Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی اس میں توحید و رسالت، معاد اور احکام و فرائض کا جو اثبات کیا گیا ہے، وہ سب حق ہے اور انہی کے ماننے اور اختیار کرنے میں انسان کی نجات ہے۔ 2۔ 2 دین کے معنی یہاں عبادت اور اطاعت کے ہیں اور اخلاص کا مطلب ہے صرف اللہ کی رضا کی نیت سے نیک عمل کرنا۔ آیت، نیت کے وجوب اور اس کے اخلاص پر دلیل ہے۔ حدیث میں بھی اخلاص نیت کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کردی گئی ہے کہ اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَّاتِ عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے یعنی جو عمل خیر اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے گا، (بشرطیکہ وہ سنت کے مطابق ہو) وہ مقبول اور جس عمل میں کسی اور جذبے کی آمیزش ہوگی، وہ نامقبول ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] یعنی یہ کتاب اس لئے نازل نہیں کی گئی کہ اس کی آیات کا مذاق اڑایا جائے بلکہ اس لئے اتاری ہے کہ اس سے مثبت اور تعمیری نتائج حاصل ہوں جنہیں سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اس میں مذکور ہے وہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ : ” حق “ وہ ہے جو واقعہ کے عین مطابق ہو۔ اس آیت میں قرآن مجید کی مزید خوبیاں بیان فرمائیں، ایک یہ کہ پچھلی آیت میں اس کتاب کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ بیان فرمایا، اب یہی بات اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ کر کے فرمائی، جس سے مقصود اپنی اور اپنے کلام کی عظمت کا اظہار ہے۔ دوسری یہ کہ ہم نے اس کتاب کو تیری طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے، اس کی ہر بات درست ہے، کوئی بات واقعہ کے خلاف نہیں، اس لیے اس پر عمل لازم ہے۔- فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ : دین کا معنی عبادت اور اطاعت بھی ہے اور ایمان، اسلام اور احسان بھی، جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا ارادہ اور نیت رکھے۔ شوکانی نے فرمایا، یہ آیت نیت کے ضروری ہونے کی دلیل ہے اور اس بات کی بھی کہ وہ ہر قسم کے شرک اور ریا کی ملاوٹ سے خالص ہونی چاہیے، کیونکہ اخلاص کا تعلق دل سے ہے اور صحیح حدیث میں ہے کہ تمام اقوال و افعال کا دارومدار نیت پر ہے، جیسا کہ فرمایا : ( إِنَّمَا الْأَعْمَال بالنِّیَّاتِ ) [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي۔۔ : ١ ] ” تمام اعمال نیتوں ہی کے ساتھ معتبر ہیں۔ “ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کی عبادت (بندگی) کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے، بلکہ صرف اسی کی پرستش کرے، اسی کی ہدایت کی پیروی کرے اور اسی کے احکام پر عمل کرے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۔ لفظ دین کے معنی اس جگہ عبادت کے ہیں یا اطاعت کے، جو تمام احکام دینیہ کی پابندی کو عام اور شامل ہے۔ اس کے پہلے جملہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت و اطاعت کو خالص اسی کے لئے کریں جس میں کسی غیر اللہ کے شرک یا ریاء و نمود کا شائبہ نہ ہو۔ دوسرا جملہ اسی کی تاکید کے لئے ہے کہ خلاص دین صرف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے۔ اس کے سوا اور کوئی مستحق نہیں۔- حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں بعض اوقات کوئی صدقہ و خیرات کرتا ہوں یا کسی پر احسان کرتا ہوں جس میں میری نیت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی بھی ہوتی ہے اور یہ بھی کہ لوگ میری تعریف وثناء کریں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتے، جس میں کسی غیر کو شریک کیا گیا ہو۔ پھر آپ نے آیت مذکورہ بطور استدلال کے تلاوت فرمائی۔ اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۔ (قرطبی)- اعمال کی مقبولیت عند اللہ بمقدار اخلاص ہے :- متعدد آیات قرآنی اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اعمال کا حساب گنتی سے نہیں بلکہ وزن سے ہوتا ہے۔ (آیت) ونضع الموازین القسط لیوم القیامة، اور آیات مذکورہ نے بتلا دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک اعمال کی قدر اور وزن بقدر اخلاص ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کمال اخلاص بدون کمال ایمان حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اخلاص کامل یہ ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی کو نفع و ضرر کا مالک سمجھے نہ اپنے کاموں میں کسی غیر اللہ کو متصرف خیال کرے، نہ کسی اطاعت و عبادت میں غیر اللہ کا اپنے تصور سے دھیان آنے دے۔ غیر اختیاری وساوس کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔- صحابہ کرام جو مسلمانوں کی صف اول ہیں ان کے اعمال و ریاضت کی تعداد کچھ زیادہ نظر نہ آئے گی مگر اس کے باوجود ان کا ایک ادنیٰ عمل باقی امت کے بڑے بڑے اعمال سے فائق ہونے کی وجہ ان کا کمال ایمان اور کمال اخلاص ہی تو ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۝ ٢ۭ- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے آپ پر یہ کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ “- فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ” پس بندگی کرو اللہ کی اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ “- اس حکم کے برعکس آج عملی طور پر ہماری زندگیوں کا نقشہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی بھی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ طاغوت کو بھی پوجا جا رہا ہے۔ ایک طرف نمازیں پڑھی جا رہی ہیں ‘ حج اور عمرے ادا کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حرام خوری بھی جاری ہے اور سودی کاروبار بھی چل رہا ہے۔ اللہ کو ایسی آلودہ ( ) بندگی کی ضرورت نہیں۔ وہ تو اپنے بندوں سے خالص بندگی کا تقاضا کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :2 یعنی اس میں جو کچھ ہے حق اور سچائی ہے ، باطل کی کوئی آمیزش اس میں نہیں ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :3 یہ ایک نہایت اہم آیت ہے جس میں دعوت اسلام کے اصل مقصود کو بیان کیا گیا ہے ، اس لیے اس پر سے سرسری طور پر نہ گزر جانا چاہیے ، بلکہ اس کے مفہوم و مدعا کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس کے بنیادی نکات دو ہیں جنہیں سمجھے بغیر آیت کا مطلب نہیں سمجھا جاسکتا ۔ ایک یہ کہ مطالبہ اللہ کی عبادت کرنے کا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایسی عبادت کا مطالبہ ہے جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے کی جائے ۔ عبادت کا مادہ عبد ہے ۔ اور یہ لفظ آزاد کے مقابلے میں غلام اور مملوک کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہوتا ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے عبادت میں دو مفہوم پیدا ہوئے ہیں ۔ ایک پوجا اور پرستش ، جیسا کہ عربی زبان کی مشہور و مستند لغت لسان العرب میں ہے ، عَبَدَا للہ ، تَألَّہ لَہٗ ۔ وَ التَّعَبُّدُ ، التَّنَسُّکُ ۔ دوسرے ، عاجزانہ اطاعت اور برضا و رغبت فرمانبرداری ، جیسا کہ لسان العرب میں ہے ، العبادۃ ، الطاعۃ ۔ و معنی العبادۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع ۔ وَکل من دان لملک فھر عابدٌ لَہٗ ( وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ ) ۔ والعابد ، الخاضع لربہ المستسلم المنقاد لامرہ ۔ عبد الطاغوت ، اطاعَہ یعنی الشیطان فیما سَوَّل لہ واغواہ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ ، ای نطیع الطاعۃ التی یخضع معھا ۔ اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ ، اطیعوا ربَّکم ۔ پس لغت کی ان مستند تشریحات کے مطابق مطالبہ صرف اللہ تعالیٰ کی پوجا اور پرستش ہی کا نہیں ہے بلکہ اس کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت ، اور اس کے قانون شرعی کی برضا و رغبت پیروی ، اور اس کے امر و نہی کی دل و جان سے فرمانبرداری کا بھی ہے ۔ دین کا لفظ عربی زبان میں متعدد مفہومات کا حامل ہے : ایک مفہوم ہے غلبہ و اقتدار ، مالکانہ اور حاکمانہ تصرُف ، سیاست و فرمانروائی اور دوسروں پر فیصلہ نافذ کرنا ۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے دَانَ النَّاسَ ، ای قھرھم علی الطاعۃ ۔ دِنْتُھم ، ای قَھرتُھم ۔ دِنتُہ سُسْتُہ سملکتُہٗ ۔ وفی الحدیث الکَیِّس من دان نفسہٗ ، ای اذلَّھا و استعبدھا ۔ الدَّیَّان ، القاضی ، الحَکَم ، القھّار ۔ ولا انت دیَانی ، ای لستَ بقاھرلی فَتَسُوس امری ۔ مَا کَانَ لِیَأخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِینِ الْمَلِکِ ، ای فی قضاء الملک ۔ دوسرا مفہوم ہے اطاعت ، فرمانبرداری اور غلامی ۔ لسان العرب میں ہے الدین ، الطاعۃ ۔ دِنْتُہ و دِنْتُ لَہ ای اطعتُہٗ ۔ والدین للہ ، انما ھو طاعتہ والتعبد لہٗ ۔ فی الحدیث اُریدُ من قریشٍ کلمۃ تَدِین لھمْ بھَا العرب ، ای تطیعھم و تخضع لھم ۔ ثم دانت بعد الرباب ، ای ذلّت لہ و اطاعَتْہُ ۔ یمرقون من الدین ، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض الطاعۃ ۔ المدین ، العبد ۔ فَلَوْلَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ، ای غیر مملوکین ۔ تیسرا مفہوم ہے وہ عادت اور طریقہ جس کی انسان پیروی کرے ۔ لسان العرب میں ہے الدین ، العادۃ و الشأن ۔ یقال مازال ذٰلک دینی و دیدَنی ، ای عادتی ۔ ان تینوں مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اس آیت میں اس طرز عمل اور اس رویے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے ۔ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے ، بلکہ اسی کی پرستش ، اسی کی ہدایت کا اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani