6۔ 1 یعنی اپنے دین پر جمے رہو اور بتوں کی پوجا کرتے رہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر کان مت دھرو 6۔ 2 یعنی یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے چھڑا کر دراصل اپنے پیچھے لگانا اور اپنی قیادت منوانا چاہتا ہے۔
[٥] سمجھوتہ کے لئے ایک ٢٥ رکنی وفد کا ابو طالب کے پاس آنا :۔ ان آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ ١٠ نبوی میں ابو طالب بیمار پڑگئے (اسی مرض سے ان کی وفات ہوئی اور اس سال ام المومنین سیدہ خدیجہ (رض) کا انتقال ہوا تھا لہذا اس سال کو عام الحزن کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس سال رسول اللہ کو یہ دونوں بھاری صدمے پہنچے تھے) اس وقت ابو طالب کی عمر ٨٠ برس کی ہوچکی تھی نیز رسول اللہ کی حمایت میں انہوں نے جو مصائب، اور شعب ابی طالب میں جو فاقے جھیلے تھے انہوں نے ابو طالب کو بہت کمزور کردیا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کی زندگی کے دن گنے جاچکے ہیں۔ سرداران قریش کو خیال آیا کہ اگر ابو طالب کے مرنے کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے محمد پر زیادتی کی تو سارا عرب یہ طعنہ دے گا کہ چچا کے جیتے جی تو ان سے کچھ بن نہ پڑا اب اس کے مرنے کے بعد اسے دبانے لگے ہیں۔ لہذا ابو طالب کی زندگی میں ہی سمجھوتہ کی غرض سے سرداران قریش کا ایک ٢٥ رکنی وفد ابو طالب کے پاس آیا اور کہا کہ ذرا اپنے بھتیجے کو بلاؤ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس کے مذہب میں مداخلت نہیں کرتے وہ اپنے مذہب کے مطابق جیسے چاہے عبادت کرے۔ لیکن یہ لوگ ہمارے مذہب میں مداخلت نہ کریں۔ نہ ہمارے معبودوں اور بزرگوں کو برا بھلا کہیں۔ وہ ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم انہیں ان کے دین پر چھوڑ دیں چناچہ ابو طالب نے آپ کو بلایا۔ اس وقت ابو طالب کے قریب ایک آدمی کی جگہ خالی تھی۔ ابو جہل فورا اٹھ کر وہاں جا بیٹھا تاکہ آپ اس کے قریب نہ بیٹھ سکیں۔ خیر جب آپ پرے ہٹ کر بیٹھ گئے تو ابو طالب نے کہا : یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں اور اس قسم کی بات پر سمجھوتہ اور عہد و پیمان کرنے آئے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟ - آپ کا جواب ایک اللہ کی عبادت کرو عرب وعجم کے مالک بن جاؤ گے : آپ نے جواب میں فرمایا : کیا میں انہیں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر وہ اسے مان لیں تو سارا عرب ان کے تابع فرمان ہوجائے اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہوجائے اور وہ انہیں جزیہ ادا کریں ؟ یہ سن کر ابو جہل کہنے لگا : تمہارے باپ کی قسم ایسی ایک بات کیا، دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں آپ نے کہا : تم لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہو اور اللہ کے سوا جن جن کو پوجتے ہو انہیں چھوڑ دو اس بات پر ان سب نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر کہا : محمد سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا یہ تو بڑی عجیب بات ہے پھر آپس میں کہنے لگے : اٹھو یہاں سے اور اپنے آباء کے دین پر ڈٹ جاؤ۔ یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہ ہوگا۔ اسی موقع پر اس سورة کی ابتدائی سات آیات نازل ہوئیں (ابن ہشام) ١: ٤١٧ تا ٤١٩) اسی واقعہ کو امام ترمذی نے مختصراً یوں روایت کیا ہے :- ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو طالب بیمار ہوئے تو قریش اس کے پاس آئے اور نبی اکرم بھی ان کے پاس آئے اور ابو طالب کے پاس ایک ہی آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ابو جہل اٹھا کہ آپ کو وہاں بیٹھنے سے روک دے۔ پھر ان لوگوں نے ابو طالب سے آپ کے متعلق شکایت کی۔ ابو طالب آپ سے کہنے لگے : بھتیجے تم اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو ؟ آپ نے فرمایا : صرف ایک کلمہ : اگر وہ اسے قبول کرلیں تو عرب کے حاکم بن جائیں اور عجم سے جزیہ لیں ابو طالب نے کہا : صرف ایک کلمہ ؟ آپ نے فرمایا : ہاں صرف ایک کلمہ پھر فرمایا : چچا جان آپ لوگ یہ تسلیم کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں قریشی کہنے لگے : کیا ہم صرف ایک ہی خدا کی عبادت کریں (باقی سب چھوڑ دیں) یہ تو بڑی عجیب بات ہے ہم نے زمانہ قریب کے دین میں تو یہ بات کبھی سنی ہی نہیں۔ یہ تو محض من گھڑت بات ہے انہیں لوگوں کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں (ترمذی۔ کتاب التفسیر)- عرب میں قبیلے قبیلے کا جدا جدا بت تھا۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر قبیلے کا بت اس قبیلے کے لوگوں کی مشکلات کو دور کرتا اور ان کی حاجات پوری کرتا ہے۔ اور بڑا خدا یا رب العالمین صرف ان کی نگرانی کر رہا ہے۔ لہذا انہیں یہ بات دور از قیاس بلکہ محال معلوم ہوتی تھی کہ ایک ہی پروردگار تمام جہان کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرے۔- [٦] قریش کا خیال کہ یہ نبی اقتدار چاہتا ہے :۔ یعنی اس دعوت میں ضرور کچھ کالا ہے اس نبی کی اصل غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ اکیلے خدا کا نام لے کر ہم سب کو اپنا تابع اور محکوم بنا لے اور اپنی حکومت قائم کرے۔ ہم بھلا اس کی یہ بات چلنے دیں گے ؟ ہم تو یہ بات کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتے۔ بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ محمد جس عزم و استقلال کے ساتھ اپنی دعوت پیش کر رہے ہیں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ کسی طرح اس سے ہٹنے والے نہیں اور ایسا انقلاب آبھی سکتا ہے لہذا جہاں تک ہوسکے اپنے آبائی دین کی حفاظت پر ڈٹ جاؤ۔
وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ : ” الْمَلَاُ “ کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢٤٦) یعنی کفار کے سرکردہ اور بڑے لوگ توحید کی دعوت سن کر آپ کی مجلس سے یہ کہہ کر چل کھڑے ہوئے کہ اپنے دین اور طریقے پر چلتے رہو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو، جیسا کہ قوم نوح نے کہا تھا : (لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ڏ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا) [ نوح : ٢٣ ] ” تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی وَدّ کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔ “ - بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو باطل اور شرک پر ڈٹے رہنے کی اتنی تاکید کر رہے ہیں، اہل حق کو تو اس سے زیادہ حق پر قائم رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کو قائم رہنے کی تاکید کرنی چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَالْعَصْرِ ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ۔ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ ) [ العصر : ١ تا ٣ ] ” زمانے کی قسم کہ بیشک ہر انساناً گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ “- اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ : یعنی اس نے ہمارے سامنے جو کلمہ توحید پیش کیا ہے یہ ایسی چیز ہے جس کے اعلان کا اور اسے ہر حال میں نافذ کرنے کا ارادہ کیا جا چکا ہے، اب اسے اس سے باز رکھنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے اسے اس کے حال پر چھوڑو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔
(آیت) وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ الخ (اور ان کفار کے رئیس یہ کہتے ہوئے چل دیئے کہ الخ) اس سے مذکورہ واقعہ ہی کی طرف اشارہ ہے کہ توحید کی دعوت سن کر وہ مجلس سے چل کھڑے ہوئے۔
وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓي اٰلِـہَتِكُمْ ٠ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ ٦ۖۚ- طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] ، الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] ، وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] ، فهذا عامّ في الرّجعيّة وغیر الرّجعيّة، وقوله : وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] ، خاصّ في الرّجعيّة، وقوله : فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ- [ البقرة 230] ، أي : بعد البین، فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] ، يعني الزّوج الثّاني . وَانْطَلَقَ فلانٌ: إذا مرّ متخلّفا، وقال تعالی: فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ [ القلم 23] ، انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] ، وقیل للحلال :- طَلْقٌ ، أي : مُطْلَقٌ لا حَظْرَ عليه، وعدا الفرس طَلْقاً أو طَلْقَيْنِ اعتبارا بتخلية سبیله . والمُطْلَقُ في الأحكام : ما لا يقع منه استثناء «2» ، وطَلَقَ يَدَهُ ، وأَطْلَقَهَا عبارةٌ عن الجود، وطَلْقُ الوجهِ ، وطَلِيقُ الوجهِ : إذا لم يكن کالحا، وطَلَّقَ السّليمُ : خَلَّاهُ الوجعُ ، قال الشاعر :- 302-- تُطَلِّقُهُ طوراً وطورا تراجع«3» ولیلة طَلْقَةٌ: لتخلية الإبل للماء، وقد أَطْلَقَهَا .- ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] طلاق صرف دو بار ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے کے رہیں ۔ میں طلاق کا لفظ عام ہے جو رجعی اور غیر رجعی دونوں کو شامل ہے ۔ لیکن آیت کریمہ : ۔ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] اور ان کے خاوند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہونے کا حکم رجعی طلاق کے ساتھ مخصوص ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة 230] پھر اگر شوہر ( دو طلاقوں کے بعد تیسری ) طلاق عورت کو دے دے تو ۔۔۔۔ اس پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی ۔ میں من بعد کے یہ معنی ہیں کہ اگر بینونت یعنی عدت گزرجانے کے بعد تیسری طلاق دے ۔ تو اس کے لئے حلال نہ ہوگی تا و قتیلہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] میں طلقھا کے معنی یہ ہیں کہ اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں آنا چاہیئے کے تو ان کے دوبارہ نکاح کرلینے میں کچھ گناہ نہیں ہے ۔ انطلق فلان کے معنی چل پڑنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ ، [ القلم 23] تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے : ۔ انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] جس چیز کو تم جھٹلا یا کرتے تھے اب اسکی طرف چلو ۔ اور حلال چیز کو طلق کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کھالینے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی ۔ عد الفرس طلقا اوطلقین گھوڑے نے آزادی سے ایک دو دوڑیں لگائیں اور فقہ کی اصطلاحی میں مطلق اس حکم کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی جزئی مخصوص نہ کی گئی ہو ۔ طلق یدہ واطلقھا اس نے اپنا ہاتھ کھول دیا ۔ طلق الوجہ اوطلیق الوجہ خندہ رو ۔ ہنس مکھ ، طلق السلیم ( مجہول ) مار گزیدہ کا صحت یاب ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) تطلقہ طورا وطور الرجع کہ وہ کبھی در د سے آرام پالیتا ہے اور کبھی وہ دور دوبارہ لوٹ آتا ہے لیلۃ طلحۃ وہ رات جس میں اونٹوں کو پانی پر وارد ہونے کے لئے آزاد دیا جائے کہ وہ گھاس کھاتے ہوئے اپنی مرضی سے چلے جائیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ الطلق الابل یعنی اس نے پانی پر وار ہونے کے لئے اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا ۔- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ، وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف 60] ، إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص 20] ، قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل 29] ، وغیر ذلک من الآیات . يقال : فلان مِلْءُ العیونِ. أي : معظّم عند من رآه، كأنه ملأ عينه من رؤيته، ومنه : قيل شابّ مَالِئُ العینِ «3» ، والملأ : الخلق المملوء جمالا، قال الشاعر : فقلنا أحسني مَلَأً جهيناومَالَأْتُهُ : عاونته وصرت من ملئه . أي : جمعه . نحو : شایعته . أي : صرت من شيعته، ويقال : هو مَلِيءٌ بکذا . والمَلَاءَةُ : الزّكام الذي يملأ الدّماغ، يقال : مُلِئَ فلانٌ وأُمْلِئَ ، والمِلْءُ :- مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ.- ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف 60] اور قوم فرعون میں جو سر دور تھے کہنے لگے ۔ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص 20] کہ شہر کے رئیس تمہارے بارے میں صلاحیں کرتے ہیں ۔ قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل 29] وہ کہنے لگی کہ اے اہل در بار میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ محاورہ ہے : ۔ فلان ملاء العیون یعنی سب اسے عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں گویا اس نے ان کی نظروں کو اپنے جلوہ سے بھر دیا ہے ۔ اسی سے کہا گیا ہے ۔ شاب مللی العین اپنی خوبصورتی سے آنکھ کو بھر دینے والا نوجوان ۔ الملاء اخلاق جو حسن سے بھر پور ہوں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 412 ) فقلنا احسنی ملاء جھینا تو ہم نے کہا کہ اسے چھینہ اپنے اخلاق درست کرو ۔ مالا تہ کے معنی کسی کا معاون بننے اور اس کے گردہ میں شامل ہونے کے ہیں ۔ جیسا کہ شایعتہ کے معنی کسی طرف دراوں میں داخل ہونے کے آتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ ھو ملی بکذا ینعی وہ فلاں چیز سے پر ہے ۔ الملاء زکام جو فضلہ سے دماغ کو بھر دے اور ملی فلان فلان واملا کے معنی زکام زدہ ہونے کے ہیں المل کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ مجھے ایک ، دو ، تین پیمانے بھر کر دو ۔- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔
اور ان کفار قریش کے رئیس عتبہ، شیبہ ابی خلف، ابو جہل مجلس سے یہ کہتے ہوئے چلے کہ یہاں سے چلو چلو ابو جہل نے ان سرداروں سے کہا، کہ ہم بات اب کراچکے اپنے معبودوں کے پاس چلو اور ان ہی کی عبادت پر قائم رہو محمد سب کو تباہ کرنا چاہتے ہیں یا یہ کہ یہ تو کوئی مطلب کی بات معلوم ہوتی ہے اس کے ذریعے یہ حکومت کرنا چاہتے ہیں۔
آیت ٦ وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ ” اور چل پڑے ان کے سردار (یہ کہتے ہوئے) کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ “- یہ آیت لفظی تصویر کشی ( ) کا خوبصورت نمونہ پیش کرتی ہے۔ ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد مکہ کے مخصوص ماحول میں ایک مجمع کا نقشہ نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے ‘ جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطاب فرما رہے ہیں۔ مجمع میں عام لوگوں کے ساتھ قریش کے چند سردار بھی موجود ہیں۔ سب لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں بڑے دھیان سے سن رہے ہیں ‘ مگر تھوڑی دیر کے بعد ان کے سردار یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل پڑتے ہیں کہ چلو چلو یہاں سے تم لوگ کہاں کھڑے ہو ؟ کس کی باتیں سن رہے ہو ؟ کیا ان کے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے ؟ چھوڑو ان باتوں کو اور جائو اپنا اپنا کام کرو اور سنو ‘ ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب باتوں کے پیچھے ضرور ان کا کوئی مفاد پوشیدہ ہے۔ یہ دعوت تو اس غرض سے دی جارہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں اپنا اقتدار قائم کر کے ہم پر حکم چلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے تم اپنے عقائد اور اپنے معبودوں کی پرستش پر مضبوطی سے جمے رہو اور ان باتوں پر دھیان مت دو
سورة صٓ حاشیہ نمبر :6 اشارہ ہے ان سرداروں کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر ابو طالب کی مجلس سے اٹھ گئے تھے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :7 یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم سب تمہارے تابع فرمان ہو جائیں گے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :8 ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے ، دراصل یہ دعوت اس غرض سے دی جا رہی ہے کہ ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے تابع فرمان ہو جائیں اور یہ ہم پر اپنا حکم چلائیں ۔
3: یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں کے ذریعے (معاذاللہ) اپنا اقتدار قائم کرناچاہتے ہیں۔