Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 اس سے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ مراد ہیں جو سچا دین لے کر آئے۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے اور اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو توحید کی دعوت دیتا اور اللہ کی شریعت کی طرف کی رہنمائی کرتا ہے۔ 33۔ 2 بعض اس سے حضرت ابوبکر صدیق مراد لیتے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لائے۔ بعض نے اسے بھی عام رکھا ہے، جس میں سب مومن شامل ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ کو سچا مانتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] یہ آیت سابقہ آیت کا عکس ہے۔ اور اس کا مصداق ایک بھی ہوسکتا ہے اور دو الگ الگ بھی۔ یعنی جو شخص خود بھی سچ بات پیش کرتا ہے۔ سچ ہی بولتا ہے اور اگر کوئی سچی بات اس کے سامنے پیش کی جائے تو اس کی تصدیق بھی کردیتا ہے تو ایسا شخص فی الواقع متقی ہے اور دوسری صورت میں سچ بولنے والا تو رسول ہے۔ اور اس کی تصدیق کرنے والے مومنین ہیں۔ اور ایسے لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْ جَاۗءَ بالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ‘ وَالَّذِيْ سے مراد پہلے گروہ کے بالمقابل گروہ ہے اور پہلی آیت کے ” مَنْ “ کی طرح اس آیت میں ” وَالَّذِيْ “ عموم کے لیے ہے، اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر وہ شخص ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت لے کر اٹھ کھڑا ہو، کیونکہ یہ لوگ سچی بات لانے والے بھی ہیں اور اسے سچ ماننے والے بھی۔ سچ لے کر آنے کے ساتھ اس کی تصدیق کی شرط اس لیے لگائی کہ بعض اوقات آدمی سچ بیان کردیتا ہے، مگر اپنے تکبرّ کی وجہ سے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اس لیے تعریف کے قابل وہی ہے جس میں صدق اور تصدیق دونوں پائی جائیں، کیونکہ اس کا صدق اس کے علم کی دلیل ہے اور تصدیق اس کی تواضع اور تکبرّ سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔ (سعدی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جو سچی بات لے کر آیا وہ نبی اور جس نے سچ مانا وہ مومن ہے۔ “ (موضح) اس تفسیر کے مطابق دونوں کا مصداق الگ الگ ہے، اس لیے بعض مفسرین نے سچی بات لانے والے سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیے ہیں، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس امت میں سب سے پہلے سچی بات لے کر آئے اور اس کی تصدیق کرنے والے سے مراد ابوبکر صدیق (رض) لیے ہیں، کیونکہ وہ سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ اگرچہ ابوبکر (رض) کے علاوہ تمام مومن بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور وہ تمام داعی بھی سچی بات لانے والوں میں شامل ہیں جنھوں نے اسلام کی دعوت دی۔ - اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ : یعنی یہی لوگ شرک سے بچنے والے اور جہنم سے بچے رہنے والے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُتَّـقُوْنَ۝ ٣٣- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٤) اور جو ذات توحید اور قرآن حکیم لے کر آئے یعنی نبی اکرم اور اس کی حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھیوں نے تصدیق کی ایسے ہی لوگ کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والے ہیں وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لیے جنت میں سب کچھ ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ ” اور وہ شخص جو سچائی لے کر آیا اور وہ جس نے اس کی تصدیق کی “- گزشتہ آیت کی طرح یہاں بھی دونوں احتمالات موجود ہیں۔ یعنی یہ الگ الگ دو کردار بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں خوبیاں کسی ایک ہی شخص میں پائی جائیں کہ وہ راست باز بھی ہے اور حق کی تصدیق کرنے والابھی۔ لیکن اس آیت کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہاں وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ سے مراد محمد ٌ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو اللہ کی طرف سے حق اور سچائی لے کر آئے ہیں اور وَصَدَّقَ بِہٖٓ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں جنہوں نے اس سچائی کی بلا حیل و حجت تصدیق کی۔- اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ” یہی لوگ ہیں کہ جو متقی ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :52 مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جو مقدمہ ہونا ہے اس میں سزا پانے والے کون ہوں گے ، یہ بات تم آج ہی سن لو ۔ سزا لازماً انہی ظالموں کو ملنی ہے جنہوں نے یہ جھوٹے عقیدے گھڑے کہ اللہ کے ساتھ اس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کچھ دوسری ہستیاں بھی شریک ہیں ، اور اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ان کا ظلم یہ ہے کہ جب ان کے سامنے سچائی پیش کی گئی تو انہوں نے اسے مان کر نہ دیا بلکہ الٹا اسی کو جھوٹا قرار دیا جس نے سچائی پیش کی ۔ رہا وہ شخص جو سچائی لایا اور وہ لوگ جنہوں نے اس کی تصدیق کی ، تو ظاہر ہے کہ اللہ کی عدالت سے ان کے سزا پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani