلم نہ کرنے کی نصیحتیں شروع کردیں، اس انداز کی گستاخی کی بنا پر کوئی عام آدمی ہوتا تو انہیں جواب دینے کے بجائے الٹی سزا دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا یہ امتحان فرمایا کہ وہ بھی غصہ میں آ کر انہیں سزا دیتے ہیں یا پیغمبرانہ عفو و تحمل سے کام لے کر ان کی بات سنتے ہیں۔- حضرت داؤد (علیہ السلام) اس امتحان میں پورا اترے، لیکن اتنی سی فروگذاشت ہوگئی کہ فیصلہ سناتے وقت ظالم کو خطاب کرنے کے بجائے مظلوم کو مخاطب فرمایا۔ جس سے ایک گونہ جانبداری مترشح ہوتی تھی مگر اس پر فوراً متنبہ ہوا اور سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ (بیان القرآن)- بعض مفسرین نے لغزش کی یہ تشریح کی ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے مدعا علیہ کو خاموش دیکھا تو اس کا بیان سنے بغیر صرف مدعی کی بات سن کر اپنی نصیحت میں ایسی باتیں فرمائیں جن سے فی الجملہ مدعی کی تائید ہوتی تھی، حالانکہ پہلے مدعا علیہ سے پوچھنا چاہئے تھا کہ اس کا موقف کیا ہے ؟ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا یہ ارشاد اگرچہ صرف ناصحانہ انداز میں تھا اور ابھی تک مقدمہ کے فیصلے کی نوبت نہیں آئی تھی، تاہم ان جیسے جلیل القدر پیغمبر کے شایان شان نہیں تھا۔ اسی بات پر آپ بعد میں متنبہ ہو کر سجدہ ریز ہوئے۔ (روح المعانی)- بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنا نظم اوقات ایسا بنایا ہوا تھا کہ چوبیس گھنٹے میں ہر وقت گھر کا کوئی نہ کوئی فرد عبادت، ذکر اور تسبیح میں مشغول رہتا تھا، ایک روز انہوں نے باری تعالیٰ سے عرض کیا کہ پروردگار دن اور رات کی کوئی گھڑی ایسی نہیں گزرتی جس میں داؤد کے گھر والوں میں سے کوئی نہ کوئی آپ کی عبادت، نماز اور تسبیح و ذکر میں مشغول نہ ہو، باری تعالیٰ نے فرمایا کہ داؤد یہ سب کچھ میری توفیق سے ہے، اگر میری مدد شامل حال نہ ہو تو یہ بات تمہارے بس کی نہیں ہے، اور ایک دن میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ وہ وقت حضرت داؤد (علیہ السلام) کے مشغول عبادت ہونے کا تھا۔ اس ناگہانی قضیہ سے ان کے اوقات کا نظام مختل ہوگیا حضرت داؤد (علیہ السلام) جھگڑا چکانے میں مشغول ہوگئے، آل داؤد (علیہ السلام) کا کوئی اور فرد بھی اس وقت عبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف نہ تھا۔ اس سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو تنبہ ہوا کہ وہ فخریہ کلمہ جو زبان سے نکل گیا تھا، یہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ اس لئے آپ نے استغفار فرمایا اور سجدہ ریز ہوگئے۔ اس توجیہہ کی تائید حضرت ابن عباس کے ایک ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو مستدرک حاکم میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے۔ (احکام القرآن)- ان تمام تشریحات میں یہ بات مشترکہ طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ مقدمہ فرضی نہیں، بلکہ حقیقی تھا اور صورت مقدمہ کا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی آزمائش یا لغزش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف بہت سے مفسرین نے اس کی ایسی تشریح فرمائی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ مقدمہ کے یہ فریقین انسان نہیں، بلکہ فرشتے تھے، اور انہیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا کہ وہ ایسی فرضی صورت مقدمہ پیش کریں جس سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی لغزش پر تنبہ ہوجائے۔- چنانچہ ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اور یا کو قتل کرانے اور اس کی بیوی سے نکاح کرلینے کا وہ قصہ تو غلط ہے، لیکن حقیقت حال یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں سے کسی شخص سے یہ فرمائش کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا کہ ” تم اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کا نکاح مجھ سے کردو “ اس زمانے میں اس فرمائش کا عام رواج بھی تھا۔ اور یہ بات خلاف مروت بھی نہ سمجھی جاتی تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اسی بنا پر اور یا سے یہی فرمائش کی تھی، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ دو فرشتے بھیج کر آپ کو تنبیہ فرمائی۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ بات صرف اتنی تھی کہ اور یا نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا ہوا تھا، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بھی اسی عورت کو اپنا پیغام دے دیا، اس سے اور یا کو بہت رنج ہوا اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ کے لئے یہ دو فرشتے بھیجے اور ایک لطیف پیرایہ میں اس لغزش پر تنبیہ فرمائی۔ قاضی ابویعلی نے اس توجیہہ پر قرآن کریم کے الفاظ وَعَزَّنِيْ فِي الْخِطَابِ ، سے استدلال فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ معاملہ محض خطبہ (منگنی) کے سلسلہ میں بھی آیا تھا۔ اور ابھی حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس سے نکاح نہیں فرمایا تھا۔ (زادالمسیر لابن الجوزی۔ ص ٦١١۔ ج ٧)- اکثر مفسرین نے ان آخری دو تشریحات کو ترجیح دی ہے اور ان کی تائید بعض آثار صحابہ سے بھی ہوتی ہے۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی، تفسیر ابی السعود، زاد المسیر، تفسیر کبیر وغیرہ) لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس آزمائش اور لغزش کی تفصیل نہ قرآن کریم سے ثابت ہے، نہ کسی صحیح حدیث سے۔ اس لئے اتنی بات تو طے شدہ ہے کہ اور یا کو قتل کروانے کا جو قصہ مشہور ہے وہ غلط ہے، لیکن اصل واقعہ کے بارے میں مذکورہ بالا تمام احتمالات موجود ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو قطعی اور یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا سلامتی کی راہ وہی ہے جو حافظ ابن کثیر نے اختیار کی کہ جس بات کو اللہ تعالیٰ نے مبہم چھوڑا ہے، ہم اپنے قیاسات اور اندازوں کے ذریعہ اس کی تفصیل کی کوشش نہ کریں۔ جبکہ اس سے ہمارے کسی عمل کا تعلق نہیں۔ اس ابہام میں بھی یقینا کوئی حکمت ہے۔ لہٰذا صرف اتنے واقعہ پر ایمان رکھا جائے جو قرآن کریم میں مذکور ہے، باقی تفصیلات کو اللہ کے حوالے کیا جائے۔ البتہ اس واقعہ سے متعدد عملی فوائد حاصل ہوتے ہیں زیادہ توجہ ان کی طرف دینی چاہئے۔ اس لئے اب آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے جس میں انشاء اللہ ان فوائد کا ذکر آجائے گا۔- اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ۔ (جب وہ محراب کی دیوار پھاند کر داخل ہوئے) محراب دراصل بالاخانے یا کسی مکان کے سامنے کے حصہ کو کہتے ہیں۔ پھر خاص طور سے مسجد یا عبادت خانے کے سامنے کے حصہ کو کہا جانے لگا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ عبادت گاہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ مسجد کے دائرہ نما محرابیں جیسی آج کل معروف ہیں، یہ عہد نبوی میں موجود نہیں تھیں (روح المعانی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ۝ ٠ ۘ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ۝ ٢١ۙ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔ - تسوروا۔ ماضی جمع مذکر غائب تسور ( تفعل) مصدر سے جس کے معنی دیوار یا شہر کے اردگرد بلند حفاظت کے لئے بنائی جائے شہر پناہ۔ فصیل، یہاں مراد وہ دیوار جو محروب کے اردگرد حفاظت کے لئے بنائی ہوئی تھی۔ - حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال :- والحرب فيه الحرائب، وقال :- والحرب مشتقة المعنی من الحرب - «5» وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ومِحرابُ المسجد - قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل :- يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] .- والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب .- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محراب المسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جج روزانہ عدالت لگانے کا پابند نہیں اور نہ ہی شوہر روزانہ بیوی کے پاس جانے کا پابند ہے - قول باری ہے (وھل اتاک نبا الخصم اذ توسروا المحراب۔ بھلا آپ کو ان اہل مقدمہ کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر حجرہ میں آگئے) ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق سے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے عمروبن عبید سے، انہوں نے حسن سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اوقات کو چاردنوں پر تقسیم کررکھا تھا۔ ایک دن بیویوں کے لئے مخصوص تھا۔ ایک دن فیصلوں کے لئے، ایک دن عبادت کے لئے اور ایک دن بنی اسرائیل کے سائلین کے سوالات اور درخواستیں سننے کے لئے ۔ حسن نے باقی ماندہ روایت کا بھی ذکر کیا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قاضی کے لئے مقدمات کے فیصلوں کی خاطر ہر روز عدالت لگانا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لئے گنجائش ہے کہ ہر چار دنوں میں سے ایک دن اس کام کے لئے مخصوص کردے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے شوہر پر اپنی بیوی کے نزدیک ہر روز موجود گی ضروری نہیں ہے بلکہ ہر چار دن میں ایک دن باری مقرر کردینا جائز ہے۔- محراب کسے کہتے ہیں ؟- ابوعبیدہ کا قول ہے کہ محراب کسی بٹیھک کی درمیان والی جگہ کو کہتے ہیں۔ اسی لئے محرب المسجد بنا ہے کیونکہ محراب وسط میں ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق محراب بالا خانہ اور حجرہ کو کہتے ہیں۔ قول باری (اذتسوروالمحراب) اس پر دلالت کرتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

محمد بھلا آپ کو داؤد کے ان اہل مقدمہ کی خبر بھی پہنچی ہے جو حضرت داؤد کے پاس مقدمہ لائے تھے اور عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر آپ کے پاس پہنچے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ وَہَلْ اَتٰٹکَ نَبَؤُا الْخَصْمِ ” اور کیا آپ کے پاس خبر آئی ہے جھگڑنے والوں کی ؟ “- یہ ایک مقدمہ تھا جو دو دعویداروں نے فیصلے کے لیے حضرت دائود (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا۔- اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ” جب وہ دیوار پھلانگ کر محراب میں داخل ہوگئے۔ “- حضرت دائود (علیہ السلام) تنہائی میں محو عبادت تھے کہ دو اشخاص اچانک آپ ( علیہ السلام) کے حجرے میں آدھمکے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :21 حضرت داؤد کا ذکر جس غرض کے لیے اس مقام پر کیا گیا ہے اس سے مقصود دراصل یہی قصہ سنانا ہے جو یہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے ان کی جو صفات عالیہ بطور تمہید بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ داؤد علیہ السلام ، جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے ، کس مرتبے کے انسان تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: یہاں سے آیت نمبر 24 تک جو واقعہ بیان ہوا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت داود (علیہ السلام) سے کوئی لغزش ہوگئی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس لغزش پر تنبیہ کرنے کے لیے یہ دو آدمی غیر معمولی طریقے سے آپ کے پاس اس وقت بھیجے جب آپ اپنی عبادت گاہ میں تھے۔ ان دونوں نے اپنا ایک جھگڑا فیصلے کے لیے آپ کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے فیصلہ تو فرما دیا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ سمجھ گئے کہ یہ مقدمہ جو آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے، اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک لطیف پیرائے میں انہیں تنبیہ کی ہے، اس لیے وہ فوراً سجدے میں گر گئے، اور توبہ اور استغفار میں مشغول ہوگئے۔ قرآن کریم نے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ وہ لغزش کیا تھی؟ اور اس مقدمے کے پیش ہونے سے انہیں اس کا خیال کس طرح آیا؟ کیونکہ قرآن کریم تو صرف یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ بھول چوک تو انسان کی خاصیت ہے، بڑے بڑے بزرگوں، یہاں تک انبیائے کرام سے بھی معمولی قسم کی لغزشیں ہوجاتی ہیں، لیکن یہ حضرات اپنی کسی لغزش پر اصرار نہیں فرماتے، بلکہ جونہی اپنی غلطی واضح ہوتی ہے، فوراً اللہ تعالیٰ سے رجوع کر کے اس پر توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔ یہ عملی سبق حضرت داود (علیہ السلام) کے اس واقعے کی تفصیل جاننے پر موقوف نہیں ہے۔ البتہ جو حضرات مفسرین تفصیل میں گئے ہیں، انہوں نے مختلف باتیں کہی ہیں۔ اس سلسلے میں طرح طرح کی داستانیں بھی گھڑی گئی ہیں جن میں سے ایک بے ہودہ داستان بائبل میں بھی ہے کہ حضرت داود (علیہ السلام) نے اپنے ایک سپہ سالار ’’ اور یا‘‘ کی بیوی سے (معاذ اللہ) زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ لیکن یہ داستان تو بیان کرنے کے بھی لائق نہیں ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں، جنہیں خود قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ کا خاص تقرب حاصل تھا ایسی بات یقیناً من گھڑت ہے۔ البتہ بعض مفسرین نے یہ روایت بیان کی ہے کہ اس زمانے میں کسی شخص کی بیوی سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کر کے اس کے شوہر سے یہ فرمائش کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے۔ یہ ایک عام رواج تھا جس پر کوئی برا بھی نہیں مانتا تھا۔ اور یا کی بیوی چونکہ بہت ذہین تھی، اس لیے حضرت داود (علیہ السلام) نے اپنے معاشرے کے چلن کے مطابق اس سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اسے طلاق دیدے، تاکہ وہ حضرت داود (علیہ السلام) کے نکاح میں آسکے۔ ایسی فرمائش نہ تو گناہ تھی، کیونکہ شوہر کو حق حاصل تھا کہ وہ یہ بات مانے یا نہ مانے، اور نہ معاشرے کے رواج کے مطابق معیوب تھی، لیکن ایک جلیل القدر پیغمبر کے شایان شان نہیں تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس لطیف پیرائے میں آپ کو تنبیہ فرمائی۔ چنانچہ آپ نے اس پر استغفار فرمایا، اور پھر نکاح کی تجویز پر عمل بھی نہیں کیا۔ یہ تشریح اگرچہ بائبل والے واقعے کی طرح لغو تو نہیں ہے، لیکن کسی مستند روایت سے ثابت بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ لغزش جو کوئی بھی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک جلیل القدر پیغمبر کو اس پر نہ صرف یہ کہ معاف فرمایا، بلکہ اس پر اتنا پردہ ڈالا کہ قرآن کریم میں بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان نہیں فرمایا، اس لیے اس بات کی چھان بین جسے اللہ تعالیٰ نے خود خفیہ رکھا ہے، نہ تو اس جلیل القدر پیغمبر کی تعظیم کے شایان شان ہے، نہ اس کی کوئی ضرورت ہے، لہذا اسے اتنا ہی مبہم رکھنا چاہئے جتنا قرآن کریم نے اسے مبہم رکھا ہے، کیونکہ جو سبق قرآن کریم دینا چاہتا ہے، وہ اس کے بغیر بھی پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے۔