Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی پھر اس کی اولاد لڑکیاں ہی کیوں ہوتیں ؟ جس طرح مشرکین کا عقیدہ تھا۔ بلکہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو پسند کرتا، وہ اس کی اولاد ہوتی، نہ کہ وہ جن کو وہ باور کراتے ہیں، لیکن وہ تو اس نقص سے ہی پاک ہے۔ (ابن کثیر

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] یہ دراصل مشرکوں کے اس عقیدہ کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ حالانکہ اپنے لئے بیٹیاں انہیں ناگوار ہیں۔ انہیں جواب یہ دیا گیا کہ اللہ کے لئے تو اولاد ہونا ہی محالات سے ہے۔ اس لئے کہ باپ اور بیٹے میں جنسی اور نوعی اشتراک ہوتا ہے۔ نیز بیٹا نہ باپ کا مملوک ہوتا ہے نہ مخلوق۔ جبکہ سب چیزیں اللہ کی مملوک و مخلوق ہیں۔ لہذا ان میں کسی قسم کا اشتراک ناممکن ہے۔ اور اگر بفرض محال اللہ اولاد بناتا تو پھر کیا بیٹیاں ہی اپنے لئے انتخاب کرتا ؟ جیسا کہ تم کہتے ہو جبکہ تم انہیں اپنی ذات کے لئے قطعاً پسند نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا ۔۔ : اس آیت میں مشرکین کے ایک اور شرک یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کی نفی فرمائی ہے، کیونکہ ان میں سے بعض عزیر (علیہ السلام) کو اور بعض عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے اور بعض فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ظاہر ہے اولاد دو طرح کی ہوسکتی ہے، ایک حقیقی اولاد۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے عقلاً محال ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا) [ الأنعام : ١٠١ ] ” اس کی اولاد کیسے ہوگی، جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “ یعنی اللہ کی کوئی بیوی نہیں اور بیوی کے بغیر اولاد محال ہے، پھر ہر چیز اس کی مخلوق ہے اور اولاد والد کی مخلوق نہیں بلکہ اس کی ہم جنس ہوتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو اپنی منہ بولی اولاد بنا لینا ہے۔ فرمایا، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی اولاد بنانا چاہتا تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا اس کے لیے چن لیتا، نہ کہ یہ معاملہ ان مشرکوں اور گمراہ یہود و نصاریٰ پر چھوڑ دیتا، مگر نہ اس نے یہ چاہا اور نہ کسی کو اولاد بنایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے یہ ارادہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہاں ” لَوْ “ کا لفظ تعلیق بالمحال کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ ) [ الأنبیاء : ١٧ ] ” اگر ہم چاہتے کہ کوئی کھیل بنائیں تو یقیناً اسے اپنے پاس سے بنالیتے، اگر ہم کرنے والے ہوتے۔ “- سُبْحٰنَهٗ : یہ اللہ تعالیٰ کے کسی کو اولاد نہ بنانے کی دلیل ہے۔ دوسری جگہ یہ دلیل تفصیل سے بیان فرمائی ہے : (وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭكُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ) [ البقرۃ : ١١٦ ] ” اور انھوں نے کہا اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے، وہ پاک ہے، بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کے فرماں بردار ہیں۔ “ اس آیت میں تین طرح سے اللہ تعالیٰ کے کسی کو اولاد بنانے کا رد ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١١٦) ۔- ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّار : اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد بنانے کی نفی کرتے ہوئے پہلے اپنا ذاتی نام ” اللہ “ ذکر فرمایا، پھر اپنی صفت ” الْوَاحِدُ “ بیان فرمائی کہ جس کی تم اولاد بتا رہے ہو وہ انسان یا کوئی مخلوق نہیں بلکہ اللہ ہے، جو اصل میں ” اَلْاِلٰہُ “ ہے، یعنی وہ معبود ہے، باقی سب عبد ہیں۔ تو جو عبد ہے وہ اس کی اولاد کیسے ہوسکتا ہے ؟ ” الواحد “ اور ” القہار “ پر الف لام کی وجہ سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی وہی واحد ہے، اس کے سوا کوئی واحد نہیں، اس کا ایک ہونا کسی کو اولاد بنانے کے منافی ہے، کیونکہ اولاد اولاد بنانے والے کی جنس ہوتی ہے، جیسا کہ انسان کسی انسان ہی کو اولاد بنا سکتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کوئی جنس نہیں، کیونکہ وہ ہے ہی اکیلا، تو کوئی اس کی اولاد کیسے بن گیا ؟- الھہار : اور وہی قہار ہے، اس سے اولاد کی اور ہر قسم کے شریک کی نفی ہوگئی، کیونکہ ہر چیز اس کی مقہور ہے۔ وہ سب پر قاہر اور غالب ہی نہیں بلکہ قہار اور زبردست غالب ہے، جب کہ باپ اور بیٹے کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا۔ اگلی آیات میں اپنی وحدانیت اور قدرت و عظمت پر دلالت کرنے والی کئی اور چیزیں بیان فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا۔ یہ ان لوگوں پر رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی اولاد کہتے تھے ان کے اس خیال باطل اور محال کو بطور فرض محال کے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے معاذ اللہ کوئی اولاد ہوتی تو وہ بغیر اس کے ارادہ اور مشیت کے ہونا محال ہے کہ زبردستی اولاد اس پر مسلط نہیں ہوسکتی پھر اگر بالفرض اس کا ارادہ ہوتا تو اس کی ذات کے سوا سب اس کی مخلوقات ہی ہیں انہیں میں سے کسی کو اولاد بناتے۔ اور اولاد کا اپنے والد کی ہم جنس ہونا لازم ہے، اور مخلوق خالق کی ہم جنس نہیں ہو سکتی۔ اس لئے مخلوق کو اولاد بنانے کا ارادہ کرنا محال ہوگیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَوْ اَرَادَ اللہُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝ ٠ ۙ سُبْحٰنَہٗ۝ ٠ ۭ ہُوَاللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝ ٤- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - اصْطِفَاءُ- : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته .- واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] ، إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران 33] ، اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران 42] ، اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف 144] ، وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص 47] ، واصْطَفَيْتُ كذا علی كذا، أي : اخترت . أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات 153] ، وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل 59] ، ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر 32] ، والصَّفِيُّ والصَّفِيَّةُ : ما يَصْطَفِيهِ الرّئيسُ لنفسه، قال الشاعر : لک المرباع منها والصَّفَايَا وقد يقالان للناقة الكثيرة اللّبن، والنّخلة الكثيرة الحمل، وأَصْفَتِ الدّجاجةُ : إذا انقطع بيضها كأنها صَفَتْ منه، وأَصْفَى الشاعرُ : إذا انقطع شعره تشبيها بذلک، من قولهم : أَصْفَى الحافرُ : إذا بلغ صَفًا، أي : صخرا منعه من الحفر، کقولهم : أكدى وأحجر «2» ، والصَّفْوَانُ کالصَّفَا، الواحدةُ : صَفْوَانَةٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة 264] ، ويقال : يوم صَفْوَانٌ: صَافِي الشّمسِ ، شدید البرد .- الاصطفا ء - کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران 33] خدا نے آدم اور نوح ۔۔۔۔۔۔ کو ( تمام جمان کے لوگوں میں ) منتخب فرمایا تھا ۔ اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران 42] خدا نے تم کو برگزیدہ کیا اور پاک بنایا اور ۔۔۔۔۔ منتخب کیا ۔ اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف 144] میں نے تم کو ۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے ممتاز کیا ۔ وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص 47] اور یہ لوگ ہمارے ہاں منتخب اور بہتر افراد تھے ۔ اصطفیت کذا علی کذا ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دینا اور پسند کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات 153] کیا اس نے بیتوں کی نسبت بیٹیوں کو پسند کیا ۔ وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل 59] اس کے بندوں پر سلام جن کو اس نے منتخب فرمایا : ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر 32] پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ۔ الصفی والصفیۃ مال غنیمت کی وہ چیز جسے امیر اپنے لئے منتخب کرنے ( جمع صفایا ) شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (274) لک المریاع منھا والصفایا تمہارے لئے اس سے ربع اور منتخب کی ہوئی چیزیں ہیں ۔ نیز صفی وصفیۃ (1) بہت دودھ دینے والی اونٹنی (2) بہت پھلدار کھجور ۔ اصفت الدجاجۃ مرغی انڈے دینے سے رک گئی گویا وہ انڈوں سے خالص ہوگئی اس معنی کی مناسبت سے جب شاعر شعر کہنے سے رک جاے تو اس کی متعلق اصفی الشاعر کہاجاتا ہے اور یہ اصفی الحافر کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کنواں کھودنے والا صفا یعنی چٹان تک پہنچ گیا جس نے اسے آئندہ کھدائی سے روک دیا جیسا کہ اکدی واحجر کے محاورات اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اور الصفا کی طرح صفوان کے معنی بھی بڑا صاف اور چکنا پتھر کے ہیں اس کا واحد صفوانۃ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة 264] اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو ۔ یوم صفوان خنک دن میں سورج صاف ہو ( یعنی بادل اور غبارہ نہ ہو )- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] - ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اگر اللہ تعالیٰ فرشتوں یا انسانوں میں سے کسی کو اولاد بنانے کا ارادہ کرتا جیسا یہود و نصاری اور بنو ملیح کا کہنا ہے تو وہ ضرور اپنی اس مخلوق ہی سے جو اس کے پاس جنت میں موجود ہے جسے چاہتا منتخب فرماتا یا یہ کہ فرشتوں میں سے منتخب فرماتا باقی وہ ان تمام عیوب سے پاک ہے اور وحدہ لاشریک اور اپنی تمام مخلوقات پر غالب ہے۔- شان نزول : لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا (الخ)- ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ تین قبائل عامر، کنانہ بن سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بتوں کو پوجتے تھے اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے یہاں مقرب بنا دیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ لَوْ اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ ” اگر اللہ کا واقعی ارادہ ہوتا کہ کسی کو اولاد بنائے تو وہ چن لیتا اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا “- اللہ کی نہ تو کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ہاں اولاد کا کوئی تصور ہے۔ وہ اکیلا خالق ہے اور باقی ہرچیز اس کی مخلوق ہے ‘ فرشتے بھی اس کی مخلوق ہیں۔ اسے کسی کو بیٹا یا بیٹی بنانے کی کوئی ضرورت یا حاجت نہیں ہے۔- سُبْحٰنَہٗط ہُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ ” وہ پاک ہے۔ وہ اللہ ہے اکیلا اور (کل کائنات پر) چھایا ہوا۔ “- ُ کل کائنات اور تمام مخلوقات پر اس کی حکومت قائم ہے۔ وہ سب پر قابو رکھنے والا اور غالب ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :8 یعنی اللہ کا بیٹا ہونا تو سرے سے ہی ناممکن ہے ۔ ممکن اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی کو اللہ برگزیدہ کر لے ۔ اور برگزیدہ بھی جس کو وہ کرے گا ، لامحالہ وہ مخلوق ہی میں سے کوئی ہو گا ، کیونکہ اللہ کے سوا دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مخلوق خواہ کتنی ہی برگزیدہ ہو جائے ، اولاد کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی ، کیونکہ خالق اور مخلوق میں عظیم الشان جوہری فرق ہے ، اور ولدیت لازماً والد اور اولاد میں جوہری اتحاد کی مقتضی ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو ایسا کرتا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ نے ایسا کرنا کبھی نہیں چاہا ۔ اس طرز بیان سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لینا تو درکنار ، اللہ نے تو ایسا کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :9 یہ دلائل ہیں جن سے عقیدہ ولدیت کی تردید کی گئی ہے ۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب اور کمزوری سے پاک ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد کی ضرورت ناقص و کمزور کو ہوا کرتی ہے ۔ جو شخص فانی ہوتا ہے وہی اس کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو تاکہ اس کی نسل اور نوع باقی رہے ۔ اور کسی کو متبنّیٰ بھی وہی شخص بناتا ہے جو یا تو لا وارث ہونے کی وجہ سے کسی کو وارث بنانے کی حاجت محسوس کرتا ہے ، یا محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کسی کو بیٹا بنا لیتا ہے ۔ یہ انسانی کمزوریاں اللہ کی طرف منسوب کرنا اور ان کی بنا پر مذہبی عقیدے بنا لینا جہالت اور کم نگاہی کے سوا اور کیا ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہے وہ اکیلا اپنی ذات میں واحد ہے ، کسی جنس کا فرد نہیں ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد لازماً ہم جنس ہوا کرتی ہے ۔ نیز اولاد کا کوئی تصور ازدواج کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اور ازدواج بھی ہم جنس سے ہی ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا وہ شخص جاہل و نادان ہے جو اس یکتا و یگانہ ہستی کے لیے اولاد تجویز کرتا ہے ۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ قہار ہے ۔ یعنی دنیا میں جو چیز بھی ہے اس سے مغلوب اور اسکی قاہرانہ گرفت میں جکڑی ہوئی ہے ۔ اس کائنات میں کوئی کسی درجے میں بھی اس سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی رشتہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani