33۔ 1 اس آیت کا مفہوم۔ مطلب ہوگا کہ گھوڑوں کے معانیہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت کرتے تھے جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا گم ہوگیا کہ سورج کا پردہ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفہ رہ گیا۔ چناچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نے سارے گھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے، امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے
رُدُّوْهَا عَلَيَّ ۭ فَطَفِقَ مَسْحًۢا : تو انھوں نے حکم دیا کہ انھیں میرے پاس واپس لاؤ۔ جب وہ واپس لائے گئے تو سلیمان (علیہ السلام) محبت کے ساتھ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ - گھوڑوں کی دوڑ لگوانا اور ان کے جسم پر محبت سے ہاتھ پھیرنا دونوں کام جہاد کا حصہ اور باعث اجر و ثواب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے دونوں عمل ان کے ” نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ“ ہونے کی مثال کے طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی گھوڑوں کی دوڑ کا مقابلہ کروایا کرتے تھے، عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں : ( سَابَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِيْ قَدْ أُضْمِرَتْ فَأَرْسَلَہَا مِنَ الْحَفْیَاءِ ، وَکَانَ أَمَدُہَا ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ فَقُلْتُ لِمُوْسٰی فَکَمْ کَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ ؟ قَالَ سِتَّۃُ أَمْیَالٍ أَوْ سَبْعَۃٌ وَ سَابَقَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِيْ لَمْ تُضَمَّرْ ، فَأَرْسَلَہَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ ، وَکَانَ أَمَدُہَا مَسْجِدَ بَنِيْ زُرَیْقٍ ، قُلْتُ فَکَمْ بَیْنَ ذٰلِکَ ؟ قَالَ مِیْلٌ أَوْ نَحْوُہُ وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ مِمَّنْ سَابَقَ فِیْہَا ) [ بخاري، الجہاد، باب غایۃ السبق للخیل المضمرۃ : ٢٨٧٠ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تضمیرشدہ گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کروایا۔ چناچہ انھیں ” حفیاء “ سے دوڑایا اور ان کی آخری جگہ ” ثنیۃ الوداع “ تھی۔ (ابواسحاق کہتے ہیں کہ) میں نے موسیٰ بن عقبہ سے پوچھا : ” ان کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟ “ تو انھوں نے فرمایا : ” ان دونوں کے درمیان چھ یا سات میل کا فاصلہ تھا۔ “ اور ان گھوڑوں کو جو تضمیرشدہ نہیں تھے ثنیۃ الوداع سے دوڑایا اور ان کی آخری جگہ مسجد بنی زریق تھی۔ میں نے پوچھا : ” ان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ “ تو موسیٰ بن عقبہ نے فرمایا : ” ان دونوں کے درمیان ایک میل یا اس کے قریب فاصلہ ہے۔ “ اور ابن عمر (رض) بھی اس مقابلے میں شامل تھے۔ “ (تضمیر کا لفظی معنی لاغر کرنا ہے۔ یہ گھوڑوں کی خاص طریقے سے تیاری کو کہتے ہیں، جس میں پہلے انھیں خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ ان کی خوراک کم کرکے کچھ وقت کے لیے بند کردی جاتی ہے۔ اس کے دوران ان کے جسم کی مالش اور تیاری کی جاتی ہے، جس سے وہ بھوک پیاس برداشت کرنے اور زیادہ دیر تک دوڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھوڑوں کی پیشانیوں کے بالوں پر محبت سے ہاتھ بھی پھیرا کرتے تھے، چناچہ جریر بن عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں : ( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَلْوِيْ نَاصِیَۃَ فَرَسٍ بِإِصْبَعِہِ وَ ہُوَ یَقُوْلُ الْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ بِنَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ : الْأَجْرُ وَ الْغَنِیْمَۃُ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الخیل و أن الخیر معقود بنواصیھا : ١٨٧٢ ] ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ ایک گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو اپنی انگلی کے ساتھ مروڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے : ” گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ قیامت کے دن تک خیر باندھ دی گئی ہے، یعنی اجر اور غنیمت۔ “ یہ ہے وہ تفسیر جس پر دل کو اطمینان ہوتا ہے، کیونکہ اس میں کوئی تکلّف نہیں۔ امام طبری، رازی، ابن حزم اور بہت سے ائمہ نے اسے ہی صحیح قرار دیا ہے، ترجمان القرآن ابن عباس (رض) نے بھی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ چناچہ طبری نے علی ابن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ آیت : (فَطَفِقَ مَسْحًۢا بالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ) کے متعلق ان کا قول نقل فرمایا ہے : ” یَقُوْلُ جَعَلَ یَمْسَحُ أَعْرَافَ الْخَیْلِ وَ عَرَاقِبَھَا حُبًّا لَھَا “ یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) ان کی گردنوں کے بالوں پر اور ان کی ٹانگوں کے پچھلے حصوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے۔- تنبیہ : بہت سے مفسرین نے ان آیات کی تفسیر ایک اور طریقے سے کی ہے۔ ان کے مطابق ترجمہ و تفسیر یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے پچھلے پہر اصیل تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے۔ (یہاں عبارت محذوف ہے کہ انھوں نے ان کی دوڑ کا مقابلہ کروایا، جس کی وجہ سے ان کی عصر کی نماز فوت ہوگئی تو) انھوں نے کہا، میں نے مال کی محبت کو اپنے رب کے ذکر پر ترجیح دی، یہاں تک سورج پردے میں چھپ گیا۔ (تو انھوں نے حکم دیا) انھیں میرے پاس واپس لاؤ، تو وہ ان کی پنڈلیاں اور گردنیں تلوار سے کاٹنے لگے۔ مگر اس تفسیر کی صورت میں کئی ایسی چیزیں محذوف ماننا پڑتی ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں، مثلاً یہ کہ ان کی عصر کی نماز فوت ہوگئی، یا سورج پردے میں چھپ گیا، پھر تلوار کا اور اس کے ساتھ پنڈلیاں اور گردنیں کاٹنے کا یہاں نہ کوئی ذکر ہے نہ قرینہ ہے اور نہ ہی ایک پیغمبر سے جہادی گھوڑوں کو اس طرح کاٹنے کی توقع ہوسکتی ہے جن کا کوئی جرم نہ تھا۔ نہ ہی سلیمان (علیہ السلام) کی ان سے محبت کا باعث مال کی محبت تھا، بلکہ اس محبت کا اصل باعث جہاد سے محبت تھا اور نہ ہی یہ تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی صحابی سے منقول ہے، جب کہ پہلی تفسیر صحیح سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے مروی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا ہے۔ مفسر رازی نے اور خصوصاً ابن حزم نے گھوڑوں کو کاٹنے والی تفسیر کی سخت تردید کی ہے۔
رُدُّوْہَا عَلَيَّ ٠ ۭ فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ٣٣- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - طفق - يقال : طَفِقَ يفعل کذا، کقولک : أخذ يفعل کذا، ويستعمل في الإيجاب دون النّفي، لا يقال : ما طَفِقَ. قال تعالی: فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] ، وَطَفِقا يَخْصِفانِ [ الأعراف 22] .- ( ط ف ق ) طفق - یفعل کذا : وہ ایسا کرنے لگا یہ اخذ یفعل کی طرح ( کسی کام کو شروع کرنے کے معنی دیتا ) ہے اور ہمیشہ کلام مثبت میں استعمال ہوتا ہے لہذا ماطفق کذا کہنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ وَطَفِقا يَخْصِفانِ [ الأعراف 22] اور وہ لگے ۔ چپکانے ۔- مسح - المَسْحُ : إمرار الید علی الشیء، وإزالة الأثر عنه، وقد يستعمل في كلّ واحد منهما . يقال :- مسحت يدي بالمندیل، وقیل للدّرهم الأطلس : مسیح، وللمکان الأملس : أمسح، ومسح الأرضَ : ذرعها، وعبّر عن السّير بالمسح کما عبّر عنه بالذّرع، فقیل : مسح البعیرُ المفازةَ وذرعها، والمسح في تعارف الشرع : إمرار الماء علی الأعضاء . يقال : مسحت للصلاة وتمسّحت، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] . ومسحته بالسیف : كناية عن الضرب، كما يقال : مسست، قال تعالی: فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] ، وقیل سمّي الدّجّال مَسِيحاً ، لأنّه ممسوح أحد شقّي وجهه، وهو أنه روي «أنه لا عين له ولا حاجب» «3» ، وقیل : سمّي عيسى عليه السلام مسیحا لکونه ماسحا في الأرض، أي : ذاهبا فيها، وذلک أنه کان في زمانه قوم يسمّون المشّاء ین والسّيّاحین لسیرهم في الأرض، وقیل : سمّي به لأنه کان يمسح ذا العاهة فيبرأ، وقیل : سمّي بذلک لأنه خرج من بطن أمّه ممسوحا بالدّهن . وقال بعضهم «4» : إنما کان مشوحا بالعبرانيّة، فعرّب فقیل المسیح وکذا موسیٰ کان موشی «5» . وقال بعضهم : المسیح : هو الذي مسحت إحدی عينيه، وقد روي : «إنّ الدّجّال ممسوح الیمنی» «1» و «عيسى ممسوح الیسری» «2» . قال : ويعني بأنّ الدّجّال قد مسحت عنه القوّة المحمودة من العلم والعقل والحلم والأخلاق الجمیلة، وأنّ عيسى مسحت عنه القوّة الذّميمة من الجهل والشّره والحرص وسائر الأخلاق الذّميمة . وكنّي عن الجماع بالمسح، كما کنّي عنه بالمسّ واللّمس، وسمّي العرق القلیل مسیحا، والمِسْحُ : البِلَاسُ. جمعه :- مُسُوح وأَمساح، والتِّمْسَاح معروف، وبه شبّه المارد من الإنسان .- ( م س ح ) المسح ( ف ) کے معنی کسی چیز پر ہاتھ پھیرنے اور اس سے نشان اور آلائش صاف کردینے کے ہیں اور کبھی صرف کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا اور کبھی اذالہ اثر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ مسحت یدی با لمندیل : میں نے رو مال سے ہاتھ پونچھا اور گھسے ہوئے چکنے در ہم ( سکہ ) کو مسیح کہا جاتا ہے اور ہموار اور چکنی جگہ کو مکان امسح کہہ دیتے ہیں ۔ مسح الارض اس نے زمین کی پیمائش کی ۔ پھر جس طرح ( مجازا ) ذرع ( ناپن ا) کے معنی چلنا اور مسافت طے کرنا آجاتے ہیں ۔ اسی طرح مسح کا لفظ بھی چلنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے : ۔ مسح البعیر المفا ذۃ وذرعھا : اونٹ نے بیا باں کو عبور کیا ۔ اصطلاح شریعت میں مسح کے معنی اعضاء پر پانی گذار نے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ مسحت للصلوۃ وتمسحت میں نے نماز کے لئے مسح کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اور سر کا مسح کرلیا کرو اور پاؤں دھو لیا کرو ۔ اور کبھی مسیست کی طرح مسحتہ باسیف کے معنی بھی تلوار سے مارنا کے آجاتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے بعض نے کہا ہے کہ دجال کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کے چہرے کی ایک جانب مسخ ہوچکی ہوگی ۔ چناچہ مروی ہے انہ لاعین لہ ولا حاجب کہ اس کے ایک جانب کی آنکھ اور بھویں کا نشان تک نہیں ہوگا ۔ اور عیسٰی (علیہ السلام) کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ زمین میں سیاست کرتے تھے ۔ اور ان کے زمانہ میں ایک گر وہ تھا جنہیں زمین میں سیاست کی وجہ سے مشائین اور سیا حین کہا جاتا تھا بعض کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے مس کرنے سے چونکہ کوڑھی تندرست ہوجاتے تھے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسیح کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ بعض نے اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بطن م اور سے پیدا ہوئے تو یوں معلوم ہوتا تھا ان کے بدن پر تیل کی مالش کی گئی ہے ۔ اس لئے انہیں مسیح کہا گیا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ یہ عبرانی لفظ مشوح سے معرب ہے جیسا کہ موسٰی عبرانی لفظ موشیٰ سے معرب ہے بعض کا قول یہ ہے کہ مسیح اسے کہتے ہیں جس کی ایک آنکھ مٹی ہوئی ہو اور مردی ہے ان الدجال ممسوح الینمی وان عیسیٰ ممسوح الیسری ٰ کہ دجال کی دائیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی اس کے معنی یہ ہیں کہ دجال علم وعقل حلم اور دیگر اخلاق جہلیہ سے کلیۃ محروم ہوگا اس کے بر عکس عیسیٰ (علیہ السلام) کی بائیں آنکھ مٹنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہالت حرص اور دیگر اخلاق مذمومہ سے پاک تھے ۔ پھر جس طرح مس اور لمس کے الفاظ کنایۃ مجامعت کے لئے آجاتے ہیں اسی طرح مسح بھی مجامعت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ معمولی پسینے پر بھی مسیح کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اور مسیح ٹاٹ کر کہتے ہیں اس کی جمع مسود ومساح آتی ہے التمساح مگر مچھ کو کہتے ہیں اور تشبیہ کے طور پر سر کشی آدمی کو بھی تمساح کہہ دیتے ہیں - ساق - سَوْقُ الإبل : جلبها وطردها، يقال : سُقْتُهُ فَانْسَاقَ ، والسَّيِّقَةُ : ما يُسَاقُ من الدّوابّ. وسُقْتُ المهر إلى المرأة، وذلک أنّ مهورهم کانت الإبل، وقوله : إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ- [ القیامة 30] ، نحو قوله : وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم 42] ، وقوله : سائِقٌ وَشَهِيدٌ- [ ق 21] ، أي : ملك يَسُوقُهُ ، وآخر يشهد عليه وله، وقیل : هو کقوله : كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] ، وقوله : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] ، قيل : عني التفاف الساقین عند خروج الروح . وقیل : التفافهما عند ما يلفّان في الکفن، وقیل : هو أن يموت فلا تحملانه بعد أن کانتا تقلّانه، وقیل : أراد التفاف البليّة بالبليّة نحو قوله تعالی: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم 42] ، من قولهم : کشفت الحرب عن ساقها، وقال بعضهم في قوله : يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم 42] :إنه إشارة إلى شدّة «2» ، وهو أن يموت الولد في بطن الناقة فيدخل المذمّر يده في رحمها فيأخذ بساقه فيخرجه ميّتا، قال : فهذا هو الکشف عن الساق، فجعل لكلّ أمر فظیع . وقوله : فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] ، قيل : هو جمع ساق نحو : لابة ولوب، وقارة وقور، وعلی هذا : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] ، ورجل أَسْوَقُ ، وامرأة سَوْقَاءُ بيّنة السّوق، أي : عظیمة السّاق، والسُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ - ( س و ق)- سوق الابل کے معنی اونٹ کو سنکانے اور چلانے کے ہیں یہ سفقتہ ( ن) کا مصدر ہے اور انسان ( انفعال ) کے معنی ہنکانے کے بعد چل پڑنے کے ہیں ان جانوروں کو جو ہنکائے جاتے ہیں سیقۃ کہا جاتا ہے ۔ اور عورت کو مہر ادا کرنے کے لئے سقت المھر الی المرءۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب حق مہر میں وعام طور پر ) اونٹ دیا کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة 30] میں امساق سے معنی پروردگار کی طرف چلنا کے ہیں جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم 42] میں ہے یعنی تمہیں اپنے پروردگار کے پاس پہچنا ہے اور آیت سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا اور ایک ( اس کے عملوں کی ) گواہی دینے والا ۔ میں سابق سے وہ فرشتہ مراد ہے جو اسے چلا کر حساب کے لئے پیش کرے گا اور دوسرا فرشتہ شہید بطور گواہ کے اس کے ساتھ ہوگا جو اسکے حق میں یا سکے خلاف گواہی گا بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کیطرف دھکیلے جاتے ہیں کے ہم معنی ہے اور آیت : ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] اور پنڈلی لپٹ جائے گی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبض روح کے وقت پنڈلیوں کا لپٹنا مراد لیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لپٹنے سے مراد موت ہے کہ زندگی میں وہ اس کے بوجھ کو اٹھا کر چلتی تھیں لیکن موت کے بعد وہ اس بار کی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک شدت کا دوسری شدت سے لپٹنا مراد ہے اسی طرح آیت : ۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم 42] جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا ۔ میں پنڈلی سے کپرا ا اٹھانا صعوبت حال سے کنایہ ہے اور یہ کشفت الحرب عن ساقھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی لڑائی کے سخت ہوجانے ہیں ۔ بعض نے اس کی اصل یہ بیان کی ہے کہ جب اونٹنی کے پیٹ میں بچہ مرجاتا ہے تو مزمر ( جنوانے والا ) اس کے رحم کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے : ۔ اور اسے پنڈلیوں سے پکڑ کر ذور سے باہر نکالتا ہے ۔ اور یہ کشف عن الناق کے اصل معنی ہیں پھر ہر ہولناک امر کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوناے لگا ہے تو یہاں بھی شدت حال سے کنایہ ہے اور آیت : ۔ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سوق ساق کی جمع ہے جیسے لابۃ کی جمع لوب اور فارۃ کی جمع فور آتی ہے ۔ اور اسی طرح آیت : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ میں بھی سوق صیغہ جمع ہے اور رجل اسوق کر معنی بڑی پنڈلیوں والے آدمی کے ہیں اسکی مؤنث سوقاء آتی ہے اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ السویق کے معنی ستو کے ہیں کیونکہ وہ بغیر جائے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ۔- عنق - العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ- ( ع ن ق ) العنق - ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔
گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں کو مسح کرنے کا مفہوم - قول باری ہے (ردوھا علی فطفق مسحا بالسوق والاعناق۔ ان گھوڑوں کو پھر میرے سامنے لائو۔ پھر انہوں نے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کی گردنوں کے بالوں اور کونچوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔- ہمیں محمد بن بکر نے اسی مضمون کی روایت کی ہے، انہیں ابودائود نے ، انہیں ہارون بن عبداللہ نے، انہیں ہشام بن سعید الطالقانی نے، انہیں محمد بن المہاجر نے، ا ہیں عقیل بن شعیب نے ابو وہب الحثمی (رض) سے (انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت نصیب ہوئی تھی) کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ارتبطوا الخیل وامسحوا بنو اصیھا واعجازھا اوقال اکفالھا وتدوھا ولا تقلد وھا الاوتار۔ گھوڑے پالو اور ان کی پیشانیوں نیز ان کی سرینوں پر ہاتھ پھیرا کرو یا آپ نے اعجاز کی بجائے اکفالھا فرمایا (دونوں کا مفہوم ایک ہے) انہیں پٹے ڈال کرو لیکن تانت کے پٹے نہ ڈالا کرو)- ممکن ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کے ایال اور کونچوں پر اسی جذبے کے تحت ہاتھ پھیرا ہو جس کی ترغیب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دی ہے ۔ حسن سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کی کونچیں کھول دیں اور ان کی گردنیں اڑادیں اور فرمایا کہ یہ گھوڑے دوبارہ مجھے اپنے رب کی یاد سے غافل نہ کر پائیں۔- پہلی تاویل زیادہ صحیح ہے اور دوسری تاویل کی بھی گنجائش ہے جن حضرات نے آیت کی دوسری تاویل کی ہے انہوں نے کے ذریعہ گھوڑوں کے گوشت کی اباحت پر استدلال کیا ہے کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ان گھوڑوں کو یونہی ضائع نہیں کرسکتے تھے انہوں ان کے گوشت سے فائدہ ضرور اٹھایا ہوگا۔ لیکن یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ گھوڑے کا گوشت حرام ہو اور حضرت سلیمان نے انہیں تلف کرکے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کیا ہو اور اللہ کے حکم کی تنقید میں ہی انہیں فائدہ نظر آیا ہو۔- انہوں نے کسی اور چیز کو مدنظر نہ رکھا ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ان گھوڑوں کو مارسکتا تھا اور لوگوں کو ان کے کھانے سے منع کرسکتا تھا اس لئے یہ ممکن ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے انہیں تلف کر کے اور بعد میں ان کے گوشت سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت کرکے اللہ کا حکم بجا لایا ہو۔
آیت ٣٣ رُدُّوْہَا عَلَیَّط فَطَفِقَ مَسْحًام بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ” (تو اس نے کہا : ) واپس لائو ان کو میرے پاس تو اب وہ لگا تلوار مارنے ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر۔ “- یعنی آپ ( علیہ السلام) کو نماز قضا ہونے کا اس قدر افسوس تھا کہ آپ ( علیہ السلام) نے گھوڑوں کو واپس منگوایا اور شدید تاثر اور مغلوبیت کی کیفیت میں ان کی گردنوں اور ٹانگوں پر تلوار سے وار کرنا شروع کردیے۔ یہاں پر بعض مفسرین نے مَسْحًاسے ” ہاتھ پھیرنا “ مراد لے کر آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دراصل گھوڑوں کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں واپس منگوایا تھا اور جب گھوڑے واپس لائے گئے تو آپ ( علیہ السلام) ان کی گردنوں اور ٹانگوں کو پیار سے سہلاتے رہے ‘ یعنی ان سے اظہارِ محبت کے طور پر ان پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ لیکن آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق کے مطابق پہلا مفہوم ہی درست معلوم ہوتا ہے۔- یہاں پر اس نکتہ کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مذکورہ عمل دراصل غلبہ حال کے تحت تھا۔ جیسے حضرت عمر (رض) غزوئہ اُحد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کی خبر سن کر تلوار پھینک کر بیٹھ گئے تھے کہ اب کس کے لیے لڑنا ہے ؟ حالانکہ اُن (رض) کا جہاد و قتال تو اللہ کے لیے تھا ‘ نہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کے موقع پر بھی حضرت عمر (رض) نے غلبہ حال کے سبب تلوار کھینچ لی کہ جس کسی نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتقال کر گئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اس انتہائی نازک صورت حال کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سنبھالا۔ آپ (رض) نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَد مَاتَ ‘ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ” جو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو وہ سن لے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوچکا ہے اور جو کوئی اللہ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت واقع نہیں ہوگی “۔ اس کے بعد آپ (رض) نے سورة آلِ عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی : وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْط (آیت ١٤٤) (١) ۔ بہرحال غلبہ حال کی کیفیت میں کبھی کبھی بڑی شخصیات سے بھی غیر معمولی افعال اور غیر متوقع رویے کا صدور ہوجاتا ہے۔ چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنی نماز قضا ہونے کے رنج میں غلبہ حال کی غیر معمولی کیفیت کے تحت گھوڑوں پر تلوار سے وار کرنا بعید از فہم نہیں ہے۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :35 ان آیات کے ترجمہ اور تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ ان کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کے معاینے اور ان کی دوڑ کے ملاحظہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عصر بھول گئے ، یا بقول بعض اپنا کوئی خاص وظیفہ پڑھنا بھول گئے جو وہ عصر و مغرب کے درمیان پڑھا کرتے تھے ، یہاں تک کہ سورج چھپ گیا ۔ تب انہوں نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ ، اور جب وہ واپس آئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تلوار لے کر ان کا ٹنا ، یا بالفاظ دیگر ، اللہ کے لیے ان کو قربان کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ ذکر الٰہی سے غفلت کے موجب بن گئے تھے ۔ اس مطلب کے لحاظ سے ان آیات کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے ۔ : تو اس نے کہا ، میں نے اس مال کی محبت کو ایسا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد ( نماز عصر ، یا وظیفہ خاص ) سے غافل ہو گیا ، یہاں تک کہ ( سورج پردۂ مغرب میں ) چھپ گیا ۔ ( پھر اس نے حکم دیا کہ ) واپس لاؤ ان ( گھوڑوں ) کو ( اور جب وہ واپس آئے ) تو لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ( تلوار کے ) ہاتھ چلانے ۔ یہ تفسیر اگرچہ بعض اکابر مفسرین نے کی ہے ، لیکن یہ اس وجہ سے قابل ترجیح نہیں ہے کہ اس میں مفسر کو تین باتیں اپنی طرف سے بڑھانی پڑتی ہیں جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے ۔ اوّلاً وہ فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کی نماز عصر اس شغل میں چھوٹ گئی ، یا ان کا کوئی خاص وظیفہ چھوٹ گیا جو وہ اس وقت پڑھا کرتے تھے ۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ صرف یہ ہیں ، اِنِّی اَحْبَیْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّی ۔ ان الفاظ کا ترجمہ یہ تو کیا جاسکتا ہے کہ میں نے اس مال کو اتنا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد سے غافل ہو گیا ، لیکن ان میں نماز عصر یا کوئی خاص وظیفہ مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے ۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ سورج چھپ گیا ، حالانکہ وہاں سورج کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ حَتّیٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَاب کے الفاظ پڑ ھ کر آدمی کا ذہن بلا تامُّل الصَّافِنَاتُ الْجِیَاد کی طرف پھرتا ہے جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہو چکا ہے ۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر خالی مسح نہیں کیا بلکہ تلوار سے مسح کیا ، حالانکہ قرآن میں مَسْحاً بِالسَّیْفِ کے الفاظ نہیں ہیں ، اور کوئی قرینہ بھی ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر مسح سے مسح بالسیف مراد لیا جا سکے ۔ ہمیں اس طریق تفسیر سے اصولی اختلاف ہے ۔ ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب لینا چار ہی صورتوں میں درست ہو سکتا ہے ۔ یا تو قرآن ہی کی عبارت میں اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہو ، یا قرآن میں کسی دوسرے مقام پر اس کی طرف کوئی اشارہ ہو ، یا کسی صحیح حدیث میں اس اجمال کی شرح ملتی ہو ، یا اس کا اور کوئی قابل اعتبار ماخذ ہو ، مثلاً تاریخ کا معاملہ ہے تو تاریخ میں اس اجمال کی تفصیلات ملتی ہوں ، آثار کائنات کا ذکر ہے تو مستند علمی تحقیقات سے اس کی تشریح ہو رہی ہو ، اور احکام شرعیہ کا معاملہ ہے تو فقہ اسلامی کے مآخذ اس کی وضاحت کر رہے ہوں ۔ جہاں ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو وہاں محض بطور خود ایک قصہ تصنیف کر کے قرآن کی عبارت میں شامل کر دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے ۔ ایک گروہ نے مذکورہ بالا ترجمہ و تفسیر سے تھوڑا سا اختلاف کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حَتّیٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ اور رُدُّوْھَا عَلَیَّ ، دونوں کی ضمیر سورج ہی کی طرف پھرتی ہے ۔ یعنی جب نماز عصر فوت ہو گئی اور سورج پردۂ مغرب میں چھپ گیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کارکنان قضا و قدر سے کہا کہ پھیر لاؤ سورج کو تاکہ عصر کا وقت واپس آ جائے اور میں نماز ادا کر لوں ، چنانچہ سورج پلٹ آیا اور انہوں نے نماز پڑھ لی ۔ لیکن یہ تفسیر اوپر والی تفسیر سے بھی زیادہ ناقابل قبول ہے ۔ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ سورج کو واپس لانے پر قادر نہیں ہے ، بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قطعاً کوئی ذکر نہیں فرمایا ہے ، حالانکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اتنا بڑا معجزہ صادر ہوا ہوتا تو وہ ضرور قابل ذکر ہونا چاہیے تھا ۔ اور اس لیے بھی کہ سورج کا غروب ہو کر پلٹ آنا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ اگر وہ در حقیقت پیش آیا ہوتا تو دنیا کی تاریخ اس کے ذکر سے ہرگز خالی نہ رہتی ۔ اس تفسیر کی تائید میں یہ حضرات بعض احادیث بھی پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سورج کا غروب ہو کر دوبارہ پلٹ آنا ایک ہی دفعہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ کئی دفعہ پیش آیا ہے ۔ قصہ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سورج کے واپس لائے جانے کا ذکر ہے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ واپس لایا گیا ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں سر رکھے سو رہے تھے اور ان کی نماز عصر قضا ہو گئی تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کی واپسی کی دعا فرمائی تھی اور وہ پلٹ آیا تھا ۔ لیکن ان روایات سے استدلال اس تفسیر سے بھی زیادہ کمزور ہے جس کی تائید کے لیے انہیں پیش کیا گیا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق جو روایت بیان کی جاتی ہے اس کے تمام طُرُق اور رجال پر تفصیلی بحث کر کے ابن تیمیہ نے اسے موضوع ثابت کیا ہے ۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، اور ابن جَوزی کہتے ہیں کہ وہ بلا شک و شبہ موضوع ہے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر سورج کی واپسی والی روایت بھی بعض محدثین کے نزدیک ضعیف اور بعض کے نزدیک موضوع ہے ، رہی قصہ معراج والی روایت ، تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفار مکہ سے شب معراج کے حالات بیان فرما رہے تھے تو کفار نے آپ سے ثبوت طلب کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیت المقدس کے راستے میں فلاں مقام پر ایک قافلہ ملا تھا جس کے ساتھ فلاں واقعہ پیش آیا تھا ۔ کفار نے پوچھا وہ قافلہ کس روز مکہ پہنچے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فلاں روز ۔ جب وہ دن آیا تو قریش کے لوگ دن بھر قافلہ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ شام ہونے کو آ گئی ۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ دن اس وقت تک غروب نہ ہو جب تک قافلہ نہ آ جائے ۔ چنانچہ فی الواقع سورج ڈوبنے سے پہلے وہ پہنچ گیا ۔ اس واقعہ کو بعض راویوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس روز دن میں ایک گھنٹہ کا اضافہ کر دیا گیا اور سورج اتنی دیر تک کھڑا رہا ۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی روایات کیا اتنے بڑے غیر معمولی واقعہ کے ثبوت میں کافی شہادت ہیں؟ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں ، سورج کا پلٹ آنا ، یا گھنٹہ بھر رکا رہنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ ایسا واقعہ اگر فی الواقع پیش آگیا ہوتا تو دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی ہوتی ۔ بعض اخبار آحاد تک اس کا ذکر کیسے محدود رہ سکتا تھا ؟ مفسرین کا تیسرا گروہ ان آیات کا وہی مفہوم لیتا ہے جو ایک خالی الذہن آدمی اس کے الفاظ پڑھ کر اس سے سمجھ سکتا ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق واقعہ بس اس قدر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے جب اعلیٰ درجے کے اصیل گھوڑوں کا ایک دستہ پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ، یہ مال مجھے کچھ اپنی بڑائی کی غرض سے یا اپنے نفس کی خاطر محبوب نہیں ہے بلکہ ان چیزوں سے دلچسپی کو میں اپنے رب کا کلمہ بلند کرنے کے لیے پسند کرتا ہوں ۔ پھر انہوں نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی یہاں تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ۔ اس کے بعد انہوں نے ان کو واپس طلب فرمایا اور جب وہ آئے تو بقول ابن عباس ، جعل یمسح اعراف الخیل و عراقیبھا حُبًّا لھا ، حضرت ان کی گردنوں پر اور ان کی پنڈلیوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے ۔ یہی تفسیر ہمارے نزدیک صحیح ہے ، کیونکہ یہ قرآن مجید کے الفاظ سے پوری مطابقت رکھتی ہے اور مطلب کی تکمیل کے لیے اس میں ایسی کوئی بات بڑھانی نہیں پڑتی جو نہ قرآن میں ہو ، نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں ۔ یہ بات بھی اس موقع پر نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس واقعہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے حق میں نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہ اَوَّابٌ ( بہترین بندہ ، اپنے رب کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا ) کے تعریفی کلمات ارشاد فرمانے کے معاً بعد کیا ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ دیکھو ، وہ ہمارا ایسا اچھا بندہ تھا ، بادشاہی کا سر و سامان اس کو دنیا کی خاطر نہیں بلکہ ہماری خاطر پسند تھا ، اپنے شاندار رسالے کو دیکھ کر دنیا پرست فرمانرواؤں کی طرح اس نے ڈینگیں نہ ماریں بلکہ اس وقت بھی ہم ہی اسے یاد آئے ۔
15: حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے وہ بہترین گھوڑے پیش کیے گئے جو جہاد کے مقصد سے اکٹھے کئے گئے تھے اور ان سے آپ کی سلطنت کی شان و شوکت کا مظاہر ہورہا تھا، آپ نے جب ان کا معاینہ فرمایا تو یہ شان و شوکت آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کرسکی، بلکہ آپ نے فرمایا کہ مجھے اس دولت سے محبت اس لیے نہیں ہے کہ اس سے میرے دبدبے کا اظہار ہوتا ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ یہ جہاد کے لیے تیار کیے گئے ہیں، اور جہاد اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیا جاتا ہے۔ پھر وہ گھوڑے چلتے ہوئے آپ کی نگاہوں سے روپوش ہوگئے تو آپ نے انہیں دوبارہ بلوایا، اور ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس واقعے کو ذکر فرما کر قرآن کریم نے یہ سبق دیا ہے کہ انسان کو دنیا کی دولت یا عزت و شوکت حاصل ہو تو اسے مغرور ہونے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہونے کے بجائے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے، اور اسے ان کاموں میں استعمال کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہوں۔ اس آیت کی یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے اور قرآن کریم کے الفاظ سے وہ زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ حافظ ابن جریر طبری اور امام رازی وغیرہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے آیت اور اس کے واقعے کی ایک اور تفسیر کی ہے جو زیادہ مشہور ہے، اور وہ یہ کہ گھوڑوں کے معاینے کے دوران آپ کی نماز قضا ہوگئی تھی، جس پر آپ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ اس دولت کی محبت نے مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت سے غافل کردیا، اس لیے انہوں نے گھوڑوں کو واپس بلوا کر انہیں اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کرنے کا ارادہ کیا، اور تلوار سے ان کی پنڈلیا اور گردنیں کاٹنی شروع کردیں۔ اس تفسیر کے مطابق آیت کا ترجمہ بالکل مختلف اس طرح ہوگا : جب ان کے پاس اچھی نسل کے عمدہ گھوڑے پیش کیے گئے تو انہوں نے کہا کہ اس دولت کی محبت نے مجھے اللہ کی محبت سے غافل کردیا، یہاں تک کہ وہ گھوڑے اوٹ میں چلے گئے (تو انہوں نے کہا :) انہیں واپس لاؤ: پھر انہوں نے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار سے) ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔