[٣٢] یعنی اس غلطی سے ان کے تقرب اور مرتبہ میں کچھ فرق نہیں آیا۔ صرف تھوڑی سی تنبیہ کردی گئی۔ کیونکہ مقربین کی چھوٹی سی غلطی بھی بڑی سمجھی جاتی ہے۔
وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَـزُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ (اور بلاشبہ ان کے لئے ہمارے یہاں خاص تقرب اور نیک انجامی ہے) اس آیت پر واقعے کو ختم کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی لغزش جو کچھ بھی رہی ہو۔ ان کے استغفار اور انابت کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے تعلق میں اور اضافہ ہوگیا۔- غلطی پر تنبیہ میں حکمت کی رعایت :- اس واقعہ سے متعلق ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی لغزش خواہ کچھ رہی ہو، اللہ تعالیٰ براہ راست وحی کے ذریعہ بھی آپ کو اس پر متنبہ فرما سکتے تھے۔ لیکن اس کے بجائے ایک مقدمہ میں بھیج کر تنبیہ کے لئے یہ خاص طریقہ کیوں اختیار کیا گیا ؟ درحقیقت اس طریقہ پر غور کرنے سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ کسی شخص کو اس کی غلطی پر تنبیہ کیلئے حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا زیادہ اچھا ہے جس سے متعلقہ شخص خود بخود اپنی غلطی کو محسوس کرلے اور اسے زبانی تنبیہ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اور اس کے لئے ایسی تمثیلات سے کام لینا زیادہ موثر ہوتا ہے جس سے کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو اور ضرورت بات بھی واضح ہوجائے۔
فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِكَ ٠ ۭ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَـزُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ ٢٥- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- زلف - الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] - وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] - ( ز ل ف ) الزلفۃ - اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔
آیت میں فرشتوں کی بات ہوئی ہے جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مقام انسانوں کے لئے سجدے کا ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (ان الذین اوتوالعلم من قبلہ اذا یتلی علیھم یحرون للاذقان سجدا۔ جن لوگوں کو اس سے قبل علم دیا جاچکا ہے جب یہ ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں)- اسی طرح کی دوسری آیات سجود جن میں کسی قوم کے سجدے کی حکایت ہے اور اس بنا پر یہ آیات آیات سجود قرار پائیں۔ قول باری ہے (واذا قری علیھم القران لا یسجدون اور جب ان پر قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ سجدہ ریز نہیں ہوتے) قرآن کے سماع پر سجدہ میں چلے جانے کے لزوم کا مقتضی ہے۔ اگر ہم صرف اس آیت کو لے لیں تو سارے قرآن میں سجدہ کرنا واجب قرار دیں۔- اس لئے جس مقام سجدہ کے بارے میں اختلاف رائے ہو تو ظاہراً وہ وجوب کا مقتضی ہوگا۔ الایہ کہ عدم وجوب پر کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ ہمارے اصحاب نے سجدہ تلاوت کے لئے سجد میں جانے کے بجائے صرف رکوع پر اکتفا کرلینے کو جائز قرار دیا ہے۔ محمد بن الحسن نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے قول باری (خراراکعا) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس کے معنی خرسا جدا (سجدے میں گرپڑے) کے ہیں۔ یہاں لفظ رکوع سے سجدے کی تعبیر کی گئی ہے اس لئے رکوع کا سجدے کے قائم مقام ہوجانا جائز ہے کیونکہ رکوع سجدے سے عبارت ہے۔
سو ہم نے ان کو وہ امر بھی معاف کردیا ہمارے یہاں ان کے لیے خاص تقرب کا درجہ اور آخرت میں اعلی درجہ کی نیک انجامی ہے۔
آیت ٢٥ فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ ” تو ہم نے اسے معاف کردیا۔ اور یقینا ہمارے پاس اس کے لیے مقام قرب اور اچھا انجام ہے۔ “- جب وہ ہمارے پاس لوٹ کر آئے گا تو ہم اسے بہت اعلیٰ مقام عطا کریں گے۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :27 اس سے معلوم ہو ا کہ حضرت داؤد سے قصور ضرور ہوا تھا ، اور وہ کوئی ایسا قصور تھا جو دنبیوں والے مقدمے سے کسی طرح کی مماثلت رکھتا تھا اسی لیے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے معاً ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمائش ہوئی ہے ، لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی شدید نہ تھی کہ اسے معاف نہ کیا جاتا ، یا اگر معاف کیا بھی جاتا تو وہ اپنے مرتبہ سے بلند سے گرا دیے جاتے ۔ اللہ تعالیٰ یہاں خود تصریح فرما رہا ہے کہ جب انہوں نے سجدے میں گر کر توبہ کی تو نہ صرف یہ کہ انہیں معاف کر دیا گیا ، بلکہ دنیا اور آخرت میں ان کو جو بلند مقام حاصل تھا اس میں بھی کوئی فرق نہ آیا ۔
12: یہ آیت سجدہ ہے یعنی جو شخص اس کی عربی میں تلاوت کرے، یا تلاوت سنے، اس پر سجدہ کرنا واجب ہے۔