[٤٠] سیدنا سلیمان کے ہاں پیش کئے جانے والے گھوڑے :۔ تو ارت میں واحد مونث کی ضمیر کس طرف راجع ہے ؟ اس میں اختلاف کی وجہ سے اس آیت کی تفسیر میں بھی خاصا اختلاف واقع ہوا ہے۔ ( تَوَارَتْ بالْحِجَابِ ) سے بعض مفسرین نے یہ مراد لی ہے کہ جب گھوڑوں کا رسالہ نظروں سے چھپ گیا۔ اور بعض نے یہ مراد لی ہے کہ جب سورج غروب ہوگیا۔- پہلے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ ایک دن پچھلے پہر سیدنا سلیمان اپنے گھوڑوں کا معائنہ کر رہے تھے پھر ان کی دوڑ کرائی تاآنکہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے چونکہ یہ سارا سلسلہ جہاد کی خاطر تھا اس لئے آپ اس شغل سے بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد کی وجہ سے ہی یہ شغل پسند کیا ہے۔ پھر گھوڑے اپنے پاس طلب کئے اور شفقت سے ان کی گردنوں اور ان کی پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔- دوسرے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ ہے کہ آپ گھوڑوں کے شغل میں اتنے محو ہوئے کہ سورج ڈوب گیا اور اس شغل نے آپ کو اللہ کی یاد یعنی نماز سے غافل کردیا۔ اس واقعہ سے آپ کو بہت دکھ ہوا۔ آپ نے گھوڑوں کو طلب کیا اور ان کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹنا شروع کردیں اور چند گھوڑے کاٹ کر ان کا گوشت محتاجوں میں تقسیم کردیا۔ چونکہ آپ نے یہ کام اللہ کی محبت کی خاطر کیا تھا اس لئے اللہ نے آپ کو یہ صلہ دیا کہ ہواؤں کو آپ کے تابع کردیا اور آپ کو گھوڑوں کے رسالے کی اتنی احتیاج ہی نہ رہی جتنی پہلے تھی۔
فَقَالَ اِنِّىْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّيْ : ” الْخَيْرِ “ کا معنی تو بھلائی ہے، مگر عموماً اس سے مراد مال ہوتا ہے، جیسا کہ انسان کے متعلق فرمایا : (وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ) [ العادیات : ٨ ] ” اور بیشک وہ مال کی محبت میں یقیناً بہت سخت ہے۔ “ یہ لفظ عموماً زیادہ مال پر بولا جاتا ہے۔ یہاں ” الْخَيْرِ “ سے مراد وہ اصیل اور تیز رفتار گھوڑے ہیں جو پچھلے پہر ان کے سامنے پیش کیے گئے۔ ” لِحُبِّ الْخَيْرِ “ پر الف لام عہد کا ہے، اس لیے ” لِحُبِّ الْخَيْرِ “ کا ترجمہ ” اس مال کی محبت “ کیا گیا ہے۔ ” عن “ یہاں سببیہ ہے، جس کا معنی ” کی وجہ سے “ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ) [ التوبۃ : ١١٤ ] ” اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدے کی وجہ سے جو اس نے اس سے کیا تھا۔ “- اس آیت میں سلیمان (علیہ السلام) کی جہاد سے محبت اور اس کے لیے گھوڑے پالنے اور ان کی تربیت کا ذکر فرمایا ہے، اس مقصد کے لیے انھوں نے بڑی تعداد میں اعلیٰ نسل کے تیز رفتار گھوڑے پال رکھے تھے۔ ایک دن پچھلے پہر ان کے سامنے اعلیٰ نسل کے وہ اصیل گھوڑے پیش کیے گئے جو کھڑے ہونے کی حالت میں اپنی طبیعت کی نفاست اور نزاکت کی وجہ سے تین ٹانگوں پر کھڑے ہوتے تھے، جبکہ چوتھی ٹانگ کے صرف کھر کا کنارہ زمین پر لگتا تھا، مگر دوڑنے میں بہت تیز رفتار تھے، تو سلیمان (علیہ السلام) نے اتنے قیمتی گھوڑے رکھنے اور اپنے اوقات عزیزہ ان کے معائنے اور دوڑانے میں صرف کرنے کی وجہ بیان کرنا ضروری سمجھا، تاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہ محض شاہانہ شان و شوکت کے اظہار کے لیے ہے۔ چناچہ فرمایا کہ میں نے اس مال یعنی گھوڑوں کی محبت کو دوست رکھا ہے اور اختیار کیا ہے تو اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے کہ ان کے ساتھ جہاد کرکے اپنے رب کا ذکر دنیا بھر میں پھیلاؤں اور اس کا بول سب پر بالا کروں۔- حَتّٰى تَوَارَتْ بالْحِجَابِ : ” تَوَارَتْ “ اصل میں ” تَوَارَیَتْ “ ہے، ” تَوَارٰی یَتَوَارٰی تَوَارِیًا “ (تفاعل) (چھپ جانا) سے واحد مؤنث غائب ماضی معلوم کا صیغہ ہے، جو گھوڑوں کی جماعت پر بولا گیا ہے۔ یعنی گھوڑوں کی وہ جماعت نگاہ سے پردے میں چھپ گئی۔ ” حَتّٰى“ (یہاں تک کہ) کا لفظ بتارہا ہے کہ اس سے پہلے کچھ عبارت محذوف ہے، جو یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے حکم پر ان کی دوڑ لگوائی گئی، یہاں تک کہ وہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے۔
سورج کی واپسی کا قصہ :- بعض حضرات نے پہلی تفسیر کو اختیار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ نماز عصر کے قضا ہوجانے کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یا فرشتوں سے یہ درخواست کی کہ سورج کو دوبارہ لوٹا دیا جائے، چناچہ سورج لوٹا دیا گیا، اور آپ نے اپنا معمول پورا کرلیا۔ اس کے بعد دوبارہ سورج غروب ہوا، یہ حضرات ردوھا کی ضمیر کو سورج کی طرف راجع مانتے ہیں۔- لیکن محقق مفسرین مثلاً علامہ آلوسی وغیرہ نے اس قصے کی تردید کی ہے۔ اور کہا ہے کہ ردوھا کی ضمیر گھوڑوں کی طرف راجع ہے نہ کہ سورج کی طرف۔ اس لئے نہیں کہ معاذ اللہ سورج کو دوبارہ لوٹا دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں نہیں، بلکہ اس لئے کہ یہ قصہ قرآن و حدیث کی کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ (روح المعانی)- خدا کی یاد میں غفلت ہو تو اپنے اوپر سزا مقرر کرنا دینی غیرت کا تقاضا ہے :- بہرکیف اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی وقت اللہ کی یاد سے غفلت ہوجائے تو نفس کو سزا دینے کے لئے اسے کسی فعل مباح سے محروم کردینا جائز ہے۔ اور حضرات صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اسے ” غیرت “ کہا جاتا ہے۔ (بیان القرآن)- کسی نیکی کی عادت ڈالنے کے لئے اپنے نفس پر ایسی سزائیں مقرر کرنا اصلاح نفس کا ایک نسخہ ہے اور اس واقعہ سے اس کا جواز بلکہ استحباب معلوم ہوتا ہے۔ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوجہم نے ایک شامی چادر ہدیتاً پیش کی جس پر کچھ نقش و نگار بنے ہوئے تھے آپ نے اس چادر میں نماز پڑھی اور واپس آ کر حضرت عائشہ سے فرمایا کہ یہ چادر ابوجہم کو واپس کرو کیونکہ نماز میں میری نگاہ اس کے نقش ونگار پر پڑگئی تو قریب تھا کہ یہ نقش و نگار مجھے فتنہ میں ڈال دیں۔ (احکام القرآن بحوالہ موطاء ومالک)- اسی طرح حضرت ابوطلحہ ایک مرتبہ اپنے باغ میں نماز پڑھتے ہوئے ایک پرندے کو دیکھنے میں مشغول ہوگئے۔ جس سے نماز کی طرف دھیان نہ رہا تو بعد میں آپ نے پورا باغ صدقہ کردیا۔- لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس مقصد کے لئے سزا ایسی ہی ہونی چاہئے جو بذات خود جائز ہو، کسی مال کو بلاوجہ ضائع کردینا جائز نہیں۔ لہٰذا ایسا کوئی کام درست نہیں جس سے اضاعت مال لازم آتی ہو صوفیاء میں سے حضرت شبلی (رح) نے ایک مرتبہ اسی سزا کے طور پر اپنے کپڑے جلا دیئے تھے، لیکن محقق صوفیاء مثلاً شیخ عبدالوہاب شعرانی (رح) نے ان کے اس عمل کو صحیح قرار نہیں دیا۔ (روح المعانی)- امیر کو بذات خود ریاست کے کاموں کی نگرانی کرنی چاہئے :- اس واقعہ سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مملکت کے ذمہ دار یا اونچے درجہ کے افسر کو چاہئے کہ وہ اپنے ماتحت شعبوں پر بذات خود نگرانی رکھے اور انہیں اپنے ماتحتوں پر چھوڑ کر فارغ نہ ہو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ماتحتوں کی کثرت کے باوجود بہ نفس نفیس گھوڑوں کا معائنہ فرمایا۔ خلفائے راشدین اور خاص طور سے حضرت فاروق اعظم کے عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔- ایک عبادت کے وقت دوسری عبادت میں مشغول ہونا غلطی ہے :- تیسری بات اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ایک موقت عبادت کے وقت کو کسی دوسری عبادت میں بھی صرف نہ کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ جہاد کے گھوڑوں کا معائنہ ایک عظیم عبادت تھی لیکن چونکہ وہ وقت اس عبادت کے بجائے نماز کا تھا، اس لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کو بھی غلطی میں شمار کر کے اس کا تدارک فرمایا۔ اسی لئے ہمارے فقہاء نے لکھا ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد جس طرح خریدو فروخت میں مشغولیت جائز نہیں، اسی طرح نماز جمعہ کی تیاری کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہونا بھی درست نہیں، خواہ وہ تلاوت قرآن یا نفل پڑھنے کی عبادت ہی کیوں نہ ہو۔
فَقَالَ اِنِّىْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّيْ ٠ ۚ حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ٣٢۪- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- وری - يقال : وَارَيْتُ كذا : إذا سترته . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ- [ الأعراف 26] وتَوَارَى: استتر . قال تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] وروي أن النبيّ عليه الصلاة والسلام «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ» ، وذلک إذا ستر خبرا وأظهر غيره .- ( و ر ی )- واریت کذا ۔ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا سر ڈھانکے ۔ تواری ( لازم ) چھپ جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] یہانتک کہ ( افتاب ) پردے میں چھپ گیا ۔ وریالخبر کے معنی تو ریہ کرنے کے ہیں یعنی اصل بات کو چھپا کر اسے کسی اور طریقہ سے ظاہر کرنا اس طور پر کہ جھوٹ بھی نہ ہو ۔ اور اصل مقصد بھی ظاہر نہ ہونے پائے ) چناچہ حدیث میں ہے ۔ ( 143 ) «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ»کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تو تو ریہ سے کام لیتے ۔- حجب - الحَجْب والحِجَاب : المنع من الوصول، يقال : حَجَبَه حَجْباً وحِجَاباً ، وحِجَاب الجوف :- ما يحجب عن الفؤاد، وقوله تعالی: وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] ، ليس يعني به ما يحجب البصر، وإنما يعني ما يمنع من وصول لذّة أهل الجنّة إلى أهل النّار، وأذيّة أهل النّار إلى أهل الجنّة، کقوله عزّ وجل : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقال عزّ وجل : وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، أي : من حيث ما لا يراه مكلّمه ومبلّغه، وقوله تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] ، يعني الشّمس إذا استترت بالمغیب . والحَاجِبُ : المانع عن السلطان، والحاجبان في الرأس لکونهما کالحاجبین للعین في الذّب عنهما . وحاجب الشمس سمّي لتقدّمه عليها تقدّم الحاجب للسلطان، وقوله عزّ وجلّ : كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] ، إشارة إلى منع النور عنهم المشار إليه بقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] .- ( ح ج ب ) الحجب - والحجاب ( ن ) کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہوجانا اور وہ پر وہ جو دل اور پیٹ کے درمیان حائل ہے اسے حجاب الجوف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] اور ان دونوں ( بہشت اور دوزخ ) کے درمیان پر وہ حائل ہوگا ۔ میں حجاب سے وہ پر دہ مراد نہیں ہے جو ظاہری نظر کو روک لیتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتوں کو اہل دوزخ تک پہنچنے سے مانع ہوگی اسی طرح اہل جہنم کی اذیت کو اہل جنت تک پہنچنے سے روک دے گی ۔ جیسے فرمایا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار گھڑی کردی جائے گی اس کے باطن میں رحمت ہوگی اور بظاہر اس طرف عذاب ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بات کرے مگر الہام ( کے زریعے ) سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ میں پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں وہ ذات الہی کو دیکھ نہیں سکتا اور آیت کریمہ ؛ ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] کے معنی ہیں حتی ٰ کہ سورج غروب ہوگیا ۔ الحاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روک دیتا ہے ۔ اور حاجبان ( تنبہ ) بھویں کو کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں کے لئے بمنزلہ سلطانی دربان کے ہوتی ہیں ۔ حاجب الشمس سورج کا کنارہ اسلئے کہ وہ بھی بادشاہ کے دربان کی طرح پہلے پہل نمودار ہوتا ہے اور آیت کریمۃ ؛۔ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے رو ز تجلٰ الہی کو ان سے روک لیا جائیگا ( اس طرح وہ دیدار الہی سے محروم رہیں گے ) جس کے متعلق آیت کریمۃ ؛۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
یہاں خیر مال کو کہا گیا ہے - قول باری ہے (انی احببت حب الخیر عن ذکر ربی ۔ میں اس مال کی محبت میں اپنے پروردگار کی ید سے غافل ہوگیا) اس کی تفسیر میں دو احتمال ہیں ایک تو یہ کہ خیر سے مال مرادہو یعنی میں اس مال کی محبت میں جوان گھوڑوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہوگیا ، اس سے وہ نماز مراد ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس وقت ادا کیا کرتے تھے۔- دوسرا احتمال یہ ہے کہ خیر سے خود گھوڑے مراد ہوں، گھوڑوں کو خیر کے نام سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ ان کے ذریعے اللہ کے راستے میں جہادکرکے اور خدا کے دشمنوں سے قتال کرکے خیر یعنی نیکی حاصل ہوتی ہے۔ اس صورت میں قول باری (عن ذکرربی) کے معنی ہوں گے۔ ” ان گھوڑوں کا پالنا اور ان کی دیکھ بھال میرے رب کی یاد اور اس کے حق کی ادائیگی میں شامل ہے۔ “- قول باری ہے (حتی توارت بالحجاب یہاں تک کہ (آفتاب) پردے میں چھپ گیا) حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ آفتاب پردے میں چھپ گیا ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں یہ اسی طرح ہے جس طرح بعید کا یہ شعر ہے :- حتی اذا القت یدا فی کافر - واجن عورات الثغور ظلامھا - یہاں تک کہ جب سورج نے اپنا ہاتھ رات کے اندر ڈال دیا یعنی ڈوبنے لگا اور تاریکی نے خوف کے مقام پر پرد ا ڈال دیا ۔ یعنی جب سورج غروب ہوگیا اور رات آگئی۔- یا جس طرح حاتم کا شعر ہے :۔- اماوی ما یغنی الثراء عن الفتی - اذا حشرجت یوماد صناق بھا الصدر - اے ماریہ دولتمندی انسان کے کس کام آئے گی جب ایک دن جان کنی کے وقت گھنگرو بول اٹھے اور سینے میں جان تنگ ہوجائے۔ یہاں شاعر نے ’ حشرجت ‘ میں نفس یعنی جان کا الضمار کیا ہے۔- حضرت ابن مسعود (رض) کے سوا دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ ” یہاں تک کہ ھگوڑے پردے میں چھپ گئے۔
آیت ٣٢ فَقَالَ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ ” تو اس نے کہا کہ میں نے پسند کرلیا مال کی محبت کو اپنے رب کے ذکر کے مقابلے میں “- حُبَّ الْخَیْرِ سے مال و دولت یعنی گھوڑوں کی محبت مراد ہے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اس قدر مشغول ہوگیا کہ اپنے رب کے ذکرکو بھول گیا۔ اپنے ربّ کی یاد سے غافل ہوگیا۔- حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ” یہاں تک کہ (سور ج) چھپ گیا اوٹ میں۔ “- یہاں پر تَوَارَتْ کے بعد الشَمْس (سور ج) کا لفظ گویا محذوف ہے۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :34 اصل میں لفظ خَیْر استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں مال کثیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور گھوڑوں کے لیے بھی مجازاً استعمال کیا جاتا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان گھوڑوں کو چونکہ راہ خدا میں جہاد کے لیے رکھا تھا ، اس لیے انہوں نے خیر کے لفظ سے ان کو تعبیر فرمایا ۔