Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] کفار مکہ بسا اوقات یہ آرزو کرتے تھے کہ اگر یہ نبی مرجائے تو سارے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ اس آیت میں ان کی اسی بری آرزو کا نہایت سنجیدہ انداز میں جواب دیا گیا ہے اور اس نبی کو ہی مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ اگر آپ کو موت آتی ہے تو یہ کیا موت سے بچ سکتے ہیں ؟ پھر یہ کیا معلوم پہلے موت کس کو آئے گی ؟ موت آنے کی حد تک تو سب یکساں ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ موت کے بعد کس کا انجام بخیر ہوگا۔ اور کون اپنی سرکشی کی پاداش میں ماخوذ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْن : یعنی اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں، ہمیشہ نہ تجھے رہنا ہے نہ ان کو، یقیناً تو مرنے والا ہے اور یقیناً وہ بھی مرنے والے ہیں۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وعدہ اور بشارت ہے کہ آپ کی دنیا کی محنت و مشقت اور تمام رنج ختم ہونے والے ہیں اور آپ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور ہمیشہ کی راحت و آرام والی جنت میں جانے والے ہیں، اور کافروں کے لیے وعید ہے کہ ان کی مہلت ختم ہونے والی ہے اور وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہو کر اپنے کفر و شرک کا حساب دینے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں کو ان کی موت یاد دلا کر اس کی تیاری کی یاد دہانی بھی ہے۔- 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوجائیں گے، تاکہ آپ کی موت کے متعلق لوگوں میں اختلاف واقع نہ ہو اور وہ آپ کی پرستش نہ کرنے لگیں، جیسا کہ پہلی امتوں میں اپنے انبیاء کی وفات کے متعلق اختلاف واقع ہوا۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر اکثر لوگوں نے تسلیم نہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوچکے ہیں، جن میں عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ابوبکر (رض) نے یہ آیت اور سورة آل عمران کی آیت (١٤٤) : ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ) پڑھ کر اعلان کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے۔ [ دیکھیے بخاري، فضائل أصحاب النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب : ٣٦٦٧، ٣٦٦٨] سورة آل عمران کی آیت (١٤٤) کی تفسیر بھی دیکھ لیں۔ اس پر عمر (رض) اور دوسرے صحابہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور تمام صحابہ کا اتفاق ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل اور کفن دے کر دفن کردیا، ورنہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندہ کبھی دفن نہ کرتے۔ افسوس قرآن کی واضح آیات اور صحابہ کرام (رض) کے اجماع کے باوجود کچھ لوگوں کو اصرار ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی دنیوی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں۔ چناچہ ایک صاحب لکھتے ہیں : ” انبیاء کی موت ایک آن کے لیے ہوتی ہے، پھر انھیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔ “ سوال یہ ہے کہ اگر اس حیات سے مراد برزخ کی زندگی ہے تو وہ تو نیک و بد سب کو عطا ہوتی ہے اور برزخ میں جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے انبیاء کی شان سب سے اونچی ہے اور ان کو عطا ہونے والے انعامات بھی بےحساب ہیں، اس زندگی سے کسی کو بھی انکار نہیں، مگر اس کے لیے موت ضروری ہے، کیونکہ یہ موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک آن کے بعد انھیں دنیوی زندگی عطا کردی جاتی ہے، تو پھر انبیاء کے جاں نثار صحابہ انھیں دفن کیوں کردیتے ہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوموار کے دن فوت ہوئے اور بدھ کے دن آپ کو دفن کیا گیا، تو کیا اس وقت تک وہ آن پوری نہ ہوئی تھی اور صحابہ کو معلوم نہ ہوا تھا کہ آپ کو پھر حیات عطا ہوچکی ہے۔ کیا انھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفن کرنے پر اتفاق کرلیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندہ دفن کردیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی زندہ ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ دفن ہوگئے ؟ (فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا ) [ النساء : ٧٨ ] ” تو ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ ۔ لفظ میت بتشدید الیاء اس کو کہتے ہیں جو زمانہ مستقبل میں مرنے والا ہو اور میت بسکون الیاء اس کو کہتے ہیں جو مر چکا ہو۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ بھی مرنے والے ہیں اور آپ کے دشمن اور احباب بھی سب مرنے والے ہیں۔ مقصد اس کے بیان کرنے سے سب کو فکر آخرت کی طرف متوجہ کرنا اور عمل آخرت میں لگنے کی ترغیب دینا ہے۔ اور ضمناً یہ بھی بتلا دینا ہے کہ افضل الخلائق اور سید الرسل ہونے کے باوجود موت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مستثنیٰ نہیں۔ تاکہ آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں میں اس پر اختلاف پیدا نہ ہو۔ (از قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّيِّتُوْنَ۝ ٣٠ۡ- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠۔ ٣١) اور آپ ان کی باتوں پر غم نہ کریں عنقریب آپ کو بھی لوٹ کر جانا ہے اور ان کفار مکہ کو بھی، پھر قیامت کے دن تم حجت و دلیل کے ساتھ اپنے اپنے مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کرو گے یعنی حضرت نبی اکرم اور کفار مکہ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّـیِّتُوْنَ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یقینا موت آپ پر بھی وارد ہوگی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :51 پچھلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے موقع و محل اور سیاق و سباق پر غور کر کے ہر صاحب فہم آدمی خود بھر سکتا ہے ۔ اس میں یہ مضمون پوشیدہ ہے کہ اس اس طرح تم ایک صاف سیدھی بات سیدھے طریقے سے ان لوگوں کو سمجھا رہے ہو اور یہ لوگ نہ صرف یہ کہ ہٹ دھرمی سے تمہاری بات رد کر رہے ہیں ، بلکہ اس کھلی صداقت کو دبانے کے لیے تمہارے درپے آزار ہیں ۔ اچھا ، ہمیشہ نہ تمہیں رہنا ہے نہ انہیں ۔ دونوں کو ایک دن مرنا ہے ۔ انجام سب کے سامنے آ جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani