مشرکین کی سزا اور موحدین کی جزا ۔ مشرکین نے اللہ پر بہت جھوٹ بولا تھا اور طرح طرح کے الزام لگائے تھے ، کبھی اس کے ساتھ دوسرے معبود بتاتے تھے ، کبھی فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں شمار کرنے لگتے تھے ، کبھی مخلوق میں سے کسی کو اس کا بیٹا کہہ دیا کرتے تھے ، جن تمام باتوں سے اس کی بلند و بالا ذات پاک اور برتر تھی ، ساتھ ہی ان میں دوسری بدخصلت یہ بھی تھی کہ جو حق انبیاء علیہم السلام کی زبانی اللہ تعالیٰ نازل فرماتا یہ اسے بھی جھٹلاتے ، پس فرمایا کہ یہ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں ۔ پھر جو سزا انہیں ہونی ہے اس سے انہیں آگاہ کر دیا کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔ جو مرتے دم تک انکار و تکذیب پر ہی رہیں ۔ ان کی بدخصلت اور سزا کا ذکر کر کے پھر مومنوں کی نیک خو اور ان کی جزا کا ذکر فرماتا ہے کہ جو سچائی کو لایا اور اسے سچا مانا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اور ہر وہ شخص جو کلمہ توحید کا اقراری ہو ۔ اور تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی ماننے والی ان کی مسلمان امت ۔ یہ قیامت کے دن یہی کہیں گے کہ جو تم نے ہمیں دیا اور جو فرمایا ہم اسی پر عمل کرتے رہے ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت میں داخل ہیں ۔ آپ بھی سچائی کے لانے والے ، اگلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے اور آپ پر جو کچھ نازل ہوا تھا اسے ماننے والے تھے اور ساتھ ہی یہی وصف تمام ایمان داروں کا تھا کہ وہ اللہ پر فرشتوں پر کتابوں پر اور رسولوں پر ایمان رکھنے والے تھے ۔ ربیع بن انس کی قرأت میں ( وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ 33 ) 39- الزمر:33 ) ہے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں سچائی کو لانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اسے سچ ماننے والے مسلمان ہیں یہی متقی پرہیزگار اور پارسا ہیں ۔ جو اللہ سے ڈرتے رہے اور شرک کفر سے بچتے رہے ۔ ان کے لئے جنت میں جو وہ چاہیں سب کچھ ہے ۔ جب طلب کریں گے پائیں گے ۔ یہی بدلہ ہے ان پاک باز لوگوں کا ، رب ان کی برائیاں تو معاف فرما دیتا ہے اور نیکیاں قبول کر لیتا ہے ۔ جیسے دوسری آیت میں ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ ۭ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ 16 ) 46- الأحقاف:16 ) یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کی نیکیاں ہم قبول کر لیتے ہیں اور برائیوں سے درگزر فرما لیتے ہیں ۔ یہ جنتوں میں رہیں گے ۔ انہیں بالکل سچا اور صحیح صحیح وعدہ دیا جاتا ہے ۔
32۔ 1 یعنی دعویٰ کرے کہ اللہ کے اولاد ہے یا اس کا شریک ہے یا اس کی بیوی ہے دراں حالیکہ وہ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ 23۔ 2 جس میں توحید، احکام و فرائض ہیں، عقیدہ بعث و نشور ہے، محرمات سے اجتناب ہے، مومنین کے لئے خوشخبری اور کافروں کے لئے سزائیں ہیں۔ یہ دین و شریعت جو حضرت محمد رسول اللہ لے کر آئے، اسے جھوٹا بتلائے۔
[٤٨] سب سے بڑھ کر ظالم کون کون ہیں ؟ یعنی قیامت کے دن سب سے زیادہ ظالم اور سزا کا مستحق وہ شخص ہوگا جس نے ایسے عقیدے گھڑے کہ اللہ نے اپنے بہت سے اختیارات اور تصرفات اپنے پیاروں کو سونپ دیئے ہیں۔ اور ان کے پاس جو ایسے اختیارات ہیں وہ اللہ ہی کے عطا کئے ہوئے تھے۔ ان کے ذاتی نہیں ہیں۔ پھر جب انہیں حقیقت حال سے خبردار کیا جائے تو سمجھانے والے کو ہی جھوٹا سمجھیں اور اس کی مخالفت پر اتر آئیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹ موٹ کہہ دے کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔ اور اس پر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے تو ایسا شخص سب سے بڑا ظالم ہے۔ اور وہ اپنی بات میں سچا اور فی الواقع اللہ کا نبی اور اللہ ہی کا کلام پیش کر رہا ہو۔ لیکن سننے والا اسے جھٹلا دے تو پھر یہ شخص سب سے بڑھ کر ظالم ہوگا۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے اس آیت کا مصداق ایک ہی شخص ہے اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے اس کا مصداق دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ اور یہ سب ہی بڑے بڑے ظالموں کی قسمیں ہیں۔
ظلم کا معنی اندھیرا ہے، کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں اور رکھنا بھی اور کسی کا حق دوسرے کو دے دینا بھی ظلم ہے، کیونکہ آدمی اندھیرے میں کسی چیز کو اس کی اصل جگہ نہیں رکھ سکتا۔ - فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللّٰهِ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ سے مراد شرک یعنی اس کے ساتھ کسی اور کی عبادت کرنا ہے، جس کی کئی صورتیں اس سورت کے شروع سے یہاں تک بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کچھ اولیاء کی عبادت کرنا، فرشتوں کو یا مسیح و عزیر (علیہ السلام) کو یا کسی اور کو اللہ کی اولاد قرار دینا، مصیبت اور تکلیف کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور اس کی طرف سے کوئی نعمت عطا ہونے پر اسے بھول کر اس کے شریک بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنا اور طاغوت کی عبادت کرنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے سب کا رد فرما کر اس آیت میں خلاصہ بیان فرمایا، اس لیے آیت کی ابتدا ” فاء “ کے ساتھ فرمائی کہ پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور اس کا حق دوسروں کو دے دیا ؟ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی کچھ تفصیل ان آیات کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں، سورة انعام (٢١) ، اعراف (٣٧) ، ہود (١٨) اور عنکبوت (٦٨) ۔- وَكَذَّبَ بالصِّدْقِ اِذْ جَاۗءَهٗ ۭ : صدق کا معنی وہ بات ہے جو واقعہ کے مطابق ہو، سچی ہو، یہاں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید، آخرت اور رسالت ہے۔ یعنی اگر کسی شخص کے پاس سچی بات نہ پہنچے تو اس کا عذر ہوسکتا ہے، مگر جس شخص کے پاس حق اور صدق آجائے اور وہ اس پر غور و فکر کی زحمت کیے بغیر اسے سنتے ہی جھٹلا دے، یا اسے سمجھنے کے باوجود عناد کی وجہ سے اس کے آنے کے ساتھ ہی اسے جھٹلا دے، یعنی جو شخص اللہ پر جھوٹ بولے اور سچی بات سنتے ہی اسے جھٹلا دے اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔- 3 شاہ عبد القادر (رض) نے اس آیت کی تفسیر ایک اور طریقے سے کی ہے : ” یعنی اگر نبی نے جھوٹ خدا کا نام لیا تو اس سے برا کون ؟ اور اگر وہ سچا تھا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے برا کون ؟ “ (موضح) اس تفسیر کے مطابق ” مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللّٰهِ “ کا مصداق اور ہے اور ” وَكَذَّبَ بالصِّدْقِ “ کا مصداق اور، جب کہ پہلی تفسیر کے مطابق دونوں صفات ایک ہی شخص کی ہیں۔- اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ : ” مَثْوًى“ ” ثَوٰی یَثْوِيْ ثَوَاءً وَثُوِیًّا “ بروزن ” مَضٰی یَمْضِيْ مَضَاءً وَ مُضِیًّا “ سے اسم ظرف ہے، رہنا، ٹھہرنا۔ تفسیر کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (٦٨) یہ کہنے کے بجائے کہ ” کیا ان کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں ؟ “ یہ فرمایا کہ ” کیا ان کافروں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں ؟ “ مقصود اس بات کا اظہار ہے کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہونے کی وجہ ان کا کفر یعنی حق بات کو چھپانا اور اس کا انکار کرنا ہے۔- ” اَلْکَافِرِیْنَ “ جمع لانے سے ظاہر ہے کہ ” مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللّٰهِ “ (جس نے اللہ پر جھوٹ بولا) میں ” مَنْْ “ عموم کے لیے ہے، یعنی اس سے مراد ایک شخص نہیں بلکہ ایسے تمام لوگ ہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھتے اور سچی بات کو جھٹلاتے ہیں۔
سارے اعمال مظالم اور حقوق کے بدلے میں دے دیے جاویں گے مگر ایمان نہیں دیا جائے گا :- تفسیر مظہری میں مذکورہ سب روایات حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مظلوموں کے حقوق میں ظالم کے اعمال دے دینے کا جو ذکر آیا ہے، اس سے مراد ایمان کے علاوہ دوسرے اعمال ہیں، کیونکہ جتنے مظالم ہیں وہ سب عملی گناہ ہیں، کفر نہیں ہیں اور عملی گناہوں کی سزا محدود ہوگی بخلاف ایمان کے کہ وہ ایک غیر محدود عمل ہے۔ اس کی جزا بھی غیر محدود یعنی ہمیشہ جنت میں رہنا ہے اگرچہ وہ گناہوں کی سزا بھگتنے اور کچھ عرصہ جہنم میں رہنے کے بعد ہو اس کا حاصل یہ ہے کہ جب ظالم کے اعمال صالحہ علاوہ ایمان کے سب مظلوموں کو دے کر ختم ہوجائیں گے۔ صرف ایمان رہ جائے گا تو ایمان اس سے سلب نہیں کیا جائے گا بلکہ مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال کر حقوق کی ادائیگی کی جائے گی، جس کے نتیجہ میں یہ گناہوں کا عذاب بھگتنے کے بعد پھر بالآخر جنت میں داخل ہوگا اور پھر یہ حال اس کا دائمی ہوگا۔ صاحب تفسیر مظہری نے فرمایا کہ امام بیہقی نے بھی ایسا ہی فرمایا ہے۔- کذب بالصدق اور الذی جاء بالصدق۔ میں صدق سے مراد وہ تعلیمات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں۔ خواہ قرآن ہو یا قرآن کے علاوہ دوسری تعلیمات احادیث اور صدق بہ میں سب مومنین داخل ہیں جو اس کی تصدیق کرنے والے ہیں۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللہِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَاۗءَہٗ ٠ ۭ اَلَيْسَ فِيْ جَہَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ ٣٢- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم،- ( ث و ی )- الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
ابو جہل اور اس کے ساتھیوں سے زیادہ اپنے کفر میں بےانصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر قرآن کریم سن کر جھوٹ باندھے اور اس کے شریک ٹھہرائے اور اس کو صاحب اولاد بنائے اور قرآن کریم اور بیان توحید کو جبکہ اس کے پاس بذریعہ نبی کریم پہنچ گئی جھٹلائے کیا جہنم ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کا ٹھکانا نہ ہوگا ؟ ضرور ہوگا۔
آیت ٣٢ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآئَ ہ ” اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور جھٹلائے سچی بات کو جبکہ اس کے پاس آگئی ہو “- یہ دونوں خصوصیات ایک ہی شخص کے کردار میں بھی ہوسکتی ہیں کہ وہ اللہ پر جھوٹ بھی باندھ رہا ہو اور اللہ کی طرف سے جو حق اس کے پاس آیا ہے اس کی تکذیب یا نفی بھی کر رہا ہو۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دو الگ الگ کرداروں کا ذکر ہو۔ یعنی ایک وہ شخص جو اپنی کسی بات کو اللہ کی طرف منسوب کر کے دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی آئی ہے۔ ظاہر ہے ایسے شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اسی درجے کا ظالم وہ شخص بھی ہوگا جس کے پاس اللہ کا کلام پہنچ جائے جو کہ سراسر حق ہے اور وہ اس حق کو جھٹلا دے۔- اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ ” تو کیا جہنم ہی میں ٹھکانہ نہیں ہے ایسے کافروں کا “- اب اگلی آیت میں اس کے برعکس کردار کا ذکر ہے :