31۔ 1 یعنی اے پیغمبر آپ بھی اور آپ کے مخالف بھی، سب موت سے ہمکنار ہو کر اس دنیا سے ہمارے پاس آخرت میں آئیں گے۔ دنیا میں تو توحید اور شرک کا فیصلہ تمہارے درمیان نہیں ہوسکا اور تم اس بارے میں جھگڑتے ہی رہے لیکن یہاں میں اس کا فیصلہ کروں گا اور مخلص موحدین کو جنت میں اور مشرکین و جاحدین اور مکذبین کو جہنم میں داخل کروں گا۔
[٤٧] اللہ کے ہاں کس کس قسم کے لوگ آپس میں جھگڑا کریں گے ؟:۔ یہ جھگڑے بھی کئی قسم کے ہوں گے۔ مظلوم ظالم کو دامن سے پکڑے اللہ کے حضور پیش کرے گا اور اپنے ظلم کے بارے میں اللہ کے حضور دلائل پیش کرے گا۔ دوسری قسم یہ کہ کافر اور مشرک اپنے جرم کا انکار کردیں گے۔ پھر ان کے خلاف رسولوں کی اور ایمانداروں کی شہادتیں ہوں گی۔ پھر ان کے اپنے اعضاء بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ تیسری قسم اہل حق اور اہل باطل یا موحدوں اور مشرکوں میں جھگڑوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کریں گے۔ چوتھی قسم مشرکین اور ان کے معبودوں یا بڑے لوگوں اور ان کے تابعداروں میں جھگڑا ہوگا۔ دونوں ایک دوسرے پر الزام دھریں گے۔ غرض کئی قسم کے جھگڑے ہوں گے۔ جن کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں نہایت انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔
ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ۔ : اس سے پہلی اور بعد میں آنے والی آیات کے مطابق اس جھگڑے سے مراد مشرکین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے جھگڑا ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا مقدمہ پیش کریں گے کہ یا اللہ میں نے ان لوگوں کو تیرا پیغام پہنچایا مگر انھوں نے مجھے جھٹلا دیا۔ (دیکھیے فرقان : ٣٠) اور مشرکین قسمیں کھا کر دنیا میں اپنے مشرک ہونے کا انکار کردیں گے، وہ کہیں گے : (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ) [ الأنعام : ٢٣ ] ” اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔ “ پھر فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوگا جو ان پر نبی کی شہادت کے علاوہ ایمان والوں کی، فرشتوں کی، زمین و آسمان کی اور خود ان مشرکوں کے ہاتھ پاؤں، زبانوں اور دوسرے اعضا کی شہادتوں کے ساتھ ان کا جرم ثابت کر کے ان کے انجام کا فیصلہ فرمائے گا۔- 3 آیت کے الفاظ عام ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہونے والے تمام جھگڑے بھی اس میں شامل ہیں، جو کفار اور مسلمانوں کے درمیان ہوں گے، یا مشرکین اور ان کے معبودوں یا بڑے لوگوں اور ان کے فرماں برداروں کے درمیان ہوں گے، یا بادشاہوں اور ان کی رعایا کے درمیان ہوں گے، یا مظلوموں اور ظالموں کے درمیان ہوں گے، خواہ وہ دونوں مسلمان ہوں، حتیٰ کہ آدمی کا اپنے اعضا سے بھی جھگڑا ہوگا۔ (دیکھیے حٰم السجدہ : ٢١) اس لیے اکثر مفسرین نے اس آیت کو عام رکھا ہے۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے : ” یُخَاصِمُ الصَّادِقُ الْکَاذِبَ ، وَالْمَظْلُوْمُ الظَّالِمَ ، وَالْمُھْتَدِي الضَّالَّ وَالضَّعِیْفُ الْمُسْتَکْبِرَ “ [ طبري : ٣٠٣٨٣ ] ” یعنی سچا جھوٹے سے، مظلوم ظالم سے، ہدایت والا گمراہ سے اور کمزور متکبر سے جھگڑے گا۔ “ زبیر (رض) فرماتے ہیں : ( لَمَّا نَزَلَتْ : (ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ) قَال الزُّبَیْرُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَتُکَرَّرُ عَلَیْنَا الْخُصُوْمَۃُ بَعْدَ الَّذِيْ کَانَ بَیْنَنَا فِي الدُّنْیَا ؟ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ إِنَّ الْأَمْرَ إِذًا لَشَدِیْدٌ ) [ ترمذي، التفسیر، باب و من سورة الزمر : ٣٢٣٦، قال الترمذي حسن صحیح وقال الألباني حسن الإسناد ] ” جب یہ آیت : (ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ) اتری تو زبیر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ کیا دنیا میں جھگڑے ہونے کے بعد وہ جھگڑے دوبارہ ہمارے درمیان ہوں گے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں “ تو زبیر (رض) نے کہا : ” اس وقت تو معاملہ بہت سخت ہوگا۔ “
محشر کی عدالت میں مظلوم کا حق ظالم سے وصول کرنے کی صورت :- (آیت) ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ انکم میں مومن و کافر اور مسلمان ظالم و مظلوم سب داخل ہیں یہ سب اپنے اپنے مقدمات اپنے رب کی عدالت میں پیش کریں گے اور اللہ تعالیٰ ظالم سے مظلوم کا حق دلوائیں گے وہ کافر ہو یا مومن۔ اور صورت اس ادائیگی حقوق کی وہ ہوگی جو صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آئی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا حق ہے اس کو چاہئے کہ دنیا ہی میں اس کو ادا یا معاف کرا کر حلال ہوجائے۔ کیونکہ آخرت میں درہم و دینار تو ہوں گے نہیں۔ اگر ظالم کے پاس کچھ اعمال صالحہ ہیں تو بمقدار ظلم یہ اعمال اس سے لے کر مظلوم کو دے دیئے جاویں گے۔ اور اگر اس کے پاس حسنات نہیں ہیں تو مظلوم کی سیئات اور گناہوں کو اس سے لے کر ظالم پر ڈال دیا جائے گا۔- اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صحابہ کرام سے سوال کیا کہ آپ جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم تو مفلس اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس نہ کوئی نقد رقم ہو نہ ضرورت کا سامان۔ آپ نے فرمایا کہ اصلی اور حقیقی مفلس میری امت میں وہ شخص ہے جو قیامت میں بہت سے نیک اعمال، نماز، روزہ، زکوٰة، وغیر لے کر آئے گا مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی، کسی پر تہمت باندھی، کسی کا مال ناجائز طور پر کھالیا، کسی کو قتل کرایا، کسی کو مارپیٹ سے ستایا تو یہ سب مظلوم اللہ کے سامنے اپنے مظالم کا مطالبہ کریں گے اور اس کی حسنات اس میں تقسیم کردی جائیں گی پھر جب یہ حسنات ختم ہوجائیں گی اور مظلوموں کے حقوق ابھی باقی ہوں گے تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جاویں گے۔ اور اس کو جہنم میں ڈال دیا جاوے گا۔ (تو یہ شخص سب کچھ سامان ہونے کے باوجود قیامت میں مفلس رہ گیا، یہی اصلی مفلس ہے) ۔- اور طبرانی نے ایک معتبر سند کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو مقدمہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوگا وہ مرد اور اس کی بیوی کا ہوگا اور بخدا کہ وہاں زبان نہیں بولے گی۔ بلکہ عورت کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ اپنے شوہر پر کیا کیا عیب لگایا کرتی تھی اور اسی طرح مرد کے ہاتھ پاؤں اس پر گواہی دیں گے کہ وہ کس طرح اپنی بیوی کو تکلیف و ایذا پہنچایا کرتا تھا۔ اس کے بعد ہر آدمی کے سامنے اس کے نوکر چاکر لائے جائیں گے ان کی شکایات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ پھر عام بازار کے لوگ جن سے اس کے معاملات رہے تھے وہ پیش ہوں گے اگر اس نے ان میں سے کسی پر ظلم کیا ہے تو اس کا حق دلوایا جائے گا۔
ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ٣١ۧ- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،
آیت ٣١ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ” پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس آپس میں جھگڑو گے۔ “- اس جھگڑے کی نوعیت کچھ یوں ہوگی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہادت دیں گے کہ اے اللہ میں نے تیرا پیغام کما حقہ ان تک پہنچا دیا تھا۔ ممکن ہے وہاں ان میں سے کچھ لوگ انکار کریں کہ نہیں نہیں یہ بات ان تک نہیں پہنچی تھی اور بحث و تکرار کی نوبت آجائے۔ ابلاغِ رسالت کے بارے میں پیغمبروں کی گواہی اور متعلقہ امتوں کے افراد سے جواب طلبی کے حوالے سے سورة الاعراف کی یہ آیت بہت اہم ہے : فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ” ہم ان سے بھی پوچھیں گے جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا تھا اور ان سے بھی پوچھیں گے جنہیں رسول بنا کر بھیجا تھا “۔ چناچہ وہاں سب پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ کیا آپ لوگوں نے ہمارا پیغام اپنی اپنی قوموں تک پہنچا دیا تھا ؟ جواب میں تمام پیغمبر گواہی دیں گے کہ اے اللہ ہم نے پہنچا دیا تھا۔ اسی لیے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر موجود لوگوں سے استفسار فرمایا تھا : اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُکہ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا ؟ جواب میں پورے مجمعے نے یک زبان ہو کر کہا تھا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَ اَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (١) کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم گواہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبلیغ ‘ امانت اور نصیحت کا حق ادا کردیا اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا : اللَّھُمَّ اشْھَدْ اللَّھُمَّ اشْھَدْ اللَّھُمَّ اشْھَدْ کہ اے اللہ تو بھی گواہ رہ ‘ یہ لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ میں نے ان تک تیرا پیغام پہنچاد یا۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ ) (٢) کہ اب جو لوگ موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فریضہ امت کی طرف منتقل فرما دیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے بعد یوں سمجھیں کہ اب یہ پوری امت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسول ہے ( سورة یٰسٓکی آیت ١٤ کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے) ۔ یعنی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو پیغام ان تک پہنچایا ہے اب انہوں نے اسے پوری نوع انسانی تک پہنچانا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے اس اعزاز اور فریضہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر فرمایا ہے ‘ ہجرت سے متصلاً قبل سورة الحج میں اور ہجرت سے متصلاً بعد سورة البقرۃ میں۔ سورة الحج کی آخری آیت میں یوں فرمایا : ہُوَ اجْتَبٰـٹکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَط ہُوَ سَمّٰٹکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ ٥ مِنْ قَـبْلُ وَفِیْ ہٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِج ” اس نے تمہیں چن لیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ‘ اس سے پہلے بھی (تمہارا یہی نام تھا) اور اس (کتاب) میں بھی ‘ تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو “۔ سورة البقرۃ میں اسی مضمون کو ان الفاظ میں پھر سے دہرایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط (آیت ١٤٣) ” اور (اے مسلمانو ) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو “۔ دونوں مقامات پر الفاظ ایک سے آئے ہیں صرف الفاظ کی ترتیب تبدیل ہوئی ہے۔