50۔ 1 جس طرح قارون نے بھی کہا تھا، لیکن بالاآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ فما اغنی میں ما استفہامیہ بھی ہوسکتا ہے اور نافیہ بھی دونوں طرح معنی صحیح ہے۔
[٦٨] انہیں لوگوں میں سے ایک قارون تھا۔ جس نے یہی بات کہی تھی کہ مجھے جو مال و دولت ملا ہے تو اس کی وجہ میرا ذاتی علم، تجربہ اور قابلیت ہے۔ پھر جب اسے اسی کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو اس وقت نہ اس کا مال و دولت کسی کام آسکا اور نہ جاہ و حشم۔
قَدْ قَالَهَا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یعنی ان کفار قریش اور ان کے زمانے اور بعد میں آنے والے کفار سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کا یہی عقیدہ اور یہی کہنا تھا، جیسا کہ قارون کو اس کی قوم نے نصیحت کی تو اس نے کہا : (اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ۭ ) [ القصص : ٧٨ ] ”(یہ سب کچھ) مجھے تو ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے۔ “ قارون کے واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧٦ تا ٨٢ ) ۔- فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : یعنی یہ کہنے والوں پر کہ ” ہمیں سب کچھ ہمارے علم کی بنا پر دیا گیا ہے “ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، جیسا کہ قارون کو اس کے مال و محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا، تو انھوں نے جو مال، اولاد کمائے تھے اور جو دنیوی مہارت حاصل کی تھی وہ ان کے کسی کام نہ آئی۔
قَدْ قَالَہَا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَمَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ٥٠- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔
(٥٠۔ ٥١) اے محمد یہ بات آپ کی قوم سے پہلے قارون نے بھی کہی تھی تو عذاب خداوندی کے سامنے ان کی باتیں اور کارروائیاں اور غیر اللہ کی پرستش اور اموال کا جمع کرنا کچھ کام نہ آیا۔- تو ان تمام برے اعمال کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہو اور ان کفار مکہ میں سے جو مشرک ہیں تو ان سے پہلے لوگوں کی طرح ان کو بھی ان کی بداعمالیوں کی سزائیں ابھی ملنے والی ہیں اور یہ عذاب خداوندی سے بچ نہیں سکتے۔
آیت ٥٠ قَدْ قَالَہَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ” ان سے پہلوں نے بھی یہی بات کہی تھی “- مثلاً قارون بھی ایسے ہی دعوے کیا کرتا تھا۔- فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ” تو جو کچھ بھی انہوں نے کمائی کی تھی وہ ان کے کسی کام نہ آسکی۔ “- جب اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا تو اپنی اس دولت کے بل پر وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہ پایا۔
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :68 مطلب یہ ہے کہ جب ان کی شامت آئی تو وہ قابلیت بھی دھری رہ گئی جس کا انہیں دعویٰ تھا ، اور یہ بات بھی کھل گئی کہ وہ اللہ کے مقبول بندے نہ تھے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کی یہ کمائی مقبولیت اور صلاحیت کی بنا پر ہوتے تو شامت کیسے آ جاتی ۔
17: مثلاً قارون نے یہی بات کہی تھی کہ مجھے جو دولت ملی ہے، وہ میرے علم و ہنر کی وجہ سے ملی ہے۔ دیکھئے سورۃ قصص : 78