104۔ 1 یعنی اپنے دشمن کے تعاقب کرنے میں کمزوری مت دکھاؤ بلکہ ان کے خلاف بھرپور جہدوجہد کرو اور گھات لگا کر بیٹھو۔ 104۔ 2 یعنی زخم تو تمہیں بھی اور انہیں بھی دونوں کو پہنچے ہیں لیکن ان زخموں پر تمہیں تو اللہ سے اجر کی امید ہے۔ لیکن وہ اس کی امید نہیں رکھتے۔ اس لئے اجر آخرت کے حصول کے لئے جو محنت و کاوش تم کرسکتے ہو وہ کافر نہیں کرسکتے۔
[١٤٢] یعنی جنگ میں جیسے تمہیں جانی نقصان یا دکھ پہنچتا ہے ویسے ہی دشمن قوم کو بھی پہنچتا ہے۔ پھر جب وہ باطل پر ہو کر یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں تو پھر تم حق پر ہو کر کیوں برداشت نہ کرو ؟ علاوہ ازیں تم میں سے کوئی شہید ہوجائے یا زندہ سلامت گھر آجائے دونوں صورتوں میں تم اللہ سے اجر وثواب کی توقع رکھتے ہو جو ان کو مطلق نہیں ہوتی۔ پھر تم آخر ان کا پیچھا کر کے ان کا قلع قمع کیوں نہ کرو۔ اس معاملہ میں ہرگز کمزوری یا سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
وَلَا تَهِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ ۭ : یہ آیت اس آیت سے ملتی جلتی ہے : ( اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ ) [ آل عمران : ١٤٠ ] ” اگر تمہیں کوئی زخم پہنچے تو یقیناً ان لوگوں کو بھی اس جیسا زخم پہنچا ہے۔ “ قرطبی نے جنگ احد میں زخم کھانے کے باوجود کفار کا پیچھا کرنے کو اس آیت کی شان نزول بتایا ہے، مگر الفاظ عام ہیں، اس لیے اس واقعے کے علاوہ ہر ایسے موقع پر یہی حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمت افزائی ہے کہ درد و الم میں تو تم یکساں ہو مگر اللہ سے اجر کی امید میں تو تمہارا اور ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، تو پھر ان کا پیچھا کرنے میں کیوں ہمت ہارتے ہو ؟
وَلَا تَہِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ ٠ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ يَاْلَمُوْنَ كَـمَا تَاْلَمُوْنَ ٠ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا يَرْجُوْنَ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا ١٠٤ۧ- وهن - الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي - [ مریم 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ- [ النساء 104] ، - ( و ھ ن ) الوھن - کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، - اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
قول باری ہے ( ولا تھنوا فی اتبغاء القوم ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون۔ - اس گروہ کے تعاقت میں کمزوری نہ دکھائو اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں ( تا آخری آیت۔ اس قول باری میں جہاد پر ابھارا گی ہے۔ اس میں جہاد کرنے کا حکم ہے اور مشرکین کا تعاقب کرنے اور ان کے ساتھ پنجہ آزمائی میں کمزوری اور سستی دکھانے سے منع کیا گیا ہے اس لیے کہ ابتغاء کے معنی طلب اور تعاقب کے ہیں۔ جب آپ کسی چیز کی طلب میں اس کا پیچھا کریں تو اس وقت آپ ” بغیت و ابتغیت کا فقرہ استعمال کریں گے۔ وہن دل کی اس کمزوری اور بزدلی کو کہتے ہیں جو انسان دشمن کا مقابلہ کرتے وقت محسوس کرتا ہے۔ - اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ( ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون) کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے دلوں سے کمزوری اور بزدلی دور کرنے ، جرأت پیدا کرنے اور دشمن کے خلاف پیش قدمی کرنے کی دعوت و ترغیب دی۔ اور انہیں یہ بتایا کہ جہاں تک قتال کے سلسلے میں تکلیفین برداشت کرنے کا تعلق ہے اس میں تم اکیلے نہیں ہو بلکہ انہیں بھی یہی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں لیکن تمہیں ان پر اییک بات میں فضیلت حاصل ہے وہ یہ کہ تمہیں اللہ کی ذات سے جس ثواب و اجر کی امید ہے مشرکین اس کی امید نہیں کرسکتے۔ اس لیے تمہیں ان کی بہ نسبت زخموں کی تکلیفوں پر زیادہ صبر کرنا چاہیے اور زیادہ جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ انہیں یہ فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی انہیں کسی اجرو ثواب کی توقع ہے۔ قول باری ہے ( وترجون من اللہ مالا یرجون اور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں) اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ جب تم اللہ کے دین کی نصرت کرو گے اور اللہ کی طرف سے بھی تمہاری مدد اور نصرت کا وعدہ ہے۔ اور دوسری یہ کہ تمہیں آخرت کے ثواب اور جنت کی نعمتوں کے حصول کی امید ہے۔- اس لیے قتال کی تکالیف پر صبر کرنے اور زخموں کی اذیتیں برداشت کرنے کے لیے مسلمانوں کے اسباب و دواعی کافروں کے اسباب و دواعی سے بڑھ کر ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کے جس ثواب کی تمہیں آرزو اور تمنا ہے اس کی انہیں آرزو اور تمنا نہیں ہے۔ حسن، قتادہ اور ابن جریج سے یہ تفسیر منقول ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ تمہیں اللہ کا جو خوف ہے وہ انہیں نہیں ہے۔ جس طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے ( مالکم لا ترجون للہ وقارا ۔ تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی عظمت کے قائل نہیں ہو) یعنی تمہیں اللہ کی عظمت کا خوف نہیں ہے۔ بعض اہل لغت کا قول ہے کہ رجاء کا لفظ خوف کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ البتہ نفی کے ساتھ اس کا یہ استعمال درست ہے۔ لیکن یہ ایسی بات ہے جو کسی دلالت کے بغیر قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
(١٠٤) غزوہ احد کے بعد ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حکم دیا تھا اللہ تعالیٰ اس کی ترغیب فرمارہا ہے، کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب میں ہمت مت ہارو اگر تم الم رسیدہ اور غمگین ہو تو وہ بھی الم رسیدہ ہیں اور تمہیں اللہ کی طرف سے ثواب کی امید ہے اور ان کو تو عذاب الہی کا ڈر ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے زخموں سے واقف ہے اس نے تمہیں حکمت کے تحت دشمنوں کے تعاقب کا حکم دیا ہے، یہاں سے اللہ تعالیٰ طعمہ بن ابیرق زرہ کے چرانے والے اور زید بن سمین یہودی کا جس نے اس چیز کو شہرت دی کا تذکرہ فرماتا ہے۔
آیت ١٠٤ (وَلاَ تَہِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ ط) ۔- حق و باطل کی جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس آخری مرحلے میں آکر تھک نہ جانا اور دشمن کا پیچھا کرنے میں سست مت پڑجانا ‘ ہمت نہ ہار دینا۔- (اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ ج) ۔- یہ بڑا پیارا انداز ہے کہ اس کشمکش میں اگر تم لوگ نقصان اٹھا رہے ہو تو کیا ہوا ؟ تمہارے دشمن بھی تو ویسے ہی نقصان سے دو چار ہو رہے ہیں ‘ انہیں بھی تو تکالیف پہنچ رہی ہیں ‘ وہ بھی تو زخم پر زخم کھا رہے ہیں ‘ ان کے لوگ بھی تو مر رہے ہیں۔ - (وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ یَرْجُوْنَ ط) - تمہیں تو جنت کی امید ہے ‘ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید ہے ‘ جبکہ انہیں ایسی کوئی امید نہیں ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے تمہیں تو ان سے کہیں بڑھ کرُ پر جوش ہونا چاہیے۔ سورة آل عمران کی آخری آیت میں بھی اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْاقف) اے ایمان والو ‘ صبر سے کام لو اور صبر میں اپنے دشمنوں سے بڑھ جاؤ اور مربوط رہو۔ تو آپ لوگوں کو تو صبرو استقامت میں ان سے بہت آگے ہونا چاہیے ‘ کیونکہ تمہارا سہارا تو اللہ ہے : ( وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا باللّٰہِ ) (النحل : ١٢٧) آپ صبر کیجیے ‘ اور آپ کا صبر تو بس اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ تمہارے دشمنوں کے تو من گھڑت قسم کے خدا ہیں۔ ان کے دیوتاؤں اور دیویوں کی خود ان کے دلوں میں کوئی حقیقی قدرو قیمت نہیں ہے ‘ پھر بھی وہ اپنے باطل معبودوں کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں تو اے مسلمانو تمہیں تو ان سے کئی گنا زیادہ قربانیوں کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔- (وَکَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ) - یہ چند آیتیں تو تھیں اہل ایمان سے خطاب میں۔ اس کے بعد اگلے رکوع میں پھر منافقین کا ذکر آ رہا ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :138 یعنی گروہ کفار جو اس وقت اسلام کی دعوت اور نظام اسلامی کے قیام کی راہ میں مانع و مزاحم بن کر کھڑا ہوا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :139 یعنی تعجب کا مقام ہے کہ اگر اہل ایمان حق کی خاطر اتنی تکلیفیں بھی برداشت نہ کریں جتنی کفار باطل کی خاطر برداشت کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے سامنے صرف دنیا اور اس کے ناپائیدار فائدے ہیں اور اس کے برعکس اہل ایمان رب السمٰوات والارض کی خوشنودی و تقرب اور اس کے ابدی انعامات کے امیدوار ہیں ۔
65: جنگ کے اختتام پر لوگ تھکے ہوئے ہوتے ہیں، اور اس وقت دشمن کا تعاقب بھاری معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر جنگی مصلحت ہو اور امیر حکم دے تو تعاقب واجب ہے۔ ایسے میں یہ سوچنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ جس طرح ہم تھکے ہوئے ہیں، دشمن بھی تو تھکا ہوا ہے، اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور ثواب کی جو امید ہے وہ دشمن کو حاصل نہیں ہے۔