Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 ہر طرح کی مادی اور روحانی اسباب کے ذریعے سے۔ 20۔ 2 یعنی، نبوت، اصبات رائے، قول سداد اور نیک کام۔ 20۔ 3 یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت، بصیرت اور استدلال وبیان کی قوت۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اس کا مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ خطاب یا تقریر یا باہمی گفتگو کے درمیان آپ کا انداز گفتگو ایسا مدلل سادہ اور عام فہم ہوتا تھا کہ مخاطب آسانی سے آپ کا ما فی الضمیر سمجھ جاتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَاٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ : ” الْحِكْمَةَ “ کے مفہوم میں نبوت، کتاب اللہ کا علم اور معاملات کی فہم و فراست، سب چیزیں شامل ہیں اور ” وَفَصْلَ الْخِطَابِ “ سے مراد ہے مقدمہ سن کر صحیح، واضح اور دو ٹوک فیصلہ کرنا۔ ” وَفَصْلَ الْخِطَابِ “ میں یہ بھی شامل ہے کہ لمبی بات کو مختصر الفاظ میں ایسے طریقے سے بیان کیا جائے کہ ہر شخص کو پوری طرح سمجھ میں آجائے۔ ان دونوں چیزوں کے لیے اعلیٰ درجے کی عقل اور فہم و فراست کے ساتھ قادر الکلام ہونا بھی ضروری ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ (اور ہم نے ان کو حکمت اور فیصلہ کردینے والی تقریر عطا فرمائی) حکمت سے مراد تو دانائی ہے، یعنی ہم نے انہیں عقل وفہم کی دولت بخشی تھی۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نبوت مراد ہے۔ اور ” فصل الخطاب “ کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد زور بیان اور قوت خطابت ہے۔ چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اونچے درجے کے خطیب تھے، اور خطبوں میں حمد وصلوٰة کے بعد لفظ ” اما بعد “ سب سے پہلے انہوں نے ہی کہنا شروع کیا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے بہترین قوت فیصلہ مراد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جھگڑے چکانے اور تنازعات کا فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرمائی تھی۔ درحقیقت ان الفاظ میں بیک وقت دونوں معنیٰ کی پوری گنجائش ہے اور یہ دونوں باتیں ہی مراد ہیں۔ حضرت تھانوی نے جو اس کا ترجمہ فرمایا ہے اس میں بھی دونوں معنے سما سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَشَدَدْنَا مُلْكَہٗ وَاٰتَيْنٰہُ الْحِكْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ۝ ٢٠- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- خطب ( حال)- الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] ، وفصل الخِطَاب : ما ينفصل به الأمر من الخطاب .- ( خ ط ب ) الخطب - والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

فصل الخطاب کیا تھا ؟- قول باری ہے (واتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب ہم نے اسے حکمت اور فیصلہ کرنے والی تقریر عطا کی تھی) اشعث نے حسن سے روایت کی ہے کہ مقدمات کے فیصلوں کا علم عطا ہوا تھا ، شریح سے مروی ہے کہ گواہیوں اور قسم اٹھوانے کا علم مراد ہے۔ ابوحصین سے مروی ہے کہ انہوں نے ابو عبدالرحمن سلمی سے روایت کی ہے کہ فصل خطاب کے معنی اہل مقدمات کے درمیان فیصلہ کرنے کے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اہل مقدمات کے درمیان حق کی بنیاد پر فیصلے کرنا مراد ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب حاکم کی عدالت میں کوئی مقدمہ پیش ہو تو اس پر اس کا فیصلہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے فیصلہ کرنے کے عمل کو نظر انداز کرنا جائز نہیں ہوتا۔ یہ چیز ان لوگوں کے قول کو باطل کردیتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قسم اٹھانے سیانکار کرنے والے کو قید کردیاجائے گا یہاں تک کہ وہ یا تو اقرار کرے یا قسم اٹھالے۔ کیونکہ اس طریق کار سے فیصلے کے عمل کو نظر انداز کردینا اور اس میں تاخیر کرنا لازم آتا ہے۔- شبعی نے زیاد سے روایت کی ہے کہ فصل خطاب کا مفہوم یہ ہے کہ تقریر کی ابتداء میں ” اما بعد “ کا لفظ کہا جائے۔ زیادہ ایسا شخص نہیں ہے جس کے قول کا مسائل کے سلسلے میں اعتبار کیا جائے تاہم شعبی نے روایت کی ہے اس لئے اسکی توجیہہ یہ کی جائے گی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کتاب کی ابتداء میں ” امابعد “ کے لفظ سے خطبہ کتاب اور اصل کتاب کے درمیان جو کہ کتاب کا مقصود ہوتی ہے قصل کیا جائے۔- جج کیا وصاف اور اس کی احتیاط

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے سپاہیوں کے ذریعے ان کی سلطنت کو نہایت قوت دی تھی کہ ہر رات کو ان کی عبادت گاہ کی تینتیس ہزار آدمی حفاظت کیا کرتے تھے اور ہم نے ان کو نبوت اور فیصلہ کردینے والی تقریر عطا فرمائی تھی کہ وہ فیصلہ فرمانے کے وقت تقریر میں نہیں رکھتے تھے گواہوں اور قسم پر فیصلہ فرماتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ” اور ہم نے اس کی حکومت کو خوب مضبوط کیا تھا ‘ اور ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بھی۔ “- یعنی ایسی واضح ‘ فیصلہ کن اور دو ٹوک بات جو تمام مخاطبین و متعلقین کے لیے موجب ِاطمینان ہو۔- اب آگے اس سورت میں چند ایسے واقعات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ دراصل ان واقعات کا بیان یہاں اشاروں کنایوں میں ہوا ہے۔ تفصیلات کی تحقیق کے لیے اگر ہم تورات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں ان واقعات کے حوالے سے جو معلومات ملتی ہیں وہ انبیائِ کرام (علیہ السلام) کے شایانِ شان نہیں۔ یوں ہمارے لیے شش و پنج کی سی صورت ِحال بن جاتی ہے۔ بہر حال ان واقعات کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں خطا یا لغزش کا کوئی معاملہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء و رسل (علیہ السلام) معصوم تھے ‘ لیکن انسان تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان میں کبھی غلطی کا رجحان ہی پیدا نہ ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ فرشتے ہوتے ‘ انسان نہ رہتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندے ہونے کے سبب تمام انبیاء و رسل (علیہ السلام) ہر وقت اللہ کی حفاظت میں رہتے تھے۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً کتب سیرت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آتا ہے کہ جوانی میں (ظہورِنبوت سے پہلے) دو مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی میلے میں جانے کا ارادہ کیا۔ عرب میں ہر سال بہت سے ایسے میلے لگتے تھے جن میں فحش گوئی اور لہو و لعب کا سامان بھی ہوتا تھا اور بےہودہ مشاعرے بھی سجائے جاتے تھے۔ ان میلوں میں عکاظ کا بازار بہت مشہور تھا جوہر سال خصوصی اہتمام سے سجتا تھا اور اس میں شرکت کے لیے پورے عرب سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ روایات کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ ایسے کسی بازار یا میلے میں جانے کا ارادہ فرمایا ‘ مگر دونوں مرتبہ ایسا ہوا کہ راستے میں جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آرام کے لیے رکے ‘ وہاں آنکھ لگ گئی اور پھر ساری رات سوتے میں ہی گزر گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اس لہو و لعب میں شریک ہونے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کلیۃً محفوظ رکھا۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب ِنبوت پر فائز ہونے سے پہلے کے ہیں ‘ لیکن ایک نبی تو پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ ) (١) ” میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم ( علیہ السلام) کی روح ابھی ان کے جسد میں نہیں پھونکی گئی تھی “۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک کی ایک خصوصی امتیازی شان تھی۔ بہر حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ظہور چالیس سال کی عمر میں ہوا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن سے ہی براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے اور اس حفاظت کا مطلب یہی ہے کہ بشری سطح پر اگر کبھی کوئی غلط ارادہ پیدا ہو بھی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر عمل کی نوبت نہ آنے دی۔- آئندہ آیات میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس کی جو تفصیل محرف شدہ تورات میں ملتی ہے اس میں حضرت دائود (علیہ السلام) پر بہت شرمناک الزامات عائد کیے گئے ہیں ‘ جو عصمت ِ انبیاء کے یکسر منافی ہیں۔ قرآن حکیم کے اشارات سے اصل بات یوں معلوم ہوتی ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی بہت سی بیویاں تھیں (واضح رہے کہ چار بیویوں کی پابندی شریعت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہے ‘ اس سے قبل ایسی کوئی پابندی نہیں تھی) ۔ اس کے باوجود آپ ( علیہ السلام) کے دل میں ایک ایسی عورت سے نکاح کی رغبت پیدا ہوئی جو کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو اس پر متنبہ فرمایا اور اس سے روکنے کی ایک صورت پیدا فرما دی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :20 یعنی ان کا کلام الجھا ہوا نہ تھا کہ ساری تقریر سن کر بھی آدمی نہ سمجھ سکے کہ کہنا کیا چاہتے ہیں ، بلکہ وہ جس معاملہ پر بھی گفتگو کرتے ، اس کے تمام بنیادی نکات کو منقح کر کے رکھ دیتے ، اور اصل فیصلہ طلب مسئلے کو ٹھیک ٹھیک متعین کر کے اس کا بالکل دو ٹوک جواب دے دیتے تھے ۔ یہ بات کسی شخص کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک وہ عقل و فہم اور قادر الکلامی کے اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا ہوا نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani