31۔ 1 یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بغرض جہاد جو گھوڑے پالے ہوئے تھے، وہ عمدہ نسل تیز رو گھوڑے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر معائنے کے لئے پیش کئے گئے، ظہر یا عصر سے لے کر آخر دن تک کے وقت کو کہتے ہیں، جسے شام سے تعبیر کرتے ہیں۔
[٣٩] صافنات کا لغوی معنی :۔ صافنات، صافن کی جمع ہے اور صَفَنَ (الفرس) بمعنی گھوڑے کا تین ٹانگوں پر اس طرح کھڑا ہونا کہ چوتھے کھر کا صرف سرا زمین پر ٹکا رہے اور اس سے چاک و چوبند گھوڑا مراد لیا جاتا ہے۔ اور جیاد، جَیِّد کی جمع ہے۔ اور جاد الفرس یعنی گھوڑے کا سبک اور تیز رفتار ہونا ہے۔ یہ ان گھوڑوں کی صفات ہیں جو سیدنا سلیمان نے جہاد کی خاطر رکھے ہوئے تھے۔
اِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بالْعَشِيِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِيَادُ : ” اَلْعَشِيُّ “ ظہر سے لے کر شام تک کا وقت، بعض ساری رات بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔ ” الصّٰفِنٰتُ “ ” صَافِنٌ“ کی جمع ہے، وہ گھوڑا جو کھڑا ہو تو تین پاؤں کو پوری طرح زمین پر رکھے اور چوتھے سم کا سرا زمین کے ساتھ لگا رہے۔ یہ صفت عموماً اعلیٰ نسل کے گھوڑوں میں پائی جاتی ہے۔ ” الْجِيَادُ “ ” جَوَادٌ“ کی جمع ہے، تیز رفتار۔ یہ دونوں الفاظ مذکر و مؤنث دونوں گھوڑوں پر بولے جاتے ہیں۔ دو صفتیں اس لیے بیان فرمائیں کہ کھڑے ہونے کی حالت میں وہ گھوڑے ” صافنات “ تھے اور چلنے میں ” جواد “ (تیز رفتار) تھے۔ یعنی پچھلے پہر اعلیٰ نسل کے تیز رفتار گھوڑے ان کے سامنے معائنے کے لیے پیش کیے گئے۔
اِذْ عُرِضَ عَلَيْہِ بِالْعَشِيِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِيَادُ ٣١ۙ- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔- صفن - الصَّفْنُ : الجمعُ بين الشّيئين ضامّا بعضهما إلى بعض . يقال : صَفَنَ الفرسُ قوائمَهُ ، قال تعالی: الصَّافِناتُ الْجِيادُ [ ص 31] ، وقرئ : ( فاذکروا اسم اللہ عليها صَوَافِنَ ) والصَّافِنُ : عِرْقٌ في باطن الصّلب يجمع نياط القلب . والصَّفْنُ : وعاءٌ يجمع الخصية، والصُّفْنُ : دلوٌ مجموع بحلقة .- ( ص ف ن ) الصفن ۔ دو چیزوں کو اس طرح اکٹھا کردینا کہ ان کے کچھ حصے دوسروں کے ساتھ مل جائیں چناچہ محاورہ ہے ۔ صفن الفرس قوائمہ گھوڑے کا تین پاؤں پر کھڑے ہو کر چوتھے پاؤں کا سم اس طرح اٹھایا کہ اس کا اگلا حصہ زمین پر لگا رہے ۔ قرآن میں ہے : الصَّافِناتُ الْجِيادُ [ ص 31] خاصے کے گھوڑے پیش کئے گئے ۔ اور آیت کریمہ : فاذکروا اسم اللہ عليها تو قربانی کرنے کے وقت صف بستہ کھڑے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ میں ایک قرات صوافن بھی ہے اور باطن صلب کی رگ کو جا نیا ط قلب کو جمع کرتی ہے بھی صافن کہا جاتا ہے اور صفن کے معنی خصیتیں کی تھیلی کے ہیں ۔ صفن وہ ڈول جس کے ساتھ حلقہ بندھا ہوا ہو ۔- جود - قال تعالی: وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِ [هود 44] ، قيل : هو اسم جبل بين الموصل والجزیرة، وهو في الأصل منسوب إلى الجود، والجود : بذل المقتنیات مالا کان أو علما، ويقال : رجل جَوَاد، وفرس جواد، يجود بمدّخر عدوه، والجمع : الجِيَاد، قال تعالی: بِالْعَشِيِّ الصَّافِناتُ الْجِيادُ [ ص 31 - ( ج و د ) الجودی - ۔ اس پہاڑی کا نام ہے جو موصل اور جزیرہ کے درمیان واقع ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِ [هود 44] اور کشتی کوہ جودی پر جاٹہری ۔ یہ دراصل الجود کے معنی مقتنیات ( بیضائر ) کو صرف اور خرچ کرنے کے ہیں عام اس سے کہ وہ ذخیرہ علم ہو یا ذخیرہ مال کا ہو ۔ رجل جواد ۔ سخی آدمی فرس جواد ( تیز رفتار عمدہ گھوڑا ) جو دوڑنے میں اپنی پوری طاقت صرف کردے اس کی جمع الجباد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بِالْعَشِيِّ الصَّافِناتُ الْجِيادُ [ ص 31]( جب ان کے سامنے ) شام کو خاصے کے گھوڑے ( پیش کئے گئے )
قول باری ہے (اذ عرض علیہ بالعشی الصافنات الجیاد۔ وہ واقعہ بھی قابل غور ہے۔ جب شام کے وقت ان کے روبرو واصیل عمدہ گھوڑے پیش کیے گئے) تا قول باری (فطفق مسد بالسوق والاعناق پھر انہوں نے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا) ۔- مجاہد کا قول ہے کہ گھوڑے کا تین ٹانگوں اور چوتھی کے کھر پر کھڑا ہونے کو صفون کہتے ہیں جس سے لفظ صافنات نکلا ہے۔ گھوڑوں کی یہ عام عادت ہوتی ہے ۔ جیاد تیز رفتار گھوڑوں کو کہتے ہیں جب گھوڑا ایڑ لگنے پر دوڑ پڑے تو کہا جاتا ہے ” ھذا فرس جواد “ یہ تیز رفتار گھوڑا ہے۔
(٣١۔ ٣٤) جبکہ طہر کے بعد ان کے سامنے اصیل عربی بہت ہی عمدہ تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے اور صافنات ان گھوڑوں کو بھی کہاجتا ہے جو تین پیروں پر کھڑے ہوں اور ایک پیر کو اوپر اٹھائیں تو وہ کہنے لگے افسوس میں مال کے انتخاب کرنے میں اپنے رب کی عبادت سے غافل ہوگیا یہاں تک کہ سورج کوہ قاف میں چھپ گیا۔- ان گھوڑوں کو ذرا پھر میرے سامنے لاؤ، لائے گئے تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں کو کاٹنا شروع کردیا اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور عصر کی نماز فوت ہوگئی اس وجہ سے ان گھوڑوں کے ساتھ جو کچھ ان کو کرنا تھا سو کیا۔- اور ہم نے سلیمان کی چالیس دن کے لیے بادشاہت ختم کر کے ان کی آزمائش کی اور شیطان کو ان کے تخت پر اس زمانہ میں قابض کردیا۔
آیت ٣١ اِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ ” جب اس کے سامنے پیش کیے گئے شام کے وقت عمدہ نسل کے اصیل گھوڑے۔ “- اس سے پہلے ہم سورة النمل میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عظیم الشان لشکروں کے بارے میں پڑھ چکے ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) کے لشکروں میں انسانوں کے علاوہ ِجن اور پرندے بھی تھے اور ان سب کو الگ الگ رجمنٹس ( ) اور دستوں میں منظم کیا گیا تھا۔ اسی طرح سوار فوج ( ) کی اہمیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے آپ ( علیہ السلام) نے اپنے لشکر میں اعلیٰ نسل کے اصیل اور تیز رو گھوڑوں کے دستوں کا اہتمام بھی کر رکھا تھا اور اس زمانے میں اصل فوجی طاقت یہی گھوڑے ہوا کرتے تھے۔ سورة النمل کی متعلقہ آیات کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی افواج کے مختلف دستوں کے باقاعدہ معائنے ( ) کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے : وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ” اور جمع کیے گئے سلیمان (علیہ السلام) کے (معائنہ کے) لیے اس کے لشکر جنوں ‘ انسانوں اور پرندوں میں سے ‘ اس طرح کہ انہیں جماعتوں میں منظم کیا گیا تھا “ ۔ چناچہ ایسے ہی کسی معائنہ کے لیے ایک سہ پہر آپ ( علیہ السلام) کے سامنے گھوڑوں کے دستے پیش کیے گئے۔ اس مصروفیت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایسے مشغول ہوئے کہ سورج غروب ہوگیا اور آپ ( علیہ السلام) کی نماز عصر قضا ہوگئی ‘ جیسے غزوہ احزاب کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی نماز عصر قضا ہوگئی تھی۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں پر بایں الفاظ بددعا فرمائی تھی : (مَلاَ َٔاللّٰہُ بُیُوْتَھُمْ وَقُبُوْرَھُمْ نَارًا ) (١) ” اللہ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے “۔ بہر حال گھوڑوں کی مشغولیت کی وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نماز عصر قضا ہوگئی جس کا آپ ( علیہ السلام) کو بیحد افسوس ہوا۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :33 اصل الفاظ ہیں الصَّافِنَاتُ الْجِیَادُ ۔ اس سے مراد ایسے گھوڑے ہیں جو کھڑے ہوں تو نہایت سکون کے ساتھ کھڑے رہیں ، کوئی اچھل کود نہ کریں ، اور جب دوڑیں تو نہایت تیز دوڑیں ۔