Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 پچھلے دین سے مراد تو ان کا دین قریش ہے، یا پھر دین نصاریٰ یعنی یہ جس توحید کی دعوت دے رہا ہے، اس کی بابت تو ہم نے کسی بھی دین میں نہیں سنا۔ 7۔ 2 یعنی یہ توحید صرف اس کی اپنی من گھڑت ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی قریب کے زمانہ میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں یہودی اور عیسائی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں۔ ایران، عراق اور مشرقی عرب مجوسیوں سے بھرا پڑا ہے۔ کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔ اللہ کے پیاروں کے تصرفات کو تو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے فی الواقع لوگوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوجاتی ہے۔ پھر آخر اللہ اکیلے پر کون اکتفا کرتا ہے ؟ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک من گھڑت بات ہے اور اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم ان کی تابعداری کریں اور یہ ہمارا حاکم بن جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ : آخری ملت سے مراد ان کے قریب کے آبا و اجداد ہیں، کیونکہ اصل دین ابراہیم (علیہ السلام) تو توحید پر قائم تھا۔ یہ عمرو بن لحی خزاعی تھا جس نے عرب میں بت پرستی کو رواج دیا، حتیٰ کہ عین کعبہ میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی مورتیوں کے ہاتھ میں فال کے تیر رکھ دیے گئے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” پچھلا دین (آخری ملت) کہتے تھے اپنے باپ دادوں کو، یعنی آگے تو سنے ہیں کہ اگلے لوگ ایسی باتیں کہتے، پر ہمارے بزرگ تو یوں نہیں کہہ گئے۔ “ (موضح) بعض مفسرین نے فرمایا کہ آخری ملت سے مراد عیسائی ہیں، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سب سے آخر میں آنے والے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) ہی تھے، یعنی ہم نے نصاریٰ میں بھی توحید کی بات نہیں سنی، بلکہ وہ بھی تین خداؤں کے قائل ہیں۔- اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ : ” اخْتِلَاقٌ“ مصدر بمعنی اسم مفعول برائے مبالغہ ہے، یعنی یہ محض گھڑی ہوئی بات ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۚۖ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۝ ٧ۖۚ- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - ملل - المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها،- ( م ل ل ) الملۃ - ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- خُلُقُ ( جھوٹ)- وكلّ موضع استعمل الخلق في وصف الکلام فالمراد به الکذب، ومن هذا الوجه امتنع کثير من النّاس من إطلاق لفظ الخلق علی القرآن وعلی هذا قوله تعالی:- إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 137] ، وقوله : ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص 7] ،- اور وہ ہر مقام جہاں خلق کا لفظ کلام کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ اس سے جھوٹ ہی مرا د ہے ۔ اس بنا پر الگ اکثر لوگ قرآن کے متعلق خلق کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتے تھے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا :۔إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 137] یہ تو اگلوں کے ہی طریق ہیں اور ایک قراءت میں إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 137] بھی ہے یعنی یہ پہلے لوگوں کی ایجاد واختراع ہو ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص 7] یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں ۔ یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے ۔ خلق ۔ کا لفظ مخلوق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہ بات تو جو محمد کہتے ہیں یہودیت و نصرانیت میں بھی نہیں ان سے بھی نہیں سنا کہ اللہ ایک ہے یہ تو ان کی من گھڑت بات ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ ” ہم نے ایسی کوئی بات پچھلے دین میں تو نہیں سنی ہے۔ “- آخر ہمارا بھی اپنا ایک دین ہے جو ہم نے ورثے میں پایا ہے۔ پھر ہمارے باپ دادا کی روایات ہیں جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن ہم نے ایسی باتیں اس سے پہلے نہ تو اپنے باپ دادا کے دین میں سنی ہیں اور نہ ہی پرانی روایات سے ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ - اِنْ ہٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ ” یہ تو نہیں ہے مگر ایک گھڑی ہوئی چیز۔ “- اختلاق ” خلق “ سے باب افتعال ہے۔ یعنی یہ کوئی خواہ مخواہ بنائی ہوئی چیز ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :9 یعنی قریب کے زمانے میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں ، عیسائی اور یہودی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں ، اور مجوسیوں سے ایران و عراق اور مشرقی عرب بھرا پڑا ہے ۔ کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ رب العالمین کو مانے اور دوسرے کسی کو نہ مانے ۔ آخر ایک اکیلے خدا پر کون اکتفا کرتا ہے ۔ اللہ کے پیاروں کو تو سب ہی مان رہے ہیں ۔ ان کے آستانوں پر جا کر ماتھے رگڑ رہے ہیں ۔ نذریں دے رہے ہیں ۔ دعائیں مانگ رہے ہیں ۔ کہیں سے اولاد ملتی ہے ۔ کہیں سے رزق ملتا ہے ۔ کسی آستانے پر جو مراد مانگو بر آتی ہے ۔ ان کے تصرفات کو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے لوگوں کی کس کس طرح مشکل کشائی و حاجت روائی ہوتی ہے ۔ اب اس شخص سے ہم یہ نرالی بات سن رہے ہیں ، جو کبھی کسی سے نہ سنی تھی ، کہ ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصہ نہیں اور پوری کی پوری خدائی بس ایک اکیلے اللہ ہی کی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani