Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بھروسہ کے لائق صرف اللہ عزوجل کی ذات ہے ۔ ایک قرأت میں ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 36؀ۚ ) 39- الزمر:36 ) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو کافی ہے ۔ اسی پر ہر شخص کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس نے نجات پالی جو اسلام کی ہدایت دیا گیا اور بقدر ضرورت روزی دیا گیا اور قناعت بھی نصیب ہوئی ( ترمذی وغیرہ ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ تجھے اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں ۔ یہ ان کی جہالت و ضلالت ہے ، اور اللہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا ، جس طرح اللہ کے راہ دکھائے ہوئے شخص کو کوئی بہکا نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ والا ہے اس پر بھروسہ کرنے والے کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی طرف جھک جانے والا کبھی محروم نہیں رہتا ۔ اس سے بڑھ کر عزت والا کوئی نہیں ۔ اسی طرح اس سے بڑھ کر انتقام پر قادر بھی کوئی نہیں ۔ جو اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں ۔ اس کے رسولوں سے لڑتے بھڑتے ہیں یقینا وہ انہیں سخت سزائیں دے گا ، مشرکین کی مزید جہالت بیان ہو رہی ہے کہ باوجود اللہ تعالیٰ کو خالق کل ماننے کے پھر بھی ایسے معبودان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں جو کسی نفع نقصان کے مالک نہیں جنہیں کسی امر کا کوئی اختیار نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے اللہ کو یاد کر وہ تیری حفاظت کرے گا ۔ اللہ کو یاد رکھ تو اسے ہر وقت اپنے پاس پائے گا ۔ آسانی کے وقت رب کی نعمتوں کا شکر گذار رہ سختی کے وقت وہ تیرے کام آئے گا ۔ جب کچھ مانگ تو اللہ ہی سے مانگ اور جب مدد طلب کر تو اسی سے مدد طلب کر یقین رکھ کر اگر تمام دنیا مل کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو وہ سب تجھے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور سب جمع ہو کر تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہیں جو اللہ نے مقدر میں نہ لکھا ہو تو ہرگز نہیں پہنچا سکتا ۔ صحیفے خشک ہو چکے قلمیں اٹھالی گئیں ۔ یقین اور شکر کے ساتھ نیکیوں میں مشغول رہا کر تکلیفوں میں صبر کرنے پر بڑی نیکیاں ملتی ہیں ۔ مدد صبر کے ساتھ ہے ۔ غم و رنج کے ساتھ ہی خوشی اور فراخی ہے ۔ ہر سختی اپنے اندر آسانی کو لئے ہوئے ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) تو کہدے کہ مجھے اللہ بس ہے ۔ بھروسہ کرن والے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ جیسے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیا تھا جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ اے ہود ہمارے خیال سے تو تمہیں ہمارے کسی معبود نے کسی خرابی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ تو آپ نے فرمایا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے تمام معبودان باطل سے بیزار ہوں ۔ تم سب مل کر میرے ساتھ جو داؤ گھات تم سے ہو سکتے ہیں سب کر لو اور مجھے مطلق مہلت نہ دو ۔ سنو میرا توکل میرے رب پر ہے جو دراصل تم سب کا بھی رب ہے ۔ روئے زمین پر جتنے چلنے پھرنے والے ہیں سب کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ میرا رب صراط مستقیم پر ہے ۔ رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص سب سے زیادہ قوی ہونا چاہے وہ اللہ پر بھروسہ رکھے اور جو سب سے زیادہ غنی بننا چاہے وہ اس چیز پر جو اللہ کے ہاتھ میں ہے زیادہ اعتماد رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو خود اس کے ہاتھ میں ہے اور جو سب سے زیادہ بزرگ ہونا چاہے وہ اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) پھر مشرکین کو ڈانٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ اچھا تم اپنے طریقے پر عمل کرتے چلے جاؤ ۔ میں اپنے طریقے پر عامل ہوں ۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں ذلیل و خوار کون ہوتا ہے؟ اور آخرت کے دائمی عذاب میں گرفتار کون ہوتا ہے؟ اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے، تمام انبیاء (علیہم السلام) اور مومنین اس میں شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو غیر اللہ سے ڈراتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب آپ کا حامی و ناصر ہو تو آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ ان سب کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے ۔ 36۔ 2 جو اس گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر لگا دے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] مشرکوں کا اپنے معبودوں کے انتقام سے ڈرنا :۔ اس جملہ کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جو اکثر آپ سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے معبودوں کی توہین کرنا چھوڑ دو ۔ ان کی شان میں جس کسی نے گستاخی کی وہ تباہ و برباد ہو کے رہ گیا۔ لہذا اگر تم ایسی باتوں سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ واضح رہے کہ یہ خطاب صرف مشرکین مکہ کے لئے مختص نہیں بلکہ ہر دور کے اور ہر جگہ کے مشرکوں کے لئے ہے۔ دور کیوں جائیں۔ اپنے ہاں کے ہی اولیاء اللہ کے متداول تذکرے ملاحظہ فرما لیجئے۔ ان میں آپ کو ایسا خاصا مواد مل جائے گا کہ فلاں شخص نے فلاں آستانے کی توہین کی تو چند ہی دنوں میں اس کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ اور فلاں شخص نے فلاں بزرگ کے حق میں گستاخانہ کلمے کہے تو ایسا بیمار پڑا کہ پھر اٹھ نہ سکا۔ پھر یہ انتقام کا سلسلہ صرف زندہ بزرگوں اور پیروں سے مخصوص نہیں کہ فوت شدہ بزرگوں کے حق میں گستاخی کی جائے تو وہ بھی اپنا انتقام لے کر چھوڑتے ہیں۔ گویا انبیاء کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو صرف اللہ سے ڈرائیں اور ماسوا اللہ سے بےنیاز کردیں جبکہ ان مشرکوں کا مشن انبیاء کے مشن کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ بس اپنے معبودوں اور بزرگوں کے انتقام سے ہی ڈرا ڈرا کر ان کے جال میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ پھر ان اللہ کے پیاروں کے ذکر میں اللہ تعالیٰ خود ہی پس منظر میں چلا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ : اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ وہ مومنوں کو جنت میں جو چاہیں گے عطا کرے گا اور ان کے بدترین اعمال دور کرے گا، ساتھ ہی بیان فرمایا کہ دنیا میں بھی وہ انھیں تمام کاموں کے لیے کافی ہوجائے گا اور تمام دشمنوں سے بھی کافی ہوجائے گا۔ اس بات کو نہایت قوت اور زور سے بیان کرنے کے لیے اسے سوالیہ انداز میں بیان فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ؟ یعنی یقیناً وہ اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور اپنے ہر بندے کے لیے کافی ہے۔ - وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ۔۔ : کافر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے معبودوں سے ڈراتے اور کہتے کہ ہمارے معبودوں کی برائی سے باز رہ، ورنہ وہ تجھے نقصان پہنچائیں گے اور تجھے دیوانہ بنادیں گے، جیسا کہ اس زمانے کے مشرک اور قبروں کے مجاور و گدی نشین، جو نام کے مسلمان ہیں اور بزرگوں اور ولیوں کو پکارتے ہیں، ان کی نذریں نیازیں دیتے ہیں، دور دور سے جا کر ان کی قبروں پر میلے لگاتے ہیں، ہاتھ باندھ کر بڑی عاجزی سے ان کے آگے کھڑے ہوتے ہیں، بعض قبروں کے گرد طواف کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں، غرض ہر طرح کی عبادت کرتے ہیں، تو جب کوئی انھیں منع کرے اور ان سے کہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو تو اپنے معبودوں سے ڈراتے ہیں کہ فلاں شخص نے ان کو نہ مانا تو وہ تباہ و برباد ہوگیا، اس کا یہ نقصان ہوگیا۔ ایسی باتوں سے احمق و نادان ڈر جاتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے لگ جاتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ) یعنی یہ لوگ گمراہ ہیں اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ (خاص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت) کے لئے کافی نہیں (یعنی وہ تو سب ہی کی حفاظت کے لئے کافی ہے تو اپنے محبوب خاص بندے کے لئے کیوں کافی نہ ہوگا) اور یہ لوگ (ایسے احمق ہیں کہ حفاظت خداوندی سے تجاہل کر کے) آپ کو ان (جھوٹے معبودوں) سے ڈرانے والے ہیں جو خدا کے سوا (تجویز کر رکھے) ہیں (حالانکہ وہ خود بےجان عاجز ہیں اور قادر بھی ہوتے تو خدا کی حفاظت کے مقابلہ میں عاجز ہی ہوتے) اور (اصل بات یہ ہے کہ) جس کو خدا گمراہ کرے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں اور جس کو وہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں (آگے خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے ان کی حماقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ) کیا خدا تعالیٰ (ان کے نزدیک) زبردست (اور) انتقام لینے (پر قدرت رکھنے) والا نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت ناصریت بھی کامل اور بندہ کی صلاحیت منصوریت بھی کامل اور جھوٹے معبودوں کا قدرت ونصرت سے عاجز ہونا بھی ظاہر پھر آپ کو ان باتوں سے ڈرانا حماقت نہیں تو کیا ہے) اور (عجیب بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نصرت کے مقدمات کو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہیں کہیں گے کہ اللہ نے (اس لئے) آپ (ان سے) کہئے کہ بھلا (جب تم اللہ کو تخلیق میں منفرد مانتے ہو تو) یہ بتلاؤ کہ خدا کے سوا جن معبودوں کو پوجتے ہو، اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے، کیا یہ معبود اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اللہ مجھ پر اپنی عنایت کرنا چاہے تو کیا یہ معبود اس کی عنایت کو روک سکتے ہیں (آگے ارشاد ہے کہ جب اس تقریر سے اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت ثابت ہوجاوے) تو آپ کہہ دیجئے کہ (اس سے ثابت ہوگیا کہ) میرے لئے خدا کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں (اسی لئے میں بھی اسی پر توکل اور بھروسہ رکھتا ہوں اور تمہارے خلاف وعناد کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اور چونکہ یہ لوگ ان سب باتوں کو سن کر بھی اپنے خیال باطل پر جمے ہوئے تھے اس لئے آپ کو آخری جواب کی تعلیم ہے کہ) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ (اگر اس پر بھی تم نہیں مانتے تو تم جانو تم اپنی حالت پر عمل کئے جاؤ میں بھی (اپنے طرز پر) عمل کر رہا ہوں (یعنی جب تم اپنے طریقہ باطل کو نہیں چھوڑتے تو میں طریقہ حق کو کیسے چھوڑوں) سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر (دنیا میں) ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا، اور (مرنے کے بعد) اس پر دائمی عذاب نازل ہوگا (چنانچہ دنیا میں غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کو سزا ملی اس کے بعد آخرت کا دائمی عذاب ہے۔ یہاں تک تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخالفین کے خوف سے تسلی دی گئی۔ آگے آپ کو جو کفار اور عام خلق خدا کے ساتھ شفقت کی بنا پر ان کے کفر و انکار سے غم ہوتا تھا اس پر تسلی دی گئی کہ) ہم نے یہ کتاب آپ پر لوگوں کے (نفع کے) لئے اتاری جو حق کو لئے ہوئے ہے سو (آپ کا کام اس کو پہنچا دینا ہے پھر) جو شخص راہ راست پر آوے گا تو اپنے نفع کے واسطے اور جو شخص بےراہ رہے گا تو اس کا بےراہ ہونا اسی پر پڑے گا اور آپ ان پر مسلط (اس طرح) نہیں کئے گئے (کہ ان کی بےراہی کی آپ سے باز پرس ہو تو آپ ان کی گمراہی سے کیوں مغموم ہوتے ہیں)- معارف ومسائل - اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ۔ اس آیت کا شان نزول ایک واقعہ ہے کہ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کو اس سے ڈرایا تھا کہ اگر آپ نے ہمارے بتوں کی بےادبی کی تو ان بتوں کا اثر بہت سخت ہے اس سے آپ بچ نہ سکیں گے۔ ان کے جواب میں کہا گیا کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ؟- اس لئے بعض مفسرین نے یہاں بندے سے مخصوص بندہ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مراد لیا ہے۔ خلاصہ تفسیر میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اور دوسرے مفسرین نے بندہ سے مراد عام لی ہے اور آیت کی دوسری قرات جو عبادہ آئی ہے وہ اس کی موید ہے۔ اور مضمون بہرحال عام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کے لئے کافی ہے۔- عبرت و نصیحت :- وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ۔ یعنی کفار آپ کو ڈراتے ہیں اپنے جھوٹے معبودوں کے غصب سے۔ اس آیت کو پڑھنے والے عموماً یہ خیال کر کے گزر جاتے ہیں کہ یہ ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے، جس کا تعلق کفار کی دھمکیوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس سے ہے، اس طرح دھیان نہیں دیتے، کہ اس میں ہمارے لئے کیا ہدایت ہے۔ حالانکہ بات بالکل کھلی ہوئی ہے کہ جو شخص بھی کسی مسلمان کو اس لئے ڈرائے کہ تم نے فلاں حرام کام کیا یا گناہ نہ کیا تو تمہارے حکام اور افسر یا جن کے تم محتاج سمجھے جاتے ہو تم سے خفا ہوجائیں گے اور تکلیف پہنچائیں گے۔ یہ بھی اسی میں داخل ہے اگرچہ ڈرانے والا مسلمان ہی ہو اور جس سے ڈرایا جائے وہ بھی مسلمان ہی ہو۔ اور یہ ایسا عام ابتلاء ہے کہ دنیا کی اکثر ملازمتوں میں لوگوں کو پیش آتا ہے کہ احکام آلٰہیہ کی خلاف ورزی پر آمادہ ہوجائیں یا پھر اپنے افسروں کے عتاب و عقاب کا مورد بنیں۔ اس آیت نے ان سب کو یہ ہدایت دی کہ کیا اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کے لئے کافی نہیں، تم نے خالص اللہ کے لئے گناہوں کے ارتکاب سے بچنے کا عزم کرلیا اور احکام خداوندی کے خلاف کسی حاکم و افسر کی پرواہ نہ کی تو خدا تعالیٰ کی امداد تمہارے ساتھ ہوگی۔ زائد سے زائد یہ ملازمت چھوٹ بھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ تمہارے رزق کا دوسرا انتظام کردیں گے۔ اور مومن کا کام تو یہ ہے کہ ایسی ملازمت کو چھوڑنے کی خود ہی کوشش کرتا رہے کہ کوئی دوسری مناسب جگہ مل جائے تو اس کو فوراً چھوڑ دے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَيْسَ اللہُ بِكَافٍ عَبْدَہٗ۝ ٠ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝ ٣٦ۚ- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ خاص محمد کی حفاظت کے لیے یا یہ کہ حضرت خالد بن ولید کی حفاظت کے لیے کافی نہیں۔- اور یہ آپ کو ان جھوٹے معبودوں یعنی لات و عزی وغیرہ سے جو اللہ کے سوا ہیں ڈراتے ہیں۔ چناچہ آپ سے کہتے ہیں کہ ان بتوں کو برا بھلا مت کہو ورنہ آپ کو پریشان کردیں گے اور جسے اللہ تعالیٰ اپنے دین سے گمراہ کرے یعنی ابوجہل وغیرہ اسے کوئی دین خداوندی کا راستہ بتانے والا نہیں۔- شان نزول : وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ (الخ)- عبدالرزاق نے محمد سے روایت کی ہے کہ مجھے ایک شخص نے بیان کیا کہ کفار مکہ نے رسول اکرم سے کہا کہ آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنے سے باز آجائیں ورنہ ہم اپنے بتوں سے کہہ دیں گے وہ آپ کو پریشان کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی یہ لوگ آپ کو ان سے ڈراتے ہیں جو اللہ کے سوا ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ” کیا اللہ کافی نہیں ہے اپنے بندے کے لیے ؟ “- یہاں بالخصوص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تبعاً اہل ِایمان کی تسلی مقصود ہے کہ آپ لوگ مطمئن رہیں ‘ اللہ آپ کی مدد اور حفاظت کے لیے کافی ہے۔ لیکن بات میں زور پیدا کرنے کے لیے سوالیہ انداز اختیار فرمایا گیا ہے۔- وَیُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ آپ کو ڈراتے ہیں ان سے جو اس کے علاوہ (ان کے معبود) ہیں۔ “- یہ لوگ اپنے جھوٹے معبودوں کی طرف سے آپ ( علیہ السلام) کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ آپ پر ان کی کوئی پھٹکار پڑجائے گی۔ اسی طرح سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی آپ ( علیہ السلام) کی قوم نے دھمکی دی تھی کہ آپ نے ہمارے سارے معبودوں کی نفی کر کے انہیں ناراض کردیا ہے ‘ اب آپ پر ان کی پھٹکار پڑے گی اور ان کی طرف سے آپ کی پکڑ ہوگی۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا (الانعام : ٨١) کہ ” میں ان سے کیونکر ڈروں جن کو تم نے شریک ٹھہرایا ہے جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اس نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی “ یعنی بدبختو مجھے تم ان پتھر کے ُ بتوں سے کیا ڈراتے ہو ‘ جب کہ ڈرنا تو تم لوگوں کو چاہیے کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہو - وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ ” اور جس کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ “- جس کی گمراہی پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دے اس کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :55 کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو اور ان کے خلاف زبان کھولتے ہو ۔ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ کیسی زبردست با کرامت ہستیاں ہیں ۔ ان کی توہین تو جس نے بھی کی وہ برباد ہو گیا ۔ تم بھی اگر اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو یہ تمہارا تختہ الٹ دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani