سلیمان علیہ السلام کا تفصیلی تذکرہ ۔ ہم نے حضرت سلیمان کا امتحان لیا اور ان کی کرسی پر ایک جسم ڈال دیا ، یعنی شیطان پھر وہ اپنے تخت و تاج کی طرف لوٹ آئے اس شیطان کا نام صخر تھا یا آصف تھا یا صرو تھا یا حقیق تھا ۔ یہ واقعہ اکثر مفسرین نے ذکر کیا ہے کسی نے تفصیل کے ساتھ ، کسی نے اختصار کے ساتھ ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان کو بیت المقدس کی تعمیر کا اس طرح حکم ہوا کہ لوہے کی آواز بھی نہ سنی جائے ۔ آپ نے ہر چند تدبیریں کیں ، لیکن کارگر نہ ہوئیں ۔ پھر آپ نے سنا کہ سمندر میں ایک شطان ہے جس کا نام صخر ہے وہ البتہ ایسی ترکیب بتا سکتا ہے آپ نے حکم دیا کہ اسے کسی طرح لاؤ ۔ ایک دریا سمندر میں ملتا تھا ہر ساتویں دن اس میں لبالب پانی آ جاتا تھا اور یہی پانی یہ شیطان پیتا تھا ۔ اس کا پانی نکال دیا گیا اور بالکل خالی کر کے پانی کو بند کر کے اس کے آنے والے دن اسے شراب سے پر کر دیا گیا جب شیطان آیا اور یہ حال دیکھا تو کہنے لگا یہ تو مزے کی چیز ہے لیکن عقل کی دشمن جہالت کو ترقی دینے والی چیز ہے ۔ چنانچہ وہ پیاسا ہی چلا گیا ۔ جب پیاس کی شدت ہوئی تو مجبوراً یہ سب کچھ کہتے ہوئے پینا ہی پڑا ۔ اب عقل جاتی رہی اور اسے حضرت سلیمان کی انگوٹھی دکھائی گئی یا مونڈھوں کے درمیان سے مہر لگا دی گئی ۔ یہ بےبس ہو گیا حضرت سلیمان کی حکومت اسی انگوٹھی کی وجہ سے تھی ۔ جب یہ حضرت سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے یہ کام سر انجام دینے کا حکم دیا یہ ہدہد کے انڈے لے آیا اور انہیں جمع کر کے ان پر شیشہ رکھ دیا ۔ ہدہد آیا اس نے اپنے انڈے دیکھے چاروں طرف گھوما لیکن دیکھا کہ ہاتھ نہیں آسکتے اڑ کر واپس چلا گیا اور الماس لے آیا اور اسے اس شیشے پر رکھ کر شیشے کو کاٹنا شروع کر دیا آخر وہ کٹ گیا اور ہدہد اپنے انڈے لے گیا اور اس الماس کو بھی لے لیا گیا اور اسی سے پتھر کاٹ کاٹ کر عمارت شروع ہوئی حضرت سلیمان علیہ السلام جب بیت الخلا میں یا حمام میں جاتے تو انگوٹھی اتار جاتے ایک دن حمام میں جانا تھا اور یہ شیطان آپ کے ساتھ تھا آپ اس وقت فرضی غسل کے لئے جا رہے تھے انگوٹھی اسی کو سونپ دی اور چلے گئے اس نے انگوٹھی سمندر میں پھینک دی اور شیطان پر حضرت سلیمان کی شکل ڈال دی گئی اور آپ سے تخت و تاج چھن گیا ۔ سب چیزوں پر شیطان نے قبضہ کرلیا سوائے آپ کی بیویوں کے ۔ اب اس سے بہت سی غیر معروف باتیں ظہور میں آنے لگیں اس زمانہ میں ایک صاحب تھے جو ایسے ہی تھے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضرت فاروق رضی اللہ عنہ ۔ اس نے کہا آزمائش کرنی چاہئے مجھے تو یہ شخص سلیمان معلوم نہیں ہوتا ۔ چنانچہ ایک روز اس نے کہا کیوں جناب اگر کوئی شخص رات کو جنبی ہو جائے اور موسم ذرا ٹھنڈا ہو اور وہ سورج طلوع ہونے تک غسل نہ کرے تو کوئی حرج تو نہیں؟ اس نے کہا ہرگز نہیں ۔ چالیس دن تک یہ تخت سلیمان پر رہا پھر آپ کی مچھلی کے پیٹ سے انگوٹھی مل گئی ہاتھ میں ڈالتے ہی پھر تمام چیزیں آپ کی مطیع ہو گئیں ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ سدی فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک سو بیویاں تھیں آپ کو سب سے زیادہ اعتبار ان میں سے ایک بیوی پر تھا جن کا نام جراوہ تھا ۔ جب جنبی ہونے یا پاخانے جاتے تو اپنی انگوٹھی انہی کو سونپ جاتے ۔ ایک مرتبہ آپ پاخانے گئے پیچھے سے ایک شیطان آپ ہی کی صورت بنا کر آیا اور بیوی صاحبہ سے انگوٹھی طلب کی آپ نے دے دی یہ آتے ہی تخت پر بیٹھ گیا جب حضرت سلیمان آئے اور انگوٹھی طلب کی تو بیوی صاحبہ نے فرمایا آپ انگوٹھی تو لے گئے ۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے نہایت پریشان حال سے محل سے نکل گئے اس شیطان نے چالیس دن تک حکومت کی لیکن احکام کی تبدیلی کو دیکھ کر علماء نے سمجھ لیا کہ یہ سلیمان نہیں ۔ چنانچہ ان کی جماعت آپ کی بیویوں کے پاس آئی اور ان سے کہا یہ کیا معاملہ ہے ہمیں سلیمان کی ذات میں شک پڑ گیا ۔ اگر یہ سچ مچ سلیمان ہے تو اس کی عقل جاتی رہی ہے یا یہ کہ یہ سلیمان ہی نہیں ۔ ورنہ ایسے خلاف شرع احکام نہ دیتا ۔ عورتیں یہ سن کر رونے لگیں ۔ یہ یہاں سے واپس آ گئے اور تخت کے اردگرد اسے گھیر کر بٹھ گئے اور تورات کھول کر اس کی تلاوت شروع کر دی ۔ یہ خبیث شیطان کلام اللہ سے بھاگا اور انگوٹھی سمندر میں پھینک دی جسے ایک مچھلی نگل گئی ۔ حضرت سلیمان یونہی اپنے دن گذارتے تھے ایک مرتبہ سمندر کے کنارے نکل گئے بھوک بہت لگی ہوئی تھی ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھ کر ان کے پاس آ کر ان سے ایک مچھلی مانگی اور اپنا نام بھی بتایا ، اس پر بعض لوگوں کو بڑا طیش آیا کہ دیکھو بھیک مناگنے والا اپنے تئیں سلیمان بتاتا ہے انہوں نے آپ کو مارنا پیٹنا شروع کیا آپ زخمی ہو کر کنارے جا کر اپنے زخم کا خون دھونے لگے ۔ بعض ماہی گیروں کو رحم آ گیا کہ ایک سائل کو خواہ مخواہ مارا ۔ جاؤ بھئی اسے دو مچھلیاں دے آؤ بھوکا ہے بھون کھائے گا ۔ چنانچہ و مچھلیاں آپ کو دے آئے بھوک کی وجہ سے آپ اپنے زخم کو اور خون کو تو بھول گئے اور جلدی سے مچھلی کا پیٹ چاک کرنے بیٹھ گئے ۔ قدرت اللہ سے اس کے پیٹ سے وہ انگوٹھی نکلی آپ نے اللہ کی تعریف بیان کی اور انگوٹھی انگلی میں ڈالی اس وقت پرندوں نے آ کر آپ پر سایہ کر لیا اور لوگوں نے آپ کو پہچان لیا اور آپ سے معذرت کرنے لگے آپ نے فرمایا یہ سب امر اللہ تھا اللہ کی طرف سے ایک امتحان تھا ۔ آپ آئے اپنے تخت پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ اس شیطان کو جہاں بھی وہ ہو گرفتار کر لاؤ چنانچہ اسے قید کر لیا گیا آپ نے اسے ایک لوہے کے صندوق میں بند کیا اور قفل لگا کر اس پر اپنی مہر لگا دی اور سمندر میں پھنکوا دیا جو قیامت تک وہیں قید رہے گا ۔ اس کا نام حقیق تھا ۔ آپ کی یہ دعا کہ مجھے ایسا ملک عطا فرمایا جائے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو یہ بھی پوری ہوئی اور آپ کے تابع ہوائیں کر دی گئیں ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ ایک شیطان سے جس کا نام آصف تھا ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا کہ تم لوگوں کو کس طرح فتنے میں ڈالتے ہو؟ اس نے کہا ذرا مجھے انگوٹھی دکھاؤ میں ابھی آپ کو دکھا دیتا ہوں آپ نے انگوٹھی دے دی اس نے اسے سمندر میں پھینک دیا تخت و تاج کا مالک بن بیٹھا اور آپ کے لباس میں لوگوں کو راہ اللہ سے ہٹانے لگا ۔ یاد رہے کہ یہ سب واقعات بنی اسرائیل کے بیان کردہ ہیں اور ان سب سے زیادہ منکر واقعہ وہ ہے ۔ جو ابن ابی حاتم میں ہے جس کا اوپر بیان ہوا ۔ جس میں آپ کی بیوی صاحبہ حضرت جراوہ کا ذکر ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر نبوت یہاں تک پہنچی تھی کہ لڑکے آپ کو پتھر مارتے تھے ۔ آپ کی بیویوں سے جب علماء نے معاملہ کی تفتیش کی تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمیں بھی اس کے سلیمان ہونے سے انکار ہے کیونکہ وہ حالت حیض میں ہمارے پاس آتا ہے ۔ شیطان کو جب یہ معلوم ہوگیا کہ راز کھل گیا ہے تو اس نے جادو اور کفر کی کتابیں لکھوا کر کرسی تلے دفن کر دیا اور پھر لوگوں کے سامنے انہیں نکلوا کر ان سے کہا دیکھو ان کتابوں کی بدولت سلیمان تم پر حکومت کر رہا تھا چنانچہ لوگوں نے آپ کو کافر کہنا شروع کر دیا ۔ حضرت سلیمان سمندر کے کنارے مزدوری کرتے تھے ایک مرتبہ ایک شخص نے بہت سی مچھلیاں خریدیں مزدور کو بلایا آپ پہنچے اس نے کہا یہ اٹھالو پوچھا مزدوری کیا دو گے؟ اس نے کہا اس میں سے ایک مچھلی تمہیں دے دوں گا آپ نے ٹوکرا سر پر رکھا اس کے ہاں پہنچایا اس نے ایک مچھلی دے دی آپ نے اس کا پیٹ چاک کیا پیٹ چاک کرتے ہی وہ انگوٹھی نکل پڑی پہنتے ہی کل شیاطین جن انسان پھر تابع ہوگئے اور جھرمٹ باندھ کر حاضر ہوگئے آپ نے ملک پر قبضہ کیا اور اس شیطان کو سخت سزا دی ۔ پس ثم اناب سے مراد شیطان جو مسلط کیا گیا تھا اس کا لوٹنا ہے ۔ اس کی اسناد حضرت ابن عباس تک ہے ۔ ہے تو قوی لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسے حضرت ابن عباس نے اہل کتاب سے لیا ہے ، یہ بھی اس وقت جبکہ اسے ابن عباس کا قول مان لیں ۔ اہل کتاب کی ایک جماعت حضرت سلیمان کو نہیں مانتی تھی تو عجب نہیں کہ یہ بیہودہ قصہ اسی خبیث جماعت کا گھڑا ہوا ہو ۔ اس میں تو وہ چیزیں بھی ہیں جو بالکل ہی منکر ہیں خصوصاً اس شیطان کا آپ کی عورتوں کے پاس جانا اور آئمہ نے بھی ایسے ہی قصے بیان تو کئے ہیں لیکن اس بات کا سب نے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ جن ان کے پاس نہیں جا سکا اور نبی کے گھرانے کی عورتوں کی عصمت و شرافت کا تقاضا بھی یہی ہے اور بھی بہت سے لوگوں نے ان واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن سب کی اصل یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل اور اہل کتاب سے لئے گئے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ شیبانی فرماتے ہیں آپ نے اپنی انگوٹھی عسقلان میں پائی تھی اور بیت المقدس تک تواضعاً آپ پیدل چلے تھے ۔ امام ابن بی حاتم نے صفت سلیمان میں حضرت کعب احبار سے ایک عجیب خبر روایت کی ہے ۔ ابو اسحاق مصری کہتے ہیں کہ جب ( اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ Ċ۽ ) 89- الفجر:7 ) کے قصے سے حضرت کعب نے فراغت حاصل کی تو حضرت معاویہ نے کہا ابو اسحاق آپ حضرت سلیمان کی کرسی کا ذکر بھی کیجئے فرمایا کہ وہ ہاتھی دانت کی تھی اور یاقوت زبرجد اور لولو سے مرصع تھی اور اس کے چاروں طرف سونے کے کھجور کے درخت بنے ہوئے تھے جن کے خوشے بھی موتیوں کے تھے ان میں سے جو دائیں جانب تھے ان کے سرے پر سونے کے مور تھے اور بائیں طرف والوں پر سونے کے گدھ تھے ۔ اس کرسی کے پہلے درجے پر دائیں جانب سونے کے دو درخت صنوبر کے تھے اور بائیں جانب سونے کے دو شیر بن ہوئے تھے ۔ ان کے سروں پر زبر جد کے دوستون تھے اور کرسی کے دونوں جانب انگور کی سنہری بیلیں تھیں جو کرسی کو ڈھانپے ہوئے تھیں اس کے خوشے بھی سرخ موتی کے تھے پھر کرسی کے اعلیٰ درجے پر دو شیر بہت بڑے سونے کے بنے ہوئے تھے جن کے اندر خول تھا ان میں مشک و عنبر بھرا رہتا تھا ۔ جب حضرت سلیمان کرسی پر آتے تو یہ شیر حرکت کرتے اور ان کے گھومنے سے ان کے اندر سے مشک و عنبر چاروں طرف چھڑک دیا جاتا پھر دو منبر سونے کے بچھا دئے جاتے ۔ ایک آپ کے وزیر کا اور ایک اس وقت کے سب سے بڑے عالم کا ۔ پھر کرسی کے سامنے ستر منبر سونے کے اور بچھائے جاتے جن پر بنو اسرائیل کے قاضی ان کے علماء اور ان کے سردار بیٹھتے ۔ ان کے پیچھے پینتیس منبر سونے کے اور ہوتے تھے جو خالی رہا کرتے تھے ۔ حضرت سلیمان جب تشریف لاتے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہی کرسی ان تمام چیزوں سمیت گھوم جاتی شیر اپن داہنا قدم آگے بڑھا دیتا اور گدھ اپنا بایاں پر پھیلا دیتا ۔ جب دوسرے درجے پر قدم رکھتے تو شیر اپنا بایاں پاؤں پھیلا دیتا اور گدھ اپنا دایاں پر جب آپ تیسرے درجے پر چڑھ جاتے اور کرسی پر بیٹھ جاتے تو ایک بڑا گدھ آپ کا تاج لے کر آپ کے سر پر رکھتا پھر کرسی زور زور سے گھومتی ۔ حضرت معاوضہ نے پوچھا آخر اس کی کیا وجہ؟ فرمایا وہ ایک سونے کی لاٹ پر تھی جسے صخر جن نے بنایا تھا ۔ اس کے گھومتے ہی نیچے والے مور گدھ وغیرہ سب اوپر آ جاتے اور سر جھکاتے پر پھڑ پھڑاتے جس سے آپ کے جسم پر مشک و عنبر کا چھڑکاؤ ہو جاتا پھر ایک سونے کا کبوتر تورات اٹھا کر آپ کے ہاتھ میں دیتا جسے آپ تلاوت فرماتے ۔ لیکن یہ روایت بالکل غریب ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ایسا ملک دے کہ مجھ سے کوئی اور چھین نہ سکے جیسے کہ اس جسم کا واقعہ ہوا جو آپ کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا ۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کے لئے ایسے ملک کے نہ ملنے کی دعا کرتے ہوں ۔ لیکن جن بعض لوگوں نے یہ معنی لئے ہیں وہ کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے ، بلکہ صحیح مطلب یہی ہے کہ آپ کی دعا کا یہی مطلب تھا کہ مجھے ایسا ملک اور سلطنت دی جائے کہ میرے بعد پھر کسی اور شخص کو ایسی سلطنت نہ ملے ۔ یہی آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے اور یہی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ایک سرکش جن نے گزشتہ شب مجھ پر زیادتی کی اور میری نماز بگاڑ دینا چاہی لیکن اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے اس ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح تم سب اسے دیکھو لیکن اسی وقت مجھے میرے بھائی حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ و السلام کی دعا یاد آ گئی ۔ راوی حدیث حضرت روح فرماتے ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑ دیا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا کہ آپ نے فرمایا اعوذ باللہ منک پھر آپ نے تین بار فرمایا العنک بلعنتہ اللہ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا کہ گویا آپ کسی چیز کو لینا چاہتے ہیں ۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے آپ سے ان دونوں باتوں کی وجہ پوچھی آپ نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس آگ لے کر میرے منہ میں ڈالنے کے لئے آیا تو میں نے تین مرتبہ اعوذ پڑھی پھر تین مرتبہ اس پر لعنت بھیجی لیکن وہ پھر بھی نہ ہٹا پھر میں نے چاہا کہ اسے پکڑ کر باندھ دوں تاکہ مدینے کے لڑکے اس سے کھیلیں اگر ہمارے بھائی حضرت سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو میں یہی کرتا ۔ حضرت عطا بن یزید لیثی نماز پڑھ رہے تھے جو ابو عبید نے ان کے سامنے سے گذرنا چاہا انہوں نے انہیں اپنے ہاتھ سے روک دیا پھر فرمایا مجھ سے حضرت ابو سعید خدری نے حدیث بیان کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے یہ بھی آپ کے پیچھے تھے قرأت آپ پر خلط ملط ہو گئی فارغ ہو کر فرمایا کاش تم دیکھتے کہ میں نے ابلیس کو پکڑ لیا تھا اور اس قدر اس کا گلا گھونٹا کہ اس کے منہ کی جھاگ میری شہادت کی اور بیج کی انگلی پر پڑی اگر میرے بھائی حضرت سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح ہوتے اس مسجد کے ستون سے بندھا ہوا ہوتا اور مدینہ کے بچے اسے ستاتے تم سے جہاں تک ہو سکے اس بات کا خیال رکھو کہ نماز کی حالت میں تمھارے سامنے سے کوئی گذرنے نہ پائے ( مسند احمد ) مسند کی اور حدیث میں ہے ربعیہ بن یزید عبداللہ ویلمی کہتے ہیں میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس طائف کے ایک باغ میں گیا جس کا ام ربط تھا آپ اس وقت ایک قریشی کا محاصرہ کئے ہوئے تھے جو زانی اور شرابی تھا ۔ میں نے ان سے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ جو ایک گھونٹ شراب پئے گا اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی توبہ قبول نہ فرمائے گا اور برا آدمی وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں ہی برا ہو گیا ہے جو شخص صرف نماز ہی کی نیت سے بیت المقدس کی مسجد میں جائے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا ۔ وہ شرابی جسے حضرت عبداللہ پکڑے ہوئے تھے وہ شراب کا ذکر سنتے ہی جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گیا ۔ اب حضرت عبداللہ نے فرمایا کسی کو حلال نہیں کہ میرے ذمے وہ بات کرے جو میں نے نہ کی ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں سنا ہے جو شخص شراب کا ایک گھونٹ بھی پی لے اس کی چالیس دن کی نماز نامقبول ہے ۔ اگر وہ توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ پھر اگر دوبارہ لوٹے تو پھر چالیس دن تک کی نمازیں نامقبول ہیں پھر اگر توبہ کر لے تو توبہ مقبول ہے مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ میں فرمایا کہ پھر اگر لوٹے گا تو یقینا اللہ تعالیٰ اسے جہنمیوں کے بدن کا خون ، پیپ ، پیشاب وغیرہ قیامت کے دن پلائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا جس پر وہ نور اس دن پڑ گیا وہ تو ہدایت والا ہو گیا اور جس تک وہ نور نہ پہنچا وہ بھٹک گیا ۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے علم کے مطابق قلم چل چکا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کی جن میں سے دو تو انہیں مل گئیں اور ہمیں امید ہے کہ تیسری ہمارے لئے ہو ( 1 ) مجھے ایسا حکم دے جو تیرے حکم کے موافق ہو ( 2 ) مجھے ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لئے لائق نہ ہو ۔ تیسری دعا یہ تھی کہ جو شخص اپنے گھر سے اس مسجد کی نماز کے ارادے ہی سے نکلے تو جب وہ لوٹے تو ایسا ہو جائے گویا آج پیدا ہوا پس ہمیں اللہ سے امید ہے کہ یہ ہمارے لئے اللہ نے دی ہو ۔ طبرانی میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنے لئے ایک گھر بنانے کا حکم دیا حضرت داؤد نے پہلے اپنا گھر بنا لیا اس پر وحی آئی کہ تم نے اپنا گھر میرے گھر سے پہلے بنایا آپ نے عرض کیا پروردگار یہی فیصلہ کیا گیا تھا پھر مسجد بنانی شروع کی دیواریں پوری ہوگئیں تو اتفاقاً تہائی حصہ گر گیا آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جواب ملا کہ تو میرا گھر نہیں بنا سکتا ۔ پوچھا کیوں؟ فرمایا اس لئے کہ تیرے ہاتھوں سے خون بہا ہے ۔ عرض کیا اللہ تعالیٰ وہ بھی تیری ہی محبت میں فرمایا ہاں لیکن وہ میرے بندے تھے میں ان پر رحم کرتا ہوں ۔ آپ کو یہ کلام سن کر سخت پریشانی ہوئی ۔ پھر وحی آئی کہ غمگین نہ ہو میں اسے تیرے لڑکے سلیمان کے ہاتھوں پورا کراؤں گا ۔ چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد حضرت سلیمان نے اسے بنانا شروع کیا جب پورا کر چکے تو بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ذبیحہ ذبح کئے اور بنو اسرائیل کو جمع کر کے خوب کھلایا پلایا اللہ کی وحی آئی کہ تو نے یہ سب کچھ میرے حکم کی تعمیل کی خوشی میں کیا ہے تو مجھ سے مانگ جو مانگے گا پائے گا ۔ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ میرے تین سوال ہیں مجھے ایسا فیصلہ سمجھا جو تیرے فیصلے کے مطابق ہو اور ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو اور جو اس گھر میں آئے صرف نماز کے ارادے سے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا آزاد ہو جائے جیسے آج پیدا ہوا ۔ ان میں سے دو چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرما دیں اور مھے امید ہے کہ تیسری بھی دے دی گئی ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر دعا کو ان لفظوں سے شروع فرماتے ( سبحان اللہ ربی الاعلی العلی الوہاب ) ( مستند احمد ) اور روایت میں ہے کہ حضرت داؤد کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان سے فرمایا مجھ سے اپنی حاجت طلب کرو آپ نے عرض کیا اللہ تعالیٰ مجھے ایسا دل دے جو تجھ سے ڈرتا رہے جیسا کہ میرے والد کا دل تجھ سے خوف کیا کرتا تھا اور میرے دل میں اپنی محبت ڈال دے جیسے کہ میرے والد کے دل میں تیری محبت تھی اس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا کہ میرا بندہ میری عین عطا کے وقت بھی مجھ سے ڈرا اور میری محبت طلب کرتا ہے مجھے اپنی قسم میں اسے اتنی بڑی سلطنت دوں گا جو اس کے بعد کسی کو نہ ملے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی ماتحتی میں ہوائیں کر دیں اور جنات کو بھی ان کا ماتحت بنا دیا اور اسی قدر ملک و مال پر بھی ، انہیں حساب قیامت سے آزاد کر دیا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی کہ باری تعالیٰ سلیمان کے ساتھ بھی اسی لطف و کرم سے پیش آنا جیسا آج لطف و کرم تیرا مجھ پر رہا تو وحی آئی کہ سلیمان سے کہہ دو وہ بھی اسی طرح میرا رہے جس طرح تو میرا تھا ، تو میں بھی اس کے ساتھ ہو خوبصورت پیارے وفادار تیز رو گھوڑوں کو کاٹ ڈالا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ان کے عوض ان سے بہتر عطا فرمائے ۔ یعنی ہوا کو ان کے تابع فرمان کر دیا جو مہینے بھر کی راہ کو صبح کی ایک گھڑی میں طے کر دیتی تھی اور اسی طرح شام کو جہاں کا ارادہ کرتے ذرا سی دیر میں پہنچا دیتی ۔ جنات کو بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا ان میں سے بعض بڑی اونچی لمبی سنگین پختہ عمارت کے بنانے کے کام سر انجام دیتے جو انسانی طاقت سے باہر تھا اور بعض غوطہ خور تھے جو سمندر کی تہ میں سے لولو جواہر اور دیگر قسم قسم کی نفیس و نادر چیزیں لا دیتے تھے ۔ پھر اور کچھ تھے جو بھاری بھاری بیڑیوں میں جکڑے رہتے تھے ۔ یہ یا تو وہ تھے جو حکومت سے سرتابی کرتے تھے یا کام کاج میں شرارت اور کمی کرتے تھے یا لوگوں کو ستاتے اور ایذاء دیتے تھے ۔ یہ ہے ہماری مہربانی اور ہماری بخشش اور ہمارا انعام اور ہمارا عطیہ اب تجھے اختیار ہے جس سے جو چاہے سلوک کر سب بےحساب ہے کسی پر پکڑ نہیں ۔ جو تیری زبان سے نکلے گا وہ حق ہو گا ۔ صحیح حدیث میں ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیوہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں عبد و رسول رہیں یعنی جو حکم کیا جائے بجا لاتے رہیں اللہ کے فرمان کے مطابق تقسیم کرتے رہیں اور اگر چاہیں نبی اور بادشاہ بنا دیئے جائیں جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں اور اس کا کوئی حساب اللہ کے ہاں نہ لیا جائے تو آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے مشورہ لیا اور آپ کے مشورے سے پہلی بات قبول فرمائی کیونکہ فضیلت کے لحاظ سے اولیٰ اور اعلیٰ وہی ہے ۔ گو نبوت و سلطنت بھی بڑی چیز ہے ۔ اسی لئے حضرت سلیمان کا دنیوی عزو جاہ بیان کرتے ہی فرمایا کہ وہ دار آخرت میں بھی ہمارے پاس بڑے مرتبے اور بہترین بزرگی اور اعلیٰ تر قریب والا ہے ۔
34۔ 1 یہ آزمائش کیا تھی، کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا ؟ اور اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعہ کو اس پر چسپاں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد 70 یا 90 تھی) ہم بستری کرونگا تاکہ ان سے شاہ سوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اور اس پر انشاء اللہ نہیں کہا تھا (یعنی صرف اپنی ہی تدبیر پر سارا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر سلیمان (علیہ السلام) انشاء اللہ کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے (صحیح بخاری)
[٤١] اس آیت کے تحت بعض مفسرین نے درج ذیل حدیث درج کی ہے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کہ سیدنا سلیمان نے کہا کہ میں آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ان سے ہر ایک ایک سوار جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا آپ کے کسی ساتھی نے کہا انشاء اللہ کہو مگر انہوں نے یہ بات نہ کہی تو ان میں سے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی ماسوائے ایک کے اور وہ بھی ادھورا بچہ جنی۔ اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو سب کے ہاں بچے پیدا ہوتے اور سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی) لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا اس آیت کی تفسیر سے کچھ تعلق نہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :- ١۔ یہ حدیث بخاری کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں موجود ہے لیکن کسی محدث نے اپنی کتاب التفسیر میں اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں درج نہیں کیا۔- ٢۔ امام بخاری نے اس حدیث کو چار مختلف مقامات پر درج کیا ہے جو یہ ہیں (کتاب بدء الخلق۔ کتاب الانبیائ، کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی، اور باب الکفارۃ قبل الحنث اور کتاب التوحید، باب فی المشیئۃ والارادۃ) مگر کتاب التفسیر میں درج نہیں کیا۔- ٣۔ اگرچہ اس حدیث میں لفظی اختلاف موجود ہے۔ مگر کسی متن میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ہیں کہ یہ ادھورا بچہ دایہ نے یا لوگوں نے سیدنا سلیمان کے تخت یا کرسی پر ڈال دیا تھا۔ یہ مفسرین کا اپنی طرف سے اضافہ ہے۔ حالانکہ سیدنا سلیمان کی آزمائش کا تعلق اسی بات سے ہے۔- سیدنا سلیمان کو اللہ نے کس آزمائش میں ڈالا تھا :۔ اس کے علاوہ بھی بعض مفسرین نے کچھ باتیں نقل کی ہیں لیکن وہ بالکل ہی بےسروپا، غیر معقول اور لایعنی ہیں قرآن سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا سلیمان کی آزمائش کا تعلق ایک بےجان دھڑ سے تھا جو آپ کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا۔ اس پر آپ کو معلوم ہوا کہ آپ تو آزمائش میں پڑچکے ہیں پھر اسی وقت اللہ کی طرف رجوع ہوئے اپنے قصور کی معافی مانگی اور ساتھ ہی یہ دعا کی مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما جو میرے بعد کسی کے شایان نہ ہو۔ چناچہ آپ کا یہ قصور بھی معاف کردیا گیا اور دعا بھی قبول ہوگئی کہ ہواؤں اور جنوں کو آپ کے لئے مسخر کردیا گیا جیسا کہ آگے مذکور ہے اور درج ذیل حدیث اسی کی وضاحت کرتی ہے :- رسول اللہ سے بھڑنے والا جن :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : گزشتہ رات ایک دیو ہیکل جن مجھ سے بھڑ پڑا۔ آپ نے یہ یا کوئی ایسا ہی کلمہ کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غالب کردیا۔ میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح تم اسے دیکھ سکو پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی کہ : اے میرے پروردگار مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے شایان نہ ہو۔ روح راوی نے کہا کہ آپ نے اس جن کو ذلت کے بعد بھگا دیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز کتاب الصلوۃ باب الاسیر اوالغریم یربطہ فی المسجد)- اور یہ ایسی فضیلت ہے کہ جو آپ کے بعد (یا پہلے) نہ کسی نبی کو حاصل ہوئی اور نہ بادشاہ کو۔ رہی یہ بات کہ اصل آزمائش تھی کیا ؟ اور بےجان دھڑ سے کون سے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کی کوئی معقول توجیہ نہ مجھے کہیں سے ملی ہے اور نہ ہی میرے ذہن میں آسکی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمٰنَ : روح المعانی کے مصنف آلوسی کے کہنے کے مطابق اس آزمائش سے سب سے زیادہ ظاہر مراد وہ واقعہ ہے جس کا ذکر حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ لَأَطُوْفَنَّ اللَّیْلَۃَ عَلٰی سَبْعِیْنَ امْرَأَۃً تَحْمِلُ کُلُّ امْرَأَۃٍ فَارِسًا یُجَاہِدُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، فَقَالَ لَہُ صَاحِبُہُ إِنْ شَاء اللّٰہُ فَلَمْ یَقُلْ ، وَلَمْ تَحْمِلْ شَیْءًا إِلاَّ وَاحِدًا سَاقِطًا أَحَدُ شِقَّیْہِ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَوْ قَالَہَا لَجَاہَدُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، قَالَ شُعَیْبٌ وَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ تِسْعِیْنَ وَ ہُوَ أَصَحُّ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و وھبنا لداوٗد سلیمان نعم العبد۔۔ ) : ٣٤٢٤ ] ” سلیمان بن داؤد ( علیہ السلام) نے کہا : ” میں آج رات (اپنی) ستر (٧٠) عورتوں کے پاس چکر لگاؤں گا اور ہر عورت ایک شہ سوار کے ساتھ حاملہ ہوگی، جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ “ تو ان کے ساتھی (فرشتے) نے کہا : ” ان شاء اللہ (کہہ لیجیے) ۔ “ مگر انھوں نے نہیں کہا، چناچہ کسی کو حمل نہ ہوا سوائے ایک کے اور اس کے بھی دو پہلوؤں میں سے ایک ساقط تھا۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر وہ ” ان شاء اللہ “ کہہ لیتے تو وہ سب اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔ “ شعیب اور ابن ابی الزناد نے ” نوے (٩٠) عورتیں “ کہا اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ “ - گویا سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش یہ تھی کہ ان کی خواہش کے مطابق نوے شہسوار مجاہد بیٹوں کے بجائے ان کی کرسی کا وارث بھی ایک جسد کے سوا کوئی نہ ہوا۔ جسد سے مراد وہ بچہ ہے جس کا ایک پہلو ساقط تھا۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کی تمنا مجاہد شہسوار بیٹوں کی تھی اور یہ تمنا بہت اچھی تمنا ہے، مگر ان شاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے ان کی آزمائش ہوئی اور ساقط پہلو والا صرف ایک بیٹا پیدا ہوا۔ یہ کوتاہی اگرچہ بھول کی وجہ سے ہوئی تھی مگر پیغمبروں کے بلند مرتبہ کی وجہ سے بھول پر بھی ان کی آزمائش ہوجاتی ہے، جس پر وہ معافی مانگتے ہیں۔ جیسا کہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں فرمایا کہ انھوں نے بھول کر وہ پودا چکھا : (فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا ) [ طٰہٰ : ١١٥ ] ” پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی کچھ پختگی نہ پائی۔ “ مگر ان کا لباس اتر گیا اور انھوں نے معافی مانگی : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) [ الأعراف : ٢٣ ] ” اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔ “ اسی طرح جب سلیمان (علیہ السلام) کی بھول کی وجہ سے ان کی تمنا پوری نہ ہوئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اس سے مغفرت کی دعا کی، فرمایا : (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ) [ ص : ٣٥ ] ” اس نے کہا اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو، یقیناً تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔ “ میری دانست میں اس آیت کی یہ تفسیر درست ہے، کیونکہ بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور واقعہ اس کے مطابق ہے اور اس میں انبیاء ( علیہ السلام) کی شان کے خلاف بھی کوئی بات نہیں۔- بعض علماء نے فرمایا، ہوسکتا ہے کہ آیات میں جس فتنے کا ذکر ہے اس سے مراد اس حدیث میں مذکور واقعہ ہو اور جسد سے مراد ساقط پہلو والا بچہ ہو، مگر یہ صرف احتمال ہے، جو بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلیمان (علیہ السلام) کی کوئی آزمائش تھی، جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی اور نہ ہی اس نے ان کی کرسی پر ڈالے جانے والے جسد کی وضاحت فرمائی ہے۔ اس لیے اسی پر اکتفا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کی کوئی آزمائش فرمائی، جس پر متنبّہ ہو کر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کی۔ کسی حد تک یہ بات کہی جاسکتی ہے، مگر پہلی تفسیر صحیح حدیث سے مطابقت کی وجہ سے راجح ہے۔- ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے کئی ایسی باتیں لکھ دی ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں اور جو انبیاء کے مقام کے سراسر خلاف ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے صخر نامی ایک جنّ کو سلیمان (علیہ السلام) کے تخت پر قابض کردیا تھا۔ اس کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی ایک بیوی بت پرست تھی، اس کی یہ سزا ملی کہ جتنی مدت اس بیوی نے بت پرستی کی تھی اتنی مدت کے لیے سلیمان (علیہ السلام) تخت سلطنت سے محروم کردیے گئے اور ان کی انگوٹھی، جس میں اسم اعظم تھا، ایک لونڈی کے واسطے سے صخر کے ہاتھ پڑگئی، پھر اس کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی دریا میں گرگئی اور ایک مچھلی نے اسے نگل لیا، پھر وہ مچھلی شکار ہو کر سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آئی اور اس طرح انھوں نے اس کے پیٹ سے انگوٹھی کو نکال کر اپنا تخت واپس لے لیا۔ مگر یہ سارا قصّہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے اور اہل کتاب میں سے اکثر وہ ہیں جو سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ کا نبی نہیں مانتے اور ان کا مقصد انھیں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنا ہے۔ (ابن کثیر) اس طرح کی کئی اور فضول کہانیاں جو نہ نقل سے ثابت ہیں اور نہ عقل انھیں تسلیم کرتی ہے، بےاحتیاط لوگوں نے کتابوں میں بلا ثبوت لکھ دی ہیں اور واعظ اور قصّہ گو حضرات انھیں بیان کرتے رہتے ہیں۔- مفسر ابوحیان نے فرمایا : ” مفسرین نے اس فتنے اور اس جسد کے ڈالے جانے کے متعلق کئی ایسی باتیں نقل کی ہیں جن سے انبیاء کو پاک سمجھنا واجب ہے، وہ باتیں ان کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں اور وہ ایسی ہیں جنھیں نقل کرنا جائز نہیں۔ وہ یا تو یہودیوں نے گھڑی ہیں یا زندیقوں نے۔ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فتنہ کیا تھا اور نہ ہی یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر جو جسد ڈالا گیا وہ کیا تھا۔ سب سے قریب بات جو اس کے متعلق کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فتنے سے مراد حدیث میں مذکور ستر (٧٠) عورتوں والے واقعہ میں سلیمان (علیہ السلام) کا ان شاء اللہ نہ کہنا ہے اور جسد سے مراد پیدا ہونے والا ادھورا بچہ ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو (ایک اور طرح سے بھی) امتحان میں ڈالا اور ہم نے ان کے تخت پر ایک دھڑلا ڈالا۔ پھر انہوں نے (خدا کی طرف) رجوع کیا۔- معارف ومسائل - اس آیت میں باری تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ایک اور آزمائش کا تذکرہ فرمایا ہے، اور اس سلسلے میں صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ اس آزمائش کے دوران کوئی دھڑ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا۔ اب وہ دھڑ کیا تھا ؟ اس کے کرسی پر ڈالنے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس سے آزمائش کیونکر ہوئی ؟ یہ تفصیلات نہ قرآن کریم میں موجود ہیں اور نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہیں۔ اس لئے بعض محقق مفسرین مثلاً حافظ ابن کثیر کا رجحان یہاں بھی اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے جب بات کو مجمل چھوڑا ہے اس کی تفصیلات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، بس اتنی بات پر ایمان رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کوئی آزمائش کی تھی، جس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف پہلے سے زیادہ رجوع فرمایا اور قرآن کریم کا اصل مقصد اتنے بیان سے پورا ہوجاتا ہے۔- اور بعض مفسرین نے اس آزمائش کی تفصیلات کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں متعدد احتمالات بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے بعض احتمالات تو خالص اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہیں، مثلاً یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کا راز ان کی انگوٹھی میں تھا، ایک دن ایک شیطان نے اس انگوٹھی کو قبضہ میں کرلیا اور اس کی وجہ سے وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت پر آپ ہی کی شکل میں حکمران بن بیٹھا۔ چالیس دن کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو وہ انگوٹھی ایک مچھلی کے پیٹ میں سے ملی، اس کے بعد آپ نے دوبارہ حکومت پر قبضہ کیا۔ یہ روایت متعدد مزید قصوں کے ساتھ کئی تفسیر کی کتابوں میں آئی ہے لیکن حافظ ابن کثیر اس قسم کی تمام روایات کو اسرائیلیات میں شمار کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :- ” اہل کتاب میں ایک جماعت ایسی ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبی نہیں مانتی، بس ظاہر یہ ہے کہ یہ جھوٹے قصے انہی لوگوں نے گھڑے ہیں۔ “ (تفسیر ابن کثیر ص ٦٢ ج ٤)- لہٰذا اس قسم کی روایات کو اس قرآنی آیت کی تفسیر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک اور واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہے، بعض حضرات مفسرین نے اس واقعہ کے بعض حصوں کو قرآن کریم کی اس آیت سے ملتا جلتا دیکھ کر اسے اس آیت کی تفسیر قرار دیا ہے اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ آج رات میں ازواج کے ساتھ وظیفہ زوجیت ادا کروں گا۔ اور ان میں سے ہر بیوی سے ایک لڑکا پیدا ہوگا جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ لیکن یہ خیال ظاہر فرماتے وقت آپ ” انشاء اللہ “ کہنا بھول گئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے جلیل القدر پیغمبر کی یہ فرو گذاشت پسند نہ آئی اور اس نے آپ کے دعوے کو اس طرح غلط ثابت کردیا کہ تمام ازواج مطہرات میں سے صرف ایک بیوی کے یہاں ایک مردہ بچہ پیدا ہوا۔ جس کا ایک پہلو ندارد تھا۔- بعض مفسرین نے اس واقعہ کو آیت پر منطبق کر کے یہ فرمایا کہ تخت پر دھڑ کے لا ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کسی خادم نے یہ بچہ آپ کے تخت پر لا کر رکھ دیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس پر تنبہ ہوا کہ یہ انجام میرے ” انشاء اللہ “ نہ کہنے کا ہے۔ چناچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرمایا اور اپنی اس فروگذاشت پر استغفار کیا۔- اس تفسیر کو متعدد محقق مفسرین مثلاً قاضی ابوالسعود اور علامہ آلوسی وغیرہ نے اختیار کیا ہے حکیم الامت حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں بھی اسی کے مطابق تفسیر کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعہ کو بھی آیت کی قطعی تفسیر نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے کہ یہ واقعہ جتنی روایتوں میں آیا ہے ان میں کہیں اس بات کی کوئی علامت نہیں ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو زیر بحث آیت کی تفسیر میں ذکر فرمایا ہو۔ امام بخاری نے بھی یہ حدیث کتاب الجہاد، کتاب الانبیاء اور کتاب الایمان والنذور وغیرہ میں تو متعدد طریقوں سے نقل کی ہے۔ لیکن کتاب التفسیر میں سورة ص کی تفسیر کے تحت اسے کہیں ذکر نہیں کیا، بلکہ ( آیت) وھب لی ملکا الخ کے تحت ایک دوسری روایت نقل کی ہے اور اس حدیث کا کوئی حوالہ تک نہیں دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کے نزدیک بھی یہ واقعہ آیت زیر بحث کی تفسیر نہیں، بلکہ جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کے دوسرے متعدد واقعات آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائے ہیں اسی طرح یہ بھی ایک جداگانہ واقعہ ہے۔ جس کا کسی آیت کی تفسیر ہونا کوئی ضروری نہیں۔- ایک تیسری تفسیر امام رازی وغیرہ نے بیان کی ہے، اور وہ یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک مرتبہ سخت بیمار ہوگئے اور اس کی وجہ سے نقاہت اس درجہ بڑھ گئی کہ جب تخت پر لا کر بٹھائے گئے تو ایک بےروح جسم معلوم ہوتا تھا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرمائی۔ اس وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے شکر بھی ادا کیا اور مغفرت بھی طلب فرمائی اور آئندہ کے لئے بےنظیر حکومت کی دعا بھی کی۔- لیکن یہ تفسیر بھی محض قیاسی ہے، قرآن کریم کے الفاظ سے بھی زیادہ مناسبت نہیں رکھتی اور کسی روایت سے بھی اس کا ثبوت نہیں ہے۔- حقیقت یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی یقینی تفصیلات معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے، اور نہ ہم اس کے مکلف ہیں۔ لہٰذا اتنی بات پر ایمان رکھنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کوئی آزمائش کی تھی جس کے بعد ان میں انابت الی اللہ کا جذبہ پہلے سے زیادہ پیدا ہوا اور اس واقعہ کو ذکر کرنے سے قرآن کریم کا اصل مقصد تمام انسانوں کو اس بات کی دعوت دینا ہے کہ وہ کسی مصیبت یا آزمائش میں مبتلا ہوں تو انہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح پہلے سے زیادہ رجوع الی اللہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ رہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی تفصیلات سو ان کو اللہ کے حوالے کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمٰنَ وَاَلْقَيْنَا عَلٰي كُرْسِيِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ ٣٤- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - كرس - الكُرْسِيُّ في تعارف العامّة : اسم لما يقعد عليه . قال تعالی: وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ- [ ص 34] وهو في الأصل منسوب إلى الْكِرْسِ ، أي : المتلبّد أي : المجتمع . ومنه : الْكُرَّاسَةُ لِلْمُتَكَرِّسِ من الأوراق، وكَرَسْتُ البناءَ فَتَكَرَّسَ ، قال العجاج : يا صاح هل تعرف رسما مکرسا ... قال : نعم أعرفه، وأبلسا والکرْسُ : أصل الشیء، يقال : هو قدیم الْكِرْسِ. وكلّ مجتمع من الشیء كِرْسٌ ، والْكَرُّوسُ : المترکّب بعض أجزاء رأسه إلى بعضه لکبره، وقوله عزّ وجل : وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ [ البقرة 255] فقد روي عن ابن عباس أنّ الكُرْسِيَّ العلم «3» ، وقیل : كُرْسِيُّهُ ملكه، وقال بعضهم : هو اسم الفلک المحیط بالأفلاک، قال : ويشهد لذلک ما روي «ما السّموات السّبع في الکرسيّ إلّا کحلقة ملقاة بأرض فلاة»- ک ر س ) الکرسی ۔ عوام کے عرف میں اس شے کو کہتے ہیں جس پر بیٹھاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص 34] اور ان کے تحت پر ایک دھڑڈال دیا پھر انہوں نے ( خدا کی طرف ) رجوع کیا ۔ یہ اصل میں کرسی کی طرف منسوب ہے اور کرس کے معنی ہیں اوپر تلے جم جانے والا اور جمع ہوجانے والا اسی سے کراسۃ ( مجموعہ اوراق ) ہے کر ست البناء فتکرس ۔ میں نے عمارت کی بنیاد رکھی چناچہ وہ بنیاد پڑگئی عجاج نے کہا ہے ( الرجز) (308) یاصاح ھل تعرف رسما مکرسا قانعم اعرفہ واباسا اے میرے دوست کیا تم نشان منزل کو پہنچانتی ہوجہاں کہ اونٹوں کا بول وبراز جماہوا ہے ۔ اس نے کہاں ہاں پہچانتا ہوں اور غم زدہ ہوکر خاموش ہوگیا ۔ الکرسی کسی چیز کی اصل اور بنیاد کو کہتے ہیں ۔ محاورہ ہے ؛ھوقدیم الکرسی اس کی بنیاد پر انی ہے ، اور ہر چیز کے ڈھیر کو کرس کہاجاتا ہے اور کروس کے معنی بڑے سر والا کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ [ البقرة 255] اس کی ، ، کرسی ، ، آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے ۔ کی تفسیر میں ابن عباس مروی ہے ۔ کہ کرسی سے علم باری تعالیٰ مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے ۔ کہ کرسی کے معنی حکومت واقتدا کے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ فلک محیط یعنی فلک الافلاک کا دوسرا نام کرسی ہے ۔ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ کہ سات آسمان کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے بیابان میں ایک انگوٹھی پڑی ہو ۔- جسد - الجَسَد کالجسم لكنه أخصّ ، قال الخلیل رحمه اللہ : لا يقال الجسد لغیر الإنسان من خلق الأرض «3» ونحوه، وأيضا فإنّ الجسد ما له لون، والجسم يقال لما لا يبين له لون، کالماء والهواء . وقوله عزّ وجلّ : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] ، يشهد لما قال الخلیل، وقال : عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه 88] ، وقال تعالی: وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص 34] . وباعتبار اللون قيل للزعفران : جِسَاد، وثوب مِجْسَد : مصبوغ بالجساد «4» ، والمِجْسَد : الثوب الذي يلي الجسد، والجَسَد والجَاسِد والجَسِد من الدم ما قد يبس .- ( ج س د ) الجسد - ( اسم ) جسم ہی کو کہتے ہیں مگر یہ جسم سے اخص ہے خلیل فرماتے ہیں کہ جسد کا لفظ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق پر نہیں بولا جاتا ہے نیز جسد رنگدار جسم کو کہتے ہیں مگر جسم کا لفظ بےلون اشیاء مثلا پانی ہوا وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] کہ ہم ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھاتے ہوں ۔ سے خلیل کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ نیز قرآن میں ہے ۔ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه 88] ایک بچھڑا یعنی قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی ۔ وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص 34] اور ان ک تخت پر ہم نے ایک دھڑ ڈال دیا چناچہ انہوں نے خد ا کی طرف رجوع کیا اور لون کے اعتبار سے زعفران کو جساد کہا جاتا ہے اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے ثوب مجسد کہتے ہیں ۔ المجسد ۔ کپڑا جو بدن سے متصل ہو الجسد والجاسد والجسد ۔ خشک خون ۔- نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
آیت ٣٤ وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ وَاَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ ” اور (اسی طرح) ہم نے آزمائش میں ڈالا سلیمان ( علیہ السلام) کو ‘ اور اس کے تخت پر ہم نے ایک جسد ڈال دیا ‘ پھر اس نے رجوع کیا۔ “- اس واقعہ کے بارے میں ایک مرفوع حدیث موجود ہے۔ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک موقع پر اپنے سپہ سالاروں سے غصے کی کیفیت میں کہا کہ تم مت سمجھو کہ میرا اقتدار اور میری طاقت تم لوگوں کے بل پر قائم ہے۔ میں آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس جائوں گا اور ان سب سے بیٹے پیدا ہوں گے جو بڑے ہو کر میرے دست بازو بنیں گے۔ لیکن آپ ( علیہ السلام) یہ کہتے ہوئے ” ان شاء اللہ “ کہنا بھول گئے۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) کی تمام ازواج میں سے صرف ایک کو حمل ہوا اور اس حمل سے بھی ایک ناقص الخلقت بچہ پیدا ہوا جو دایہ نے لا کر آپ ( علیہ السلام) کے تخت پر رکھ دیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو بات کہی تھی اس کا شاید دربار میں چرچا بھی ہوگیا تھا ‘ چناچہ اس موقع پر انہیں سبکی بھی اٹھانی پڑی۔- ایسا ہی معاملہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین مکہ نے اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو ان کے بارے میں کل بتائوں گا۔ مگر یہ کہتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” ان شاء اللہ “ کہنا بھول گئے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) روزانہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ راہنمائی کے لیے وحی بھیج دیں گے ‘ مگر اس کے بعد کئی روز تک وحی نہیں آئی۔ ظاہر ہے یہ صورت حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ مشرکین بار بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مطالبہ کرتے ہوں گے اور تالیاں پیٹتے ہوں گے کہ کیا ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کو ؟ اور کہاں رہ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی ؟ پھر جب کئی روز کے بعد سورة الکہف نازل ہوئی تو اس میں مذکورہ سوالات کے جوابات کے ساتھ یہ آیات بھی نازل ہوئیں : وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا۔ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُز وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَقُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّہْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا۔ ” اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل ضرور کر دوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کو یاد کر لیاکیجیے جب آپ بھول جائیں اور کہیے : ہوسکتا ہے کہ میرا رب میری راہنمائی کر دے اس سے بہتر بھلائی کی طرف۔ “ - ایسے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے مقرب بندوں کا چھوٹی چھوٹی فروگزاشتوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ ہوتا ہے ‘ جبکہ عام لوگوں کی بڑی بڑی غلطیوں کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بہر حال حضرت سلیمان (علیہ السلام) مذکورہ بات کہتے ہوئے ” ان شاء اللہ “ کہنا بھول گئے۔ بلکہ روایت میں تو یہ بھی ہے کہ اس موقع پر فرشتے نے آپ ( علیہ السلام) کو یاد بھی کرایا مگر جذبات کی کیفیت میں آپ ( علیہ السلام) اس کا اہتمام نہ کرسکے۔ البتہ تنبیہہ کے بعد پر آپ ( علیہ السلام) نے فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیا۔
16: یہ ایک اور واقعہ ہے جس کی تفصیل نہ قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے، نہ کسی مستند حدیث اس آیت کی تفسیر کے طور پر کوئی واقعہ ثابت ہوتا ہے۔ جو روایتیں اس آیت کی تفسیر میں بیان کی گئی ہیں، وہ یا تو انتہائی کمزور اور لوغو ہیں، یا ان کا اس آیت کی تفسیر ہونا ثابت نہیں، لہذا سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جس بات کو خود قرآن کریم نے مبہم چھوڑا ہے اسے مبہم ہی رہنے دیا جائے۔ واقعے کا حوالہ دینے کا جو مقصد ہے، وہ تفصیلات جانے بغیر بھی پورا ہوجاتا ہے، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کوئی آزمائش فرمائی تھی جس کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ ہی سے رجوع فرمایا۔