تخلیقی کائنات اور عقیدہ توحید ۔ ہر چیز کا خالق ، سب کا مالک ، سب پر حکمران اور سب کا قابض اللہ ہی ہے ۔ دن رات کا الٹ پھیر اسی کے ہاتھ ہے اسی کے حکم سے انتظام کے ساتھ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے برابر مسلسل چلے آ رہے ہیں ۔ نہ وہ آگے بڑھ سکے نہ وہ پیچھے رہ سکے ۔ سورج چاند کو اس نے مسخر کر رکھا ہے وہ اپنے دورے کو پورا کر رہے ہیں قیامت تک اس انتظام میں تم کوئی فرق نہ پاؤ گے ۔ وہ عزت و عظمت والا کبریائی اور رفعت والا ہے ۔ گنہگاروں کا بخشنہار ، عاصیوں پر مہربان وہی ہے ۔ تم سب کو اس نے ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے پھر دیکھو کہ تمہارے آپس میں کس قدر اختلاف ہے ۔ رنگ صورت آواز بول چال زبان و بیان ہر ایک الگ الگ ہے ۔ حضرت آدم سے ہی ان کی بیوی صاحبہ حضرت حوا کو پیدا کیا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ لوگو اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے جس نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا پھر بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اس نے تمہارے لئے آٹھ نر و مادہ چوپائے پیدا کئے جن کا بیان سورہ مائدہ کی آیت ( مِنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ١٤٣ۙ ) 6- الانعام:143 ) ، میں ہے ۔ یعنی بھیڑ ، بکری ، اونٹ گائے ۔ وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے جہاں تمہاری مختلف پیدائشیں ہوتی رہتی ہیں پہلے نطفہ ، پھر خون بستہ ، پھر لوتھڑا ، پھر گوشت پوست ، ہڈی ، رگ ، پٹھے ، پھر روح ، غور کرو کہ وہ کتنا اچھا خالق ہے ، تین تین اندھیرے مرحلوں میں تمہاری یہ طرح طرح کی تبدیلیوں کی پیدائش کا ہیر پھیر ہوتا رہتا ہے رحم کی اندھیری اس کے اوپر کی جھلی کی اندھیری اور پیٹ کا اندھیرا یہ جس نے آسمان و زمین کو اور خود تم کو اور تمہارے اگلوں پچھلوں کو پیدا کیا ہے ۔ وہی رب ہے اسی کا مالک ہے ۔ وہی سب میں متصرف ہے وہی لائق عبادت ہے اس کے سوا کوئی اور نہیں ۔ افسوس نہ جانیں تمہاری عقلیں کہاں گئیں کہ تم اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے ۔
[٨] یعنی زمین و آسمان یا کائنات کو بےفائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ اس میں بیشمار حکمتیں ہیں اور ان کی تخلیق سے کثیر مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔- [٩] گردش لیل ونہار میں دلائل توحید :۔ یعنی شام کے وقت اگر مغرب کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ادھر سے اندھیرا اوپر کو اٹھ رہا ہے۔ جو بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ تاآنکہ سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ اسی طرح صبح کے وقت اجالا مشرق سے نمودار ہوتا ہے۔ جو بتدریج بڑھ کر پورے آسمان پر چھا جاتا ہے۔ اور سورج نکل آتا ہے تو کائنات جگمگا اٹھتی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹا جارہا ہے۔ دن کو روشن کرنے اور رکھنے والی چیز سورج ہے۔ اور چاند رات کو روشنی دیتا ہے۔ یہ سورج اور یہ چاند جب سے پیدا کئے گئے ہیں۔ انسان کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور انسانوں کو ان سیاروں سے بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ نظام شمس و قمر بھی ابدی نہیں ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ان کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔- [١٠] اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز سے زبردست اور ان سب پر غالب ہے جو ایسے عظیم الجثہ کروں سے اپنی حسب پسند کام لے رہا ہے اور وہ بخش دینے والا یہاں اس نسبت سے مذکور ہے کہ حضرت انسان نے اس دنیا جو فتنہ و فساد بپا کر رکھا ہے اس کا تو یہی تقاضا ہے کہ یہ نظام درہم کرکے انسانوں کو تباہ کردیا جائے۔ مگر وہ عفو و درگزر سے کام لے رہا ہے۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَـقِّ : یعنی اس نے آسمانوں کو اور زمین کو بالکل درست اور صحیح طریقے پر بنایا ہے۔ کوئی شخص اس کی کسی چیز کو غلط نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی اس سے بہتر پیش کرسکتا ہے، اور اس نے انھیں خاص مقصد اور مصلحت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٧٣) ، یونس (٥) ، حجر (٨٥) اور نحل (٣) ۔- يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّهَارِ ۔۔ : ” کَوْرُ الْعِمَامَۃِ وَ تَکْوِیْرُھَا “ پگڑی لپیٹنا۔ اس آیت میں زمین کے گول ہونے کا بھی اشارہ ہے، یعنی جس طرح سر پر پگڑی لپیٹی جاتی ہے کہ اس کے ایک پیچ کے اوپر دوسرا پیچ آجاتا ہے، جو پہلے پیچ کو چھپا لیتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر رات کو کسی وقفے کے بغیر دن پر لپیٹتا ہے، جیسے جیسے رات کا پیچ آگے بڑھتا ہے روشنی چھپتی جاتی ہے اور تاریکی پھیلتی جاتی ہے، اس کے پیچھے دن کا پیچ سورج کی صورت میں پھیلتا چلا آتا ہے، جس سے رات کی تاریکی چھپ کر روشنی پھیلتی جاتی ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٤) ۔- وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة رعد (٢) ۔- اَلَا هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفَّارُ : لفظ ” الا “ اس مقصد کے لیے ہے کہ اس آیت کے مضمون پر خوب غور کرو اور اس پر خاص توجہ دو ۔ ” انزل “ یعنی وہ جس نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا، جو رات کو دن پر لپیٹتا اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے، وہی سب پر غالب ہے، کسی میں طاقت نہیں کہ وہ جو کرنا چاہے اسے روک دے اور جسے روکنا چاہے وہ کر گزرے۔ ” الغفار “ یعنی اتنے غلبے اور قوت کے باوجود اس نے اپنے نافرمانوں کو جو مہلت دے رکھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بےپناہ غلبے کے ساتھ ساتھ بندوں کے گناہوں پر نہایت پردہ ڈالنے والا اور بیحد بخشنے والا بھی ہے۔
(آیت) يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّهَارِ ۔ تکویر کے معنے ایک چیز کو دوسری پر ڈال کر اس کو چھپا دینے کے ہیں۔ قرآن کریم نے دن رات کے انقلاب کو یہاں عام نظروں کے اعتبار سے بلفظ تکویر تعبیر کیا ہے کہ رات آتی ہے تو گویا دن کی روشنی پر ایک پردہ ڈال دیا گیا، اور دن آتا ہے تو رات کی اندھیری پردہ میں چلی جاتی ہے۔- چاند، سورج دونوں متحرک ہیں :- (آیت) كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ۔ اس سے معلوم ہوا کہ شمس وقمر دونوں حرکت کرتے رہتے ہیں۔ فلکیات اور طبقات الارض کی مادی تحقیقات قرآن پاک یا کسی آسمانی کتاب کا موضوع بحث نہیں ہوتا۔ مگر اس معاملہ میں جتنی بات کہیں ضمناً آجاتی ہے اس پر یقین رکھنا فرض ہے۔ فلاسفر کی قدیم وجدید تحقیقات تو موم کی ناک میں روز بدلتی رہتی ہیں۔ قرآنی حقائق غیر متبدل ہیں۔ آیت مذکورہ نے جتنی بات بتلائی کہ چاند اور سورج دونوں حرکت کر رہے ہیں اس پر یقین رکھنا فرض ہے۔ اب رہا یہ معاملہ کہ ہمارے سامنے آفتاب کا طلوع و غروب زمین کی حرکت سے ہے یا خود ان سیاروں کی حرکت سے، قرآن پاک نہ اس کا اثبات کرتا ہے نہ نفی۔ تجربہ سے جو کچھ معلوم ہوا اس کے ماننے میں حرج نہیں۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ ٠ ۚ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّہَارِ وَيُكَوِّرُ النَّہَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ٠ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ٠ ۭ اَلَا ہُوَالْعَزِيْزُ الْغَفَّارُ ٥- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- كور - كَوْرُ الشیءِ : إدارته وضمّ بعضه إلى بعض، كَكَوْرِ العمامةِ ، وقوله تعالی: يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهارِ وَيُكَوِّرُ النَّهارَ عَلَى اللَّيْلِ [ الزمر 5] فإشارة إلى جریان الشمس في مطالعها وانتقاص اللیل والنهار وازدیادهما . وطعنه فَكَوَّرَهُ : إذا ألقاه مجتمعاواکْتَارَ الفَرَسُ : إذا أدار ذنبه في عدوه، وقیل لإبل کثيرة : كَوْرٌ ، وكَوَّارَةُ النّحل معروفة . والْكُورُ : الرّحلُ ، وقیل لكلّ مصر :- كُورَةٌ ، وهي البقعة التي يجتمع فيها قری ومحالّ.- ( ک و ر ) الکور ۔ کے معنی کسی چیز کو عمامہ کی طرح لپیٹنے اور اس کو اوپر تلے گھمانے کے ہیں چناچہ آیت : ۔ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهارِ وَيُكَوِّرُ النَّهارَ عَلَى اللَّيْلِ [ الزمر 5] اور وہی رات کو دن پر لپیٹتا اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ۔ میں مطالع شمسی کے تبدیل ہونے سے دن رات کے بڑھنے اور گھنٹے کو تکویر سے تعبیر فرمایا ہے ۔ طعنہ فکو رہ اس کو نیز ہ مار کر گچھلی کردیا اکتارالفرس ۔ گھوڑے کا دوڑ تے وقت اپنی دم گھمانا اور بہت سے اونٹوں کو بھی کور کہا جاتا ہے اور کو ارۃ النحل کے معنی شہد کے چھتہ کے ہیں ۔ الکور کے معنی اونٹ کا پالان بھی آتے ہیں اور ہر بڑے شہر کو کورۃ کہاجاتا ہے یعنی وہ علاقہ جس میں بہت سی بستیاں اور دیہات جمع ہوں ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51]- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا اور وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے جس کی وجہ سے دن رات سے لمبا ہوجاتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے جس سے رات لمبی ہوجاتی ہے اور اس نے انسانوں کے لیے چاند و سورج کی روشنی کو مسخر کیا ان چاند سورج، رات اور دن میں سے ہر ایک مقررہ مدت تک چلتا رہے گا۔ یاد رکھو وہ ذات جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے وہ کافروں کی گرفت فرمانے میں زبردست اور جو شرک سے توبہ کرے اور اس پر ایمان لائے اس کو بڑا بخشنے والا ہے۔
آیت ٥ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ” اس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ۔ “- یعنی یہ کائنات ایک نہایت منظم ‘ بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے ‘ یہ کوئی کار عبث نہیں ہے۔- یُـکَوِّرُ الَّــیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُــکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّــیْلِ ” وہ رات کو لپیٹ دیتا ہے دن پر اور دن کو لپیٹ دیتا ہے رات پر “- یہ مضمون قرآن حکیم میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ متعدد مقامات پر یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں ‘ جبکہ بعض جگہوں پر یُوْلِجُ الَّــیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّــیْلِ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ بہر حال مقصود اس سے یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ رات اور دن کے الٹ پھیر کا یہ منضبط اور منظم نظام بےمقصد اور عبث نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے عالم نباتات کے نظام تنفس ّ ( ) کی مثال لی جاسکتی ہے جو کلی طور پر دن رات کے ادلنے بدلنے کے ساتھ متعلق و مشروط ہے یا پھر روئے زمین پر پھیلے ہوئے پورے نظام زندگی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس گردش لیل و نہار کا مرہونِ منت ہے۔ غرض اس کائنات کی کوئی چیزیا کوئی تخلیق بھی بےمقصد و بےکار نہیں۔ اور اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر انسان اور انسان کی تخلیق کیونکر بےمقصد و بےکار ہوسکتی ہے ‘ جس کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے ؟ - یہاں پر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال خود بخود پیدا ہونا چاہیے کہ جب کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں تو آخر انسان کا مقصد ِتخلیق کیا ہے ؟ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں : (فَاِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَـکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ ) (١) یعنی دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ بہر حال اگر عقل اور منطق کی عینک سے بھی دیکھا جائے تو بھی آخرت کے تصور کے بغیر انسان کی تخلیق کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ خصوصاً انسان کو نیکی اور بدی کا جو شعور ودیعت ہوا ہے وہ ایک ایسی دنیا کا تقاضا کرتا ہے جہاں اچھائی کا نتیجہ واقعی اچھا نکلے اور برائی کا انجام واقعی برا ہو۔ جبکہ اس دنیا میں ہر جگہ اور ہر وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چناچہ انسان کی اخلاقی حس ( ) کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے بھی ایک دوسری زندگی کا ظہور نا گزیر ہے۔- وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ” اور اس نے مسخر کردیا سورج اور چاند کو۔ “- کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ” یہ سب کے سب چل رہے ہیں ایک وقت معین تک کے لیے۔ “- اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ ” آگاہ ہو جائو وہ زبردست ہے ‘ بہت بخشنے والا۔ “
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :10 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ 479 و 525 جلد سوم ، ص 703 ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :11 یعنی زبردست ایسا ہے کہ اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی طاقت اس کی مزاحمت نہیں کر سکتی ۔ مگر یہ اس کا کرم ہے کہ تم یہ کچھ گستاخیاں کر رہے ہو اور اور پھر بھی وہ تم کو فوراً پکڑ نہیں لیتا بلکہ مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے ۔ اس مقام پر عقوبت میں تعجیل نہ کرنے اور مہلت دینے کو مغفرت ( درگزر ) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔