[٢٢] ہر نبی سب سے پہلے اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے اور احکام الہٰی کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے :۔ ہر نبی پر یہ واجب ہوتا ہے کہ سب سے پہلے خود اپنی نبوت پر ایمان لائے۔ پھر دوسروں کو دعوت دے۔ اسی طرح اس پر یہ بھی واجب ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو بھی حکم نازل ہو سب سے پہلے خود اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کو بطور نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرے پھر دوسروں کو دعوت دے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی زبان سے یہ بات کہلوائی کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ خالصتا ً اللہ اکیلے کی عبادت کروں اور اس حکم پر سب سے پہلے میں خود سرتسلیم خم کرتا ہوں۔
قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ ۔۔ : سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ ) [ الزمر : ٢ ] اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ کہہ دے مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اس حال میں کہ اپنی بندگی، اطاعت اور نیت کو اسی کے لیے خالص کرنے والا ہوں۔ تفصیل اسی سورت کی آیت (٢) میں دیکھیے۔
خلاصہ تفسیر - آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو (منجانب اللہ) حکم ہوا ہے کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھوں (یعنی اس میں شائبہ شرک کا نہ ہو) اور مجھ کو (یہ بھی) حکم ہوا ہے کہ (اس امت کے لوگوں میں) سب مسلمانوں میں اول (اسلام کو حق ماننے والا) میں ہوں (اور ظاہر ہے کہ قبول احکام میں نبی کا اول ہونا ضروری ہے اور) اور آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ اگر (بفرض محال) میں اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن (یعنی قیامت) کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں اور آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (مجھے جس بات کا حکم ہوا ہے میں تو اسی پر کاربند ہوں چنانچہ) میں تو اللہ ہی کی عبادت اس طرح کرتا ہوں کہ عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھتا ہوں (جس میں شرک کا ذرا سا شائبہ نہیں) تو (اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم بھی ایسی ہی خالص عبادت کرو لیکن اگر تم نہیں مانتے تو تم جانو اور) خدا کو چھوڑ کر تمہارا دل جس چیز (کی عبادت) کو چاہے اس کی عبادت کرو (قیامت کے روز اس کا مزہ چکھو گے اور) آپ ان سے (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ پورے زیاں کار وہی لوگ ہیں جو اپنی جانوں سے اور اپنے متعلقین سے قیامت کے روز خسارے میں پڑے (یعنی نہ اپنی جان سے اس کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ اپنے متعلقین سے کیونکہ وہ متعلقین بھی اگر انہیں کی طرح گمراہ تھے تو وہ بھی گرفتار عذاب ہوں گے دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے اور اگر وہ مومن مخلص ہو کر جنت میں ہوں گے تو بھی وہ کافروں کی کوئی سفارش کر کے نفع نہیں پہنچا سکتے) یاد رکھو کہ کھلا ہوا خسارہ یہ ہے کہ ان کے لئے ان کے اوپر سے بھی آگ کے شعلے ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی آگ کے محیط شعلے ہوں گے یہ وہی (عذاب) ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے (اور اس سے بچنے کی تدبیریں بتلاتا ہے جو دین حق پر عمل کرنا ہے سو) اے میرے بندو مجھ سے (یعنی میرے عذاب سے) ڈرو (یہ حال تو کفار مشرکین کا ہوا) اور جو لوگ شیطان کی عبادت سے بچتے ہیں (شیطان کی عبادت سے مراد اس کی اطاعت ہے) اور (ہمہ تن) اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، وہ مستحق خوشخبری سنانے کے ہیں، سو آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو (اس صفت کے ساتھ بھی موصوف ہیں کہ) اس کلام (الٰہی) کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر اس کی اچھی باتوں پر (اور اللہ کے احکام سب اچھے ہیں، جیسا کہ آگے آیت احسن الحدیث میں آتا ہے) چلتے ہیں، یہی ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی ہیں جو اہل عقل ہیں (سو ان لوگوں کو بشارت دے دیجئے۔ جس چیز کی بشارت دینا ہے اس کا بیان تو آگے آئے گا (آیت) لکن الذین التقوا۔ میں درمیان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں کا مومن بنادینا آپ کے اختیار سے خارج ہے اس لئے اس پر کوئی غم نہ کریں کہ) بھلا جس شخص پر عذاب کی (ازلی تقدیری) بات محقق ہوچکی تو کیا آپ ایسے شخص کو جو کہ (علم الٰہی میں) دوزخ میں ہے (موجیات جہنم سے) چھڑا سکتے ہیں (یعنی جو دوزخ میں جانے والے ہیں وہ کوشش سے بھی گمراہی سے باز نہیں آویں گے، اس لئے ان پر افسوس اور غم بےکار ہے) لیکن جو لوگ (ایسے ہیں کہ ان کے حق میں کلمة العذاب محقق نہیں ہوا، اور اس وجہ سے وہ آپ سے احکام سن کر) اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ ان کے لئے (جنت کے) بالاخانے ہیں جن کے اوپر اور بالاخانے ہیں جو بنے بنائے تیار ہیں (اور) ان کے نیچے نہریں چل رہی ہیں۔ یہ اللہ نے وعدہ کیا ہے (اور) اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔- (یہ مضمون اس بشارت کا ہے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے فبشر عباد)
قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ ١١ۙ- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔
(١١۔ ١٢) اور آپ مکہ والوں سے فرما دیجیے جبکہ وہ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ آپ ان کے آبائی دین کو اختیار کرلیں کہ مجھ کو بذریعہ قرآن کریم یہ حکم ہوا ہے کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ عبادت و توحید کو اس کے لیے خالص رکھوں اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اسلام لانے میں سب سے پہلا میں ہوں۔- اور آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر میں تمہارے دین کو اختیار کرلوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
آیت ١١ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجیے مجھے تو حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ “- یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے آیت ٢ میں بھی آ چکے ہیں۔ یہ مضمون اس سورت کا عمود ہے اور اس میں بار بار آئے گا۔ چناچہ اس مضمون کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اس حوالے سے بنیادی طور پر یہ نکتہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ہرچیز کی طرح عبادت کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک اس کی اصل حقیقت ہے۔ عبادت کا ظاہر اس کی رسومات ہیں۔ ” رسم “ کسی شے کی ظاہری شکل کو کہا جاتا ہے۔ مثلاً یہ لکھائی میں جو حروف اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کی ظاہری اشکال کو ” رسم “ (رسم الخ ط) کہتے ہیں۔ جیسے قرآن کا موجودہ رسم الخط ” رسم عثمانی “ کہلاتا ہے۔ اب اگر نماز کی مثال لیں تو نماز میں کھڑے ہونا ‘ اللہ کی حمد و تسبیح کرنا ‘ رکوع و سجدہ کرنا مراسم عبادت ہیں۔ بعض دوسرے مذاہب میں اپنے معبود کے سامنے مودب کھڑے ہونا ‘ سلیوٹ کرنا اور ہاتھ جو ڑناوغیرہ ان کی عبادت کے مراسم ہیں۔ چناچہ عرف عام میں مراسم ِعبودیت (عبادت کی ظاہری شکل و صورت) کو ہی ” عبادت “ سمجھا جاتا ہے جبکہ عبادت کی اصل حقیقت کچھ اور ہے۔- اب عبادت کی اصل حقیقت کو یوں سمجھیں کہ یہ بھی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک جسد ہے اور ایک اس کی روح۔ اصل عبادت کا جسد ” اطاعت “ ہے۔ لیکن عبادت کے حوالے سے اطاعت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے لفظ ” عبادت “ کے لغوی معنی کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ عبادت کا لفظ ” عبد “ سے مشتق ہے اور عبد کے معنی غلام کے ہیں۔ عبد یا غلام اپنے آقا کی ہمہ تن اور ہمہ وقت اطاعت (غلامی ) کا پابند ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن میں اس سے پہلے ہم یہ لفظ دو مرتبہ غلامی اور کلی اطاعت کے معنی میں پڑھ چکے ہیں۔ سورة المومنون میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرعون کا یہ قول نقل ہوا ہے : وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ۔ کہ ان کی قوم تو ہماری غلام ہے۔ اسی طرح سورة الشعراء میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس مکالمے کا حوالہ آچکا ہے جس میں آپ ( علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کر کے فرمایا تھا : وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ۔ ” اور یہ احسان جو تو مجھے جتلا رہا ہے (کیا یہ اس کا بدلہ ہے) کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ؟ “ اب ظاہر ہے بنی اسرائیل فرعون یا قبطیوں کی پرستش یا پوجا تو نہیں کرتے تھے ‘ وہ ان کی نماز نہیں پڑھتے تھے اور انہیں سجدہ بھی نہیں کرتے تھے۔ البتہ وہ ان کے غلام تھے اور اس حیثیت میں ان کی ” اطاعت “ کے پابند تھے۔ لہٰذا متذکرہ بالا دونوں آیات میں عبد کا لفظ کلی اطاعت یا غلامی کے مفہوم میں ہی استعمال ہوا ہے۔ چناچہ اطاعت یا غلامی دراصل عبادت کا جسد ہے جبکہ اس کی روح ” محبت “ ہے۔ یعنی اگر کسی کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی اطاعت کی جائے تو وہ اس کی عبادت ہوگی ‘ جبکہ جبری اطاعت عبادت نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ١٩٤٧ ء سے پہلے برصغیر میں ہم لوگ انگریز کی اطاعت کرتے تھے ‘ لیکن ہماری اس اطاعت کو عبادت نہیں کہا جاسکتا ‘ اس لیے کہ یہ جبری اطاعت تھی۔- امام ابن تیمیہ (رح) اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیم (رح) نے عبادت کی تعریف یوں کی ہے : العبادۃ تجمع اََصْلَین : غایۃَ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخُضوع یعنی اللہ کی عبادت دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے : اس کے ساتھ غایت درجے کی محبت اور اس کے سامنے غایت درجے کا تذلل اور عاجزی کا اظہار۔ دوسرے لفظوں میں اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان حد درجے کی محبت کے ساتھ خود کو اللہ کے سامنے بچھا دے اور اس کا مطیع و منقاد ہوجائے۔ چناچہ اللہ کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی کلی اطاعت کرنا اصل عبادت ہے ‘ جبکہ مراسم عبادت کی حیثیت عبادت کے ” ظاہر “ کی ہے۔ - آیت زیر مطالعہ کا مضمون گویا اس سورت کا عمود ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اللہ کی اطاعت سے آزاد کسی دوسرے کی مستقل بالذات اطاعت تو شرک ہے ہی ‘ لیکن اگر کسی نے اللہ کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کو بھی شریک کرلیا تو ایسی جزوی یا مشترکہ اطاعت اللہ کو قبول نہیں۔ ایسی اطاعت اللہ کی طرف سے ایسے اطاعت گزار کے منہ پردے ماری جائے گی۔ اس حوالے سے سورة البقرۃ کی آیت ٢٠٨ کا یہ حکم بہت واضح ہے : یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص ” اے اہل ایمان اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو “ یعنی اللہ کو ُ کلی اطاعت مطلوب ہے۔ کسی کی پچیس فی صد ‘ پچاس فی صد یا پچھتر ّ (٧٥) فی صد اطاعت اسے قبول نہیں ۔- یہ تو ہے عبادت کی اصل روح اور اطاعت کی اصل کیفیت جو اللہ کو مطلوب ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم پانچ یا دس فیصد اطاعت پر ہی اللہ کو (نعوذ باللہ ) ٹرخا دیں گے اور وہ اسی معیار کی اطاعت پر ہمیں جنت اور اس کی نعمتوں سے نواز دے گا۔ دراصل ہماری اسی ٹیڑھی سوچ کی وجہ سے آج ہمارے ذہنوں سے زندگی کے تمام گوشوں میں اللہ کی کلی اطاعت اور کلی بندگی کا تصور نکل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کے اسی تصور کو زیر مطالعہ سورتوں میں ایک خاص ترتیب سے اجاگر کیا گیا ہے۔ اس طرح کہ اس مضمون کی جڑیں اس پہلی سورت میں ملیں گی اور اس کی چوٹی چوتھی سورت یعنی سورة الشوریٰ میں جا کر نظر آئے گی۔