Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

باطل عقائد کی تردید ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ یہ قرآن عظیم اسی کا کلام ہے اور اسی کا اتارا ہوا ہے ۔ اس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٩٢؀ۭ ) 26- الشعراء:192 ) ، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے ۔ جسے روح الامین لے کر اترا ہے ۔ تیرے دل پر اترا ہے تاکہ تو آگاہ کرنے والا بن جائے ۔ صاف فصیح عربی زبان میں ہے اور آیتوں میں ہے یہ باعزت کتاب وہ ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا یہ حکمتوں والی تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اتری ہے ۔ یہاں فرمایا کہ یہ کتاب بہت بڑے عزت والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے اتری ہے جو اپنے اقوال افعال شریعت تقدیر سب میں حکمتوں والا ہے ۔ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے ۔ تجھے چاہیے کہ خود اللہ کی عبادتوں میں اور اس کی توحید میں مشغول رہ کر ساری دنیا کو اسی طرف بلا ، کیونکہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت زیبا نہیں ، وہ لاشریک ہے ، وہ بےمثال ہے ، اس کا شریک کوئی نہیں ۔ دین خالص یعنی شہادت توحید کے لائق وہی ہے ۔ پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ وہ فرشتوں کو اللہ کا مرقب جان کر ان کی خیالی تصویریں بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ سمجھ کر یہ اللہ کے لاڈلے ہیں ، ہمیں جلدی اللہ کا مقرب بنا دیں گے ۔ پھر تو ہماری روزیوں میں اور ہر چیز میں خوب برکت ہو جائے گی ۔ یہ مطلب نہیں کہ قیامت کے روز ہمیں وہ نزدیکی اور مرتبہ دلوائیں گے ۔ اس لئے کہ قیامت کے تو وہ قائل ہی نہ تھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اپنا سفارشی جانتے تھے ۔ جاہلیت کے زمانہ میں حج کو جاتے تو وہاں لبیک پکارتے ہوئے کہتے اللہ ہم تیرے پاس حاضر ہوئے ۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کے اپنے آپ کا مالک بھی تو ہی ہے اور جو چیزیں ان کے ماتحت ہیں ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے ۔ یہی شبہ اگلے پچھلے تمام مشرکوں کو رہا اور اسی کو تمام انبیاء علیہم السلام رد کرتے رہے اور صرف اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کی طرف انہیں بلاتے رہے ۔ یہ عقیدہ مشرکوں نے بےدلیل گھڑ لیا تھا جس سے اللہ بیزار تھا ۔ فرماتا ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا 36؀ ) 16- النحل:36 ) ، یعنی ہر امت میں ہم نے رسول بھیجے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو اور فرمایا ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀ ) 21- الأنبياء:25 ) ، یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ معبود برحق صرف میں ہی ہوں پس تم سب میری ہی عبادت کرنا ۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان فرما دیا کہ آسمان میں جس قدر فرشتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبے والے کیوں نہ ہوں سب کے سب اس کے سامنے لاچار عاجز اور غلاموں کی مانند ہیں اتنا بھی تو اختیار نہیں کہ کسی کی سفارش میں لب ہلا سکیں ۔ یہ عقیدہ محض غلط ہے کہ وہ اللہ کے پاس ایسے ہیں جیسے بادشاہوں کے پاس امیر امراء ہوتے ہیں کہ جس کی وہ سفارش کر دیں اس کا کام بن جاتا ہے اس باطل اور غلط عقیدے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ کے سامنے مثالیں نہ بیان کیا کرو ۔ اللہ اسے بہت بلند و بالا ہے ۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا سچا فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ان سب کو جمع کر کے فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہیں پوجتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے ، یہ نہیں بلکہ ہمارا ولی تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کا عقیدہ و ایمان انہی پر تھا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست نہیں دکھاتا جن کا مقصود اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنا ہو اور جن کے دل میں اللہ کی آیتوں ، اس کی نشانیوں اور اس کی دلیلوں سے کفر بیٹھ گیا ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عقیدے کی نفی کی جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے مثلاً مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہود کہتے تھے عزیز اللہ کے لڑکے ہیں ۔ عیسائی گمان کرتے تھے کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ پس فرمایا کہ جیسا ان کا خیال ہے اگر یہی ہوتا تو اس امر کے خلاف ہوتا ، پس یہاں شرط نہ تو واقع ہونے کے لئے ہے نہ امکان کے لئے ۔ بلکہ محال کے لئے ہے اور مقصد صرف ان لوگوں کی جہالت بیان کرنے کا ہے ۔ جیسے فرمایا ( لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ 17؀ ) 21- الأنبياء:17 ) اگر ہم ان بیہودہ باتوں کا ارادہ کرتے تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوئے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81؀ ) 43- الزخرف:81 ) یعنی کہدے کہ اگر رحمان کی اولاد ہوتی تو میں تو سب سے پہلے اس کا قائل ہوتا ۔ پس یہ سب آیتیں شرط کو محال کے ساتھ متعلق کرنے والی ہیں ۔ امکان یا وقوع کے لئے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ یہ ہو سکتا ہے نہ وہ ہو سکتا ہے ۔ اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے وہ فرد احد ، صمد اور واحد ہے ۔ ہر چیز اس کی ماتحت فرمانبردار عاجز محتاج فقیر بےکس اور بےبس ہے ۔ وہ ہر چیز سے غنی ہے سب سے بےپرواہ ہے سب پر اس کی حکومت اور غلبہ ہے ، ظالموں کے ان عقائد سے اور جاہلوں کی ان باتوں سے اس کی ذات مبرا و منزہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] مکی سورة کا آغاز عموماً ایسی ہی آیات سے ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کفار مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور کلام کو منزل من اللہ نہیں سمجھتے تھے۔ اس آیت میں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب نبی کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اللہ سب سے زبردست ہے اور اپنے فرامین و احکام کو نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ چونکہ حکیم ہے لہذا اس کا یہ کلام بھی حکمتوں سے لبریز ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْم “ الکتب میں الف لام عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” اس کتاب “ کیا گیا ہے۔ کفار کہتے تھے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بنا لیا ہے، جیسا کہ سورة طور میں ہے : (اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَهٗ ۚ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ) [ الطور : ٣٣ ] ” یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے یہ خود گھڑ لیا ہے ؟ “ اللہ تعالیٰ نے سورت کی ابتدا اس بات سے فرمائی کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے، ساتھ ہی اپنی دو صفات ذکر فرمائیں، تاکہ وہ اس کلام کو معمولی خیال نہ کریں، بلکہ اس کی اہمیت سمجھیں۔ ایک یہ کہ یہ کلام نازل کرنے والا عزیز یعنی سب پر غالب ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اس کا ذرہ بھر مقابلہ بھی کرسکے گا۔ دوسرا یہ کہ وہ حکیم یعنی حکمت والا ہے، اس لیے یہ کتاب سراسر دانائی اور حکمت پر مشتمل ہے، کوئی عقل سے عاری شخص ہی اس سے بےرخی اختیار کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی سورتوں کی ابتدا اس بات سے فرمائی ہے کہ یہ اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے اور ہر جگہ اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے اپنی چند صفات کا تذکرہ فرمایا ہے، مثلاً سورة مومن کے شروع میں فرمایا : تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ حم۔ اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے، جو سب پر غالب، ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ “ سورة جاثیہ اور احقاف کے شروع میں فرمایا : (تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ’ حم اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “ سورة یٰس کے شروع میں فرمایا : (تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم ) ” یہ سب پر غالب، نہایت مہربان کا نازل کیا ہوا ہے۔ “ سورة حٰم السجدہ کے شروع میں فرمایا : تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۔ اس بیحد رحم والے، نہایت مہربان کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ “ ظاہر ہے اس میں قرآن مجید کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی تاکید ہے اور اس کی خوبی اور فضیلت کا بیان بھی، کیونکہ کلام کرنے والا جتنی اعلیٰ صفات والا ہوگا اس کا کلام بھی اتنا ہی اعلیٰ اور کامل ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ نازل کی ہوئی کتاب ہے اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے (کہ غالب ہونا اس کا مقتضی تھا کہ جو اس کی تکذیب کرے اس کو سزا دے دی جاوے، مگر چونکہ حکیم بھی ہے اور مہلت میں مصلحت تھی، اس لئے سزا میں مہلت دے رکھی ہے) ہم نے ٹھیک طور پر اس کتاب کو آپ کی طرف نازل کیا ہے سو آپ (قرآن کی تعلیم کے موافق) خالص اعتقاد کر کے اللہ کی عبادت کرتے رہیئے (جیسا اب تک کرتے رہے ہیں اور جب آپ پر بھی یہ واجب ہے تو اوروں پر کیوں واجب نہیں ہوگا، اے لوگو) یاد رکھو عبادت جو کہ (شرک وریا سے) خالص ہو اللہ ہی کے لئے سزا وار ہے اور جن لوگوں نے (عبادت خالصہ چھوڑ کر) خدا کے سوا اور شرکاء تجویز کر رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم تو ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنادیں (یعنی ہمارے حوائج یا عبادت کو خدا کے حضور پیش کردیں جیسا دنیا میں وزراء اور دربار سلاطین میں اس کام کے ہوتے ہیں) تو ان کے (اور ان کے مقابل اہل ایمان کے) باہمی اختلافات کا (قیامت کے روز) اللہ تعالیٰ (عملی) فیصلہ کر دے گا (کہ اہل توحید کو جنت میں اور اہل شرک کو دوزخ میں داخل کر دے گا یعنی ان لوگوں کے نہ ماننے پر آپ غم نہ کریں ان کا فیصلہ وہاں ہوگا اور اس کا بھی تعجب نہ کریں کہ باوجود قیام دلائل کے یہ حق پر نہیں آتے کیونکہ) اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو راہ پر نہیں لاتا جو (قولاً ) جھوٹا اور (اعتقاداً ) کافر ہو (یعنی منہ سے اقوال کفریہ اور دل سے عقائد کفریہ پر مصر ہو اور اس سے باز نہ آنے کا اور طلب حق کا قصد ہی نہ کرتا ہو تو اس کے اس عناد سے اللہ تعالیٰ بھی اس کو توفیق ہدایت کی نہیں دیتا اور چونکہ مشرکین میں بعضے خدا کی طرف اولاد کی نسبت کرتے تھے، جیسے ملائکہ کو بنات اللہ کہتے تھے، آگے ان کا رد ہے کہ) اگر (بالفرض) اللہ تعالیٰ (کسی کو اولاد بناتا تو بوجہ اس کے کہ بدون ارادہ خداوندی کوئی فعل واقع نہیں ہوتا، اول اولاد بنانے کا ارادہ کرتا اور اگر) کسی کو اولاد بنانے کا ارادہ کرتا تو (چونکہ ماسوائے اللہ سب مخلوق ہیں اس لئے) ضرور اپنی مخلوق (ہی) میں سے جس کو چاہتا (اس امر کے لئے) منتخب فرماتا (اور لازم باطل ہے کیونکہ) وہ (عیوب سے) پاک ہے (اور غیر جنس ہونا عیب ہے اس لئے کسی مخلوق کو اولاد بنانے کے لئے منتخب کرنا محال ہوا اور محال کا ارادہ کرنا بھی محال ہے اس طرح ثابت ہوگیا کہ) وہ ایسا للہ ہے جو واحد ہے (کہ اس کا کوئی شریک بالفعل نہیں اور) زبردست ہے (اس کا کوئی شریک بالقوة بھی نہیں کیونکہ صلاحیت جب ہوئی کہ کوئی ویسا ہی زبردست ہوتا اور وہ ہے نہیں۔ آگے دلائل توحید ارشاد فرماتے ہیں کہ) اس نے زمین اور آسمان کو حکمت سے پیدا کیا، وہ رات (کی ظلمت) کو دن (کی روشنی کے محل یعنی ہوا) پر لپیٹتا ہے (جس سے رات غائب اور دن آموجود ہوجاتا ہے) اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے کہ (ان میں) ہر ایک وقت مقررہ تک چلتا رہے گا یاد رکھو کہ (ان دلائل کے بعد انکار توحید سے اندیشہ عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر بھی ہے کیونکہ) وہ زبردست ہے (لیکن اگر بعد انکار کے بھی کوئی تسلیم کرلے تو انکار گزشتہ پر عذاب نہ دے گا، کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا (بھی) ہے (اس سے توحید کی ترغیب اور ترک سے ترہیب ہوگئی اور اوپر استدلال تھا دلائل آفاقیہ سے آگے استدلال ہے دلائل انفسیہ سے جس میں ضمنی طور پر کچھ آفاقی حالات بھی آگئے ہیں، یعنی) اس نے تم لوگوں کو تن واحد (یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا (کہ اول وہ تن واحد پیدا ہوا) پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا (مراد اس سے حوا ہیں آگے پھر ان سے تمام آدمی پھیلا دیئے) اور (بعد حدوث کے) تمہارے (نفع وبقاء کے لئے) آٹھ نر و مادہ چار پایوں کے پیدا کئے (جن کا ذکر پارہ ہشتم کے ربع پر رکوع (آیت) وھو الذی انشاء جنت۔ میں آیا ہے اور ان کی تخصیص اس لئے کہ یہ زیادہ کام میں آتے ہیں۔ یہی ہے وہ جزو جو آفاقیات میں سے تبعاً مذکور ہوگیا اور تبعاً اس لئے کہا گیا کہ مقصود بیان کرنا ہے بقاء انفس کا اور یہ اسباب بقاء میں سے ہے آگے کیفیت خلقت نسل انسانی کی بیان فرماتے ہیں کہ) وہ تم کو ماؤں کے پیٹ میں ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت پر (اور دوسری کیفیت کے بعد تیسری کیفیت پر علیٰ ہذا مختلف کیفیات پر) بناتا ہے (کہ اول نطفہ ہوتا ہے پھر علقہ پھر مضغہ الیٰ آخرہ اور یہ بنانا) تین تاریکیوں میں (ہوتا ہے ایک تاریکی شکم کی، دوسری رحم کی، تیسری اس جھلی کی جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے۔ ان مختلف کیفیات، متعدد اندھیریوں میں تخلیق کمال قدرت کی دلیل ہے اور ظلمات ثلثہ میں پیدا کرنا کمال علم کی دلیل ہے) یہ ہے اللہ تمہارا رب (جس کی صفات ابھی تم نے سنیں) اسی کی سلطنت ہے، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں سو (ان دلائل کے بعد) تم کہاں (حق سے) پھرے چلے جا رہے ہو (بلکہ واجب ہے کہ توحید کو قبول کرو اور شرک کو چھوڑ دو ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝ ١- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) یہ نازل کی ہوئی کتاب ہے اس اللہ تعالیٰ کی جو کافروں کو سزا دینے میں غالب اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے اسی بنا پر اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی کی پرستش نہ کی جائے ہم نے صحیح طریقے پر بذریعہ جبریل امین اس کو تاب کو آپ پر نازل کیا ہے۔- سو آپ خالص اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہو اور اسی کی توحید کے قائل رہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ” اس کتاب کا نازل کیا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “- سورة الزمر اور سورة المومن کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ چناچہ ان دونوں سورتوں کا آغاز بھی ایک جیسے الفاظ سے ہو رہا ہے ‘ صرف ” الحکیم “ اور ” العلیم “ کا فرق ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ زیر مطالعہ ضمنی گروپ کی ان آٹھ سورتوں میں سے پہلی سورت یعنی سورة الزمر کے آغاز میں حروفِ مقطعات نہیں ہیں جبکہ باقی ساتوں سورتیں (سورۃ المومن تا سورة الاحقاف) حٰمٓ کے حروف سے شروع ہوتی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :1 یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے جس میں بس یہ بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام نہیں ہے ، جیسا کہ منکرین کہتے ہیں ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے خود نازل فرمایا ہے ۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کر کے سامعین کو دو حقیقتوں پر متنبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کلام کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں بلکہ اس کی اہمیت محسوس کریں ۔ ایک یہ کہ جس خدا نے اسے نازل کیا ہے وہ عزیز ہے ، یعنی ایسا زبردست ہے کہ اس کے ارادوں اور فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ اس کے مقابلہ میں ذرہ برابر بھی مزاحمت کر سکے ۔ دوسرے یہ کہ وہ حکیم ہے ، یعنی جو ہدایت وہ اس کتاب میں دے رہا ہے وہ سراسر دانائی پر مبنی ہے اور صرف ایک جاہل و نادان آدمی ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، السجدہ ، حاشیہ نمبر 1 ۔ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani