Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یہ وفات کبریٰ ہے کہ روح قبض کرلی جاتی ہے، واپس نہیں آتی۔ 42۔ 2 یعنی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا، تو سونے کے وقت ان کی روح بھی قبض کر کے انہیں وفات صغریٰ سے دو چار کردیا جاتا ہے۔ 42۔ 3 یہ وہی وفات کبریٰ ہے، جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں روح روک لی جاتی ہے۔ 42۔ 4 یعنی جب تک ان کا وقت نہیں آتا، اس وقت تک کے لئے روحیں واپس ہوتی رہتی ہیں، یہ وفات صغریٰ ہے، یہی مضمون سورة الانعام میں بیان کیا گیا ہے تاہم وہاں وفات صغری کا ذکر پہلے اور وفات کبری کا بعد میں ہے جب کہ یہاں اس کے برعکس ہے۔ 42۔ 5 یعنی روح کا قبض اور اس کا ارسال، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور قیامت والے دن وہ مردوں کو بھی یقینا زندہ فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] اس آیت سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے بالفاظ دیگر اس میں مندرجہ ذیل نشانیاں موجود ہیں۔- ١۔ روح حیوانی اور روح نفسانی :۔ روح کی دو قسمیں ہیں۔ ایک روح حیوانی جس کا تعلق دوران خون سے ہوتا ہے۔ اور یہ نیند کی حالت میں بھی جسم کے اندر موجود رہتی ہے۔ دوسری روح نفسانی یا نفس ناطقہ ہے جو نیند یا خواب کی حالت میں بدن کو چھوڑ کر سیر کرتی پھرتی ہے اور ہر طرح کے واقعات سے خواب میں ہی دوچار ہوتی رہتی ہے۔ اسی روح کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرماتے ہیں۔ - خ دوام روح نفسانی کو ہے :۔ اور اسی روح کو دوام ہے یہ روح جب بدن کو چھوڑ دیتی ہے تو انسان کے حواس خمسہ میں نمایاں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ نیند کے دوران انسان کی قوت باصرہ، لامسہ اور ذائقہ کی کارکردگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوت سامعہ بھی ماند پڑجاتی ہے۔ ہاں اگر غل غپاڑا ہو یا کوئی دوسرا آدمی سوئے ہوئے کو بلند آواز سے پکار کر جگا دے تو روح نفسانی دوبارہ اپنے جسم میں لوٹ آتی ہے۔ اس روح کو اپنے جسم سے عشق کی حد تک محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی جسم اس روح کی آرزؤں کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔- ٢۔ عذاب قبر کی ماہیت :۔ ان دونوں قسم کی روحوں کا آپس میں نہایت گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ہی اکائی کے دو جزو ہوتے ہیں۔ روح نفسانی اگر خواب میں کسی بات پر یا کسی چیز سے لطف اندوز ہوتی ہے تو انسان جاگنے پر ہشاش بشاش نظر آتا ہے۔ اور اگر اس روح نفسانی کو خواب میں کوئی ناگوار حادثہ پیش آجائے تو بعض دفعہ انسان سوتے میں ہی چیخنے چلانے لگتا ہے اور جاگتا ہے تو سخت اندوہناک ہوتا ہے اور کہیں مار پٹے تو حیرت کی بات ہے کہ اس مار پٹائی کے اثرات اور نشانات بعض دفعہ انسان کے جسم پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ جنہیں جاگنے کے بعد انسان خود بھی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے عذاب قبرر یا عالم برزخ کے عذاب کی ماہیت کو کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔- ٣۔ روح حیوانی موت کے ساتھ ہی فنا ہوجاتی ہے :۔ روح حیوانی کا تعلق محض بدن سے ہے۔ بدن نہ ہو تو اس روح کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ بلکہ یہ روح تو بدن کے بوسیدہ ہونے یا فنا ہونے کا بھی انتظار نہیں کرتی بلکہ موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے ختم ہونے سے بدن بدن نہیں کہلاتا ہے بلکہ جسد، میت، لاش اور نعش کہلاتا ہے۔- ٤۔ ان دونوں قسم کی روحوں میں سے کسی بھی ایک قسم کی روح کے خاتمہ سے دوسری قسم کی روح کا از خود جسم سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص سوتے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہے کہ کسی دوسرے شخص نے اسے سوتے میں قتل کردیا۔ تو اب روح نفسانی خواہ کہیں بھی سیر کرتی ہوگی، دوبارہ اس جسم میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اسے وہیں قبض کرلے گا۔ اس کے برعکس صورت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کی روح نفسانی کو خواب میں قبض کرلیں تو بستر پر سونے والا آدمی بغیر کسی حادثہ یا بیماری کے مرجائے گا۔- ٥۔ نیند آدھی موت ہوتی ہے :۔ اللہ تعالیٰ موت کی حالت میں بھی روح نفسانی کو قبض کرتا ہے۔ اور نیند کی حالت میں بھی۔ اور یہی وہ روح ہے جسے انا یا ( ) کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے نیند بھی بہت حد تک موت کے مشابہ ہوتی ہے۔ اسی لئے سوتے وقت ہمیں جو دعا سکھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے۔ (اللّٰھُمَّ باسْمِکَ أمُوْتُ وَأحْیٰی) یعنی اے اللہ میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے زندہ ہوجاؤں گا اور بیدار ہوتے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ (ألْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانَا بَعْدَمَا أمَاتَنَا وَإلَیْہِ النُّشُوْرُ ) سب طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھا دیا اور اسی کے حضور حاضر ہونا ہے - خ ٦۔ نیند سے اٹھنے اور دوبارہ اٹھنے میں مماثلت :۔ وہ اللہ جو ہمیں ہر روز سلا کر موت کا نمونہ دکھاتا اور پھر اس کے بعد زندہ کرتا رہتا ہے وہ اس بات پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے کہ حقیقی موت کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آدمی کی جان موت کے وقت بھی قبض کرتا ہے اور نیند کے وقت بھی۔ گویا نیند بھی ایک طرح کی موت ہے، مگر اس میں روح قبض ہونے کے باوجود جسم کے ساتھ اس کا ایسا تعلق باقی رہتا ہے جس سے نبض چلتی، کھانا ہضم ہوتا اور سانس جاری رہتا ہے۔ اس تعلق کی پوری حقیقت ہم نہیں جانتے، کیونکہ روح کے معاملات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، فرمایا : (وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ) [ بني إسرائیل : ٨٥ ] ” اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔ “ مگر اس کی ایک ادنیٰ سی مثال، جو پوری مثال نہیں ہے، بجلی کا کرنٹ ہے کہ اس کا مرکز کسی جگہ ہوتا ہے مگر ہزاروں میل دور اس کا تعلق کسی اور چیز سے بھی ہوتا ہے، جیسے ریڈیو، ٹیلی وژن، ریموٹ وغیرہ۔ اس سے عذاب قبر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ موت کے بعد روح قبض ہونے کے باوجود اس کا جسم کے ساتھ اللہ کے حکم سے کوئی ایسا تعلق رہتا ہے کہ اس پر قبر میں عذاب و ثواب کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے بعض لوگوں نے عذاب قبر کا انکار ہی کردیا، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے صاف دلائل موجود ہیں اور مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات ہر حال میں مانے، خواہ اس کی کیفیت اسے بتائی جائے یا نہ بتائی جائے۔- نیند کی حالت میں جان قبض ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر موت کا لفظ استعمال فرمایا، اگرچہ یہ بڑی اور آخری موت سے پہلے موت کی ایک قسم ہے، جو زندگی میں آدمی پر بار بار آتی اور جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأنعام : ٦٠ ] ” اور وہی ہے جو تمہیں رات کو قبض کرلیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کمایا۔ “ حذیفہ (رض) فرماتے ہیں : ( کَان النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِہِ قَال باسْمِکَ أَمُوْتُ وَ أَحْیَا وَ إِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَیْہِ النُّشُوْرُ ) [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ٦٣١٢ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر جاتے تو کہتے : ” تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔ “ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے : ” سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں زندگی بخشی، اس کے بعد کہ اس نے ہمیں موت دی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ “- بعض اہل علم نے یہاں روح کی دو قسمیں بنائی ہیں، ایک روح حیوانی اور ایک روح نفسانی اور بعض نے نفس کو الگ اور روح کو الگ قرار دیا ہے، مگر یہ بات قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ جس طرح قرآن مجید میں نیند کے وقت نفسوں کو قبض کرنے کا ذکر ہے اسی طرح بخاری، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد وغیرہ میں نیند کے وقت ارواح کو قبض کرنے کا ذکر ہے۔ چناچہ ابوقتادہ (رض) نے ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام صحابہ (رض) کے رات کے سفر کے دوران سو جانے کا اور سورج نکلنے کے بعد بیدار ہونے کا ذکر کیا ہے، اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ قَبَضَ أَرْوَاحَکُمْ حِیْنَ شَاءَ ، وَ رَدَّہَا عَلَیْکُمْ حِیْنَ شَاءَ ) [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب الأذان بعد ذھاب الوقت : ٥٩٥ ] ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری ارواح کو قبض کرلیا جب چاہا اور انھیں تمہیں واپس کردیا جب چاہا۔ “ اس بحث سے معلوم ہوا نیند کے وقت قبض ہونے والی چیز نفس بھی کہلاتی ہے اور روح بھی۔- وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ : مقرر وقت سے مراد بڑی اور آخری موت ہے۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، جن میں سب سے پہلی تو اللہ کا وحدہ لا شریک لہ ہونا ہے کہ موت و حیات اور سلانے اور جگانے کا سلسلہ صرف اس کے ہاتھ میں ہے، اگر اس کا کوئی شریک ہوتا تو یہ اختیار یا اس کا کچھ حصہ اس کے پاس بھی ہوتا، اس لیے ہر طرح کی عبادت کا حق دار اللہ تعالیٰ ہے، یہی دلیل اللہ کے خلیل (علیہ السلام) نے پیش فرمائی تھی : (رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ) [ البقرۃ : ٢٥٨ ] ” میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔ “ دوسری نشانی یہ ہے کہ جو پروردگار ہر روز موت دیتا ہے اور مرنے کے بعد زندگی عطا کرتا ہے وہ قیامت کے دن بھی تمام مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور یقیناً انھیں زندہ کرے گا اور وہی اکیلا سب کا فیصلہ کرے گا، کوئی اس کی مرضی کے بغیر سفارش بھی نہیں کرسکے گا، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اللہ ہی قبض (یعنی معطل) کرتا ہے ان جانوں کو (جن کا وقت موت آ گیا ہے) ان کی موت کے وقت (مکمل طور پر کہ زندگی بالکل ختم ہوجائے) اور ان جانوں کو بھی جن کو موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت (یہ تعطل بالکلیہ نہیں ہوتا ایک حیثیت حیات کی باقی رہ جاتی ہے مگر ادراک نہیں رہتا اور موت کی صورت میں نہ ادراک رہتا ہے نہ حیات) پھر (اس معطل کرنے کے بعد) ان جانوں کو تو (بدن کی طرف عود کرنے سے) روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو (جو نیند کی وجہ سے معطل ہوگئی تھیں اور ابھی ان کی موت کا وقت نہیں آیا) ایک میعاد معین (یعنی مدت) تک کیلئے آزاد کردیتا ہے (کہ پھر واپس جا کر بدن میں بدستور سابق تصرفات کرنے لگیں) اس (مجموعہ تصرفات آلٰہیہ) میں ان لوگوں کے لئے جو سوچنے کے عادی ہیں (خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور بلا شرکت غیرے تمام عالم کے انتظامات کرنے پر) دلائل ہیں (جن سے اللہ کی توحید پر استدلال کرتے ہیں) ہاں کیا (توحید کے دلائل واضحہ قائم ہوتے رہے) ان لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو (معبود) قرار دے رکھا ہے جو (ان کی) سفارش کریں گے (جیسا کہ مشرکین اپنے بتوں کے متعلق کہا کرتے تھے (آیت) ھولاء شفعاؤنا عند اللہ) آپ کہہ دیجئے کہ اگرچہ یہ (تمہارے گھڑے ہوئے شفعاء) کچھ بھی قدرت نہ رکھتے ہوں اور کچھ بھی علم نہ رکھتے ہوں (کیا پھر بھی تم یہی سمجھتے چلے جاؤ گے کہ یہ تمہاری سفارش کریں گے۔ کیا اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ شفاعت کے لئے علم اور اس کے مناسب قدرت تو ضروری ہے جو ان میں مفقود ہے۔ یہاں بعض مشرک یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ پتھر کے تراشے ہوئے بت ہمارا مقصود نہیں بلکہ یہ مجسمے اور شکلیں فرشتوں کی یا جنات کی ہیں وہ تو ذی روح بھی ہیں قدرت اور علم بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے اس کے جواب کی یہ تعلیم دی گئی کہ) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ سفارش تو تمام تر خدا ہی کے اختیار میں ہے (بدون اس کی اجازت کے کسی فرشتے یا بشر کی مجال نہیں کہ کسی کی سفارش کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی اجازت شفاعت کے لئے دو شرطیں ہیں ایک شفاعت کرنے والے کا عند اللہ مقبول ہونا، دوسرے جس کی شفاعت کی جائے اس کا قابل مغفرت ہونا۔ اب سمجھ لو کہ مشرکین نے بتوں کو جن کی شکلیں سمجھ کر اختیار کیا ہے اگر وہ جنات و شیاطین ہیں تو دونوں شرطیں مفقود ہیں، نہ شفاعت کرنے والے مقبول عند اللہ ہیں نہ یہ مشرک قابل مغفرت ہیں اور اگر ان شکلوں کو ملائکہ یا انبیاء کی شکلیں قرار دے رکھا ہے تو شفاعت کرنے والوں کے مقبول ہونے کی شرط تو موجود ہوئی، مگر دوسری شرط مفقود ہے کہ ان مشرکین میں صلاحیت مغفرت کی نہیں ہے۔ آگے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ) تمام آسمان و زمین کی سلطنت اسی کی ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ (اسی لئے سب کو چھوڑ کر اسی سے ڈرو اسی کی عبادت کرو) اور (توحید کے دلائل واضحہ قائم ہونے کے باوجود کفار و مشرکین کا حال یہ ہے کہ) جب فقط اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (کہ وہ بلاشرکت غیرے تمام عالم کے سیاہ وسفید کا مالک مختار اور متصرف ہے) تو ان لوگوں کے دل منقبض ہوتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر آتا ہے (خواہ صرف انہیں کا ذکر ہو یا اللہ کے ذکر کے ساتھ، ان کا بھی ذکر ہو) تو اسی وقت وہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔- معارف و مسائل - موت اور نیند کے وقت قبض روح اور دونوں میں فرق کی تفصیل :- (آیت) اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا۔ توفی کے لفظی معنے لے لینے اور قبض کرلینے کے ہیں۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جانداروں کی ارواح ہر حال ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیر تصرف ہیں، وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرف خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جاندار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہوجاتی ہے، پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ بالکل قبض ہوجائے گی پھر واپس نہ ملے گی۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ قبض روح کے معنی اس کا تعلق بدن انسانی سے قطع کردینے سے ہیں، کبھی یہ ظاہراً و باطناً بالکل منقطع کردیا جاتا ہے۔ اس کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتا ہے۔ باطناً باقی رہتا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حس اور حرکت ارادیہ جو ظاہری علامت زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً تعلق روح کا جسم کے ساتھ باقی رہتا ہے جس سے وہ سانس لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ روح انسانی کو عالم مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کر کے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے۔ اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکل ختم ہوجاتی ہے۔- آیت مذکور میں لفظ توفی، بمعنی قبض بطور عموم مجاز کے دونوں معنی پر حاوی ہے۔ موت اور نیند دونوں میں قبض روح کا یہ فرق جو اوپر بیان کیا گیا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ایک قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ سونے کے وقت انسان کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے مگر ایک شعاع روح کی بدن میں رہتی ہے جس سے وہ زندہ رہتا ہے اور اسی رابطہ شفاعی سے وہ خواب دیکھتا ہے۔ پھر یہ خواب اگر روح کے عالم مثال کی طرف متوجہ رہنے کی حالت میں دیکھا گیا تو وہ سچا خواب ہوتا ہے اور اگر اس طرف سے بدن کی واپسی کی حالت میں دیکھا تو اس میں شیطانی تصرفات ہوجاتے ہیں وہ رویاء صادقہ نہیں رہتا۔ اور فرمایا کہ نیند کی حالت میں جو روح انسانی اس کے بدن سے نکلتی ہے تو بیداری کے وقت آنکھ جھپکنے سے بھی کم مقدار وقت میں بدن میں واپس آجاتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللہُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْہَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۝ ٤٢- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ- [ البقرة 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ- [ الأنعام 60] ، قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة 11] ، اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل 70] ، الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 28] ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام 61] ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] ، وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران 193] ، وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف 126] ، تَوَفَّنِي مُسْلِماً [يوسف 101] ، يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ- [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] اور تم کو تہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة 11] کہدو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل 70] اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ۔ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 28] ( ان کا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں ۔ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام 61]( تو ) ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں ۔ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں ۔ وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران 193] اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا ۔ وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف 126] اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو ۔ مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - نوم - النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی:- اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه .- ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نووم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اللہ ہی انسانوں کی روحوں کو قبض کرتا ہے ان کے سونے کی حالت میں جانوں کو بھی معطل کرتا ہے ان کے سونے کے وقت جن کی ابھی موت کا وقت نہیں آیا پھر جن کی موت کا وقت آجاتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور جن کا سونے کی حالت میں وقت نہیں آیا ان کو ایک وقت مقررہ کے لیے رہا کردیتا ہے اس روکنے اور چھوڑنے میں سوچنے والوں کے لیے قدرت کی نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا ” اللہ قبض کرلیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت “- وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ” اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں۔ “- یَتَوَفَّی (فعل مضارع) وفی مادہ سے باب تفعّل ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا قبضے میں لے لینا۔ سورة آل عمران کی آیت ٥٥ میں یہ لفظ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے آیا ہے اور وہاں لغوی اعتبار سے اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ اس کے بعد قرآن حکیم کے اس مطالعہ کے دوران جہاں بھی اس مادہ سے کوئی لفظ آیا میں نے خصوصی طور پر اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس لفظ کی بنیاد پر قادیانیوں نے لوگوں کے ذہنوں میں جو اشکالات پیدا کر رکھے ہیں ان کا منطقی جواب مل سکے۔ چناچہ اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے وقت ان کی جانوں اور ان کے شعور کو قبض کرلیتا ہے۔- نیند کی کیفیت میں انسان کا فہم و شعور اور اختیار و ارادہ سلب کرلیا جاتا ہے مگر روح موجود رہتی ہے۔ جبکہ موت کی حالت میں روح اور شعور دونوں چلے جاتے ہیں ‘ صرف جسم پیچھے رہ جاتا ہے۔ چونکہ اس مادے میں کسی چیز کو مکمل اور پورے کا پورا لینے کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لیے لفظ تَوفِیّ کا بتمام و کمال اطلاق تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے (روح ‘ شعور اور جسم سمیت) رفع آسمانی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جبکہ نیند کے حوالے سے یہ لفظ استعارۃً بولا جاتا ہے۔ - فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ” تو جس کی موت کا وہ فیصلہ کرچکا ہو اس کو اپنے پاس روکے رکھتا ہے اور دوسروں کو واپس بھیج دیتا ہے ایک وقت ِمعین ّ تک کے لیے۔ “- یعنی سونے والا جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کا فہم و شعور اور اختیار و ارادہ واپس آجاتا ہے اور ایک وقت معین یعنی اس کی موت تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کو ہر روز موت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا مشاہدہ کراتا رہتا ہے۔- اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّـتَفَکَّرُوْنَ ” یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :60 نیند کی حالت میں روح قبض کرنے سے مراد احساس و شعور ، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتوں کو معطل کر دینا ہے ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس پر اردو زبان کی یہ کہاوت فی الواقع راست آتی ہے کہ سویا اور موا برابر ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :61 اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت اور زیست کس طرح اس کے دست قدرت میں ہے ۔ کوئی شخص بھی یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح لازماً زندہ ہی اٹھے گا ۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ایک گھڑی بھر میں اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا لمحہ ہوتا ہے یا موت کا ۔ ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں ، گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کی کوئی اندرونی خرابی ، یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کر سکتی ہے جو اس کے لیے پیام موت ثابت ہو ۔ اس طرح جو انسان خدا کے ہاتھ میں بے بس ہے وہ کیسا سخت نادان ہے اگر اسی خدا سے غافل یا منحرف ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: نیند کی حالت میں بھی کسی درجے میں روح قبض ہوتی ہے، لیکن اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، واپس آجاتی ہے اور اگر موت کا وقت آچکا ہو تو اسے پوری طرح قبض کرلیا جاتا ہے۔