46۔ 1 یعنی ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے چن لیا تھا، چناچہ آخرت ہر وقت ان کے سامنے رہتی تھی (آخرت کا ہر وقت استحضار، یہ بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت اور زاہد وتقویٰ کی بنیاد) یا وہ لوگوں کو آخرت اور اللہ کی طرف بلانے میں کوشاں رہتے تھے۔
[٥٣] یعنی آخرت کی یاد رکھنا ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو انسان کو اللہ کا برگزیدہ بنا دیتا ہے۔ ان برگزیدہ ہستیوں نے اس دنیا کو بس ایک مسافر خانہ کی طرح سمجھا اور آخرت کا گھر ہی ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔
اِنَّآ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ : ان انبیاء میں پائی جانے والی خاص صفت کو پہلے مبہم رکھا کہ ” ہم نے انھیں ایک خاص صفت کے ساتھ چُن لیا “ تاکہ شوق اور تجسّس پیدا ہو کہ وہ خاص صفت کیا ہے، پھر بتایا کہ وہ صفت اصل گھر کی یاد ہے۔ اصل گھر سے مراد آخرت ہے، کیونکہ دنیا گھر نہیں بلکہ گزر گاہ ہے۔ ان انبیاء کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ ہر وقت آخرت کو یاد رکھتے تھے اور ہر معاملہ میں اسی کو پیش نظر رکھتے تھے، دنیا کی ہوس کا ان میں کوئی شائبہ نہ تھا اور لوگوں کو بھی وہ ہمیشہ آخرت یاد دلاتے رہتے تھے۔
فکر آخرت انبیاء کا امتیازی وصف ہے :- ذکری الدار۔ اس کے لفظی معنی ہیں ” گھر کی یاد “ اور ” گھر “ سے مراد آخرت ہے۔ آخرت کے بجائے یہ لفظ استعمال کر کے تنبیہ کردی گئی ہے کہ انسان کو اپنا اصلی گھر آخرت ہی کو سمجھنا چاہئے اور اسی کی فکر کو اپنے افکار و اعمال کی بنیاد بنانا چاہئے۔ یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ فکر آخرت انسان کی فکری اور عملی قوت کو اور زیادہ جلا بخشتی ہے۔ بعض ملحدین کا یہ خیال بالکل بےبنیاد ہے کہ فکر آخرت انسان کی قوتوں کو کند کردیتی ہے۔
اِنَّآ اَخْلَصْنٰہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِكْرَى الدَّارِ ٤٦ۚ- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔
ہم نے ان کو خالص اللہ تعالیٰ کی یاد اور آخرت کے ذکر کے ساتھ خاص کیا۔
آیت ٤٦ اِنَّآ اَخْلَصْنٰہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِ ” ہم نے ان کو خالص کرلیا تھا ایک خالص شے ‘ یعنی آخرت کے گھر کی یاد دہانی کے لیے ۔ “- ان لوگوں کی زندگی کا ایک یہی مقصد تھا کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ اس حوالے سے یہ بات میں بارہا عرض کرچکا ہوں کہ اللہ کا جو بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے دنیا کے مال و دولت اور دوسری چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ زندگی میں اگر اس کا کوئی ہدف ہوتا ہے تو بس یہی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے ‘ انہیں آخرت کے برے انجام سے بچائے۔ پھر اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی ہدف کے لیے صرف ہوتا ہے اور اس کی تمام تر صلاحیتیں اسی مشن کے لیے وقف ہوجاتی ہیں۔ حضرت شیخ معین الدین اجمیری (رح) کی مثال لے لیجیے۔ آپ (رح) یہی مشن لے کر اجمیر پہنچے تھے۔ اجمیر اس زمانے میں ہندو راجپوتوں کا مرکزی شہر اور کفر کا گڑھ تھا۔ حضرت شیخ علی ہجویری (رح) تو لاہور اس وقت تشریف لائے تھے جب یہ علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوچکا تھا ‘ لیکن حضرت معین الدین (رح) نے اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنایا جو اس وقت مکمل طور پر کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بہر حال آپ (رح) اپنا گھر بار چھوڑ کر کوئی کاروبار کرنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے آئے تھے اور یہی آپ (رح) کی زندگی کا مقصد اور مشن تھا۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :49 یعنی ان کی تمام سرفرازیوں کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر دنیا طلبی اور دنیا پرستی کا شائبہ تک نہ تھا ، ان کی ساری فکر و سعی آخرت کے لیے تھی ، وہ خود بھی اس کو یاد رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی یاد دلاتے تھے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مرتبے دیے جو دنیا بنانے کی فکر میں منہمک رہنے والے لوگوں کو کبھی نصیب نہ ہوئے ۔ اس سلسلے میں یہ لطیف نکتہ بھی نگاہ میں رہنا چاہیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے لیے صرف الدار ( وہ گھر ، یا اصل گھر ) کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اس سے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی مطلوب ہے کہ یہ دنیا سرے سے انسان کا گھر ہے ہی نہیں ، بلکہ یہ صرف ایک گزر گاہ ہے ، ایک مسافر خانہ ہے ، جس سے آدمی کو بہرحال رخصت ہو جانا ہے ۔ اصل گھر وہی آخرت کا گھر ہے ۔ جو شخص اس کو سنوارنے کی فکر کرتا ہے وہی صاحب بصیرت ہے اور اللہ کے نزدیک لامحالہ اسی کو پسندیدہ انسان ہونا چاہیے ۔ رہا وہ شخص جو اس مسافر خانے میں اپنی چند روزہ قیام گاہ کو سجانے کے لیے وہ حرکتیں کرتا ہے جن سے آخرت کا اصل گھر اس کے لیے اجڑ جائے وہ عقل کا اندھا ہے اور فطری بات ہے کہ ایسا آدمی اللہ کو پسند نہیں آ سکتا ۔