Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہ جھوٹ ہی ہے کہ ان معبودان باطلہ کے ذریعے سے ان کی رسائی اللہ تک ہوجائے گی یا یہ ان کی سفارش کریں گے اور اللہ کو چھوڑ کر بےاختیار لوگوں کو معبود سمجھنا بھی بہت بڑی ناشکری ہے ایسے جھوٹوں اور ناشکروں کو ہدایت کس طرح نصیب ہوسکتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] دین کا لفظ چار معنوں میں آتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی مکمل سیاسی اور قانونی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے۔ (٢) دوسرا معنی اس کے بالکل برعکس ہے یعنی اپنے آپ کو ہمہ وقتی اللہ کا غلام سمجھا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے، (٣) قانون جزا و سزا (٤) اور اس قانون جزا و سزا کے مطابق اچھے اور برے لوگوں کو بدلہ دینا۔ آیت نمبر ٢ اور ٣ میں دین کا لفظ اپنے پہلے دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔- [٤] توسل اور اللہ کا قرب ڈھونڈنا :۔ غیر اللہ کو پکارنے اور ان کے حضور نذر و نیاز پیش کرنے کے سلسلہ میں مشرکوں کی دلیل ہمیشہ یہ ہوا کرتی ہے کہ ہم یہ کام اس لئے کرتے ہیں کہ یہ چھوٹے خدا ہماری معروضات بڑے خدا تک پہنچا دیں۔ ہماری اللہ کے حضور سفارش کریں۔ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ہم نے انہیں صرف اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ یا ذریعہ بنایا ہے۔ یہ جواب تو دور نبوی کے مشرکوں کا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کا بھی بالکل یہی حال ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو مقام مشرکوں کے نزدیک اپنے بتوں کا تھا وہی مقام مسلمانوں کے نزدیک ان کے پیروں یا مشائخ کا ہے اور دوسرا فرق یہ ہے کہ مشرکوں کو تو بتوں کی نیاز مندی کے آداب واطوار شیطان نے سجھائے تھے۔ مگر مسلمانوں کے مشائخ خود اپنے مریدوں کو یہ آداب واطوار بتاتے ہیں۔ ان پیروں اور بزرگوں نے شرک کی منزلیں طے کرانے کے لئے تین درجے مقرر کر رکھے ہیں۔ (١) فنا فی الشیخ، (٢) فنا فی الرسول اور (٣) فنا فی اللہ۔ - خ تصور شیخ اور سلوک کی منزلیں :۔ فنا فی الشیخ کے درجہ کی ابتدا تصور شیخ سے کرائی جاتی ہے۔ تصور شیخ سے مراد صرف پیر کی غیر مشروط اطاعت ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ اس کا پیر ہر وقت اس کے حالات سے باخبر رہتا ہے۔ اور بوقت ضرورت ان کی مدد کو پہنچتا ہے۔ اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لئے اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پیر کی شکل کو اپنے ذہن میں رکھے۔ یہی واہمہ اور مشق بسا اوقات ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگتا ہے اور صورت یہ بن جاتی ہے کہ :- دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار۔۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی - ان حضرات نے پیری کے فن کو خاص تکنیک دے کر عوام پر اس طرح مسلط کردیا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک اللہ کے ہاں رسائی نہیں پاسکتا۔ جب تک باقاعدہ کسی سلسلہ طریقت میں داخل نہ ہو۔ پہلے تصور شیخ کی مشق کرے۔ حتیٰ کہ فنا فی الشیخ ہوجائے۔ یعنی اسے اپنی ذات کے لئے حاضر ناظر، افعال و کردار اور گفتار کو سننے والا اور دیکھنے والا سمجھنے لگے تب جاکر یہ منزل ختم ہوتی ہے اور عملاً ہوتا یہ ہے کہ مرید بیچارے تمام عمر فنا فی الشیخ کی منزل میں ہی غوطے کھاتے کھاتے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ گویا اللہ اور اس کے رسول سے بیگانہ کرکے اپنا غلام بنانے کا کارگر اور کامیاب حربہ ہے۔ یہ حضرات کس طرح اللہ سے بھی زیادہ اپنی پرستش کی تاکید کرتے ہیں یہ بات درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائیے جو تصور شیخ، غیر اللہ کو پکارنا، توسل اور استمداد جیسے سب مسائل حل کردیتا ہے۔- خ اللہ کی بجائے مصیبت میں یا جنید پکارنے کی تلقین :۔ اس کے راوی جناب اعلیٰ حضرت رضا خان بریلوی ہیں۔ فرماتے ہیں غالباً حدیقہ ندیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدی جنید بغدادی دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی طرح چلنا شروع کردیا۔ بعد میں ایک شخص آیا۔ اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی۔ جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا ؟ عرض کیا : میں کس طرح آؤں ؟ فرمایا یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا جب بیچ دریا میں پہنچا۔ شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود یا اللہ کہیں اور مجھ سے یاجنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی کیوں نہ یا اللہ کہوں ؟- خ اللہ کے قرب کی بجائے دور رکھنے کا طریقہ :۔ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا۔ پکارا یا حضرت میں چلا۔ فرمایا : وہی کہہ یا جنید یا جنید جب کہا دریا سے پار ہوا۔ عرض کیا حضرت یہ کیا بات تھی۔ آپ یا اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاؤں ؟ فرمایا : اے نادان ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں، اللہ تک رسائی کی ہوس ہے۔ اللہ اکبر (ملفوظات مجدد مائۃ حاضر حضرت احمد رضا خان بریلوی ص ١١٧)- پیر کس طرح اپنی پرستش کرواتے ہیں :۔ دیکھا آپ نے پیر کو وسیلہ پکڑنے کی کتنی زبردست دلیل ہے جو امام اہل سنت، موجودہ صدی کے مجدد صاحب غالباً حدیقہ ندیہ کے حوالہ سے پیش فرما رہے ہیں۔ اور واقعہ بھی ایسا لاجواب گھڑا ہے کہ اس بیچارے کو تسلیم کرنا پڑا کہ میرا اللہ کو پکارنا واقعی شیطانی وسوسہ تھا۔ یہ ہیں تصور شیخ جیسی بدعت کے کرشمے۔ یہ لوگ ایسے افسانے تراش تراش کر لوگوں کو شرک میں مبتلا کرتے اور اللہ سے دور رکھتے اور فی الحقیقت اپنی پرستش کراتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے خود جو اپنے قرب کا وسیلہ بتایا وہ درج ذیل قدسی حدیث سے واضح ہوتا ہے :- قرب الہٰی کا حقیقی وسیلہ اس کے نیک اعمال ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پرس نہ کی، وہ کہے گا : اے میرے پروردگا میں کیسے تیری عبادت کرتا جبکہ تو تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پالیتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے کھانا نہ دیا۔ وہ کہے گا : اے میرے پروردگار میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا۔ تو تو رب العالمین ہے ؟ پروردگار فرمائے گا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے اسے کھانا نہ کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا اجر میرے ہاں پالیتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ کہے گا کہ میں تجھے کیونکر پانی پلاتا، تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا اجر میرے ہاں پالتا (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ والادب۔ باب فضل عیادۃ المریض)- [٥] پھر صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے عقائد پر جمے ہوئے ہیں بلکہ اگر انہیں سمجھایا جائے تو مخالفت پر اتر آتے ہیں اور اسے ولیوں کے منکر یا گستاخ کا طعنہ دیتے ہیں۔ ایسے اختلافات دنیا میں مٹ نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ معاملہ غور و فکر اور افہام کا نہیں بلکہ ضد اور چڑ کا بن جاتا ہے پھر کچھ دنیوی مفادات کا بھی دھندا چلتا ہے۔ لہذا ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ ہی کرے گا۔ اور وہاں ہر ایک کو ٹھیک سمجھ آجائے گی۔- [٦] یہ مشرک جھوٹے تو اس لحاظ سے ہیں کہ ان کے سب عقیدے من گھڑت ہوتے ہیں۔ اور حق کے منکر اس لحاظ سے کہ بات سمجھنے کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں۔ اور اگر کفار کا معنی ناشکرگزار کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کھاتے تو اللہ کا دیا ہوا رزق ہیں اور ان کی ہر طرح کی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسروں کے لئے وقف ہوتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۭ ۔۔ : یعنی اصل حقیقت تو یہی ہے کہ خالص عبادت اور اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، مگر اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھنے والے مشرک لوگ عموماً یہی کہا کرتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت انھیں خالق ومالک سمجھ کر نہیں کرتے، خالق ومالک اور اصل معبود تو ہم اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی ذات بہت بلند ہے، ہماری وہاں رسائی نہیں ہوسکتی، اس لیے ہم ان ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں اور انھیں پکارتے اور ان سے فریاد کرتے ہیں، تاکہ یہ ہماری حاجتیں اور دعائیں اللہ تعالیٰ سے پوری کروا دیں۔ کئی لوگ اس کے لیے چھت پر پہنچنے کے لیے سیڑھی کے ضروری ہونے کی مثال بیان کیا کرتے ہیں۔- اِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ۔۔ : ایک اللہ کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے والے تو ایک ہی معبود پر متفق ہیں مگر اس کے سوا دوسری ہستیوں کو پکارنے والوں کا کسی ایک ہستی پر اتفاق نہیں، کوئی کسی کو پکارتا ہے اور کوئی کسی کو، کیونکہ کسی کے پاس اس بات کی دلیل نہیں، نہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ فلاں ہستی کو فلاں کام کا اختیار ہے، یا وہ اللہ تعالیٰ سے فلاں فلاں کام کروا سکتا ہے۔ مشرکین محض گمان کی بنا پر انھیں پوجتے جا رہے ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے گمان کے مطابق کسی نہ کسی داتا، دستگیر، مشکل کشا یا حاجت روا کو پکار تا چلا جا رہا ہے۔ مشرکین کی یہ بات چونکہ بالکل ہی بودی اور بےکار ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا رد کرنے کے بجائے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن موحّدوں اور ان مشرکین کے درمیان اور مشرکوں کے مختلف گروہوں کے باہمی اختلاف میں حق بات کا فیصلہ فرمائے گا۔- اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّار : اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے لیے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں، ایک ” كٰذِبٌ“ اور دوسرا ” كَفَّارٌ“۔ ” كٰذِبٌ“ اس لیے کہ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ ایسی کوئی ہستی موجود ہے جس کی پرستش سے، یا اسے پکارنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے اور ” كَفَّارٌ“ (بہت ناشکرا) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی دعا خود سنتا اور قبول کرتا ہے، لیکن کس قدر نا شکرے ہیں وہ لوگ جو اس کی اس نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے اس کے بجائے بےاختیار ہستیوں کو پکارتے اور ان کی پرستش کرتے ہیں اور اس کے لیے سیڑھی وغیرہ کی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتا ہے، میں قریب ہوں اور یہ کہتے ہیں کہ اس تک رسائی کے لیے واسطے ضروری ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى، یہ مشرکین عرب کا حال ہے اور اس زمانے کے عام مشرکین بھی تقریباً یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ خالق ومالک اور تمام کاموں میں متصرف تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ شیطان نے ان کو بہکایا تو اپنے خیال کے مطابق فرشتوں کی شکلوں پر بت تراشے اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ بت ہمارے بنائے ہوئے ہیں انہیں کوئی عقل و شعور اور قدرت وقوت نہیں۔ انہیں عقیدہ یہ تھا کہ ان بتوں کی تعظیم و تکریم سے وہ فرشتے ہم سے خوش ہوں گے جن کی شکلوں پر بت بنائے گئے ہیں اور فرشتے اللہ کے نزدیک مقرب ہیں۔ انہوں نے بارگاہ خداوندی کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کیا کہ جیسے شاہی مقرب کسی سے خوش ہوں تو وہ بادشاہ کے پاس ان کی سفارش کر کے ان کو بھی بادشاہ کا مقرب بنا دیتے ہیں۔ یہ سمجھتے تھے کہ فرشتے بھی بادشاہی درباریوں کی طرح جس کی چاہیں سفارش کرسکتے ہیں مگر ان کے یہ سارے خیالات شیطانی تلبیس اور باطل ہی باطل تھے۔ اول تو یہ بت پرستوں کی شکل پر واقع میں ہیں نہیں اور ہوں بھی تو اللہ کے مقرب فرشتے اپنی پرستش سے کب خوش ہونے والے ہیں۔ ان کو تو ہر اس چیز سے طبعی نفرت ہے جو اللہ کے نزدیک ناپسند ہے۔ اس کے علاوہ بارگاہ خداوندی میں وہ از خود کسی کی سفارش نہیں کرسکتے جب تک ان کو کسی خاص شخص کے بارے میں سفارش کی اجازت نہ مل جائے۔- وکم من ملک فی السموٰت لا تغنی شفاعتھم شیئاً الا من بعد ان یاذن اللہ لمن یشاء ویرضیٰ ۔ کا یہی مطلب ہے۔- اس زمانے کے مشرکین بھی آج کے کفار سے بہتر تھے :- آج کے مادہ پرست کفار تو خود اللہ تعالیٰ کے وجود ہی کے منکر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شان میں براہ راست گستاخیاں کرتے ہیں۔ یورپ سے درآمد کیا گیا کفر خواہ اس کے رنگ مختلف ہوں، کوئی سرمایہ پرست ہو، کوئی کمیونزم کا قائل۔ یہ بات سب میں قدر مشترک ہے کہ معاذ اللہ خدا کوئی چیز نہیں، ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ ہم سے ہمارے اعمال کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ اسی بدترین کفر اور ناشکری کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا سے امن و اطمینان، سکون و راحت مفقود ہوچکا ہے، راحت کے نئے نئے سامان بہت مگر راحت مفقود علاج معالجے کے جدید آلات اور تحقیقات کی بہتات مگر امراض کی اتنی کثرت جو پہلے کسی زمانے میں نہیں سنی گئی۔ پہرے چوکیاں، پولیس، خفیہ پولیس قدم قدم پر، مگر جرائم کی رفتار ہر روز بڑھ رہی ہے۔ یہ نئے آلات اور راحت و آرام کے نئے نئے طریقے جب غور کریں تو یہی خلق خدا کے لئے وبال جان بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کفر کی سزا تو آخرت میں سب کفار کے لئے دائمی جہنم ہے مگر اس اندھی ناشکری کی سزا کچھ دنیا میں بھگتنی پڑتی ہے، کہ جس کی دی ہوئی نعمتوں میں تصرفات کر کے آسمان پر چڑھنے کے حوصلے پیدا ہوئے، اسی کا انکار ہے۔- درمیان خانہ گم کردیم صاحب خانہ را

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝ ٠ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يَحْكُمُ بَيْنَہُمْ فِيْ مَا ہُمْ فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝ ٠ۥۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَكٰذِبٌ كَفَّارٌ۝ ٣- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - زلف - الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] - وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] - ( ز ل ف ) الزلفۃ - اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یاد رکھو کہ ایسی عبادت جو کہ شرک سے خالص ہو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو تمام انسانوں پر واجب ہے۔- اور ان کفار مکہ نے اللہ کے علاوہ جو اور شرکاء مثلا لات و عزی اور منات وغیرہ تجویز کر رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ مرتبہ اور سفارش میں یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا مصاحب بنا دیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کے درمیان ان کے دینی اور باہمی اختلافات کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا۔- اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دین کا راستہ نہیں دکھاتا جو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتا ہو اور اس کا منکر ہو اور یہ لوگ یہود و نصاری اور بنو ملیح اور مجوس اور تمام مشرکین عرب ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ” آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔ “- اللہ کے ہاں صرف دین خالص ہی مقبول ہے۔ اللہ کو یہ ہرگز منظور نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اس کی بندگی بھی کرے اور اپنی بندگی کا کچھ حصہ کسی دوسرے کے لیے بھی مختص کرلے۔ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے ‘ وہ شراکت کی بندگی کو واپس اس بندے کے منہ پردے مارتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میرا بننا ہے تو خالصتاً میرے بنو : یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص ( البقرہ : ٢٠٨) ” اے اہل ایمان اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو “۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام ماننے اور کچھ نہ ماننے کے حوالے سے سورة البقرۃ کی اس آیت میں بہت سخت وعید آئی ہے :- اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِطوَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ - ” تو کیا تم (ہماری) کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کردیتے ہو ؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو تم میں سے یہ حرکت کرے سوائے دنیا کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے ‘ اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔ “- سیاق وسباق کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں لیکن آج ہمارے لیے بھی اللہ کا حکم اور قانون یہی ہے۔ بلکہ یہ آیت ہمارے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں آج ہم اپنی تصویر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کی جس رسوائی کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے وہ آج ہمارے ماتھے پر جلی حروف میں لکھی ہوئی صاف نظر آرہی ہے۔ اس وقت مسلمان تعداد میں ڈیڑھ سو کروڑ سے بھی زائد ہیں مگر عزت نام کی کوئی چیز اس وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں کسی کو ان سے ان کی رائے پوچھنا بھی گوارا نہیں۔- وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ” اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا کچھ اور کو اولیاء بنا یا ہوا ہے “- مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ” ( وہ کہتے ہیں کہ ) ہم تو ان کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں ۔ “- یعنی اصل میں تو ہم اللہ ہی کو پوجتے ہیں ‘ جبکہ دوسرے معبودوں کو تو ہم اللہ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا صرف وسیلہ سمجھتے ہیں۔- اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ” یقینا اللہ فیصلہ کر دے گا ان کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔ “- اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ ” اللہ ہرگز ہدایت نہیں دیتا جھوٹے اور نا شکرے لوگوں کو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :4 یہ امر واقعہ اور ایک حقیقت ہے جسے اوپر کے مطالبے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر کے اس کی بندگی تم کو کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی اللہ کا حق ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ، بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اس کی بھی پرستش اور اس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے ۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے ۔ اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے ۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ حدیث ہے جو ابن مَردُوْیہ نے یزید الرّقاشی سے نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو ، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپ نے فرمایا ان اللہ تعالیٰ لا یقبل الّا من اخلص لہٗ ، اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :5 کفار مکہ کہتے تھے ، اور بالعموم دنیا بھر کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت ان کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے ۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں ۔ لیکن اس کی بارگاہ بہت اونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہو سکتی ہے ۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :6 یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے ۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا ۔ دنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں ۔ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتاؤں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے ۔ کسی کے نزدیک چاند ، سورج ، مریخ ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں ۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ فلاں فلاں اشخاص ہیں ، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بناؤ ۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے ۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :7 یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ ایک کاذب دوسرے کفار ۔ کاذب ان کو اس لیے فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے اور پھر یہی جھوٹ وہ دوسروں میں پھیلاتے ہیں ۔ رہا کفار ، تو اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک سخت منکر حق ، یعنی توحید کی تعلیم سامنے آجانے کے بعد بھی یہ لوگ اس غلط عقیدے پر مصر ہیں ۔ دوسرے ، کافر نعمت ، یعنی نعمتیں تو یہ لوگ اللہ سے پا رہے ہیں اور شکریے ان ہستیوں کے ادا کر رہے ہیں جن کے متعلق انہوں نے اپنی جگہ یہ فرض کر لیا ہے کہ یہ نعمتیں ان کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: مشرکین عرب عام طور سے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے، لیکن انہوں نے کچھ دیوتا گھڑ کر ان کے بت بنا لیے تھے، اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم ان کی عبادت کریں گے تو یہ اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش کریں گے، اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوگا۔ قرآن کریم نے اس کو بھی شرک قرار دیا، کیونکہ اول تو ان دیوتاؤں کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی، دوسرے عبادت تو اللہ تعالیٰ کا خالص حق ہے، کسی دوسرے کی عبادت، خواہ کسی نیت سے کی جائے، شرک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص واقعی بزرگ اور ولی اللہ ہو، تب بھی اس کی عبادت شرک ہے، چاہے اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔