18۔ 1 اَحسَنُ سے مراد محکم اور پختہ بات، یا سب سے اچھی بات، یا عقوبیت کے مقابلے میں درگزر اختیار کرتے ہیں۔ 18۔ 2 کیونکہ انہوں نے اپنی عقل سے فائدہ اٹھایا ہے، جب کہ دوسروں نے اپنی عقلوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
[٢٨] اتباع احسن سے کیا مراد ہے ؟ ان لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کی اس صورت میں پیروی کرتے ہیں جو بہتر سے بہتر ہو۔ مثلاً نماز کی ادائیگی کی جائے تو خلوص نیت اور اللہ کی رضا اور اس کی محبت کے جذبے سے ادا کرے۔ بروقت اور باجماعت ادا کرے۔ طہارت اچھی طرح کرے۔ نماز میں خشوع و خضوع ہو اور ظاہری ارکان و آداب بھی درست ہوں۔ تو یہ نماز کی اچھی سے اچھی صورت ہے۔ اب اگر کوئی شخص نماز تو باجماعت ادا کرتا ہے لیکن نماز میں خیال بس دنیوی باتوں کے ہی آتے رہیں۔ نماز میں بےتوجہی ہو۔ فضول حرکتیں بھی کرتا رہے اور سست اور ڈھیلا ڈھالا کھڑا رہے۔ تو نماز تو اس نے بھی ادا کرلی۔ اور اللہ کے حکم کی اطاعت بھی ہوگئی مگر یہ احسن صورت نہیں۔ اور پہلے اور اس شخص کی نماز میں بہت فرق ہے۔ یہی حال تمام اعمال کا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں تو سب کی سنتے ہیں مگر قبول صرف وہ بات کرتے ہیں جو ان سے بہتر ہو پھر اسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ : اس جملے کی تین تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ میرے ان بندوں کو بشارت دے جو ہر بات سنتے ہیں، مگر پیروی صرف قرآن و سنت کی کرتے ہیں، کیونکہ سب باتوں سے اچھی بات اللہ کی نازل کردہ بات ہے، جیسا کہ آگے آیت (٢٣) میں آ رہا ہے : (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْث) ” اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَحْسَنُ الْکَلاَمِ کَلاَمُ اللّٰہِ وَ أَحْسَنُ الْہَدْيِ ہَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) [ نساءي، السھو، باب نوع من الذکر بعد التشھد : ١٣١٢، عن جابر (رض) ] ” ہر کلام سے اچھا اللہ کا کلام ہے اور ہر طریقے سے اچھا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ ہے۔ “ دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ قرآن سنتے ہیں جس میں کچھ احکام حسن (اچھے) ہیں اور کچھ احسن (زیادہ اچھے) ہیں، پھر وہ احسن کی پیروی کرتے ہیں۔ مثلاً قصاص لینا یا معاف کردینا، زیادتی پر انتقام لینا یا صبر کرنا، قرض وصول کرنے میں مہلت دینا یا چھوڑ دینا، اگرچہ تینوں معاملات میں مذکور دونوں کام اچھے ہیں، مگر دوسرا کام پہلے سے زیادہ اچھا ہے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ وہ اچھی بری سبھی باتیں سنتے ہیں، مگر کرتے وہی بات یا وہی کام ہیں جو سب سے اچھا ہو۔ ابن عطیہ نے ” المحرر الوجیز “ میں فرمایا : ” ھُوَ عَامٌّ فِيْ جَمِیْعِ الْأَقْوَالِ وَالْقَصْدُ الثَّنَاءُ عَلٰی ھٰؤُلَاءِ بِبَصَاءِرَ وَ نَظْرٍ سَدِیْدٍ یُفَرِّقُوْنَ بِہِ بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ وَ بَیْنَ الصَّوَابِ وَالْخَطَإِ فَیَتَّبِعُوْنَ الْأَحْسَنَ مِنْ ذٰلِکَ “ ” یہ تمام اقوال کے لیے عام ہے، مقصد ان لوگوں کی بصیرتوں اور درست غور و فکر کی تعریف ہے جس کے ساتھ وہ حق و باطل اور درست اور خطا کے درمیان فیصلہ کرتے ہیں، پھر اس میں سے احسن کی پیروی کرتے ہیں۔ “ الفاظ عام ہونے کی وجہ سے تیسری تفسیر زیادہ ظاہر ہے۔- اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ ۔۔ : ہر قسم کے اقوال سن کر سب سے اچھی بات کی جستجو کر کے اس پر عمل کرنے والوں ہی کو اللہ تعالیٰ نے وہ لوگ قرار دیا جنھیں اس نے ہدایت دی اور صرف انھی کو عقلوں والے قرار دیا۔- 3 اس آیت سے تقلید کی واضح تردید ہو رہی ہے، کیونکہ تقلید کا معنی ہے : ” أَخْذُ قَوْلِ الْغَیْرِ بِلَا دَلِیْلٍ “ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات بلا دلیل لے لینا۔ مقلد اپنے بنائے ہوئے پیشوا کے علاوہ اوّل تو کسی کی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا، اگر سن بھی لے تو اپنے پیشوا کی بات پر جما رہتا ہے۔ دوسری بات خواہ قرآن مجید کی آیت ہو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہو اور خواہ وہ کتنی ہی اچھی ہو، نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے نہ مانتا ہے۔ جب کہ مومن ہر بات غور سے سن کر اس کے حسن و قبح کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور احسن پر عمل کرتا ہے۔ جہنم میں جانے والے تمنا کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں سنتے یا سمجھتے ہوتے، مگر اس وقت جب ان کی تمنا پوری ہونے کی کوئی صورت نہ ہوگی، فرمایا : (وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ) [ الملک : ١٠ ] ” اور وہ کہیں گے، اگر ہم سنتے ہوتے یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔ “ ایسے لوگ نہ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور نہ ان کا شمار ” اولوا الالباب “ میں ہوسکتا ہے۔
معارف ومسائل - فَبَشِّرْ عِبَادِ ۔ الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ - اس آیت کی تفسیر میں حضرات مفسرین کے اقوال متعدد ہیں۔ ایک قول وہ ہے جس کو ابن کثیر نے لیا اور خلاصہ تفسیر مذکور میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ قول سے مراد اللہ کا کلام قرآن یا قرآن مع تعلیمات رسول ہے اور وہ سب احسن ہی احسن ہے۔ اس لئے مقتضی مقام کا بظاہر یہ تھا کہ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَہ، کہا جاتا مگر اس کی جگہ لفظ احسن کا اضافہ کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان لوگوں نے قرآن اور تعلیمات رسول کا اتباع بےبصیرتی کے ساتھ نہیں کیا جیسا بیوقوف لوگوں کا طریقہ ہے کہ جس کی بات سنی بغیر کسی تحقیق و بصیرت کے اس کا اتباع کرنے لگے بلکہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے کلام کو حق اور احسن دیکھنے کے بعد اس کا اتباع کیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں آخر آیت میں ان کو اولوالالباب یعنی عقل والے ہونے کا خطاب دیا گیا ہے۔ اس کی نظیر قرآن ہی میں وہ ارشاد ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات کے متعلق ہوا ہے۔ (آیت) فخذھا بقوة وامر قومک یاخذوا باحسنھا۔ یہاں بھی احسن سے مراد پوری تورات اور اس کے احکام ہیں۔ اسی طرح مذکورہ آیات میں استماع قول سے مراد استماع قرآن اور اتباع احسن سے مراد اتباع پورے قرآن کا ہے جس کو اگلی آیت میں احسن الحدیث فرمایا گیا ہے۔ اسی تفسیر میں کہ قول سے مراد خاص قرآن لیا جائے بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں بھی بہت سے احکام میں حسن اور احسن کے درجات رکھے ہیں۔ مثلاً انتقام اور عفو دونوں جائز ہیں مگر عفو احسن و افضل ہے۔ (آیت) وان تصبرواخیر لکم۔ بہت سی چیزیں جس میں قرآن نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ دونوں میں جس کو چاہے اختیار کرے کوئی گناہ نہیں۔ مگر ان میں سے کسی ایک کو احسن و افضل بھی فرما دیا جیسے (آیت) و ان تعفوا اقرب للتقویٰ میں ہے۔ بہت سی چیزوں میں رخصت دی گئی ہے مگر عزیمت پر عمل کو احسن و افضل فرمایا ہے تو مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ یہ لوگ احکام قرآن رخصت کے بھی سنتے ہیں۔ عزیمت کے بھی مگر اتباع بجائے رخصت کے عزیمت کا کرتے ہیں۔ اور جن دو چیزوں میں ایک حسن ہو دوسری احسن، یہ ان میں سے احسن ہی کو عمل کے لئے اختیار کرتے ہیں۔- اور بہت سے حضرات مفسرین نے اس جگہ قول سے مراد عام لوگوں کے اقوال لئے ہیں جن میں توحید و شرک، کفر و اسلام، حق و باطل پھر حق میں حسن اور احسن اور راجح و مرجوح سب داخل ہیں۔ مطلب آیت کا اس تفسیر پر یہ ہے کہ یہ لوگ باتیں تو سب کی سنتے ہیں۔ کفار کی بھی مومنین کی بھی۔ حق بھی، باطل بھی، اچھی بھی اور بری بھی لیکن اتباع صرف اسی بات کا کرتے ہیں جو احسن ہے۔ توحید و شرک میں سے توحید کا حق و باطل میں سے حق کا اور حق کے مختلف درجات ہوں تو ان میں جو احسن اور راجح ہو اس کا اتباع کرتے ہیں۔ اس لئے ان کو دو صفتوں کے ساتھ موصوف کیا گیا۔ پہلی ھداھم اللہ یعنی یہ لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں۔ اس لئے مختلف قسم کی باتیں سن کر بھٹکتے نہیں۔ دوسرے اولئک ھم اولوالالباب۔ یعنی یہ لوگ عقل والے ہیں۔ عقل کا کام ہی یہ ہے کہ اچھے برے اور حق و باطل میں تمیز کرے۔ اور حسن و احسن کو پہچان کر احسن کو اختیار کرے۔- اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ آیت زید بن عمرو بن نفیل، ابوذرغفاری اور سلمان فارسی (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، زید بن عمرو بن نفیل زمانہ جاہلیت میں بھی شرک وبت پرستی سے نفرت کرتے تھے۔ حضرت ابوذرغفاری اور سلمان فارسی مختلف اہل مذاہب مشرکین پھر یہود و نصاریٰ کی باتیں سننے اور ان کے طور و طریق دیکھنے کے بعد ایمان لائے اور قرآنی علیمات کو سب سے احسن پا کر ان کو ترجیح دی۔ (قرطبی)
الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدٰىہُمُ اللہُ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ ١٨- اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- لب - اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا .- ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269]- ( ل ب ب ) اللب - کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛
جو اس کلام کو کان لگا کر سنتے ہیں اور پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر عمل کرتے ہیں یہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اچھے اچھے کاموں کی ہدایت فرمائی اور یہی وہ لوگ ہیں جو اہل عقل ہیں یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھی اور اسی طرح اہل سنت والجماعت سے وہ جو ان کے نقش قدم پر چلے۔- شان نزول : فَبَشِّرْ عِبَادِ ۔ الَّذِيْنَ (الخ)- جبیر نے اپنی سند سے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے کہ جس وقت آیت کریمہ لھا سبعۃ ابواب یعنی اس دوزخ کے ساتھ دروازے ہیں نازل ہوئی تو ایک انصاری رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے سات غلام تھے میں نے دوزخ کے ساتوں دروازوں میں سے ہر ایک دروازہ کے بدلے ایک غلام کو آزاد کردیا تو اس انصاری کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی یعنی آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجیے جو اس کلام کو کان لگا کر سنتے ہیں۔
آیت ١٨ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ ” جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں ‘ پھر اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ “- یعنی یہ دین جس کی طرف اللہ تمہیں بلا رہا ہے اس کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ پہلاد رجہ اسلام ہے ‘ اس سے اونچا درجہ ایمان اور پھر سب سے اونچا درجہ احسان ہے۔ درجہ احسان پر فائز لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ( المائدۃ) کی بشارت سنائی ہے۔ چناچہ ہمیں چاہیے کہ دین کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور ہر لمحہ بہتر سے بہتر درجے پر پہنچنے کی فکر میں رہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہے۔ دُنیوی معاملات میں تو ہمارا ماٹو بقول حالیؔ یہ ہے کہ ـ: ؎- ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں - جبکہ دین کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ ہم کم سے کم پر گزارا کرنا چاہتے ہیں بلکہ پسپائی اختیار کرنے کی فکر میں ہر وقت کسی گنجائش اور رعایت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ حالانکہ ایک بندہ مومن کو چاہیے کہ دنیا کے معاملے میں تو کم سے کم پر گزارا کرے اور دین کے معاملے میں ہمیشہ عزیمت کا راستہ اختیار کرنے کی فکر میں رہے۔- اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدٰٹہُمُ اللّٰہُ وَاُولٰٓئِکَ ہُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ ” یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو عقل مند ہیں۔ “
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :36 اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ہر آواز کے پیچھے نہیں لگ جاتے بلکہ ہر ایک کی بات سن کر اس پر غور کرتے ہیں اور جو حق بات ہوتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ بات کو سن کر غلط معنی پلٹانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اس کے اچھے اور بہتر پہلو کو اختیار کرتے ہیں ۔
10: اس کا زیادہ واضح مطلب یہ ہے کہ وہ سنتے تو سب کچھ ہیں، لیکن پیروی اسی بات کی کرتے ہیں جو بہترین ہو (روح المعانی عن الزجاج)۔