35۔ 1 یعنی شاہ سواروں کی فوج پیدا ہونے کی آرزو، تیری حکمت و مشیت کے تحت پوری نہیں ہوئی، لیکن اگر مجھے ایسی با اختیار بادشاہت عطا کر دے کہ ویسی بادشاہت میرے سوا یا میرے بعد کسی کے پاس نہ ہو، تو پھر اولاد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یہ دعا بھی اللہ کے دین کے غلبے کے لئے ہی تھی۔
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا : یعنی شہسواروں کی فوج پیدا ہونے کی آرزو میری کوتاہی کی وجہ سے اور تیری حکمت و مشیّت کے تحت پوری نہیں ہوئی، تو تو مجھے ایسی بااختیار بادشاہی عطا فرما دے کہ ویسی بادشاہی میرے سوا یا میرے بعد کسی کے پاس نہ ہو، تاکہ پھر اولاد کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ دعا بھی اللہ کے دین کے غلبے کے لیے تھی۔
خلاصہ تفسیر - (حضرت سلیمان نے اللہ سے) دعا مانگی کہ اے میرے رب میرا (پچھلا) قصور معاف کر اور (آئندہ کے لئے) مجھ کو ایسی سلطنت دے کہ میرے سوا (میرے زمانہ میں) کسی کو میسر نہ ہو ( خواہ کوئی غیبی وھبی سامان عطا کر دیجئے خواہ سلاطین زمانہ کو ویسے ہی دبا دیجئے تاکہ مقابلہ ہی نہ کرسکیں اور) آپ بڑے دینے والے ہیں (آپ کو اس دعا کا قبول کرلینا کچھ دشوار نہیں) سو (ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی خطا بھی معاف کردی اور نیز) ہم نے ہوا کو ان کے تابع کردیا کہ وہ ان کے حکم سے جہاں وہ (جانا) چاہتے نرمی سے چلتی (کہ اس سے گھوڑوں کی ضرورت نہ رہی) اور جنات کو بھی ان کے تابع کردیا یعنی تعمیر بنانے والوں کو بھی اور (موتی وغیرہ کے لئے) غوطہ غوروں کو بھی اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے (غالباً جو مفوضہ خدمات سے گریز یا اس میں کوتاہی کرتا ہو اس کو قید کی سزا ہوتی ہوگی، اور ہم نے یہ سامان دے کر ارشاد فرمایا کہ) یہ ہمارا عطیہ ہے، سو خواہ (کسی کو) دو یا نہ دو تم سے کچھ داروگیر نہیں (یعنی جتنا سامان ہم نے تم کو دیا ہے، اس میں تم کو دوسرے بادشاہوں کی طرح محض خازن اور منتظم ہی نہیں بنایا، بلکہ تم کو مالک بھی بنادیا ہے) اور علاوہ اس سامان کے جو دنیا میں ان کو عطا ہوا تھا) ان کے لئے ہمارے یہاں (خاص) قرب اور (اعلیٰ درجہ کی نیک نامی ہے جس کا ثمرہ پورے طور پر آخرت میں ظاہر ہوگا) ۔- معارف ومسائل - هَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ (مجھ کو ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو) اس دعا کا مطلب بعض مفسرین نے تو یہ بتایا ہے کہ میرے زمانے میں میری جیسی عظیم الشان سلطنت کسی اور کو میسر نہ ہو۔ گویا ان کے نزدیک ” میرے بعد “ کا مطلب ” میرے سوا “ ہے۔ حضرت تھانوی نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن بیشتر مفسرین کے نزدیک دعا کا مفہوم یہ ہے کہ میرے بعد بھی کسی کو ایسی عظیم الشان حکومت حاصل نہ ہو، چناچہ واقعہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جیسی حکومت عطا فرمائی، ویسی بعد میں بھی کسی کو نصیب نہ ہوسکی۔ کیونکہ ہواؤں کا مسخر ہونا اور جنات کا ایسا تابع ہونا بعد میں کسی کو میسر نہ آسکا۔ بعض لوگ عملیات وغیرہ کے ذریعہ بعض جنات کو جو مسخر کرلیتے ہیں وہ اس کے منافی نہیں۔ کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تسخیر جنات سے اس کو کوئی نسبت نہیں، عملیات کے ماہرین دو ایک یا چند جنات کو تابع بنا لیتے ہیں۔ لیکن جس طرح کی ہمہ گیر حکومت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حاصل تھی ویسی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔- حکومت اور اقتدار کی دعا :- یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی کوئی دعا اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ دعا بھی باری تعالیٰ کی اجازت ہی سے مانگی تھی۔ اور چونکہ اس کا منشاء محض طلب اقتدار نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرنے اور کلمہ حق کو سربلند کرنے کا جذبہ کار فرما تھا، اور باری تعالیٰ کو معلوم تھا کہ حکومت ملنے کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) انہی مقاصد عالیہ کے لئے کام کریں گے۔ اور حب جاہ کے جذبات ان کے دل میں جگہ نہیں پائیں گے۔ اس لئے انہیں اس دعا کی اجازت بھی دے دی گئی اور اسے قبول بھی کرلیا گیا۔ لیکن عام لوگوں کے لئے از خود اقتدار کے طلب کرنے کو حدیث میں اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس میں حب جاہ ومال کے جذبات شامل ہوجاتے ہیں۔ چناچہ جہاں انسان کو اس قسم کے جذبات نفسانی سے خالی ہونے کا یقین ہو اور وہ واقعتاً اعلاء کلمة الحق کے سوا کسی اور مقصد سے اقتدار حاصل نہ کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے حکومت کی دعا مانگنا جائز ہے۔ (روح المعانی وغیرہ)
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَہَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ٠ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ٣٥- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - ابتغاء (ينبغي)- البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟- فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] .- ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو )- وَهَّابِ- بمعنی: أنه يعطي كلًّا علی استحقاقه،
پھر انہوں نے اپنی سلطنت اور اپنے پروردگار کی اطاعت کی طرف رجوع کیا اور توبہ کی اور عرض کیا کہ میرے پروردگار میرا قصور معاف فرما اور ایسی سلطنت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو یا یہ کہ اب بقیہ زندگی میں وہ مجھ سے چھینی نہ جائے بیشک جس کو آپ چاہیں بادشاہت اور نبوت عطا کرنے والے ہیں۔
آیت ٣٥ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ” اس نے دعا کی : پروردگار مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہ ہو ‘ یقینا تو ہی عطا فرمانے والا ہے۔ “ - چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کی یہ دعا قبول فرماتے ہوئے آپ ( علیہ السلام) کو ِجنوں ‘ پرندوں اور ہوائوں پر بھی حکومت عطا فرمائی اور ایسی حکومت آپ ( علیہ السلام) کے بعد پھر کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے والد حضرت دائود (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے جو خصوصی انعامات اور احسانات فرمائے تھے ان کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جذباتِ شکر کا اظہار آپ ( علیہ السلام) کی اس دعا سے بھی ہوتا ہے : وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ ( النمل) ” اور اس نے دعا کی : پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں شکر ادا کروں تیری اس نعمت کا جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور یہ کہ میں اچھے اعمال کروں جن سے تو راضی ہو ‘ اور مجھے داخل کرنا اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں ۔ “
سورة صٓ حاشیہ نمبر :36 سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس جگہ اصل مقصد یہی واقعہ بیان کرنا ہے اور پچھلی آیات اسی کے لیے بطور تمہید ارشاد ہوئی ہیں ۔ جس طرح پہلے حضرت داؤد کی تعریف کی گئی ، پھر اس واقعہ کا ذکر کیا گیا جس میں وہ مبتلائے فتنہ ہو گئے تھے ، پھر بتایا گیا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے ایسے محبوب بندے کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہ چھوڑا ، پھر ان کی یہ شان دکھائی گئی کہ فتنے پر متنبہ ہوتے ہی وہ تائب ہو گئے اور اللہ کے آگے جھک کر انہوں نے اپنے اس فعل سے رجوع کر لیا ، اسی طرح یہاں بھی ترتیب کلام یہ ہے کہ پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مرتبہ بلند اور شان بندگی کا ذکر کیا گیا ہے ، پھر بتایا گیا ہے کہ ان کو بھی آزمائش میں ڈالا گیا پھر ان کی یہ شان بندگی دکھائی گئی ہے کہ جب ان کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا گیا تو وہ فوراً ہی اپنی لغزش پر متنبہ ہو گئے اور اپنے رب سے معافی مانگ کر انہوں نے اپنی اس بات سے رجوع کر لیا جس کی وجہ سے وہ فتنے میں پڑے تھے ۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ ان دونوں قصوں سے بیک وقت دو باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ اس کے بے لاگ محاسبے سے انبیا تک نہیں بچ سکے ہیں ، تابدیگراں چہ رسد ۔ دوسرے یہ کہ بندے کے لیے صحیح رویہ قصور کر کے اکڑنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ جس وقت بھی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسی وقت وہ عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے آگے جھک جائے ۔ اسی رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی لغزشوں کو محض معاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اور زیادہ الطاف و عنایات سے نوازا ۔ یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے وہ فتنہ کیا تھا جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام پڑ گئے تھے؟ اور ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈال دینے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس جَسَد کا لا کر ڈالا جانا ان کے لیے کس نوعیت کی تنبیہ تھی جس پر انہوں نے توبہ کی؟ اس کے جواب میں مفسرین نے چار مختلف مسلک اختیار کیے ہیں ۔ ایک گروہ نے ایک لمبا چوڑا افسانہ بیان کیا ہے جس کی تفصیلات میں ان کے درمیان بہت کچھ اختلافات ہیں ۔ مگر سب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے یا تو یہ قصور ہوا تھا کہ ان کے محل میں ایک بیگم چالیس دن تک بت پرستی کرتی رہی اور وہ اس سے بے خبر رہے ، یا یہ کہ وہ چند روز تک گھر میں بیٹھے رہے اور کسی مظلوم کی داد رسی نہ کی ۔ اس پر ان کو یہ سزا ملی کہ ایک شیطان کسی نہ کسی طرح ان کی وہ انگوٹھی اڑا لے گیا جس کی بدولت وہ جن و انس اور ہواؤں پر حکومت کرتے تھے ۔ انگوٹھی ہاتھ سے جاتے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا سارا اقتدار چھن گیا اور وہ چالیس دن تک دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرے ۔ اور اس دوران میں وہ شیطان سلیمان علیہ السلام بنا ہوا حکمرانی کرتا رہا ۔ سلیمان علیہ السلام کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دینے سے مراد یہی شیطان ہے جو کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔ بعض حضرات یہاں تک بھی کہہ گزرتے ہیں کہ اس زمانے میں اس شیطان سے حرم سلیمانی کی خواتین تک کی عصمت محفوظ نہ رہی ۔ آخر کار سلطنت کے اعیان و اکابر اور علماء کو اس کی کاروائیاں دیکھ کر شک ہو گیا کہ یہ سلیمان نہیں ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اس کے سامنے توراۃ کھولی اور وہ ڈر کر بھاگ نکلا ۔ راستے میں انگوٹھی اس کے ہاتھ سے سمندر میں گر گئی ، یا خود اسی نے پھینک دی ، اور اسے ایک مچھلی نے نگل لیا ۔ پھر اتفاق سے وہ مچھلی سلیمان کو مل گئی ۔ اسے پکانے کے لیے انہوں نے اس کا پیٹ جو چاک کیا تو انگوٹھی نکل آئی اور اس کا ہاتھ آنا تھا کہ جن و انس سب سلام کرتے ہوئے ان کے سامنے حاضر ہو گئے ـــــــــــ یہ پورا افسانہ از سر تاپا خرافات پر مشتمل ہے جنہیں نو مسلم اہل کتاب نے تلمود اور دوسرے اسرائیلی روایات سے اخذ کر کے مسلمانوں میں پھیلا دیا تھا اور حیرت ہے کہ ہمارے ہاں کے بڑے بڑے لوگوں نے ان کو قرآن کے مجملات کی تفصیلات سمجھ کر اپنی زبان سے نقل کر دیا ۔ حالانکہ نہ انگشتری سلیمانی کی کوئی حقیقت ہے ، نہ حضرت سلیمان کے کمالات کسی انگشتری کے کرشمے تھے ، نہ شیاطین کو اللہ نے یہ قدرت دی ہے کہ انبیاء کی شکل بنا کر آئیں اور خلق خدا کو گمراہ کریں ، اور نہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی نبی کے قصور کی سزا ایسی فتنہ انگیز شکل میں دے جس سے شیطان نبی بن یر ایک پوری امت کا ستیاناس کر دے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن خود اس تفسیر کی تردید کر رہا ہے ۔ آگے آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب یہ آزمائش حضرت سلیمان کو پیش آئی اور انہوں نے ہم سے معافی مانگ لی تب ہم نے ہوا اور شیاطین کو ان کے لیے مسخر کر دیا ۔ لیکن یہ تفسیر اس کے برعکس یہ بتا رہی ہے کہ شیاطین پہلے ہی انگشتری کے طفیل حضرت سلمان کے تابع فرمان تھے ۔ تعجب ہے کہ جن بزرگوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بعد کی آیات کیا کہہ رہی ہیں ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں 20 سال کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا ۔ شیاطین کو خطرہ ہوا کہ اگر سلیمان علیہ السلام کے بعد یہ بادشاہ ہو گیا تو ہم پھر اسی غلامی میں مبتلا رہیں گے ، اس لیے انہوں نے اسے قتل کر دینے کی ٹھانی ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے اس لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا تا کہ وہیں اس کی پرورش ہوتی رہے ۔ یہی وہ فتنہ تھا جس میں حضرت مبتلا ہوئے تھے کہ انہوں نے اللہ پر توکل کرنے کے بجائے بادلوں کی حفاظت پر اعتماد کیا ۔ اس کی سزا ان کو دی گئی کہ وہ بچہ مر کر ان کی کرسی پر آ گرا ــــــــــــ یہ افسانہ بھی بالکل بے سر و پا اور صریح قرآن کے خلاف ہے ، کیونکہ اس میں بھی یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ہوائیں اور شیاطین پہلے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر تھے ، حالانکہ قرآن صاف الفاظ میں ان کی تسخیر کو اس فتنے کے بعد کا واقعہ بتا رہا ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ پیدا ہو گا ، مگر یہ بات کہتے ہوئے انہوں نے اِنشاء اللہ نہ کہا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جسے دائی نے لا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی پر ڈال دیا ۔ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور اسے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے ۔ خود بخاری میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ان میں سے کسی میں بیویوں کی تعداد 60 بیان کی گئی ہے ، کسی میں 70 ، کسی میں 90 ، کسی میں 99 ، اور کسی میں 100 ۔ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے ، ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے ، اور با عتبار روایت اسکی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ہرگز نہ فرمائی ہوگی جس طرح وہ نقل ہوئی ہے ۔ بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یاوہ گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر اسے بطور مثال بیان فرمایا ہو گا ، اور سامع کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ اس بات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں ۔ ایسی روایات کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے ۔ ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشا اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا ۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد 60 ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ 6 بیویوں کے حساب سے مسلسل دس گھنٹے یا گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے ۔ کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی؟ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان کی کرسی پر جس جسد کے ڈالے جانے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے ۔ اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا تھا ۔ علاوہ بریں اس بچے کی پیدائش پر حضرت سلیمان علیہ السلام کا استغفار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے استغفار کے ساتھ یہ دعا کیوں مانگی کہ مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو ۔ ایک اور تفسیر جس کو امام رازی ترجیح دیتے ہیں یہ ہے کہ حضرت سلیمان کسی سخت مرض میں مبتلا ہو گئے تھے ، یا کسی خطرے کی وجہ سے اس قدر متفکر تھے کہ گھلتے گھلتے وہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گئے تھے ۔ لیکن یہ تفسیر قرآن کے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی ۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم نے سلیمان کو آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا ، پھر اس نے رجوع کیا ۔ ان الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس جسد سے مراد خود حضرت سلیمان ہیں ۔ ان سے تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش میں ڈالے جانے سے مراد کوئی قصور ہے جو آنجناب سے صادر ہوا تھا ۔ اس قصور پر آپ کو تنبیہ اس شکل میں فرمائی گئی کہ آپ کی کرسی پر ایک جسد لا ڈالا گیا ، اور اس پر جب آپ کو اپنے قصور کا احساس ہوا تو آپ نے رجوع فرما لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مقام قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں سے ہے اور حتمی طور پر اس کی کوئی تفسیر بیان کرنے کے لیے ہمیں کوئی یقینی بنیاد نہیں ملتی ۔ لیکن حضرت سلیمان کی دعا کے یہ الفاظ کہ اے میرے رب ، مجھے معاف کر دے اور مجھ کو وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو ، اگر تاریخ بنی اسرائیل کی روشنی میں پڑھے جائیں تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دل میں غالباً یہ خواہش تھی کہ ان کے بعد ان کا بیٹا جانشین ہو اور حکومت و فرمانروائی آئندہ انہی کی نسل میں باقی رہے ۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فتنہ قرار دیا اور اس پر وہ اس وقت متنبہ ہوئے جب ان کا ولی عہد رَجُبعام ایک ایسا نالائق نوجوان بن کر اٹھا جس کے لچھن صاف بتا رہے تھے کہ وہ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی سلطنت چار دن بھی نہ سنبھال سکے گا ۔ ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈالے جانے کا مطلب غالباً یہی ہے کہ جس بیٹے کو وہ اپنی کرسی پر بٹھانا چاہتے تھے وہ ایک کندہ ناتراش تھا ۔ تب انہوں نے اپنی اس خواہش سے رجوع کیا ، اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر درخواست کی کہ بس یہ بادشاہی مجھی پر ختم ہو جائے ، میں اپنے بعد اپنی نسل میں بادشاہی جاری رہنے کی تمنا سے باز آیا ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے بعد کسی کے لیے بھی جانشینی کی نہ وصیت کی اور نہ کسی کی اطاعت کے لیے لوگوں کو پابند کیا ۔ بعد میں ان کے اعیان سلطنت نے رجبعام کو تخت پر بٹھایا ، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے شمالی فلسطین کا علاقہ لے کر الگ ہو گئے اور صرف یہوداہ کا قبیلہ بیت المقدس کے تخت سے وابستہ رہ گیا ۔
17: حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہواؤں اور جنات اور پرندوں پر جو سلطنت حاصل ہوئی، وہ بعد میں کسی کو نہ ہو سکی۔