Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تخلیق آدم اور ابلیس کی سرکشی ۔ یہ قصہ سورہ بقرہ ، سورہ اعراف ، سورہ حجر ، سورہ سبحان ، سورہ کہف اور اس سورہ ص میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت آدم کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں مٹی سے آدم کو پیدا کرنے والا ہوں ۔ جب میں اسے پیدا کر چکوں تو تم سب اسے سجدہ کرنا تاکہ میری فرمانبرداری کے ساتھ ہی حضرت آدم کی شرافت و بزرگی کا بھی اظہار ہو جائے ۔ پس کل کے کل فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی ۔ ہاں ابلیس اس سے رکا ، یہ فرشتوں کی جنس میں سے تھا بھی نہیں بلکہ جنات میں سے تھا ۔ طبعی خباثت اور جبلی سرکشی ظاہر ہو گئی ۔ سوال ہوا کہ اتنی معزز مخلوق کو جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو نے میرے کہنے کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا ؟ یہ تکبر اور یہ سرکشی؟ تو کہنے لگا کہ میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوں کہاں آگ اور کہاں مٹی؟ اس خطا کار نے اس کے سمجھنے میں بھی غلطی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غارت ہو گیا حکم ہوا کہ میرے سامنے سے منہ ہٹا میرے دربار میں تجھ جیسے نافرمانوں کی رسائی نہیں تو میری رحمت سے دور ہو گیا اور تجھ پر ابدی لعنت نازل ہوئی اور اب تو خیرو خوبی سے مایوس ہو جا ۔ اس نے اللہ سے دعا کی کہ قیامت تک مجھے مہلت دی جائے ۔ اس حلیم اللہ نے جو اپنی مخلوق کو ان کے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا اس کی یہ التجا پوری کر دی اور قیامت تک کی اسے مہلت دے دی ۔ اب کہنے لگا میں تو اس کی تمام اولاد کو بہکا دوں گا صرف مخلص لوگ تو بچ جائیں گے منظور اللہ بھی یہی تھا جیسا کہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں بھی ہے مثلا ( قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۡ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلًا 62؀ ) 17- الإسراء:62 ) اور ( اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ 42؀ ) 15- الحجر:42 ) فالحق کو حضرت مجاہد نے پیش سے پڑھا ہے معنی یہ ہیں کہ میں خود حق ہوں اور میری بات بھی حق ہی ہوتی ہے اور ایک روایت میں ان سے یوں مروی ہے کہ حق میری طرف سے ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں اوروں نے دونوں لفظ زبر سے پڑھے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں یہ قسم ہے ۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے ( وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ 13؀ ) 32- السجدة:13 ) یعنی میرا یہ قول اٹل ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو اس قسم کے انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا اور جیسے فرمان ہے ( اذھب فمن تبعک ) الخ ، یہاں سے نکل جا جو شخص بھی تیری مانے گا اس کی اور تیری پوری سزا جہنم ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یہ قصہ اس سے قبل سورة بقرہ، سورة اعراف، سورة حجر، سورة بنی اسرائیل اور سورة کہف میں بیان ہوچکا ہے اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔ 71۔ 2 یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس لئے کہ وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ : یہ ملأ اعلیٰ میں ہونے والی ایک بحث کا ذکر ہے جو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق ہوئی۔ اس مجلس میں فرشتوں کے ساتھ ابلیس بھی تھا اور اسے بھی آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تفصیل سورة اعراف (١١) میں دیکھیے۔ مفسر رازی نے فرمایا : ” اس قصّے کے یہاں خاص طور پر ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ کفار کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے روکنے والی چیز ان کا حسد اور کبر تھا، ابلیس پر لعنت کا سبب بھی اس کا آدم (علیہ السلام) پر حسد اور کبر تھا، اس لیے کفار کو یہ قصّہ سنایا۔ “- اللہ تعالیٰ کے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنانے، اس میں اپنی روح پھونکنے، فرشتوں کو آدم کے سامنے سجدے کا حکم دینے اور شیطان کے سجدے سے انکار اور اس کے نتیجے کے متعلق تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ مثلاً دیکھیے سورة بقرہ (٣٠ تا ٣٨) ، حجر (٢٥ تا ٤٣) ، اعراف (١١ تا ٢٥) ، بنی اسرائیل (٦١ تا ٦٥) ، کہف (٥٠) اور سورة طٰہٰ (١١٦ تا ١٢٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ ، (جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا، الخ) یہاں تخلیق آدم کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی مذکورہ بالا گفتگو کی طرف اشارہ کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح ابلیس نے محض حسد اور تکبر کی وجہ سے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا، اسی طرح مشرکین عرب بھی حسد اور تکبر کی وجہ سے آپ کی بات نہیں مان رہے، اور جو انجام ابلیس کا ہوا وہی ان کا بھی ہونا ہے۔ (تفسیر کبیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ۝ ٧١- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ” جب کہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں ایک بشر کو مٹی سے۔ “- قصہ آدم و ابلیس کے ذکر کے حوالے سے یہ قرآن کریم کا ساتواں اور آخری مقام ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :59 یہ جھگڑے کی تفصیل ہے جس کی طرف اوپر کی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور جھگڑے سے مراد شیطان کا خدا سے جھگڑا ہے جیسا کہ آگے کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ ملاءِ اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطان کا مکالمہ دو بدو نہیں بلکہ کسی فرشتے ہی کے توسط سے ہوا ہے ۔ اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ملاء اعلیٰ میں شامل تھا ۔ جو قصہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے وہ اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول ، ص 61 تا 69 ۔ جلد دوم ، صفحات 10 تا 18 ۔ 504 تا 507 ۔ 627 تا 630 ۔ جلد سوم صفحات 29 ۔ 30 ۔ 129 تا 136 ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :60 بَشَر کے لغوی معنی ہیں جسم کثیف جس کی ظاہری سطح کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی نہ ہو ۔ انسان کی تخلیق کے بعد تو یہ لفظ انسان ہی کے لیے استعمال ہونے لگا ہے ۔ لیکن تخلیق سے پہلے اس کا ذکر لفظ بشر سے کرنے اور اس کو مٹی سے بنانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ میں مٹی کا ایک پتلا بنانے والا ہوں جو بال و پر سے عاری ہو گا ۔ یعنی جس کی جلد دوسرے حیوانات کی طرح اون ، یا صوف یا بالوں اور پروں سے ڈھکی ہوئی نہ ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani