Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ اپنے عابد بندوں اور رسولوں کی فضیلتوں کو بیان فرما رہا ہے اور ان کے نام گنوا رہا ہے ابراہیم اسحاق اور یعقوب صلواۃ اللہ وسلامہ علیہم اجمعین اور فرماتا ہے کہ ان کے اعمال بہت بہتر تھے اور صحیح علم بھی ان میں تھا ۔ ساتھ ہی عبادت الٰہی میں قوی تھے اور قدرت کی طرف سے انہیں بصیرت عطا فرمائی گئی تھی ۔ دین میں سمجھدار تھے اطاعت اللہ میں قوی تھے حق کے دیکھنے والے تھے ۔ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی صرف آخرت کا ہی ہر وقت خیال بندھا رہتا تھا ۔ ہر عمل آخرت کے لئے ہی ہوتا تھا ۔ دنیا کی محبت سے وہ الگ تھے ، آخرت کے ذکر میں ہر وقت مشغول رہتے تھے ۔ وہ اعمال کرتے تھے جو جنت دلوائیں ، لوگوں کو بھی نیک اعمال کی ترغیب دیتے تھے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن بہترین بدلے اور افضل مقامات عطا فرمائے گا ۔ یہ بزرگان دین اللہ کے چیدہ مخلص اور خاص الخاص بندے ہیں ۔ اسماعیل اور ذوالکفل صلوات و سلامہ علیہم اجمعین بھی پسندیدہ اور خاص بندوں میں تھے ۔ ان کے بیانات سورہ انبیاء میں گذر چکے ہیں اس لئے ہم نے یہاں بیان نہیں کئے ۔ ان فضائل کے بیان میں ان کے لئے نصیحت ہے جو پند و نصیحت حاصل کرنے کے لئے عادی ہیں اور یہ مطلب بھی ہے کہ یہ قرآن عظیم ذکر یعنی نصیحت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یعنی عبادت الٰہی اور نصرت دین میں بڑے قوی اور دینی و علمی نصیرت میں ممتاز تھے بعض کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام و احسان ہوا یا یہ لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] یعنی یہ تینوں پیغمبر اپنی پوری قوت سے دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور معصیت کے کاموں سے بچتے رہے۔ نیز وہ اللہ تعالیٰ کی ہر سو بکھری ہوئی آیات میں اور اللہ تعالیٰ کے احکام میں غور و فکر کرتے اور بصیرت حاصل کرتے تھے وہ حقیقت شناس تھے۔ اندھوں کی طرح نہیں چلتے تھے۔ بلکہ آنکھیں کھول کر علم و معرفت کی روشنی میں ہدایت کا سیدھا راستہ دیکھتے ہوئے چلتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْ عِبٰدَنَآ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ : پہلے تین انبیاء کے تفصیلی ذکر کے بعد چند انبیاء کا اجمالی ذکر فرمایا۔ ” الایدی “ ” یَدٌ“ کی جمع ہے، جو عربی زبان میں نعمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور قوت کے معنی میں بھی۔ اس لحاظ سے ان انبیاء کے ” اُولِي الْاَيْدِيْ “ (ہاتھوں والے) ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بڑی قوت رکھتے تھے اور یہ بھی کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے بہت سے انعامات تھے۔ ” وَالْاَبْصَارِ “ (آنکھوں) کی تفسیر میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد دینی بصیرت اور اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کو یاد کیجئے جو ہاتھوں (سے عام کرنے) والے اور آنکھوں (سے دیکھنے) والے تھے (یعنی ان میں قوت عملیہ بھی تھی اور قوت علمیہ بھی اور) ہم نے ان کو ایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیا تھا کہ وہ یاد آخرت کی ہے (چنانچہ یہ ظاہر ہے کہ انبیاء میں یہ صفت سب سے زیادہ تام اور کامل ہوتی ہے، اور شاید یہ جملہ اس لئے بڑھا دیا ہے کہ اہل غفلت کے کان ہوں کہ جب انبیاء اس فکر سے خالی نہ تھے تو ہم کس شمار میں ہیں) اور وہ (حضرات) ہمارے یہاں منتخب اور سب سے اچھے لوگوں میں سے ہیں (یعنی منتخب لوگوں میں بھی سب سے بڑھ کر، چناچہ ظاہر ہے کہ انبیاء، دوسرے اولیاء اور صلحا سے افضل ہوتے ہیں) اور اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو بھی یاد کیجئے اور یہ سب بھی سب سے اچھے لوگوں میں سے ہیں (آگے توحید اور آخرت اور رسالت کا کسی قدر مفصل بیان ہے) ایک نصیحت کا مضمون تو یہ ہوچکا (اس سے مراد انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات ہیں کہ ان واقعات میں کافروں کے لئے عقیدہ رسالت کی تبلیغ ہے، اور مومنوں کے لئے اخلاق جمیلہ اور اعمال فاضلہ کی تعلیم ہے) اور (دوسرا مضمون آخرت کی جزا و سزا کے متعلق اب شروع ہوتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ) پرہیزگاروں کے لئے (آخرت میں) اچھا ٹھکانہ ہے، یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات جن کے دروازے ان کے واسطے کھلے ہوئے ہوں گے (ظاہر مراد یہ ہے کہ پہلے سے کھلے ہوں گے) وہ ان باغوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے (اور) وہ وہاں (جنت کے خادموں سے) بہت سے میوے اور پینے کی چیزیں منگوائیں گے اور ان کے پاس نیچی نگاہ والیاں ہم عمر ہوں گی (مراد حوریں ہیں اے مسلمانو) یہ (جس کا اوپر ذکر ہوا) وہ (نعمت) ہے جس کا تم سے روز حساب آنے پر وعدہ کیا جاتا ہے، بیشک یہ ہماری عطا ہے، اس کا کہیں ختم ہی نہیں (یعنی دائمی اور ابدی نعمت ہے) یہ بات تو ہوچکی (جو نیک بخت پرہیزگاروں کے متعلق تھی) اور (آگے کافروں کے متعلق مضمون ہے، وہ یہ کہ) سرکشوں کے لئے (یعنی جو کفر میں دوسروں کے رہنما تھے ان کے لئے) برا ٹھکانا ہے، یعنی دوزخ، اس میں داخل ہوں گے، سو وہ بہت ہی بری جگہ ہے، یہ کھولتا ہوا پانی اور پیپ (موجود) ہے سو یہ لوگ اس کو چکھیں اور (اس کے علاوہ) اور بھی اس قسم کی (ناگوار اور موجب آزار) طرح طرح کی چیزیں (موجود) ہیں (اس کو بھی چکھیں، اور جو تابع تھے ان کے لئے بھی یہی چیزیں ہیں، گو تقدم و تاخر اور اشدیت اور شدت کا تفاوت ہو، باقی نفس عذاب میں سب شریک ہیں، چناچہ جب کافروں کے رہنما اول داخل جہنم ہو چکیں گے، پھر ان کے پیرو آئیں گے تو رہنما آپس میں کہیں گے کہ لو) یہ ایک جماعت اور آئی جو تمہارے ساتھ (عذاب میں شریک ہونے کے لئے جہنم میں) گھس رہے ہیں ان پر خدا کی مار یہ بھی دوزخ ہی میں آ رہے ہیں (یعنی کوئی ایسا آتا جو عذاب کا مستحق نہ ہوتا تو اس کے آنے کی خوشی بھی ہوتی اور اس کی آؤ بھگت بھی کرتے، یہ تو خود ہی جہنمی ہیں۔ ان سے کیا امید، اور ان کے آنے کی کیا خوشی اور کیا آؤ بھگت ؟ ) وہ (پیرو اپنے رہنماؤں سے) کہیں گے، بلکہ تمہارے ہی اوپر خدا کی مار (کیونکہ) تم ہی تو یہ (مصیبت) ہمارے آگے لائے (کیونکہ) تم ہی نے ہم کو بہکایا تھا) سو (جہنم) بہت ہی برا ٹھکانہ ہے (جو تمہاری بدولت ہمارے آگے آیا۔ اس کے بعد جب ان میں سے ہر شخص دوسرے پر الزام رکھنے لگے گا تو اس وقت یہ متبعین ان سے خطاب چھوڑ کر حق تعالیٰ سے) دعا کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار جو شخص اس (مصیبت) کو ہمارے آگے لایا ہو اس کو دوزخ میں دونا عذاب دیجؤ، اور وہ لوگ (یعنی متبعین یا سب دوزخی آپس میں) کہیں گے کہ کیا بات ہے ہم ان لوگوں کو (دوزخ میں) نہیں دیکھتے جن کو ہم برے لوگوں میں شمار کیا کرتے تھے (یعنی مسلمانوں کو بد راہ اور حقیر سمجھا کرتے تھے، وہ کیوں نظر نہیں آتے) کیا ہم نے (ناحق) ان کی ہنسی کر رکھی تھی (اور وہ اس قابل نہ تھے اور جہنم میں نہیں آئے) یا (یہ کہ جہنم میں موجود ہیں مگر) ان (کے دیکھنے) سے نگاہیں چکرا رہی ہیں (کہ ان پر نظر نہیں جمتی۔ مطلب یہ کہ عذاب کے ساتھ یہ ایک اور حسرت ہوگی کہ جن لوگوں کو ہم برا سمجھتے تھے وہ عذاب سے بچ گئے، اور) یہ بات یعنی دوزخیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا بالکل سچی بات ہے (کہ ضرور ہو کر رہے گی) ۔- معارف ومسائل - اُولِي الْاَيْدِيْ وَالْاَبْصَارِ ۔ اس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ ” وہ ہاتھوں اور نگاہوں والے تھے “ مطلب یہ ہے کہ اپنی فکری اور عملی توانائیاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرتے تھے۔ اس سے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ اعضاء انسانی کا اصل مصرف یہ ہے کہ وہ اطاعت الٰہی میں خرچ ہوں، اور جو اعضاء اس میں خرچ نہ ہوں ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ عِبٰدَنَآ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ اُولِي الْاَيْدِيْ وَالْاَبْصَارِ۝ ٤٥- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق، یعقوب (علیہم السلام) کو یاد کیجیے جو عبادت الہی میں بہت طاقت والے اور دین میں بہت بصیرت والے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ وَاذْکُرْ عِبٰدَنَآ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ اُولِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ ” اور تذکرہ کیجیے ہمارے بندوں ابراہیم (علیہ السلام) ‘ اسحاق ( علیہ السلام) اور یعقوب ( علیہ السلام) کا ‘ جو قوت والے اور بصیرت والے تھے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :48 اصل الفاظ ہیں اُولِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ ( ہاتھوں والے اور نگاہوں والے ) ۔ ہاتھ سے مراد ، جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں ، قوت و قدرت ہے ۔ اور ان انبیاء کو صاحب قوت و قدرت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہایت با عمل لوگ تھے ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور معصیتوں سے بچنے کی زبردست طاقت رکھتے تھے ، اور دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے انہوں نے بڑی کوششیں کی تھیں ۔ نگاہ سے مراد آنکھوں کی بینائی نہیں بلکہ دل کی بصیرت ہے ۔ وہ حق ہیں اور حقیقت شناس لوگ تھے ۔ دنیا میں اندھوں کی طرح نہیں چلتے تھے بلکہ آنکھیں کھول کر علم و معرفت کی پوری روشنی میں ہدایت کا سیدھا راستہ دیکھتے ہوئے چلتے تھے ۔ ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو لوگ بد عمل اور گمراہ ہیں وہ درحقیقت ہاتھوں اور آنکھوں ، دونوں سے محروم ہیں ۔ ہاتھ والا حقیقت میں وہی ہے جو اللہ کی راہ میں کام کرے اور آنکھوں والا دراصل وہی ہے جو حق کی روشنی اور باطل کی تاریکی میں امتیاز کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani