24۔ 1 یعنی انسانوں میں یہ کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جائے۔ 24۔ 2 البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے پابند ہوتے ہیں اس لئے کسی پر زیادتی کرنا اور دوسروں کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
[٢٨] خُلَطَاء خَلِیْط کی جمع ہے اور خلیط کا معنی جزوی شریک کار ہے۔ یعنی ایسی کاروباری شراکت جس میں شریک کام کاج کے کچھ پہلوؤں میں تو آپس میں شریک ہوں اور کچھ پہلوؤں میں آزاد ہوں۔ مثلاً زید اور بکر دونوں کے پاس الگ الگ ریوڑ ہے جو ان کی اپنی اپنی ملکیت ہے لیکن ان کی حفاظت کے لئے جگہ مشترکہ طور پر کرایہ پر لے رکھی ہے۔ چرواہے کو مل کر معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ تو ایسے شریک ایک دوسرے کے خلیط کہلاتے ہیں۔- [٢٩] مدعی کا بیان سننے کے بعد جب مدعا علیہ خاموش رہا اور اس نے مدعی کے بیان پر کوئی تنقید یا اس کی کوئی تردید نہ کی تو سیدنا داؤد نے سمجھا کہ مقدمہ کی نوعیت وہی ہے جو مدعی نے بیان کی ہے۔ لہذا آپ نے مدعی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : کہ واقعی مدعا علیہ نے اس قسم کا سوال کرکے تم پر ظلم اور زیادتی کی ہے۔ اسے ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر اکثر دنیا دار شرکائے کار ایک دوسرے پر ایسی زیادتیاں کرتے ہی رہتے ہیں الا یہ کہ وہ ایماندار ہوں اور اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔- [٣٠] سیدنا داؤد اور اسرائیلیات :۔ جب فریقین مقدمہ آپ کا یہ فیصلہ سنتے ہی رخصت ہوگئے اور انہوں نے اس فیصلہ کے نفاذ کا بھی مطالبہ نہ کیا تو سیدنا داؤد شش و پنج میں پڑگئے۔ سوچنے پر انہیں خیال آیا کہ یہ مقدمہ ان فریقین مقدمہ کا نہ تھا۔ بلکہ یہ ان کا اپنا مقدمہ تھا۔ اور یہ شخص آپ کے پاس تنبیہ کے طور پر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خود سیدنا داؤد کو ایک آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگنی شروع کردی۔ یہ آزمائش کیا تھی ؟ اس کے متعلق اسرائیلیات میں بہت لغو اور شرمناک باتیں مذکور ہیں جنہیں ہمارے بعض مفسرین نے بھی نقل کردیا ہے کہ سیدنا داؤد کی اپنی ننانوے بیویاں تھیں۔ اس کے باوجود آپ اپنے ایک فوجی افسر اوریا حتی کی بیوی پر عاشق ہوگئے اور بعض روایات کے مطابق آپ نے نعوذ باللہ اس سے زنا بھی کیا پھر اس فوجی افسر کو کسی مہم پر بھیج دیا جہاں وہ مارا گیا۔ یا آپ نے خود اسے قتل کروا دیا۔ اس کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اسرائیلیات میں جس طرح انبیاء کی عصمت کو داغدار کیا گیا ہے یہ اس کی ایک بدترین مثال ہے اسی لئے اکثر مفسرین نے اس واقعہ کی پرزور تردید کی ہے۔ اور سیدنا علی صتو یہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ایسی ہرزہ سرائی کرے گا میں اس کو ایک سو ساٹھ کوڑے لگاؤں گا۔ کیونکہ قذف کی حد اسی کوڑے ہے اور کسی نبی پر تہمت کی حد دگنی ہونی چاہئے۔- خ سیدنا داؤد کی آزمائش کیا تھی :۔ اب سوال یہ ہے معاملہ کی اصل نوعیت کیا تھی تو قرآن کے انداز بیان سے ہی اس کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ مقدمہ سیدنا داؤد کی خواہش نفس سے تعلق رکھتا تھا۔ اور اس مقدمہ کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی تعلق تھا جیسا کہ مدعی نے کہا تھا کہ وہ مجھے بات میں دبا لیتا ہے اور میں اس کے سامنے بات بھی نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی مسلّم ہے کہ سیدنا داؤد کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اور یہ بھی مدعی نے یوں کہا تھا کہ یہ میرا بھائی مجھ سے میری ایک دنبی بھی لے لینا چاہتا ہے۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ میری دنبی اس نے مجھ سے چھین لی ہے۔ پھر فورا ہی سیدنا داؤد کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ ان باتوں کی روشنی میں جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے۔ کہ داؤد نے اوریا حتی کی بیوی کے اچھے عادات و خصائل کا کہیں سے ذکر سن لیا تو انہیں دل میں خیال آگیا ہوگا کہ اگر یہ عورت میرے نکاح میں ہوتی تو کیا اچھا تھا۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ ادھر اللہ کی طرف سے گرفت ہوگئی۔ اگرچہ ایسے خیالات کا آنا عام لوگوں کے لئے کوئی قابلِ مؤاخذہ بات نہیں مگر انبیاء کا مقام اور ہے۔ لہذا ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر بھی اللہ تعالیٰ انہیں فوراً اور بروقت تنبیہ فرما دیتے ہیں۔- [٣١] اس آیت پر سجدہ ہے۔ یعنی جس طرح سیدنا داؤد اللہ کے حضور رجوع ہوگئے تھے۔ عام مسلمانوں کو بھی اس کام میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ البتہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سورة کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں اور میں نے رسول اللہ کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ۔ باب ماجاء فی سجود القرآن)
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ : داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس نے تمہاری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملا لینے کا مطالبہ کرکے یقیناً تم پر ظلم کیا ہے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ دیوار پھاند کر آئے، پھر انھوں نے مقدمہ پیش کرتے ہوئے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ وہ اس شخص سے ہم کلام ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ حکومت کا شرف بھی عطا فرمایا ہے اور جس سے حق کے خلاف یا بےانصافی پر مبنی فیصلہ کرنے کی توقع نہیں۔ اس کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور بےانصافی نہ کریں۔ یہ دونوں جملے ہی کسی شخص کا غصہ بھڑکانے کے لیے کافی ہیں، کجا یہ کہ ایسا کہنے والے پہلے دیوار پھاند کر آنے کی گستاخی بھی کرچکے ہوں۔ اگر کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا تو یہ لوگ قتل کردیے جاتے، یا کوئی اور عبرت ناک سزا پاتے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو، مگر داؤد (علیہ السلام) کا صبر اور حلم دیکھیے کہ پہلے کچھ خوف زدہ ہونے کے باوجود نہ غصے میں آئے اور نہ انھیں ملامت کا ایک لفظ بھی کہا، بلکہ ان کے اس طرح آنے اور نامناسب الفاظ کہنے کو صبر سے برداشت کیا اور وہ جس مقصد کے لیے آئے تھے اسے پورا کرتے ہوئے ان کے مقدمے کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ نبیوں ہی کا حوصلہ ہوسکتا ہے، جس کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی گئی کہ کفار کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں۔ - وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَاۗءِ : مظلوم کو تسلی دیتے ہوئے داؤد (علیہ السلام) نے بہت سے لوگوں کے اس کی طرح مظلوم ہونے کا ذکر فرمایا کہ تم اکیلے مظلوم اور یہ اکیلا ظالم نہیں ہے، بلکہ بہت سے شریک ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، کیونکہ جب آدمی دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ اور لوگ بھی مظلوم ہیں تو اسے کچھ حوصلہ ہوجاتا ہے، ” لِأَنَّ الْمُصِیْبَۃَ إِذَا عَمَّتْ طَابَتْ “ ” کیونکہ جب مصیبت عام ہوتی ہے تو برداشت ہوجاتی ہے۔ “ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایمان اور عمل صالح والے لوگ ایسا نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنے شریک پر ظلم سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس میں ننانوے دنبیوں والے کے لیے نصیحت بھی ہے کہ وہ ظلم سے باز آجائے اور انبیاء ( علیہ السلام) کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔- وَقَلِيْلٌ مَّا هُمْ : یعنی ایمان اور عمل صالح والے لوگ، جو اپنے شریک پر ظلم نہ کریں، وہ بہت ہی کم ہیں، اکثریت کا حال اس کے خلاف ہے۔ جمہوریت کے علم برداروں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس مفہوم کی مزید آیات کے لیے دیکھیے سورة سبا (١٣) ، بقرہ (٢٤٣) ، انعام (١١٧) ، ہود (١٧) ، یوسف (١٠٣، ١٠٦) ، زخرف (٧٨) ، اور سورة مائدہ (١٠٠) ۔- وَظَنَّ دَاوٗدُ :” وَظَنَّ “ راجح گمان کو کہتے ہیں، قرائن سے حاصل ہونے والے یقین پر بھی ” ظن “ کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّآ اِلَيْهِ ) [ التوبۃ : ١١٨ ] ” اور انھوں نے یقین کرلیا کہ اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں۔ “ اور فرمایا : ([ يَظُنُّوْنَ : ظن، بدظن، بدظنی (گمان) ۔][ مُّلٰقُوْا : ملاقات، ملاقات حضرات۔][ رٰجِعُوْنَ : رجع، راجع، مرجوع، رجعت پسندی۔] ) [ البقرۃ : ٤٦ ] ” جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ “ یہاں ” وَظَنَّ “ کا معنی ” شَعُرَ “ (سمجھ گیا) ہے، یا ” أَیْقَنَ “ (یقین کرلیا) ہے، کیونکہ اس کے بعد ” أَنَّ “ حرف تاکید آ رہا ہے۔- اَنَّمَا فَتَنّٰهُ : یعنی داؤد (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ ان لوگوں کا اس طرح دیوار پھلانگ کر آنا میری آزمائش ہے کہ میں اپنی کوتاہی پر متنبّہ ہو کر اسے ترک کرتا اور اس کی معافی مانگتا ہوں یا نہیں۔- فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ : تو انھوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور بخشش کی دعا کی۔- وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ : رکوع کا معنی جھکنا یا سر جھکانا ہے۔ ” وَخَرَّ “ زمین پر گرپڑا۔ یعنی وہ رکوع کرتے ہوئے نیچے گرگئے، مراد یہ ہے کہ وہ جھکتے ہوئے سجدے میں گرگئے۔ اس لیے بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں رکوع سے مراد سجدہ ہے۔ ” وَّاَنَابَ “ (اور انھوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ” داؤد (علیہ السلام) چالیس دن سجدے میں پڑے روتے رہے، حتیٰ کہ ان کے آنسوؤں سے زمین پر سبزہ اگ آیا۔ “ ایسی باتیں تردید کے بغیر لکھنے والوں پر افسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتیں لکھ رہے ہیں جو نہ صرف یہ کہ قرآن یا حدیث میں نہیں آئیں بلکہ صاف عقل کے خلاف ہیں۔ چالیس دن ان کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات زندگی، نماز اور امور مملکت کی نگرانی وغیرہ کا کیا بنا ؟ یہ نتیجہ ہے سنی سنائی بات اندھا دھند نقل کرنے کا، خواہ وہ اسرائیلی روایت ہو یا کسی اور کی بنائی ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ مسلم، المقدمۃ : ٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات آگے بیان کر دے۔ “- ان آیات کو سمجھنے میں اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے، جس کی وجہ مسلمانوں کا قرآن کی تفسیر میں اسرائیلی روایات پر اعتماد ہے، حالانکہ یہود کی اللہ کے پیغمبروں خصوصاً داؤد و سلیمان (علیہ السلام) سے دشمنی سب کو معلوم ہے۔ اگر کوئی شخص ان روایات سے ذہن کو صاف کرلے تو آیات کا مطلب سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ اس لیے پہلے آیات کا مطلب بیان کیا جاتا ہے، اس کے بعد ان روایات کے متعلق مختصر سی بات ہوگی۔ ان آیات کو سمجھنے کے لیے ان سے پہلی آیات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے : (١) یہ بات بالکل واضح ہے کہ آیات کے اس سلسلہ میں قرآن مجید داؤد (علیہ السلام) کی تعریف بیان فرما رہا ہے۔ (ب) قرآن کے الفاظ یا مفہوم میں کوئی اشارہ بھی نہیں کہ یہ کوئی رمز یا کنایہ کی بات ہے، جو اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کے کسی ایسے فعل پر ناراضی کے اظہار کے لیے فرمائی ہے جو شریعت کے خلاف یا فضیلت کے خلاف تھا۔ (ج) اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم کی باتوں پر صبر کا حکم دیتے ہوئے داؤد (علیہ السلام) کو نمونے کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرما رہے ہیں کہ اگر آپ کا سینہ اپنی قوم کے کفر سے تنگ ہوتا ہے تو صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کریں۔ ساتھ ہی داؤد (علیہ السلام) کا ذکر نہایت عزت و تکریم کے ساتھ کیا ہے اور ان کی تعریف بہت بلند اوصاف کے ساتھ فرمائی ہے : 1 انھیں ” عبدنا “ (ہمارا بندہ) کہا ہے، یہ اکیلا لفظ ہی سب اوصاف پر بھاری ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ ) [ بني إسرائیل : ١ ] ” پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت دی۔ “ پھر بتایا کہ وہ ” ذَا الْاَيْدِ “ (حق کی قوت والے تھے) ” اَوَّابٌ“ (اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے) تھے۔ ” اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ “ (ہماری طرف سے پہاڑ ان کے ہمراہ مسخر تھے، صبح و شام تسبیح کرتے تھے) ”ۙوَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً “ (جمع کیے پرندے بھی ان کے ہمراہ تسبیح کے لیے مسخر تھے) ” وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ “ (اور ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کردی) ” وَاٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ “ (اور انھیں حکمت عطا فرمائی) ” وَفَصْلَ الْخِطَابِ “ (اور فیصلہ کن گفتگو عطا فرمائی) اس کے بعد یہ واقعہ ذکر فرمایا، جس کے بعد پہلے دنیا میں انھیں عطا ہونے والا مقام ذکر فرمایا : ” يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ “ (اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا) پھر اپنے ہاں ان کا مرتبہ اور آخرت میں ان کا مقام بیان فرمایا : ” وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَـزُلْفٰى“ (اور بلاشبہ اس کے لیے ہمارے پاس یقیناً بڑا قرب ہے) ” وَحُسْنَ مَاٰبٍ “ (اور اچھا ٹھکانا ہے) ۔ ان اوصاف سے ظاہر ہے کہ داؤد (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نہایت مقرّب اور محبوب پیغمبر تھے اور ایسی تمام روایات ان پر صریح بہتان اور ظلم ہیں جن سے وہ ایک عام شریف آدمی سے بھی فرو تر نظر آتے ہیں، تو پھر ان آیات کا مطلب کیا ہے اور ان دو جھگڑنے والوں کا مقصد کیا ہے ؟ - حقیقت یہ ہے کہ داؤد (علیہ السلام) نبی تھے اور بادشاہ بھی اور یہ دونوں بہت بھاری ذمہ داریاں ہیں۔ ان کے علاوہ انھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت یعنی تسبیح، ذکر الٰہی، تلاوت، قیام اللیل اور روزوں کا بہت شوق تھا، اس لیے اس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا کہ وہ تسبیح و ذکر، نبوت کے فرائض اور بادشاہت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے اپنے اوقات تقسیم کریں۔ اس کے ساتھ یہ بھی شامل کرلیں کہ وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے، جس کے لیے انھیں لوہے کی زرہیں بنانے کا مشکل اور باریک کام کرنا پڑتا تھا، سورة سبا کی آیت (١١) : (اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِي السَّرْدِ ) ( کہ کشادہ زرہیں بنا اور کڑیاں جوڑنے میں اندازہ رکھ) سے ان کے کام کی مشقت اور باریکی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب نبوت، سلطنت، عبادت اور کمائی کے لیے وقت کیسے تقسیم کریں ؟ اس کے لیے انھوں نے کچھ اوقات نبوت و سلطنت اور کمائی کے امور کے لیے رکھے اور کچھ وقت عبادت کے لیے خاص کرلیا، جس میں وہ اپنے محراب (عبادت خانے) سے نہیں نکلتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ داؤد (علیہ السلام) کو اس بات کا پتا چل جائے کہ جب وہ عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہیں اس وقت بھی لوگوں کے ایک دوسرے پر ایسے ظلم واقع ہوتے ہیں جن کے لیے داؤد (علیہ السلام) کے عدل کی ضرورت ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان دو جھگڑنے والوں کے لیے یہ آسانی پیدا فرمائی کہ دروازے بند ہونے اور پہرے داروں کی موجودگی کے باوجود وہ دیوار پھاند کر ان کے عبادت خانے میں داخل ہوگئے اور ان میں سے ایک نے اپنا قصہ سنایا اور وہ ظلم بیان کیا جو اس کے بھائی نے اس پر کیا تھا کہ کس طرح وہ بہت دولت مند اور ننانوے دنبیوں کا مالک ہونے کے باوجود اپنے فقیر بھائی سے، جو صرف ایک دنبی کا مالک ہے، اس کی واحد ملکیت بھی بہت سختی کے ساتھ اپنے سپرد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ داؤد (علیہ السلام) ان کے اس طرح آنے پر پہلے گھبرائے، مگر جب حقیقت حال معلوم ہوئی تو نہ ان سے ناراض ہوئے اور نہ انھیں پھر آنے کی تاریخ دی، بلکہ ان کا مقدمہ سن کر فوراً فیصلہ فرما دیا۔ ساتھ ہی سمجھ گئے کہ عبادت والے دن بھی لوگوں کے درمیان جھگڑے اور ایک دوسرے پر ظلم ہوتے ہیں، مگر ان کے عبادت میں مصروف ہونے کی وجہ سے مظلوم ان کے پاس فریاد لے کر نہیں پہنچ سکتے، حالانکہ لوگوں کے درمیان صلح اور مظلوم کی مدد عبادت خانے کی خلوت سے افضل ہے اور انھیں یقین ہوگیا کہ ان لوگوں کے اس طرح آنے سے اللہ تعالیٰ نے میری آزمائش کی ہے کہ میں یہ بات سمجھتا ہوں یا نہیں کہ عبادت میں ایسی مصروفیت نہیں ہونی چاہیے کہ مظلوم کو عدالت تک رسائی نہ ہو سکے۔ اس لیے انھوں نے اپنی اس کوتاہی پر اپنے رب سے معافی مانگی اور اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے سجدے میں گرگئے، تو ہم نے انھیں معاف کردیا۔ - اکثر مفسرین نے داؤد (علیہ السلام) کی کوئی ایسی غلطی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو ننانوے دنبیوں اور ایک دنبی کے واقعہ سے ملتی جلتی ہو۔ حالانکہ یہ واقعہ انتہائی ظلم اور مظلومیت کی ایک تصویر ہے کہ ایک بہت دولت مند شخص اپنے فقیر بھائی سے اس کی ایک دنبی بھی چھین لینا چاہتا ہے اور حاکم وقت دروازے بند کرکے عبادت میں مصروف ہے، اب مظلوم کیا کرے ؟ بعض لوگوں نے کہا، وہ دوسرے دن پیش ہوسکتے تھے، مگر سب جانتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم کے مترادف ہوتی ہے۔ دیوار پھاند کر جانے سے اور قصہ سنانے سے داؤد (علیہ السلام) پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے، جس کا کام لوگوں کے فیصلے کرنا ہے۔ عبادت کریں، مگر اس طرح نہیں کہ فریادی آپ کی عدالت میں بار نہ پاسکیں، فرمایا : (يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاس بالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ ) [ ص : ٢٦ ] ” اے داؤد بیشک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، سو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور خواہش کی پیروی نہ کر، ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔ “ ” خلیفہ “ سے مراد حاکم ہے، جو پہلے لوگوں کی جگہ حکمران بنتا ہے، ” اللہ کا خلیفہ “ کہنا درست نہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣٠) ۔- بعض لوگوں نے ان دو جھگڑنے والوں کو فرشتے بتایا ہے اور لکھا ہے کہ داؤد (علیہ السلام) نے فیصلہ کیا تو وہ ہنس پڑے اور غائب ہوگئے۔ یہ ساری بات ہی بےاصل ہے، جس کا قرآن و حدیث میں کوئی وجود نہیں۔- داؤد (علیہ السلام) کی غلطی نکالتے ہوئے اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ ایک عورت کو نہاتے ہوئے دیکھ کر اس پر عاشق ہوگئے اور اس کے خاوند ” اور یاہ “ کو جہاد میں ایسی جگہ مقرر کرنے کا حکم دیا جہاں وہ قتل ہوگیا تو اس کی بیوی سے نکاح کرلیا، حالانکہ ان کی ننانوے بیویاں موجود تھیں۔ بعض نے کہا، اس سے طلاق دینے کا تقاضا کیا، جسے وہ ٹھکرا نہ سکا، تو اس سے نکاح کرلیا۔ یہودی ملعون یہاں تک پہنچ گئے کہ انھوں نے داؤد (علیہ السلام) پر بہتان باندھتے ہوئے تورات میں بھی تحریف کردی اور کہا کہ انھوں نے اور یاہ کی بیوی کو نہاتے ہوئے دیکھ کر اٹھوا لیا اور (نعوذ باللہ) اس سے ہم بستر ہوئے، جس سے وہ حاملہ ہوگئی، پھر اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مروا دیا اور اس کی عدت ختم ہونے کے بعد اسے اپنی بیوی بنا لیا، جس سے لڑکا پیدا ہوا، جس سے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوا۔ (خلاصہ سموئیل دوم، باب ١١، فقرہ ٢ سے ٢٧ تک) - بعض حضرات نے داؤد (علیہ السلام) کی یہ غلطی نکالی ہے کہ انھوں نے صرف مدّعی کی بات سن کر فیصلہ کردیا، جب کہ انھیں دوسرے فریق کی بات سننا بھی ضروری تھا۔ حالانکہ وہاں اختصار کے لیے دوسرے فریق کی بات کا ذکر نہیں ہوا۔ کسی بات کے ذکر نہ ہونے سے اس کی نفی نہیں ہوتی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے خاموش رہ کر مظلوم کے دعویٰ کو قبول کرلیا ہو۔ یہ اور اس جیسی کئی فضول باتیں بعض مفسرین نے داؤد (علیہ السلام) پر بہتان باندھتے ہوئے لکھی ہیں، جب کہ اسرائیلی روایات پر اعتماد جائز ہی نہیں، خصوصاً جب ان سے کسی پیغمبر کی عزت و عصمت پر حرف آتا ہو۔ اس معاملے میں مفسر ابن کثیر (رض) کا کلام بہت عمدہ ہے، وہ لکھتے ہیں : ” قَدْ ذَکَرَ الْمُفَسِّرُوْنَ ھَاھُنَا قِصَّۃً أَکْثَرُھَا مَأْخُوْذٌ مِّنَ الإِْسْرَاءِیْلِیَّاتِ وَلَمْ یَثْبُتْ فِیْھَا عَنِ الْمَعْصُوْمِ حَدِیْثٌ یَجِبُ اتِّبَاعُہُ وَلٰکِنْ رَوَی ابْنُ أَبِيْ حَاتِمٍ ھُنَا حَدِیْثًا لَا یَصِحُّ سَنَدُہُ ، لِأَنَّہُ مِنْ رِوَایَۃِ یَزِیْدَ الرُّقَاشِيِّ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ ، وَ یَزِیْدُ وَ إِنْ کَانَ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ، لٰکِنَّہُ ضَعِیْفُ الْحَدِیْثِ عِنْدَ الْأَءِمَّۃِ ، فَالْأَوْلٰی أَنْ یُّقْتَصَرَ عَلٰی مُجَرَّدِ تِلَاوَۃِ ھٰذِہِ الْقِصَّۃِ وَ أَنْ یُّرَدَّ عِلْمُھَا إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ الْقُرْآنَ حَقٌّ وَمَا تُضَمِّنُ فَھُوَ حَقٌّ أَیْضًا “ ” مفسرین نے یہاں ایک قصہ ذکر کیا ہے، جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے لیا گیا ہے اور اس کے متعلق معصوم ( نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کوئی حدیث ثابت نہیں، جس کی پیروی واجب ہو۔ لیکن ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث بیان کی ہے جس کی سند صحیح نہیں، کیونکہ وہ یزید رقاشی کی روایت سے ہے، جو وہ انس (رض) سے بیان کرتے ہیں۔ یزید اگرچہ نیک لوگوں سے ہے، لیکن وہ ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف الحدیث ہے۔ سو بہتر یہ ہے کہ اس قصے کی صرف تلاوت پر اکتفا کیا جائے اور اس کا علم اللہ عز و جل کی طرف لوٹا دیا جائے، کیونکہ قرآن حق ہے اور جو کچھ اس میں ہے، وہ بھی حق ہے۔ “
بڑے آدمی کو چاہئے کہ اہل حاجت کی غلطیوں پر حتی الوسع صبر کرے :- اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو اللہ نے کوئی بڑا مرتبہ دیا ہو، اور لوگوں کی ضروریات اس سے متعلق ہوں اسے چاہئے کہ وہ اہل حاجت کی بےقاعدگیوں اور گفتگو کی غلطیوں پر حتی الوسع صبر کرے کہ یہی اس کے مرتبہ کا تقاضا ہے۔ خاص طور سے حاکم، قاضی اور مفتی کو اس کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ (روح المعانی)- قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ ۭ (داؤد (علیہ السلام) نے کہا کہ اس نے جو تیری دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کی ہے تو واقعی تجھ پر ظلم کیا ہے) یہاں دو باتیں قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے یہ فقرہ صرف مدعی کی بات سن کر ارشاد فرما دیا، مدعا علیہ کا بیان نہیں سنا۔ اس پر بعض حضرات نے تو یہ کہا ہے کہ وہ لغزش جس پر آپ نے استغفار فرمایا، یہی لغزش تھی۔ لیکن دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ درحقیقت یہاں مقدمہ کی پوری تفصیلات بیان نہیں ہو رہی ہیں، صرف ضروری باتیں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے یقینا مدعا علیہ سے اس کا موقف سنا ہوگا۔ لیکن اسے یہاں اس لئے بیان نہیں کیا گیا کہ فیصلوں کا معروف طریقہ یہی ہے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مدعا علیہ سے پوچھنے کا جزو محذوف ہے۔- نیز یہ بھی ہے کہ اگرچہ آنے والوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) سے عدالتی فیصلہ طلب کیا تھا، لیکن نہ وہ وقت عدالت کا تھا، نہ مجلس قضا کی تھی، نہ وہاں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس اپنے فیصلہ کو نافذ کرنے کے وسائل جمع تھے۔ اس لئے حضرت داؤد (علیہ السلام) نے قاضی کی حیثیت میں نہیں بلکہ مفتی کی حیثیت میں فتویٰ دیا۔ اور مفتی کا کام واقعہ کی تحقیق کرنا نہیں ہوتا، بلکہ جیسا سوال ہو اسی کے مطابق جواب دینا ہوتا ہے۔- کسی قسم کے دباؤ کے ساتھ چندہ یا ہدیہ بھی طلب کرنا غصب ہے :- دوسری بات یہاں یہ قابل غور ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ایک شخص کے محض دنبی مانگنے کو ظلم قرار دیا، حالانکہ بظاہر کسی سے محض کوئی چیز مانگ لینا کوئی جرم نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ صورت سوال کی تھی لیکن جس قولی اور عملی دباؤ کے ساتھ یہ سوال کیا جا رہا تھا اس کی موجودگی میں اس کی حیثیت غصب کی سی ہوگئی تھی۔- اس سے معلوم یہ ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی سے اس طرح کوئی چیز مانگے کہ مخاطب راضی ہو یا ناراض لیکن اس کے پاس دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے تو اس طرح ہدیہ طلب کرنا بھی غصب میں داخل ہے لہٰذا اگر مانگنے والا کوئی صاحب اقتدار یا ذی وجاہت شخص ہو اور مخاطب اس کی شخصیت کے دباؤ کی وجہ سے انکار نہ کرسکتا ہو، تو وہاں صورت چاہے ہدیہ طلب کرنے کی ہو لیکن حقیقت میں وہ غصب ہی ہوتا ہے اور مانگنے والے کے لئے اس طرح حاصل کی ہوئی چیز کا استعمال جائز نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے بہت توجہ کرنے کا ہے، جو مدارس ومکاتب، مسجد یا انجمنوں اور جماعتوں کے لئے چندے وصول کرتے ہیں۔ صرف وہ چندہ حلال طیب ہے جو دینے والے نے اپنے مکمل اختیار اور خوش دلی کے ساتھ دیا ہو۔ اور اگر چندہ کرنے والوں نے اپنی شخصیت کا دباؤ ڈال کر یا بیک وقت آٹھ دس آدمیوں نے کسی ایک شخص کو زچ کر کے چندہ وصول کرلیا تو یہ صریح ناجائز فعل ہے۔ حدیث میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واضح ارشاد ہے کہ :۔- لا یحل مال امری سلم الا بطیب نفس منہ - کسی مسلمان کا مال اس کی خوشی دلی کے بغیر حلال نہیں - معاملات کی شرکت میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے : ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَاۗءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ (اور بہت سے شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کیا کرتے ہیں) اس سے اس بات پر تنبیہ کردی ہے کہ جب دو انسانوں میں شرکت کا کوئی معاملہ ہو تو اس میں اکثر ایک دوسرے کی حق تلفیاں ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات ایک آدمی ایک کام کو معمولی سمجھ کر کر گزرتا ہے لیکن حقیقت وہ گناہ کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لئے اس معاملہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔- (آیت) وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ (اور داؤد، (علیہ السلام) کو خیال آیا کہ ہم نے ان کا امتحان کیا ہے) اگر مقدمہ کی صورت کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی لغزش کو تمثیل قرار دیا جائے تب تو یہ خیال آنا ظاہری ہے۔ اور اگر صورت مقدمہ کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو، تب بھی فریقین کی مجموعی حالت یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی تھی کہ یہ امتحاناً بھیجے گئے ہیں۔ ایک طرف تو ان فریقوں نے مقدمہ کے فیصلے کیلئے اتنی جلد بازی اور جرأت سے کام لیا کہ دیوار پھاند کر چلے آئے۔ دوسری طرف جب مقدمہ پیش ہوا، تو مدعا علیہ خاموش بیٹھا رہا اور قولی یا عملی طور سے مدعی کی بات کو بےچون وچرا تسلیم کرلیا۔- اگر مدعی کے بیان کردہ واقعہ کو مدعا علیہ تسلیم کرتا تھا تو جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لئے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس آنے کی ضرورت ہی نہ تھی، ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا تھا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اس صورت میں مدعی کے حق میں ہی فیصلہ کریں گے۔ فریقین کا یہ پراسرار طرز عمل بتارہا تھا کہ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بھانپ لیا کہ یہ اللہ کے بھیجے ہوئے آئے ہیں اور میرا امتحان مقصود ہے۔ اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ فیصلہ سننے کے بعد وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چلے گئے۔ واللہ اعلم۔- (آیت) فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ ۔ (پس انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی اور سجدے میں گر پڑے اور رجوع ہوئے) یہاں دراصل رکوع کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے لغوی معنے جھکنے کے ہیں۔ اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس سے مراد سجدہ ہے۔ احناف کے نزدیک اس آیت کی تلاوت سے سجدہ واجب ہوجاتا ہے۔- رکوع سے سجدہ تلاوت ادا ہوجاتا ہے :- اور امام ابوحنیفہ نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اگر نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت کی گئی ہے تو رکوع میں سجدہ کی نیت کرلینے سے سجدہ ادا ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ یہاں باری تعالیٰ نے سجدہ کے لئے رکوع کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع بھی سجدہ کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں چند ضروری مسائل یاد رکھنے چاہئیں۔- سجدہ تلاوت کے بعض مسائل :- مسئلہ نماز کے فرض رکوع کے ذریعہ سجدہ صرف اس صورت میں ادا ہوسکتا ہے جبکہ سجدے کی آیت نماز میں پڑھی گئی ہو، نماز سے باہر تلاوت کرنے میں رکوع سے سجدہ ادا نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ رکوع صرف نماز میں عبادت ہے، نماز سے باہر مشروع نہیں۔ (بدائع) ۔ مسئلہ رکوع میں سجدہ صرف اس وقت ادا ہوگا جبکہ آیت سجدہ تلاوت کرنے کے فوراً بعد یا زیادہ سے زیادہ دو تین آیتیں مزید تلاوت کر کے رکوع کرلیا ہو۔ اور اگر آیت سجدہ کے بعد کھڑے کھڑے طویل قرات کی ہو تو سجدہ رکوع میں ادا نہیں ہوگا۔ مسئلہ اگر سجدہ تلاوت رکوع میں ادا کرنے کا خیال ہو تو رکوع میں جاتے وقت سجدہ تلاوت کی نیت کر لینی چاہئے، ورنہ اس رکوع سے سجدہ ادا نہیں ہوگا۔ ہاں جب سجدہ میں جانے لگا تو بلا نیت بھی سجدہ ادا ہوجائے گا۔ مسئلہ۔ افضل بہرحال یہی ہے کہ سجدہ تلاوت کو نماز کے فرض رکوع میں ادا کرنے کے بجائے مستقل سجدہ کیا جائے۔ اور سجدہ سے اٹھ کر ایک دو آیتیں تلاوت کر کے پھر رکوع میں جائیں۔ (بدائع)
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِہٖ ٠ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَاۗءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِيْلٌ مَّا ہُمْ ٠ ۭ وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ ٢ ٤ ۞ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- نعج - النَّعْجَةُ : الأُنْثَى من الضَّأْنِ ، والبَقَر الوَحْش، والشَّاةِ الجَبَلِيِّ ، وجمْعها : نِعَاجٌ. قال تعالی:- إِنَّ هذا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ واحِدَةٌ [ ص 23] ، ونَعَجَ الرَّجُلُ : إذا أَكَلَ لَحْمَ ضَأْنٍ فَأَتْخَمَ منه، وأَنْعَجَ الرَّجُلُ : سَمِنَتْ نِعَاجُهُ ، والنَّعْجُ : الابْيِضَاضُ ، وأَرْضٌ نَاعِجَةٌ:- سَهْلَةٌ.- ( ن ع ج ) النعجۃ کی جمع نعاج آتی ہے اور اس کا اطلاق بھیڑ نیل گاؤ اور پہاڑی بکریوں میں سے مادینہ پر ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ إِنَّ هذا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ واحِدَةٌ [ ص 23] یہ میرا بھائی ہے اس اس کے ہاں ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دینی ہے ۔ نعج الرجل : موٹی بھیڑ کا گوشت کھانے سے بد ہضمی ہونا ۔ انعج الرجل ۔ موٹی بھیڑوں کا مالک ہونا ۔ النعج کے معنی سپیدی یا سپید ہونے کے ہیں اور ارض ناعجۃ نرم زمین کو کہتے ہیں ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- خلط - الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی:- فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ- [ ص 24] ، ويقال الخلیط للواحد والجمع، قال الشاعر :- 147-- بان الخلیط ولم يأووا لمن ترکوا«1» وقال : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً- [ التوبة 102] ، أي : يتعاطون هذا مرّة وذاک مرّة، ويقال : أخلط فلان في کلامه : إذا صار ذا تخلیط، وأخلط الفرس في جريه كذلك، وهو كناية عن تقصیره فيه .- ( خ ل ط ) الخلط - ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) (143) ابان الخلیط ولم یاو والمن ترکوا ساتھی جدا ہوگئے اور انہوں نے جن کو چھوڑا ان پر رحم نہ کھایا ۔ قرآن میں ہے :۔ خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو جلا دیا تھا ۔ یعنی نیک اور بد دونوں قسم کے عمل کرتے رہے محاورہ ہے :۔ اخلط فلان فی جلامہ ( فلاں نے بکواس کی ) اخلط الفرس فی جریہ ۔ گھوڑے کا دوڑنے میں کو تا ہی کرنا ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں - نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
قول باری (لقد ظلمک بسئوال نعجتک الی نعاجہ۔ اس نے تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کی درخواست کرکے واقعی تجھ پر ظلم کیا ہے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے دوسرے فریق کا بیان لئے بغیر یہ بات جو کہہ دی وہ فیصلہ سنانے کے طور پر نہیں کہی بلکہ حکایت اور مثل کے طور پر کہی تھی جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔- نیز حضرت دائود (علیہ السلام) نے مقدمے کا پورا پس منظر ایک فریق کے بیان سے سمجھ لیا تھا اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ دوسرے فریق کا بیان لئے بغیر اس پر ظالم ہونے کا حکم نہ لگاتے، مدعا علیہ کے بیان کے بعد یا تو وہ اس بات کا اعتراف کرلیتا یا اس کے خلاف گواہی وغیرہ کی صورت میں ثبوت پیش کردیا جاتا پھر اس پر ظالم ہونے کا حکم لگانا درست ہوتا۔- قول باری ہے (وان کثیرا من الخلطاء لیبغی بعضھم علی بعض۔ اور اکثر شرکاء ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرتے رہتے ہیں) یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ اکثر شرکاء کی عادت میں ظلم اور دوسرے شریک کے ساتھ زیادتی داخل ہوتی ہے۔- اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (الا الذین امنوا وعملو الصالحات وقلیل ماھم مگر ہاں وہ لوگ نہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال بھی کیے) دائود (علیہ السلام) کی آزمائش - قول باری ہے (وظن دائود انما فتنۃ اور دائود کو خیال آیا کہ ہم نے ان کی آزمائش کی ہے) یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے ابتدا میں کسی معصیت کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ فرشتوں کی گفتگو سے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ شاید ان سے کسی معصیت کا ارتکاب ہوگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا سختی سے نوٹس لیا ہے اس لئے کہ اس مقام پر فتنہ کے معنی آزمائش اور حکم کی سختی ہے۔- حضرت دائود (علیہ السلام) کو اسی وقت پتہ چل گیا کہ انہوں نے نکاح کے سلسلے میں جو قدم اٹھایا تھا وہ معصیت تھی اس لئے اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی مانگنے لگے۔- سورۃ ص ٓ میں سجدہ تلاوت کی حقیقت - قول باری ہے (وخرراکعاواناب اور وہ جھک پڑے اور رجوع ہوئے) ایوب نے عکرمہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة ص ٓ کی اس آیت پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن یہ سجدہ واجب نہیں ہے۔ سعید بن جبیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سورة ص ٓ کا سجدہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے توبہ کے طور پر کیا تھا اور ہم شکرکے طور پر کرتے ہیں۔ زہری نے حضرت سائب بن یزید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر (رض) کو سورة ص ٓ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ حضرت عثمان (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) نے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔- مجاہدکہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ آپ نے سورة ص کا سجدہ کہاں سے اخذ کیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے آیت (اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ) پڑھ دی۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے یہاں سجدہ کیا تھا اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس مقام پر سجدہ کیا۔ مسروق نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ سورة ص کا سجدہ نہیں کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ سجدہ تو ایک نبی نے توبہ کے طور پر کیا تھا۔- سعید بن جبیر کی روایت میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت دائود کسی اقتداء کرتے ہوئے یہ سجدہ کیا تھا۔ کیونکہ قول باری ہے (فبھدھم اقتدہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ سجدہ واجب تھا کیونکہ امروجوب پر محمول ہوتا ہے۔ اس طرح یہ روایت عکرمہ کی اس روایت کے خلاف ہے جس میں حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ یہ واجب سجد نہیں ہے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقام پر بھی دوسرے مقامات سجود کی طرح سجدہ کیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس مقام اور دوسرے مقامات میں کوئی فرق نہیں ہے۔- رہ گیا حضرت ابن مسعود (رض) کا یہ قول کہ یہ سجدہ ایک نبی نے توبہ کے طور پر کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ مقامات سجود میں سے کسی ایسے مقامات ہیں جہاں سجدہ کرکے دراصل ایسے لوگوں کی نقل کی جاتی ہے جنہیں سجدہ ریز ہونے پر سراہا گیا ہے۔ مثلاً یہ قول باری ہے (ان الذین عندربک لا یستکبرون عن عبادتہ ویسبحونہ ولہ یسجدون۔ وہ فرشتے جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ، وہ اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں) ۔
حضرت داؤد نے فرمایا جو تیری دنبی اپنی دنبیوں میں باوجود اس کے کہ وہ زیادہ ہیں ملانے کی درخواست کرتا ہے تو واقعتا یہ تجھ پر زیادتی کرتا ہے اور اکثر شرکاء اور بھائی یوں ہی ایک دوسرے پر زیادتی کیا کرتے ہیں۔- سوائے ان لوگوں کے جو مومن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں وہ اس طرح ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرتے اس کے بعد یہ دونوں اہل مقدمہ جس طرف سے آئے تھے باہر چلے گئے۔- اور اس کے بعد حضرت داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے اس واقعہ میں ان کے صبر کا امتحان لیا ہے تو انہوں نے اس سے بھی اپنے رب کے سامنے توبہ کی اور سجدہ میں گر پڑے اور خصوصی طور پر اللہ کے سامنے توبہ و استغفار کے ساتھ رجوع ہوئے۔
آیت ٢٤ قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ ” دائود ( علیہ السلام) نے کہا کہ یہ تو واقعتا اس نے بہت ظلم کیا ہے ‘ تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے۔ “- وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآئِ لَیَبْغِیْ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ” اور یقینا مشترک معاملہ رکھنے والوں میں سے اکثر ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں “- قریبی رشتہ داروں کے باہمی اشتراک کو پنجابی میں ” شریکا “ کہا جاتا ہے اور شری کے والوں میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جس کسی کو جہاں موقع ملتا ہے وہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے میں نہیں چوکتا۔- اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ ” سوائے ان لوگوں کے جو صاحب ِ ایمان اور نیک عمل والے ہوں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ “- وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ ” اور دائود ( علیہ السلام) کو اچانک خیال آیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے “- حضرت دائود (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ان دو اشخاص کا ان کے پاس آنا اور آکر مقدمہ پیش کرنا اللہ کی طرف سے تھا اور اللہ نے یہ ساری صورت حال انہیں متنبہ کرنے کے لیے پیدا فرمائی تھی ۔- فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ ” تو اس نے (فوراً ) اپنے رب سے استغفار کیا اور اس کے حضور جھک گیا پوری طرح متوجہ ہو کر۔ “- رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں ‘ لہٰذا یہاں رَاکِعًا سے رکوع بھی مراد ہوسکتا ہے اور سجدہ بھی۔- اس واقعہ کے حوالے سے جو اسرائیلی روایت دستیاب ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ایک اثر (قول) بھی موجود ہے جس کے مرفوع ہونے کے بارے میں کوئی واضح اشارہ یا ثبوت موجود نہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں سنا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اسرائیلی روایت سنی ہو اور اسی کو بیان کردیا ہو (واللہ اعلم) ۔ بہر حال میری رائے اس حوالے سے یہی ہے کہ انبیاء کے معاملے میں بشری تقاضوں کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ سورة الاحزاب کی آیت ٥٢ ہم پڑھ چکے ہیں ‘ جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے : لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْم بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ ” اس کے بعد اب مزید عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے (نکاح میں لانا) جائز نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان کی جگہ دوسری بیویاں بدل لیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو “ ان الفاظ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش کے امکان کا ذکر بہت واضح انداز میں ملتا ہے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت میں کسی خاتون سے نکاح کرنے کے بارے میں آمادگی پیدا ہو بھی جائے تو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہ کریں۔ چناچہ اس سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ انبیاء انسان تھے اور ان کی شخصیات میں انسانی و بشری تقاضے بھی موجود تھے ‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ معصوم تھے۔ اس لیے کہ اگر کبھی کسی بشری تقاضے کے تحت کسی نبی کو کوئی ایسا خیال آتا بھی تھا جو کہ نہیں آنا چاہیے تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا اور اس خیال کی تکمیل کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتا تھا۔ اسی کا نام عصمت ِانبیاء ہے۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :25 یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ حضرت داؤد نے ایک ہی فریق کی بات سن کر اپنا فیصلہ کیسے دے دیا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مدعی کی شکایت پر مدعا علیہ خاموش رہا اور اس کی تردید میں کچھ نہ بولا تو یہ خود ہی اس کے اقرار کا ہم معنی تھا ۔ اس بنا پر حضرت داؤد نے یہ رائے قائم کی کہ واقعہ وہی کچھ ہے جو مدعی بیان کر رہا ہے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :26 اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام پر سجدہ تلاوت واجب ہے یا نہیں ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے ۔ اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں ۔ اس سلسلے میں ابن عباس سے تین روایتیں محدثین نے نقل کی ہیں ۔ عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباس نے فرمایا یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر میں نے اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے دیکھا ہے ۔ ( بخاری ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، مسند احمد ) ۔ دوسری روایات جو ان سے سعید بن جُبیر نے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ سورہ ص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: داؤد علیہ السلام نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں یعنی اس بات پر کہ ان کی توبہ قبول ہوئی ( نسائی ) ۔ تیسری روایت جو مجاہد نے ان سے نقل کی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اُلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہ ، یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ نے راہ راست دکھائی تھی ، لہٰذا تم ان کے طریقے کی پیروی کرو ۔ اب چونکہ حضرت داؤد بھی ایک نبی تھے اور انہوں نے اس موقع پر سجدہ کیا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اقتدا میں یہاں سجدہ فرمایا ( بخاری ) ۔ یہ تین بیانات تو حضرت ابن عباس کے ہیں ۔ اور حضرت ابوسعید خدری کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں سورہ ص پڑھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے اتر کر سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب حاضرین نے بھی سجدہ کیا ۔ پھر ایک دوسرے موقع پر اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سورہ پڑھی تو اس آیت کو سنتے ہی لوگ سجدہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک نبی کی توبہ ہے ، مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے ہو ــــــ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور سجدہ کیا اور سب حاضرین نے بھی کیا ( ابوداؤد ) ۔ ، ان روایات سے اگرچہ وجوب سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی ، لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے ، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ نسبت وجوب کے حکم کا پلڑا جھکا دیتی ہے ۔ ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے ، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں خَرَّ رَاکِعاً ( رکوع میں گر پڑا ) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، مگر تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد خَرَّ سَاجِداً ( سجدہ میں گر پڑا ) ہے ۔ اسی بنا پر امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے یہ رائے ظاہر فرمائی ہے کہ نماز یا غیر نماز میں آیت سجدہ سن کر یا پڑھ کر آدمی سجدے کے بجائے صرف رکوع بھی کر سکتا ہے ، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رکوع کا لفظ استعمال کر کے سجدہ مراد لیا ہے تو معلوم ہوا کہ رکوع سجدے کا قائم مقام ہو سکتا ہے ۔ فقہائے شافعیہ میں سے امام خَطَّابی کی بھی یہی رائے ہے ۔ یہ رائے اگرچہ بجائے خود صحیح اور معقول ہے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل میں ہم کو ایسی کوئی نظیر نہیں ملی کہ آیت سجدہ پر سجدہ کرنے کے بجائے رکوع ہی کر لینے پر اکتفا کیا گیا ہو ۔ لہٰذا اس رائے پر عمل صرف اس صورت میں کرنا چاہیے جب سجدہ کرنے میں کوئی امر مانع ہو ۔ اسے معمول بنا لینا درست نہیں ہے ، اور خود امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا منشا بھی یہ نہیں ہے کہ اسے معمول بنایا جائے ، بلکہ وہ صرف اس کے جواز کے قائل ہیں ۔