Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت سلیمان حضرت داؤد کے وارث ۔ اللہ تعالیٰ نے جوا یک بڑی نعمت حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ ان کی نبوت کا وارث ان کے لڑکے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بنا دیا ۔ اسی لئے صرف حضرت سلیمان کا ذکر کیا ورنہ ان کے اور بچے بھی تھے ۔ ایک سو عورتیں آپ کی لونڈیوں کے علاوہ تھیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ 16؀ ) 27- النمل:16 ) یعنی حضرت داود کے وارث حضرت سلیمان ہوئے یعنی نبوت آپ کے بعد انہیں ملی ۔ یہ بھی بڑے اچھے بندے تھے یعنی خوب عبادت گذار تھے اور اللہ کی طرف جھکنے والے تھے ۔ مکحول کہتے ہیں کہ جناب داؤد نبی نے ایک مرتبہ آپ سے چند سوالات کئے اور ان کے معقول جوابات پا کر فرمایا کہ آپ نبی اللہ ہیں ۔ پوچھا کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ جواب دیا کہ اللہ کی طرف سکینت اور ایمان پوچھا کہ سب سے زیادہ میٹھی چیز کیا ہے؟ جواب ملا اللہ کی رحمت پوچھا سب سے زیادہ ٹھنڈک والی چیز کیا ہے؟ جواب دیا اللہ کا لوگوں سے درگذر کرنا اور لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دینا ( ابن ابی حاتم ) حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے ان کی بادشاہت کے زمانے میں ان کے گھوڑے پیش کئے گئے ۔ یہ بہت تیز رفتار تھے جو تین ٹانگوں پر کھڑے رہتے تھے اور ایک پیر یونہی سا زمین پر ٹکتا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ پردار گھوڑے تھے تعداد میں بیس تھے ۔ ابراہیم تمیمی نے گھوڑوں کی تعداد بیس ہزار بتلائی ہے ۔ واللہ اعلم ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک یا خیبر کے سفر سے واپس آئے تھے گھر میں تشریف فرما تھے جب تیز ہوا کے جھونکے سے گھر کے کونے کا پردہ ہٹ گیا وہاں حضرت عائشہ کی کھیلنے کی گڑیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بھی پڑ گئی ۔ دریافت کیا یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا میری گڑیاں ہیں آپ نے دیکھا کہ بیچ میں ایک گھوڑا سا بنا ہوا ہے جس کے دو پر بھی کپڑے کے لگے ہوئے ہیں ۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا گھوڑا ہے فرمایا اور یہ اس کے اوپر دونوں طرف کپڑے کے کیا بنے ہوئے ہیں؟ کہا یہ دونوں اس کے پر ہیں ۔ فرمایا اچھا گھوڑا اور اس کے پر بھی؟ صدیقہ نے عرض کیا کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کے پردار گھوڑے تھے ، یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے آخری دانت دکھائی دینے لگے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے دیکھنے بھالنے میں اس قدر مشغول ہوگئے کہ عصر کی نماز کا خیال ہی نہ رہا بالکل بھول گئے ۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام جنگ خندق والے دن لڑائی کی مشغولیت کی وجہ سے عصر کی نماز نہ پڑھ سکے تھے اور مغرب کے بعد ادا کی ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سورج ڈوبنے کے بد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کفار قریش کو برا کہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عصر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا ۔ آپ نے فرمایا میں بھی اب تک ادا نہیں کر سکا ۔ چنانچہ ہم بطحان میں گئے وہاں وضو کیا اور سورج کے غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز ادا کی اور پھر مغرب پڑھی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دین سلیمان میں جنگی صالح کی وجہ سے تاخیر نماز جائز ہو اور یہ جنگی گھوڑے تھے جنہیں اسی مقصد سے رکھا تھا ۔ چنانچہ بعض علماء نے یہ کہا بھی ہے کہ صلوۃ خوف کے جاری ہونے سے پہلے یہی حال تھا ۔ بعض کہتے ہیں جب تلواریں تنی ہوئی ہوں لشکر بھڑ گئے ہوں اور نماز کے لئے رکوع و سجود کا امکان ہی نہ ہو تب یہ حکم ہے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیستر کی فتح کے بعد موقعہ پر کیا تھا لیکن ہمارا پہلا قول ہی ٹھیک ہے اس لئے کہ اس کے بعد ہی حضرت سلیمان کا ان گھوڑوں کو دوبارہ طلب کرنا وغیرہ بیان ہوا ہے ۔ انہیں واپس منگوا کر ان کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا میرے رب کی عبادت سے مجھے اس چیز نے غافل کر دیا میں ایسی چیز ہی نہیں رکھنے کا ۔ چنانچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں اور ان کی گردنیں ماری گئیں ۔ لیکن حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آپ نے گھوڑوں کے پیشانی کے بالوں وغیرہ پر ہاتھ پھیرا ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو اختیار کرتے ہیں کہ بلا وجہ جانوروں کو ایذاء پہنچانی ممنوع ہے ان جانوروں کا کوئی قصور نہ تھا جو انہیں کٹوا دیتے لیکن میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بات ان کی شرع میں جائز ہو خصوصاً ایسے وقت جبکہ وہ یاد اللہ میں حارج ہوئے اور وقت نماز نکل گیا تو دراصل یہ غصہ بھی اللہ کے لئے تھا ۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان گھوڑوں سے بھی تیز اور ہلکی چیز اللہ نے اپنے نبی کو عطا فرمائی یعنی ہوا ان کے تابع کر دی ۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو دھما اکثر حج کیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں ہماری ایک بدوی سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بہت کچھ دینی تعلیم دی اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر تو جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائیگا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨] بات یہاں سے چلی تھی کہ خواہش نفس کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو روز آخرت کے محاسبہ کا خیال نہیں رکھتے۔ پھر روز آخرت پر دو دلائل دینے کے بعد اسی قصہ کی طرف رجوع کیا جارہا ہے۔ کہ ہم نے داؤد کو سلیمان (جیسا بیٹا) عطا فرمایا جو انہی کی طرح نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اور انہی کی طرح اللہ کے عبادت گزار بھی تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَوَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَيْمٰنَ : داؤد (علیہ السلام) پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے انھیں سلیمان جیسا بلند مرتبے والا بیٹا عطا کیا۔ جو ان کی طرح نبی تھا اور ایسا بادشاہ تھا کہ اس کے بعد ایسا بادشاہ نہیں ہوا۔ سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٧٨ تا ٨١) ، نمل (١٥ تا ٤٤) اور سبا (١٢) ۔- نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ : ” اَوَّابٌ“ آبَ یَؤُوْبُ أَوْبًا (ن) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت رجوع کرنے والا۔ یعنی وہ اللہ کے بہت اچھے بندے تھے اور اپنے ہر معاملے میں اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے اور کوئی قدم اپنی خواہش کی بنا پر نہیں اٹھاتے تھے۔ آگے ان کے اللہ تعالیٰ کا اچھا بندہ اور اس کی طرف بہت رجوع کرنے والا ہونے کی مثال کے طور پر ان کے دو واقعات بیان فرمائے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو سلیمان (علیہ السلام فرزند) عطا کیا بہت اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہونے والے تھے (چنانچہ ان کا وہ قصہ یاد رکھنے کے لائق ہے) جبکہ شام کے وقت ان کے روبرو اصیل (اور) عمدہ گھوڑے (جو بغرض جہاد وغیرہ رکھے جاتے تھے) پیش کئے گئے (اور ان کے ملاحظہ کرنے میں اس قدر دیر ہوگئی کہ دن چھپ گیا اور کوئی معمول از قسم نماز فوت ہوگیا اور بوجہ ہیبت و جلالت کے کسی خادم کی جرأت نہ ہوئی کہ مطلع و متنبہ کرے، پھر جب خود ہی تنبہ ہوا) تو کہنے لگے کہ (افسوس) میں اس مال کی محبت کی خاطر (لگ کر) اپنے رب کی یاد سے (یعنی نماز سے) غافل ہوگیا، یہاں تک کہ آفتاب پردہ (مغرب) میں چھپ گیا (پھر خادموں کو حکم دیا کہ) ان گھوڑوں کو ذرا پھر تو میرے سامنے لاؤ (چنانچہ لائے گئے) سو انہوں نے ان (گھوڑوں) کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار سے) ہاتھ صاف کرنا شروع کیا (یعنی ان کو ذبح کر ڈالا) ۔- معارف ومسائل - ان آیتوں میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس واقعہ کی مشہور تفسیر وہی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں ذکر کی گئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کے معائنہ میں ایسے مشغول ہوئے کہ عصر کا وقت جو نماز پڑھنے کا معمول تھا وہ چھوٹ گیا، بعد میں متنبہ ہو کر آپ نے ان تمام گھوڑوں کو ذبح کر ڈالا کہ ان کی وجہ سے یاد الٰہی میں خلل واقع ہوا تھا۔- یہ نماز نفلی بھی ہو سکتی ہے۔ اور اس صورت میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) اتنی غفلت کی بھی تلافی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرض نماز ہو، اور معائنہ میں لگ کر بھول طاری ہوگئی ہو، بھول جانے کی صورت میں فرض نماز کے قضا ہونے سے گناہ تو نہیں ہوتا۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بلند منصب کے پیش نظر اس کا بھی تدارک فرمایا۔- ان آیات کی یہ تفسیر متعدد ائمہ تفسیر سے منقول ہے، اور حافظ ابن کثیر جیسے محقق عالم نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ اور اس کی تائید ایک مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے جو علامہ سیوطی نے معجم طبرانی اسماعیلی اور ابن مردویہ کے حوالے سے نقل کی ہے :۔- عن ابی بن کعب عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قولہ فطفق مسحاً بالسوق والاعناق قال قطع سو تھا واھنا تھا بالسیف)- علامہ سیوطی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (درمنثور ص ٩٠٣ ج ٥) اور علامہ ھثیمی مجمع الزوائد میں یہ حدیث نقل کر کے لکھتے ہیں۔ - ” اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے اس میں ایک راوی سعید بن بشیر ہیں، جنہیں شعبہ وغیرہ نے ثقہ کیا ہے، اور ابن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے باقی رجال ثقہ ہیں “ (مجمع الزوائد ص ٩٩ ج ٧ کتاب التفسیر)- اس حدیث مرفوع کی وجہ سے یہ تفسیر کافی مضبوط ہوجاتی ہے لیکن اس پر عموماً یہ شبہ ہوتا ہے کہ گھوڑے اللہ کا عطا کیا ہوا ایک انعام تھا، اور اپنے مال کو اس طرح ضائع کردینا ایک نبی کے شایان شان معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ گھوڑے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ذاتی ملکیت میں تھے، اور ان کی شریعت میں گائے، بکری، اونٹ کی طرح گھوڑوں کی قربانی بھی جائز تھی، لہٰذا انہوں نے گھوڑوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان کردیا۔ جس طرح گائے، بکری کی قربانی سے ان کو ضائع کرنا لازم نہیں آتا، بلکہ یہ عبادت ہی کا ایک شعبہ ہے، اسی طرح یہاں بھی عبادت ہی کے طور پر ان کی قربانی پیش کی گئی۔ (روح المعانی)- اکثر حضرات مفسرین نے آیت کی یہی تفسیر کی ہے، لیکن ان آیات کی ایک اور تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے جس میں واقعہ بالکل مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے وہ گھوڑے معائنہ کے لئے پیش کئے گئے جو جہاد کے لئے تیار کئے گئے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) انہیں دیکھ کر مسرور ہوئے۔ اور ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان گھوڑوں سے جو محبت اور تعلق خاطر ہے وہ دنیا کی محبت سے نہیں، بلکہ اپنے پروردگار ہی کی یاد کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ اور جہاد ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔ اتنے میں گھوڑوں کی وہ جماعت آپ کی نگاہوں سے روپوش ہوگئی۔ آپ نے حکم دیا کہ انہیں دوبارہ سامنے لایا جائے۔ چناچہ جب وہ دوبارہ سامنے آئے تو آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے۔- اس تفسیر کے مطابق عن ذکر ربی میں عن سبیہ ہے۔ اور تو ارت کی ضمیر گھوڑوں ہی کی طرف راجع ہے، اور مسح سے مراد کاٹنا نہیں، بلکہ محبت سے ہاتھ پھیرنا ہے۔- قدیم مفسرین میں سے حافظ ابن جریر طبری اور امام رازی وغیرہ نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے، کیونکہ اس پر مال ضائع کرنے کا شبہ نہیں ہوتا۔- قرآن کریم کے الفاظ کے لحاظ سے دونوں تفسیروں کی گنجائش ہے، لیکن پہلی تفسیر کے حق میں چونکہ ایک مرفوع حدیث آگئی ہے جو سند کے اعتبار سے حسن ہے، اسی لئے اس کی قوت بڑھ جاتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَيْمٰنَ۝ ٠ ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ۝ ٣٠ۭ- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- نعم ( مدح)- و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- أوَّاب - کالتوّاب، وهو الراجع إلى اللہ تعالیٰ بترک المعاصي وفعل الطاعات، قال تعالی: أَوَّابٍ حَفِيظٍ [ ق 32] ، وقال : إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 30] ومنه قيل للتوبة : أَوْبَة، والتأويب يقال في سير النهار وقیل : آبت يد الرّامي إلى السهم وذلک فعل الرامي في الحقیقة وإن کان منسوبا إلى الید، ولا ينقض ما قدّمناه من أنّ ذلک رجوع بإرادة واختیار، وکذا ناقة أَؤُوب : سریعة رجع الیدین .- الاواب - ۔ یہ تواب کی ( صیغہ مبالغہ ) ہے یعنی وہ شخص جو معاصی کے ترک اور فعل طاعت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ ( سورة ق 32) ۔ یعنی ہر رجوع لانے اور حفاظت کرنے والے کے لئے (50 ۔ 320) ( سورة ص 17 - 44) بیشک وہ رجوع کرنے والے تھے ۔ اسی سے اوبۃ بمعنی توبہ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے داؤد کو حضرت سلیمان فرزند عطا کیے بہت ہی زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کی تابعداری کی طرف رجوع ہونے والے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَ ” اور ہم نے دائود ( علیہ السلام) کو سلیمان ( علیہ السلام) (جیسا بیٹا) عطا کیا۔ “- نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ ۔ ” وہ بہت ہی اچھا بندہ تھا۔ بیشک وہ (ہماری طرف) بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :32 حضرت سلیمان کا ذکر اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول ، ص 97 ۔ جلد دوم ، ص ، 597 ۔ 598 ۔ جلد سوم ، ص 173 تا 178 ۔ 560 تا 582 ۔ سورہ سبا ، آیات 12 ۔ 14 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani