Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 اس میں مشرک (اللہ کا شریک ٹھہرانے والے) اور مخلص (صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کرنے والے) کی مثال بیان کی گئی ہے یعنی ایک غلام ہے جو کئی شخصوں کے درمیان مشترکہ ہے، چناچہ وہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور ایک غلام ہے جس کا مالک صرف ایک ہی شخص ہے، اس کی ملکیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں یقینا نہیں۔ اسی طرح وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے اور وہ مخلص مومن، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا برابر نہیں ہوسکتے۔ 29۔ 2 اس بات پر کہ اس نے حجت قائم کردی۔ 29۔ 3 اسی لئے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] ایک انسان کے مختلف اور متشاکس آ قا کون کون سے ہیں ؟ تشاکس کے معنی بخل، تند خوئی اور بدمزاجی کی وجہ سے ایک دوسرے سے اپنے اپنے حق کے لئے کھینچا تانی کرنا ہے۔ مثال یہ ہے کہ ایک غلام کے ایک نہیں بلکہ متعدد آقا ہیں۔ اور ہر ایک کا جی یہ چاہتا ہے کہ وہ غلام کو اپنے ہی کام میں لگائے رکھے اور جتنا اس کا حق بنتا ہے اس سے زیادہ اس سے محنت لے۔ دوسروں کی خدمت خواہ وہ کرسکے یا نہ کرے۔ پھر وہ تند خو اور بدسرشت بھی ہیں ان میں سے ہر شخص اس غلام سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہے اور بدسلوکی سے بھی پیش آتا ہے۔ تو بتاؤ اس غلام کا کیا حال ہوگا اور وہ کس مشکل اور مصیبت میں پڑا ہوگا اور دوسرے غلام کا مالک صرف ایک ہی ہے تو بتاؤ ان دونوں غلاموں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے ؟ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے بدسرشت لوگ جو اپنے مشترکہ غلام سے اپنا زیادہ سے زیادہ حق وصول کرنے کے لئے جھگڑتے ہیں۔ غلام کو اس کا حق دینے میں سخت بخیل ہوتے ہیں۔ ایسے غلام کو نہ کوئی صرف اپنا غلام سمجھتا ہے نہ اس کی خبر لیتا ہے نہ اس کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ اور دوسرا غلام جو صرف ایک شخص کا ہو وہ اسے اپنا ہی غلام سمجھتا ہے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی وہ غلام جس کا ایک ہی آقا ہو وہ بہتر ہوا۔- یہ مثال دراصل ایک مشرک اور ایک موحد کی مثال ہے۔ مشرک کئی معبودوں کا غلام ہوتا ہے۔ اسے یہ فکر بھی دامنگیر رہتی ہے کہ اگر ایک کی حاضری اور نذر و نیاز دے کر اس کو خوش کرنے کی کوشش کرے تو دوسرے کہیں بگڑ نہ بیٹھیں اور اسے کوئی گزند نہ پہنچا دیں۔ اسی کھینچا تانی میں وہ پریشان اور پراگندہ دل رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک موحد کو صرف ایک اکیلے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہوتی ہے پھر چونکہ موحد اللہ کا ہی بن کر رہتا ہے اللہ بھی ہر آڑے وقت میں اس کی دستگیری فرماتا، مصائب سے نجات دیتا اور انعامات سے نوازتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کی حالت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ اور اسے سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے غور و فکر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔- اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس مثال میں معبودوں سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کا بخیلی، تند خوئی اور بدمزاجی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی وہ اپنے حقوق کے لئے جھگڑا کرسکتے ہیں۔ لامحالہ ان سے مراد ایسے جیتے جاگتے آقا ہی ہوسکتے ہیں جو عملاً آدمی کو متضادا حکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا آقا تو انسان کا اپنا نفس ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے۔ دوسرے بیشمار آقا گھر میں، خاندان میں، برادری میں، قوم میں اور ملک کے معاشرے میں، مذہبی پیشواؤں میں، حکمرانوں اور قانون سازوں میں، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے، کوئی روٹھ جاتا ہے، کوئی مقاطعہ کرتا ہے، کوئی دیوالیہ نکالتا ہے، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس پریشانی اور تنگی سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ انسان صرف ایک اللہ کا بندہ بن جائے اور اللہ کے احکام میں کسی دوسرے کی قطعاً پروانہ کرے۔ یہی اس کے لئے سلامتی، اطمینان اور نجات کا راستہ ہے۔- [٤٥] الحمد للہ کے استعمال کا خاص موقع :۔ یہاں الحمدللہ کا استعمال ان معنوں میں ہوا ہے کہ بہت سے آقاؤں کے پرستار اس سوال کا جواب دیں تو بھی مرتے ہیں اور اگر نہ دیں تو بھی مرتے ہیں پھر اگر جواب نہ دیں تو گویا یہ ان کے خلاف مسکت دلیل ہوئی۔ اور اگر جواب دیں تو وہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ان دونوں غلاموں کی حالت برابر ہے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ آقا رکھنے والا غلام بہتر ہے۔ لہذا اللہ کا شکر ہے کہ اتنی بات تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک آقا رکھنے والا غلام ہی بہتر ہوسکتا ہے۔ پھر جب عملی زندگی کا وقت آتا ہے تو یہ سب باتیں بھول کر نادان بن جاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلً ۔ :” رَجُلٌ شَکِسٌ“ ضدی، بدخلق، جھگڑنے والا آدمی۔ ” مُتَشٰكِسُوْنَ “ باب تفاعل سے جمع مذکر اسم فاعل ہے، اس باب میں تشارک پایا جاتا ہے، ایک دوسرے سے ضد کرنے والے، جھگڑنے والے۔ یہ مشرک اور موحّد کی مثال ہے، مشرک جو کئی معبودوں کی عبادت کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو کئی آقاؤں کا غلام ہے، جو اس کے مالک ہونے میں شریک ہیں اور سب بدخو، ضدی اور ایک دوسرے سے جھگڑنے والے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ غلام اسی کے کام میں لگا رہے اور ہر ایک اسے اپنے مطلب کا حکم دیتا ہے، اسے دوسروں کے کام سے کوئی سروکار نہیں، وہ حیران ہے کہ کس کا حکم بجا لائے۔ پھر ان میں سے کوئی بھی اس غلام کی ضروریات کا ذمہ دار بننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ ہر ایک اسے دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نہ وہ ان میں سے کسی کو خوش کرسکتا ہے نہ اس کی کوئی حاجت یا ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اس کی زندگی جس قدر تنگ ہوگی، بخوبی ظاہر ہے۔ اس کے مقابلے میں موحّد کی مثال اس آدمی کی ہے جو صرف ایک آقا کا غلام ہے، اسی کی خدمت کرتا ہے اور اسی کے سامنے اپنی ہر حاجت اور ضرورت پیش کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ آدمی نہایت اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرے گا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” ایک غلام جو کئی کا ہو، کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے تو اس کی پوری خبر نہ لے اور ایک غلام جو سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا سمجھے اور پوری خبر لے، یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں اور جو کئی رب کے بندے ہیں۔ “ (موضح)- اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ : یہاں ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں میں سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں، بلکہ یا تو وہ تسلیم کریں گے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے، یا پھر خاموشی اختیار کریں گے، دونوں صورتوں میں توحید کی خوبی اور شرک کی برائی ثابت ہوجائے گی۔ اس پر فرمایا، سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ایسی بہترین اور آسان مثال کے ساتھ توحید کا مسئلہ واضح فرمایا۔- بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق ماننے کے باوجود اکثر لوگ ایک اللہ کی عبادت اور بہت سے معبودوں کی عبادت کا فرق نہیں جانتے، اس لیے شرک میں گرفتار رہتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ نے (موحد اور مشرک کے بارے میں) ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک شخص ہے (غلام) جس میں کئی ساتھی ہیں جن میں باہم ضدا ضدی (بھی) ہے اور ایک اور شخص ہے کہ پورا ایک ہی شخص کا (غلام) ہے (تو) کیا ان دونوں کی حالت یکساں (ہو سکتی) ہے (اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں، پہلا شخص تکلیف میں ہے کہ ہمیشہ متحیر رہتا ہے کہ کس کا کہنا مانوں کس کا نہ مانوں۔ دوسرا آرام میں ہے کہ ایک ہی شخص سے تعلق ہے۔ پس پہلی مثال شرک کی ہے کہ ہمیشہ ڈانواں ڈول رہتا ہے۔ کبھی غیر اللہ کی طرف دوڑتا ہے، کبھی خدا کی طرف۔ پھر غیر اللہ میں بھی ایک پر اطمینان نہیں ہوتا۔ کبھی کسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ کبھی کسی کی طرف۔ اس سوال کا جواب کفار بھی اس کے سوا نہیں دے سکتے کہ غلام مشترک بڑی مصیبت میں رہتا ہے اس لئے ان پر حجت تمام ہوگئی۔ اس اتمام حجت پر فرمایا الحمد للہ حق ثابت ہوگیا۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ قبول نہیں کرتے۔ بلکہ (قبول تو کیا) ان میں اکثر لوگ سمجھتے بھی نہیں (کیونکہ سمجھنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے۔ آگے فیصلہ قیامت کا ذکر ہے جو آخری فیصلہ ہوگا۔ جس سے کوئی بھاگ نہیں سکے گا اور فیصلہ قیامت سے پہلے موت کی خبر دیتے ہیں۔ کیونکہ موت ہی مقدمہ اور طریقہ ہے آخرت تک پہنچنے کا اس لئے فرمایا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ اگر دنیا میں کسی عقلی اور نقلی فیصلہ کو نہیں مانتے تو آپ غم نہ کیجئے، کیونکہ دنیا سے) آپ کو بھی مر جانا ہے اور ان کو بھی مر جانا ہے، پھر قیامت کے روز تم (دونوں فریق اپنے اپنے) مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کرو گے۔ (اس وقت عملی فیصلہ ہوجاوے گا جس کے ظہور کا بیان آگے آتا ہے فمن اظلم) سو (اس مخاصمت اور عدالت میں مقدمات پیش ہونے کے وقت فیصلہ یہ ہوگا کہ باطل پرستوں کو عذاب جہنم ہوگا اور حق پرستوں کو اجر عظیم ملے گا اور ظاہر ہے کہ) اس شخص سے زیادہ بےانصاف (اور ناحق پرست) کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے (یعنی خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کہے کہ اس کے ساتھ دوسرے بھی شریک ہیں) اور سچی بات کو (یعنی قرآن) کو جبکہ وہ اس کے پاس (رسول کے ذریعہ) پہنچی جھٹلا دے (تو ایسے شخص کا بڑا ظالم ہونا بھی ظاہر ہے اور ظلم کا مستحق ہونا بڑے عذاب کا بھی ظاہر ہے اور بڑا عذاب جہنم کا ہے تو) کیا (قیامت کے دن) جہنم میں ایسے کافروں کا ٹھکانہ نہ ہوگا (یہ فیصلہ تو باطل پرستوں کا ہوا) اور (برخلاف ان کے) جو لوگ سچی بات لے کر خدا کی طرف سے یا رسول کی طرف سے لوگوں کے پاس) آئے اور (خود بھی) اس کو سچ جانا (یعنی یہ لوگ صادق بھی ہیں اور مصدق بھی جیسا کہ پہلے لوگ کاذب بھی تھے اور مکذب بھی) تو یہ لوگ پرہیزگار ہیں (ان کا فیصلہ یہ ہوگا کہ) وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لئے پروردگار کے پاس سب کچھ ہے یہ صلہ ہے نیکوکاروں کا (اور یہ صلہ ان کے لئے اس واسطے تجویز کیا) تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے برے عملوں کو دور کرے اور نیک کاموں کے عوض ان کو ان کا ثواب دے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْہِ شُرَكَاۗءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ۝ ٠ ۭ ہَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا۝ ٠ ۭ اَلْحَمْدُ لِلہِ۝ ٠ ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٢٩- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ - شكس - الشَّكْسُ : السّيّئ الخلق، وقوله تعالی: شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أي : متشاجرون لِشِكَاسَةِ خُلُقِهِمْ.- ( ش ک س ) الشکس بد مزاج کو کہتے ہیں اور آیت کریمہ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج ) اور بد خو ۔ یعنی اپنی بد مزاجی کی وجہ سے باہم جھگڑا کرنے والے ہیں ۔- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تو کیا ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے اسی طرح مومن و کافر ہرگز برابر نہیں ہوسکتے الحمدللہ کہ وحدانیت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے مگر مگر اکثر ان میں سے قرآنی مثالوں کو نہیں سمجھتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآئُ مُتَشَاکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ” اللہ نے مثال بیان فرمائی ہے ایک شخص کی جس میں بہت سے آپس میں ضد رکھنے والے آقا شریک ہیں اور ایک وہ شخص ہے جو پورے طور پر ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ “- یہ تمثیل ” توحید عملی “ کا مفہوم واضح کرنے کے لیے بیان فرمائی جا رہی ہے۔ یہ دو غلاموں کی حالت کا تقابل ہے۔ ایک غلام کے کئی آقا ہیں اور وہ بھی ضدی ‘ مختلف الاغراض اور مختلف مزاج رکھنے والے۔ اور دوسرا غلام وہ ہے جس کا ایک ہی آقا ہے۔ مقامِ غور ہے کہ اگر چار آپس میں ضد رکھنے والے اور تند خو آدمیوں نے مل کر ایک غلام خرید رکھا ہے تو اس غلام کی جان تو ہر وقت مصیبت میں پھنسی رہے گی۔ ایک آقا اسے بیٹھنے کا کہے گا تو دوسرا اٹھنے کا حکم دے گا۔ تیسرا کوئی اور فرمائش کرے گا اور چوتھا کچھ اور کہے گا۔ وہ بےچارا ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسرا ناراض ہوجائے گا۔ الغرض ایسے غلام کے لیے ایک وقت میں اپنے سب آقائوں کو خوش رکھنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی غلام کا ایک ہی آقا ہو تو اس کے لیے اپنے اس آقا کو خوش کرنا اور مطمئن رکھنا بہت آسان ہوگا۔ اس مثال کی اہمیت انتظامی امور کے حوالے سے بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ اگر کسی ملک یا ادارے کا ایک مقتدر سربراہ ہوگا تو اس کا نظام درست رہے گا ‘ لیکن جہاں متوازی حکم چلانے والے کئی سربراہ ہوں گے تو وہاں لازمی طور پر فساد مچ جائے گا۔ - اب اس مثال کی روشنی میں شرک اور توحید کے معاملے کو دیکھیں تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اگر تم ایک اللہ کے بندے بن کر رہو گے تو سکون اور چین سے رہو گے۔ اگر مختلف شخصیات اور دیوی دیوتائوں کے پجاری بنو گے تو مصیبت میں پھنس جائو گے۔ ایک کو خوش کرو گے تو دوسرا ناراض ہوجائے گا۔ آخر کس کس معبود کی پوجا کرو گے ؟ کتنے آقائوں کے حضور نذرانے پیش کرو گے ؟ اور کہاں کہاں جا کر پیشانی رگڑو گے ؟ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎- یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات - ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا ” کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں مثال میں ؟ “- اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ” کل ُ تعریف اللہ کے لیے ہے ‘ لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ “- یعنی بات واضح ہوگئی کہ توحید ہی صحیح راستہ ہے ‘ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا جانتے بوجھتے ناسمجھ بنے بیٹھے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :48 اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے ۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں ، اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو ، اور وہ مالک بھی ایسے بد مزاج ہوں کہ ہر ایک اس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو ، اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تل جاتا ہو ، اس کی زندگی لامحالہ سخت ضیق میں ہو گی ۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو اور کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے ۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے غور و تامل کی حاجت نہیں ہے ۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خداؤں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آ سکتا ۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقاؤں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ ان جیتے جاگتے آقاؤں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں ۔ پتھر کے بت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بلاتے ہیں ۔ یہ کام تو زندہ آقاؤں ہی کے کرنے کے ہیں ۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے ۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں ، خاندان میں ، برادری میں ، قوم اور ملک کے معاشرے میں ، مذہبی پیشواؤں میں ، حکمرانوں اور قانون سازوں میں ، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں ، اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں ۔ کوئی دل مسوستا ہے ۔ کوئی روٹھ جاتا ہے ۔ کوئی نکو بناتا ہے ۔ کوئی مقاطعہ کرتا ہے ۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے ، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے ۔ اس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکے ۔ توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں ۔ ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خدائے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گرد و پیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو ۔ اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلے زیادہ بڑھ جائے ، لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آ جائے گا ۔ وہ نفس کی ہر اس خواہش کو رد کر دے گا جو احکام الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے پورے نہ کیے جا سکتے ہوں ۔ وہ خاندان ، برادری ، قوم ، حکومت ، مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو ۔ اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں ، بلکہ لازماً پہنچیں گی ۔ لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں ، اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجا لاؤں ۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی ۔ حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑ جائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوا نہ ہو گا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خداؤں کے آگے سر جھکا کر اپنی جان بچا لی ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اسی توحید کی بنیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق ، تمدن ، تہذیب ، تعلیم ، مذہب ، قانون ، رسم و رواج ، سیاست ، معیشت ، غرض شعبہ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خداوند عالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ سے دیے ہیں ۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے ، قانون اسی کو جرم قرار دے ، حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے ، تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے ، منبر و محراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو ، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھہرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے ۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے ، قانون اسکی حمایت کرے ، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں ، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اسکو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے ، منبر و محراب اسی کی تلقین کریں ، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اس پر قائم کر دے ، اور کاروبار معیشت بھی اسی کے مطابق چلے ۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آ جاتا ہے اور مادی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں ، کیونکہ اس میں بندگیٔ رب اور بندگیٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے ۔ اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو ، بہرحال وہ توحید ہی کو اپنا دین بنا لے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرنا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک امت مسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے ۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف ہو اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو ، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاء علیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے ، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ و قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :49 یہاں الحمد لِلہ کی معنویت سمجھنے کے لیے یہ نقشہ ذہن میں لایئے کہ اوپر کا سوال لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد مقرر نے سکوت کیا ، تاکہ اگر مخالفین توحید کے پاس اس کا کوئی جواب ہو تو دیں ۔ پھر جب ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور کسی طرف سے یہ آواز نہ آئی کہ دونوں برابر ہیں ، تو مقرر نے کہا الحمد لِلہ ۔ یعنی خدا کا شکر ہے کہ تم خود بھی اپنے دلوں میں ان دونوں حالتوں کا فرق محسوس کرتے ہو اور تم میں سے کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ ایک آقا کی بندگی سے بہت سے آقاؤں کی بندگی بہتر ہے یا دونوں یکساں ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :50 یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خداؤں کی بندگی کا فرق جب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: جو غلام کئی آدمیوں کی مشترک ملکیت میں ہو، اور وہ کئی آدمی بھی آپس میں جھگڑتے رہتے ہوں، وہ ہمیشہ پریشانی کا شکار رہتا ہے کہ کس کا کہنا مانوں، اور کس کا نہ مانوں، اس کے برخلاف جو غلام کسی ایک ہی آقا کی ملکیت میں ہو، اسے یہ پریشانی پیش نہیں آتی، وہ یکسو ہو کر اپنے آقا کی اطاعت کرسکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص توحید کا قائل ہے، وہ ہمیشہ یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتا ہے، اور اسی کی عبادت کرتا ہے، اس کے برخلاف جن لوگوں نے کئی کئی خدا گھڑ رکھے ہیں، وہ کبھی ایک جھوٹے دیوتا کا سہارا لیتے ہیں، کبھی دوسرے کا، اور انہیں یکسوئی میسر نہیں آتی۔ اس طرح یہ مثال توحید کی دلیل بھی ہے اور اس کی حکمت بھی۔