Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 فِی جَنْب اللّٰہِ کا مطلب، اللہ کی اطاعت یعنی قرآن اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی ہے۔ جَنْب کے معنی قرب اور جوار کے ہیں۔ یعنی اللہ کا قرب اور اس کا جوار (یعنی جنت) طلب کرنے میں کوتاہی کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٤] یعنی میں نے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اپنے آباء کی تقلید کو ترجیح دی۔ اللہ کے حقوق دوسروں کو دیتا رہا۔ اللہ کے بجائے دوسروں کو پکارتا اور ان کی عبادت کرتا رہا۔ اللہ کے دین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا اور اللہ کی آیات اور اس کی وعید کا مذاق اڑاتا رہا۔ اور ان چیزوں کی کوئی حقیقت ہی نہ سمجھی۔ کاش میں ایسے ایسے کام نہ کرتا جس کے نتیجہ میں مجھے آج یہ برا وقت دیکھنا پڑا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى ۔۔ : ” ان “ سے مراد ” لِءَلَّا “ ہے، جیسا کہ سورة نحل کی آیت (١٥) میں ہے : (وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ “ ” اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے، تاکہ وہ تمہیں ہلا نہ دے۔ “ ” يّٰحَسْرَتٰى‘ اصل میں ” حَسْرَۃٌ“ یائے متکلم کی طرف مضاف ہے، جسے ” الف “ میں بدل دیا ہے۔ حسرت شدید پشیمانی اور افسوس کو کہتے ہیں، ہائے میرا افسوس ” فَرَّطْتُّ “ ” فَرَّطَ یُفَرِّطُ تَفْرِیْطًا “ کوتاہی کرنا اور ” أَفْرَطَ یُفْرِطُ إِفْرَاطًا “ زیادتی کرنا۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اس وقت کوئی شخص یہ کہے کہ ہائے میرا افسوس میری اس کوتاہی اور نافرمانی پر جو میں ساری کائنات کے خالق ومالک اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کے سامنے کرتا رہا، جو کسی چیز سے بیخبر نہیں۔- وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ : ” ان “ اصل میں ” إِنِّيْ “ ہے۔ ”إِنَّ “ کے نون کو ساکن اور اس کے اسم ” یائے متکلم “ کو حذف کردیا۔ دلیل اس کی ” لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ ‘ پر آنے والا لام ہے، اور بیشک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔ یعنی افسوس میں نے صرف نافرمانی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر مذاق اڑانے میں بھی شریک رہا۔ ظاہر ہے اجتماعی طور پر مذاق اڑانے میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور زیادہ مخالفت ہے۔ اس آیت سے بھی واضح ہے کہ ” قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا “ سے لے کر سلسلہ کلام کفار کے متعلق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور قیامت کا مذاق وہی اڑاتے ہیں۔ مومن کیسا بھی بدعمل ہو اس کا ایمان اسے مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى سے مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ تک۔ کی تین آیتوں میں اسی مضمون کی تشریح و تاکید ہے، جو اس سے پہلے کی تین آیتوں میں بیان فرمایا ہے کہ کسی بڑے سے بڑے مجرم کافر عاجز کو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے، اگر وہ توبہ کرلے گا تو اللہ اس کے سب پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔ ان تقول نفس سے تین آیتوں میں یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ یہاں تک کفر و شرک کو بھی توبہ سے معاف فرما دیتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھو کہ توبہ کا وقت مرنے سے پہلے ہے، مرنے کے بعد قیامت کے روز کوئی توبہ کرے یا اپنے کئے پر حسرت کرے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔- جیسا کہ بعض کفار فجار قیامت کے روز مختلف تمنائیں کریں گے۔ کوئی تو اظہار حسرت کرے گا کہ افسوس میں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کوتاہی کی تھی۔ کوئی وہاں بھی اپنا الزام تقدیر پر ڈال کر بچنا چاہے گا وہ کہے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت کردیتا تو میں بھی متقیوں میں داخل ہوتا، مگر خدا نے ہی ہدایت نہ کی تو میں کیا کروں۔ کوئی یہ تمنا کرے گا کہ کاش مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو میں سچا پکا مسلمان بنوں، اور اللہ کے احکام کی پوری اطاعت کروں۔ مگر اس وقت کی یہ حسرتیں اور تمنائیں کسی کے کام نہ آئیں گی۔- یہ تین قسم کی تمنائیں ہوسکتا ہے کہ مختلف لوگوں کی ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تینوں تمنائیں یکے بعد دیگرے ایک ہی جماعت کے کفار کی طرف سے ہوں، کیونکہ آخری قول جس میں دوبارہ دنیا میں آنے کی تمنا ہے اس کے ساتھ آیت میں مذکور ہے کہ وہ عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہوگا۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دونوں قول مشاہدہ عذاب سے پہلے کے ہیں کہ قیامت کے روز اول ہی اپنے عمل کی تقصیرات کو یاد کر کے کہیں گے، يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْۢبِ اللّٰهِ پھر عذر اور بہانے کے طور پر کہیں گے کہ ہم تو معذور تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہدایت کردیتا تو ہم بھی مطیع و فرمانبردار اور متقی ہوجاتے۔ مگر جب اس نے ہدایت ہی نہ کی تو ہمارا کیا قصور ہے، پھر جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو یہ تمنا ہوگی کہ کاش دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جاویں۔ حق تعالیٰ نے ان تینوں آیتوں میں بتلا دیا کہ اللہ کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع ہے، مگر وہ جبھی حاصل ہو سکتی ہے کہ مرنے سے پہلے توبہ کرلو۔ اس لئے ہم ابھی بتلائے دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم مرنے کے بعد پچھتاؤ اور آخرت میں اس طرح کی فضول حسرت و تمنا میں مبتلا ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْۢبِ اللہِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ۝ ٥٦ۙ- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - حسر - الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال :- حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) .- ( ح س ر ) الحسر - ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔- فرط - فَرَطَ : إذا تقدّم تقدّما بالقصد يَفْرُطُ ، ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] . - ( ف ر ط ) فرط - یفرط ( ن ) کے معنی قصدا آگے بڑھ جانے کے ہیں ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔ افرطت القریۃ مشکیزہ کو پانی سے خوب بھر دیا ۔ - جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٦۔ ٥٧) ایسا نہ ہو کہ تم میں پھر کوئی کہنے لگے ہائے افسوس کہ میں نے اطاعت خداوندی کو چھوڑا تھا اور میں تو کتاب اللہ اور اس کے رسول کا مذاق ہی اڑاتا رہا اور تاکہ پھر کوئی یوں نہ کہنے لگے کہ اگر اللہ تعالیٰ میرے سامنے ایمان کو بیان فرماتے تو میں بھی موحدین میں سے ہوتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ ” مبادا کہ اس وقت کوئی جان یہ کہے کہ ہائے افسوس اس کوتاہی پر جو مجھ سے اللہ کی جناب میں ہوئی “ م - ہائے میری بدقسمتی کہ میں زندگی بھر اپنے دھندوں میں اس طرح مگن رہا کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو پہچان ہی نہ سکا۔ میرے سامنے اللہ کا دین مغلوب تھا مگر میں اس کی سربلندی کے لیے جدو جہد کرنے کے بجائے اپنی عیش و عشرت کے مواقع ڈھونڈنے اور اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں لگا رہا۔ میں نے دنیا کے مال و متاع کو ہی اپنا معبود سمجھ لیا اور عمر بھر اسی کے لیے اپنا تن من دھن کھپاتا رہا۔- وَاِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِیْنَ ” اور میں تو مذاق اڑانے والوں ہی میں شامل رہا۔ “- میں نے اللہ تعالیٰ ‘ اس کے دین اور آخرت کی باتوں کو نہ کبھی دھیان سے سنا اور نہ ہی کبھی سنجیدگی سے ان پر غور کیا ‘ بلکہ میں تو ہمیشہ ان باتوں کا مذاق ہی اڑاتا رہا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani