Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں میں آپ اعلان کر دیں کہ میں تبلیغ دین پر اور احکام قرآن پر تم سے کوئی اجرت و بدلہ نہیں مانگتا ۔ اس سے میرا مقصود کوئی دنیوی نفع حاصل کرنا نہیں اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں کہ اللہ نے نہ اتارا ہو اور میں جوڑ لوں ۔ مجھے تو جو کچھ پہنچایا ہے وہی میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں نہ کمی کروں نہ زیادتی اور میرا مقصود اس سے صرف رضائے رب اور مرضی مولیٰ ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگوں جسے کسی مسئلہ کا علم ہو وہ اسے لوگوں سے بیان کر دے اور جو نہ جانتا ہو وہ کہدے کہ اللہ جانے ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی فرمایا کہ میں تکلف کرنے والا نہیں ہوں ۔ یہ قرآن تمام انسانوں اور جنوں کے لئے نصیحت ہے جیسے اور آیت میں ہے تاکہ میں تمہیں اور جن جن لوگوں تک یہ پہنچے آگاہ اور ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے کہ جو شخص بھی اس سے کفر کرے وہ جہنمی ہے ۔ میری باتوں کی حقیقت میرے کلام کی تصدیق میرے بیان کی سچائی میرے زبان کی صداقت تمہیں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گی یعنی مرتے ہی ، قیامت کے قائم ہوتے ہی ۔ موت کے وقت یقین آ جائے گا اور میری کہی ہوئی خبریں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے ۔ واللہ اعلم بالصواب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ ص کی تفسیم ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کے انعام و احسان پر اس کا شکر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 یعنی اس دعوت و تبلیغ سے میرا مقصد صرف امر الٰہی ہے، دنیا کمانا نہیں۔ 86۔ 2 یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کردوں جو اس نے نہ کہی ہو یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں جس کا حکم اللہ نے مجھے نہ دیا ہو بلکہ کوئی کمی بیشی کئے بغیر میں اللہ کے احکام تم تک پہنچا رہا ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] یعنی میں بالکل بےلوث ہو کر تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ اس کا نہ تم سے کوئی صلہ مانگتا ہوں اور نہ ہی میری کوئی ذاتی غرض اس سے وابستہ ہے اور نہ میں ان لوگوں میں سے ہوں کہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لئے جھوٹے دعوے لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور اس بات پر شہادت میری سابقہ تمام زندگی ہے جسے تم خوب جانتے ہو۔ - خ لاعلمی کا اعتراف کرلینا بھی عالم ہونے کی دلیل ہے :۔ لفظ متکلّفین کے معنی درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتے ہیں : مسروق کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کے ہاں گئے۔ انہوں نے کہا : لوگو جو شخص کوئی بات جانتا ہو تو اسے بیان کرے اور اگر نہ جانتا ہو تو کہہ دے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ایسا کہنا بھی کمال علم کی دلیل ہے۔ اللہ عزوجل نے اپنے نبی سے فرمایا : کہ میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ ہی میں دل سے باتیں بنانے والوں سے ہوں (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ : یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ میں دین کی تبلیغ پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، نہ میرا مقصود اس سے کوئی دنیوی فائدہ حاصل کرنا ہے اور نہ ہی میں تکلّف کرنے والوں سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل نہ کیا ہو اور میں اپنے پاس سے بنا لوں، یا کسی دوسرے کی بات کو اپنی طرف منسوب کرلوں۔ انس (رض) نے فرمایا، ہم عمر (رض) کے پاس تھے تو انھوں نے فرمایا : ( نُھِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ ) [ بخاري، الإعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال و من تکلف۔۔ : ٧٢٩٣ ] ” ہمیں تکلّف سے منع کردیا گیا ہے۔ “ - ” الْمُتَكَلِّفِيْنَ “ کا مطلب عبداللہ بن مسعود (رض) کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے جو امام بخاری (رض) نے اس سورت کی تفسیر میں نقل فرمایا ہے، مسروق کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود (رض) ہمارے پاس آئے اور انھوں نے فرمایا : ( یَا أَیُّہَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَیْءًا فَلْیَقُلْ بِہِ ، وَ مَنْ لَّمْ یَعْلَمْ فَلْیَقُلِ اللّٰہُ أَعْلَمُ ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ یَّقُوْلَ لِمَا لَا یَعْلَمُ اللّٰہُ أَعْلَمُ ، قَال اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِنَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ) [ بخاري، التفسیر، باب، قولہ : ( وما أنا من المتکلفین ) : ٤٨٠٩ ] ” لوگو جو شخص کوئی چیز جانتا ہے وہ اسے بیان کرے اور جو نہیں جانتا وہ کہہ دے ” اللہ اعلم “ کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، کیونکہ یہ بھی علم میں داخل ہے کہ جو بات نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے ” اللہ اعلم “ کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اللہ عز و جل نے اپنے نبی سے فرمایا : (قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ) ” کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ ہی میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تکلف اور تصنع کی مذمت :- (آیت) وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ۔ (اور میں بناوٹ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں) مطلب یہ ہے کہ میں تکلف اور تصنع کو اپنی نبوت و رسالت اور علم و حکمت کا اظہار نہیں کر رہا بلکہ اللہ کے احکام کو ٹھیک ٹھیک پہنچا رہا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تکلف اور تصنع شرعاً مذموم ہے۔ چناچہ اس کی مذمت میں بعض احادیث وارد ہوئی ہیں۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا ارشاد منقول ہے کہ - ” اے لوگو، تم میں سے جس شخص کو کسی بات کا علم ہو تو وہ لوگوں سے کہہ دے، لیکن جس کا علم نہ ہو تو وہ ” اللہ اعلم “ کہنے پر اکتفا کرلے، (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا ہے۔ (آیت) قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ۝ ٨٦- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- كلف - الْكَلَفُ : الإيلاع بالشیء . يقال : كَلِفَ فلان بکذا، وأَكْلَفْتُهُ به : جعلته كَلِفاً ، والْكَلَفُ في الوجه سمّي لتصوّر كُلْفَةٍ به، وتَكَلُّفُ الشیءِ : ما يفعله الإنسان بإظهار كَلَفٍ مع مشقّة تناله في تعاطيه، وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین :- محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات .- والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» «1» . وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . نحو قوله : وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ [ الحج 78] ، وقوله : فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً الآية [ النساء 19] .- ( ک ل ف ) الکلف ( س) کسی چیز پر شیفتہ ہونا محاورہ ہے ۔ کلف فلان بکذا ۔ فلان اس پر شفیتہ ہے ۔ اکلفتہ بہ میں نے اسے شیفتہ کردیا ۔ الکف ۔ ( ایضا ) چہرہ پر کے سیاہ دھبے ، چہرہ کی چھائیاں گویا اس پر کفلت کا اثر ظاہر ہے ۔ التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں جیسے فرمایا : وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ [ الحج 78] اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی اور تمہارے لئے تمہارے باپ ابراہیم کا دین پسند کیا ۔ اور نزی فرمایا ؛فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً الآية [ النساء 19] مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا “- یہ واقعہ سنا کر اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاطب ہو کر فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں جتلائیں کہ میں تم لوگوں کو یہ غیب کی خبریں سنا رہا ہوں ‘ ازل میں رو نما ہونے والے واقعات کی تفصیلات سے تمہیں آگاہ کر رہا ہوں ‘ لیکن تم ذرا یہ بھی تو سوچو کہ میں نے اس سب کچھ کے عوض تم لوگوں سے کبھی کوئی اجر یا انعام تو طلب نہیں کیا۔- وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ ” اور میں کوئی بناوٹ کرنے والوں میں سے بھی نہیں ہوں۔ “- مُتَـکَلِّف (تکلف کرنے والا) کا مفہوم سمجھنے کے لیے دو ایسے اشخاص کی مثال سامنے رکھیں جن میں سے ایک شاعر ہے اور دوسرا متشاعر۔ ایک شخص فطری طور پر شاعر ہے ‘ شاعری اس کی طبیعت میں گندھی ہوئی ہے اور اس پر اشعار کی آمد ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شخص (متشاعر) کی طبیعت شعر کے لیے بالکل موزوں نہیں ہے۔ البتہ وہ محنت کرتا ہے ‘ علم عروض کے امور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے ‘ ذخیرئہ الفاظ جمع کرتا ہے ‘ قافیے جوڑتا ہے اور یوں تصنع ّاور تکلف ّسے شعر کہتا ہے۔ چناچہ یہ شخص شاعری کے میدان میں گویا ” مُتَکَلِّف “ ہے۔ چناچہ ان آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے مشرکین ِمکہ ّکے لیے کہلوایا جا رہا ہے کہ لوگو کچھ تو عقل سے کام لو ‘ تم لوگ مجھے بچپن سے جانتے ہو : فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖط (یونس : ١٦) ” میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اس سے پہلے بھی “۔ میرے عادات واطوار اور میری طرز زندگی سے تم اچھی طرح واقف ہو۔ تم خوب جانتے ہو کہ میں کوئی تکلف اور تصنع پسند شخص نہیں ہوں۔ تم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہو کہ میں نے اب تک کی عمر میں کبھی کوئی شعر نہیں کہا ‘ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ میں نے خطابت کا فن سیکھنے کے لیے کبھی کوئی مشقت یا ریاضت نہیں کی۔ تو تم لوگوں نے یہ کیسے سوچ لیا ہے کہ اب میں نے اچانک تکلف اور تصنع کا سہارا لے کر شاعری میں طبع آزمائی شروع کردی ہے اور تم لوگوں کو وحی کے نام پر میں اپنا کلام سنا رہا ہوں ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :71 یعنی میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے یہ تبلیغ نہیں کر رہا ہوں ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :72 یعنی میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے جھوٹے دعوے لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ کچھ بن بیٹھتے ہیں جو فی الواقع وہ نہیں ہوتے ۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے محض کفار مکہ کی اطلاع کے لیے نہیں کہوائی گئی ہے ، بلکہ اس کے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پوری زندگی شہادت کے طور پر موجود ہے جو نبوت سے پہلے انہی کفار کے درمیان چالیس برس تک گزر چکی تھی ۔ مکے کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک بناوٹی آدمی نہیں ہیں ۔ پوری قوم میں کسی شخص نے بھی کبھی ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہ کرنے کی گنجائش ہوتی کہ وہ کچھ بننا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani