Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حقیقت چھپ نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو آپ پر اللہ نے اتارا ہے وہ مکمل طور پر اور ابتداء تا انتہا حق ہے ، اس کی خبریں بھی حق اس کے فرمان بھی برحق ۔ پھر فرماتا ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان وہ انصاف کرو جو اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھائے ، بعض علمائے اصول نے اس سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتہاد سے حکم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ، اس کی دلیل بخاری مسلم کی حدیث بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آواز سنی تو آپ باہر آئے اور فرمانے لگے میں ایک انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ ایک شخص زیادہ حجت باز اور چرب زبان ہو اور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور جس کے حق میں فیصلہ کر دوں فی الواقع وہ حقدار نہ ہو تو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لئے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ لے لے یا چھوڑ دے ۔ مسند احمد میں ہے کہ دو انصاری ایک ورثے کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا قضیہ لائے واقعہ کو زمانہ گذر چکا تھا دونوں کے پاس گواہ کوئی نہ تھا تو اس وقت آپ نے وہی حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے فیصلے کی بنا پر اپنے بھائی کا حق نہ لے لے اگر ایسا کرے گا تو قیامت کے دن اپنی گردن میں جہنم کی آگ لٹکا کر آئے گا اب تو وہ دونوں بزرگ رونے لگے اور ہر ایک کہنے لگا میں اپنا حق بھی اپنے بھائی کو دے رہا ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم جاؤ اپنے طور پر جہاں تک تم سے ہوسکے ٹھیک ٹھیک حصے تقسیم کرو پھر قرعہ ڈال کر حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے کو اپنا رہا سہا غلطی کا حق معاف کر دو ۔ ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی ، ابن مردویہ میں ہے کہ انصار کا ایک گروہ ایک جہاد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا وہاں ایک شخض کی ایک چادر کسی نے چرالی اور اس چوری کا گمان طعمہ بن ابیرق کی طرف تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ قصہ پیش ہوا چور نے اس چادر کو ایک شخص کے گھر میں اس کی بےخبری میں ڈال دیا اور اپنے کنبہ قبیلے والوں سے کہا میں نے چادر فلاں کے گھر میں ڈال دی ہے تم رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے ذکر کرو کہ ہمارا ساتھی تو چور نہیں چور فلاں ہے اور ہم نے پتہ لگا لیا ہے کہ چادر بھی اس کے گھر میں موجود ہے اس طرح آپ ہمارے ساتھی کی تمام لوگوں کی روبرو بریت کر دیجئے اور اس کی حمایت کیجئے ورنہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہو جائے آپ نے ایسا ہی کیا اس پر یہ آیتیں اتری اور جو لوگ اپنے جھوٹ کو پوشیدہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے ان کے بارے میں ( آیت یستخفون ) سے دو آیتیں نازل ہوئیں ، پھر اللہ عزوجل نے فرمایا جو برائی اور بدی کا کام کرے اس سے مراد بھی یہی لوگ ہیں اور چور کے اور اس کے حمایتوں کے بارے میں اترا کہ جو گناہ اور خطا کرے اور ناکردہ گناہ کے ذمہ الزام لگائے وہ بہتان باز اور کھلا گنہگار ہے ، لیکن یہ سیاق غریب ہے بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ یہ آیت بنوابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، یہ قصہ مطلول ترمذی کتاب التفسیر میں بزبانی حضرت قتادہ اس طرح مروی ہے کہ ہمارے گھرانے کے بنوابیرق قبیلے کا ایک گھر تھا جس میں بشر ، بشیر اور مبشر تھے ، بشیر ایک منافق شخص تھا اشعار کو کسی اور کی طرف منسوب کرکے خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاتنے تھے کہ یہی خبیث ان اشعار کا کہنے والا ہے ، یہ لوگ جاہلیت کے زمانے سے ہی فاقہ مست چلے آتھے مدینے کے لوگوں کا اکثر کھانا جو اور کھجوریں تھیں ، ہاں تونگر لوگ شام کے آئے ہوئے قافلے والوں سے میدہ خرید لیتے جسے وہ خود اپنے لئے مخصوص کر لیتے ، باقی گھر والے عموماً جو اور کھجوریں ہی کھاتے ، میرے چچا رفاعہ یزید نے بھی شام کے آئے ہوئے قافلے سے ایک بورا میدہ کا خریدا اور اپنے بالا خانے میں اسے محفوظ کر دیا جہاں ہتھیار زرہیں تلواریں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں رات کو چوروں نے نیچے سے نقب لگا کر اناج بھی نکال لیا اور ہتھیار بھی چرالے گئے ، صبح میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا ، اب ہم تجسس کرنے لگے تو پتہ چلا کہ آج رات کو بنو ابیرق کے گھر میں آگ جل رہی تھی اور کچھ کھا پکار رہے تھے غالباً وہ تمہارے ہاں سے چوری کر گئے ہیں ، اس سے پہلے جب اپنے گھرانے والوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے تو اس قبیلے کے لوگوں نے ہم سے کہا تھا کہ تمہارا چور لبید بن سہل ہے ، ہم جانتے تھے کہ لبید کا یہ کام نہیں وہ ایک دیانتدار سچا مسلمان شخص تھا ۔ حضرت لبید کو جب یہ خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہوگئے تلوار تانے بنوابیرق کے پاس آئے اور کہنے لگے یا تو تم میری چوری ثابت کر ورنہ میں تمہیں قتل کر دونگا ان لوگوں نے ان کی برات کی اور معافی چاہ لی وہ چلے گئے ، ہم سب کے سب پوری تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ چوری بنوابیرق نے کی ہے ، میرے چچا نے مجھے کہا کہ تم جا کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر تو دو ، میں نے جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ آپ ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجئے غلہ کی واپسی کی ضرورت نہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اطمینان دلایا کہ اچھا میں اس کی تحقیق کروں گا ، یہ خبر جب بنوابیرق کو ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک آدمی آپ کے پاس بھیجا جن کا نام اسید بن عروہ تھا انہوں نے آکر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو ظلم ہو رہا ہے ، بنوابیرق تو صلاحیت اور اسلام والے لوگ ہیں انہیں قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا چور کہتے ہیں اور بغیر کسی ثوب اور دلیل کے چور کا بدنما الزام ان پر رکھتے ہیں وغیرہ ، پھر جب میں خدمت نبوی میں پہنچا تو آپ نے مجھ سے فرمایا یہ تو تم بہت برا کرتے ہو کہ دیندار اور بھلے لوگوں کے ذمے چوری چپکاتے ہو جب کہ تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ، میں چپ چاپ واپس چلا آیا اور دل میں سخت پشیمان اور پریشان تھا خیال آتا تھا کہ کاش کہ میں اس مال سے چپ چاپ دست بردار ہو جاتا اور آپ سے اس کا ذکر ہی نہ کرتا تو اچھا تھا ، اتنے میں میرے چچا آئے اور مجھ سے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ میں نے سارا واقعہ ان سے بیان کیا جسے سن کر انہوں نے کہا اللہ المستعان اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں ، ان کا جانا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی میں یہ آیتیں اتریں پس خائنین سے مراد بنو ابیرق ہیں ، آپ کو استغفار کا حکم ہوا یہ یہی آپ نے حضرت قتادہ کو فرمایا تھا ، پھر ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ اگر یہ لوگ استفغار کریں تو اللہ انہیں بخش دے گا ، پھر فرمایا ناکردہ گناہ کے ذمہ گناہ تھوپنا بدترین جرم ہے ، اجرا عظیما تک یعنی انہوں نے جو حضرت لبید کی نسبت کہا کہ چور یہ ہیں جب یہ آیتیں اتریں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوابیرق سے ہمارے ہتھیار دلوائے میں انہیں لے کر اپنے چچا کے پاس آیا یہ بیچارے بوڑھے تھے آنکھوں سے بھی کم نظر آتا تھا مجھ سے فرمانے لگے بیٹا جاؤ یہ سب ہتھیار اللہ کے نام خیرات کر دو ، میں آج تک اپنے چچا کی نسبت قدرے بدگمان تھا کہ یہ دل سے اسلام میں پورے طور پر داخل نہیں ہوئے لیکن اس واقعہ نے بدگمانی میرے دل سے دور کر دی اور میں ان کے سچے اسلام کا قائل ہو گیا ، بشیر یہ سن کر مشرکین میں جا ملا اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے ہاں جاکر اپنا قیام کیا ، اس کے بارے میں اس کے بعد کی ( وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ١١٥؁ۧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا ١١٦؁ ) 4 ۔ النسآء:115-116 ) تک نازل ہوئیں اور حضرت حسان نے اس کے اس فعل کی مذمت اور اس کی ہجو اپنے شعروں میں کی ، ان اشعار کو سن کر اسکی عورت کو بڑی غیرت آئی اور بشیر کا سب اسباب اپنے سر پر رکھ کر ابطح میدان میں پھینک آئی اور کہا تو کوئی بھلائی لے کر میرے پاس نہیں آیا بلکہ حسان کی ہجو کے اشعار لے کر آیا ہے میں تجھے اپنے ہاں نہیں ٹھہراؤں گی ، یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مطول اور مختصر مروی ہے ۔ ان منافقوں کی کم عقلی کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جو اپنی سیاہ کاریوں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں بھلا ان سے کیا نتیجہ؟ اللہ تعالیٰ سے تو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے ، پھر انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ تمہارے پوشیدہ راز بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتے ، پھر فرماتا ہے مانا کہ دنیوی حاکموں کے ہاں جو ظاہر داری پر فیصلے کرتے ہیں تم نے غلبہ حاصل کر لیا ، لیکن قیامت کے دن اللہ کے سامنے جو ظاہر وباطن کا عالم ہے تم کیا کر سکو گے؟ وہاں کسے وکیل بنا کر پیش کرو گے جو تمہارے جھوٹے دعوے کی تائید کرے ، مطلب یہ ہے کہ اس دن تمہاری کچھ نہیں چلے گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 ان آیات (104 سے 113 تک) کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کی زرہ چرالی، جب اس کا چرچہ ہوا اور اسے بےنقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اور بنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے، ان سب نے کہا زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے، یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا بنی ابیرق نے زرہ چوری کرکے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ایبرق (طمعہ بشیر وغیرہ) ہوشیار تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہے اور طعمہ پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انکی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کرکے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی، جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بحیثیت ایک انسان غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فوراً صورتحال واضح ہوجاتی تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہوجانے کا مرحلہ آجائے تو فورا اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیاء کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ 105۔ 2 اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہیں۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلی آیت میں بھی ان کے اور ان کے حماتیوں کے غلط کردار کو نمایاں کرکے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبردار کیا جا رہا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٣] گمشدہ سامان سامان کی برآمدگی سے چوری ثابت نہیں ہوتی :۔ اس آیت اور اس سے اگلی چند آیات کا پس منظر یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر کے ایک آدمی بشیر بن ابیرق نے کسی دوسرے انصاری کے گھر سے آٹے کا تھیلا اور ایک زرہ چوری کی۔ اور چالاکی یہ کی کہ آٹے کا تھیلا اور زرہ راتوں رات ایک یہودی کے ہاں امانت رکھ آیا۔ تھیلا اتفاق سے کچھ پھٹا ہوا تھا جس سے آٹا تھوڑا تھوڑا گرتا گیا جس سے سراغ لگانے میں بہت آسانی ہوگئی۔ اصل مالک نے پیچھا کیا تو بشیر بن ابیرق کے گھر پہنچ گیا اور اس سے اپنی چوری کا ذکر کیا لیکن وہ صاف مکر گیا اور خانہ تلاشی بھی کرا دی جہاں سے کچھ برآمد نہ ہوسکا۔ اب مالک پیچھا کرتا ہوا اس یہودی کے ہاں پہنچا اور اپنی چوری کا ذکر کیا تو یہودی کہنے لگا ایسی زرہ تو میرے پاس موجود ہے لیکن وہ تو فلاں شخص نے میرے پاس بطور امانت رکھی ہے۔ لہذا میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ بالآخر مالک یہ مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں لے گیا۔ اب چور اور اس کے خاندان والوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ اصل مجرم اس یہودی کو ہی ثابت کیا جائے اور امانت کا درمیان میں نام ہی نہ آنے دیا جائے اور اس واقعہ سے قطعی لاعلمی کا اظہار کردیا جائے اور وہ یہ سمجھے کہ آپ یہود کی بات کا اعتبار نہیں کریں گے اس طرح ہم بری ہوجائیں گے۔ چناچہ فی الواقع ایسا ہی ہوا۔ انصاری چور اور اس کے حمأئیتوں نے اس واقعہ سے قطعاً لاعلمی کا اظہار کیا اور قسمیں بھی کھانے لگے جس کے نتیجہ میں آپ ان خائنوں کی باتوں میں آگئے اور یہودی کو جھوٹا سمجھا اور قریب تھا کہ آپ اس انصاری چور کو بری قرار دے دیں اور یہودی کو مجرم قرار دے دیں اور یہودی کے حق میں قطع ید کا فیصلہ سنا دیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی اصل صورت حال سے مطلع فرما دیا اور تنبیہ فرمائی، کہ آپ کو ایسے بددیانت لوگوں کی قطعاً حمایت نہ کرنا چاہیے۔- [١٤٤] اس آیت میں ایسے مسلمانوں کو خائن قرار دیا گیا ہے جنہوں نے محض خاندان اور قبیلہ کی عصبیت کی بنا پر مجرم کی حمایت کی تھی اور تمام لوگوں کو یہ بتادیا گیا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کسی قسم کا تعصب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایک فریق دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہے اور وہ حق پر ہے تو اسی کی حمایت کی جائے گی۔ مسلمانوں کی نہیں کی جائے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ ۔۔ : جمہور مفسرین نے ان آیات (١٠٤ سے ١١٣ تک) کی شان نزول چوری کا ایک واقعہ بتایا ہے، جو ترمذی میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے اسے حسن کہا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ بشر، بشیر اور مبشر تین بھائی تھے، جو ابیرق یا طعمہ بن ابیرق کے بیٹے تھے۔ بعض نے کہا کہ ان میں سے بشیر کی کنیت ابو طعمہ تھی، یہ لوگ مدینہ کے قبیلہ بنو ظفر سے تھے۔ ان میں بشیر سب سے بدتر تھا، یہ شخص منافق تھا اور مسلمانوں کی ہجو کر کے وہ شعر دوسروں کے نام لگا دیتا تھا۔ یہ غریب فاقہ زدہ لوگ تھے اور رفاعہ بن زید کے ہمسائے تھے۔ ایک دفعہ شام سے ایک قافلہ میدہ لے کر آیا تو رفاعہ بن زید نے اس میں سے ایک بوری خرید لی۔ مدینہ کے لوگ آٹا کھاتے تھے، رہا میدہ تو وہ گھر کے بڑے آدمیوں کے لیے سنبھال کر رکھ لیا جاتا تھا۔ رفاعہ نے وہ میدہ اپنے اسلحہ کے سٹور میں اسلحہ کے ساتھ محفوظ کردیا۔ ابیرق کے بیٹوں نے سٹور میں نقب لگا کر میدہ اور اسلحہ چرا لیا۔ صبح ہوئی تو رفاعہ نے اپنا اسلحہ اور میدہ نقب لگا کر چرانے کی بات اپنے بھتیجے قتادہ بن نعمان کے ساتھ کی۔ اب اس نے تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ اس رات ابیرق کے بیٹوں نے آگ جلائی تھی اور شاید انھوں نے رفاعہ کے میوہ ہی سے کھانا تیار کیا ہو۔ جب ابیرق کے بیٹوں کا راز فاش ہوگیا تو انھوں نے چوری کا وہ اسلحہ وغیرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دیا اور ان کے قبیلے بنو ظفر کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہلے ہی آ کر شکایت کردی کہ رفاعہ بن زید اور اس کے بھتیجے نے ہمارے ایک گھر والوں پر، جو ایمان دار اور نیک لوگ ہیں، چوری کا الزام لگا دیا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے بلا دلیل ایمان دار نیک لوگوں پر چوری کا الزام لگا دیا ہے۔ “ ان لوگوں نے مشہور کردیا کہ مسروقہ سامان یہودی کے گھر سے نکلا ہے، تو اس پر یہ آیات اتریں۔ [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة النساء : ٣٠٣٦ ] اللہ تعالیٰ نے معاملے کی حقیقت کھول دی، تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ جرم تو بنو ابیرق کا تھا، مگر مجرم یہودی کو بنادیا گیا، کیونکہ وہ اپنا نہیں تھا۔ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انصاف پر بہت بڑا دھبا آسکتا تھا۔ - وَلَا تَكُنْ لِّلْخَاۗىِٕنِيْنَ خَصِيْمًا : اس سے مراد ابیرق کے بیٹے ہیں کہ آپ ان کی حمایت نہ کریں، اس سے معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانے کی ضرورت نہ تھی کہ ” آپ ان خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑا نہ کریں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک ہم نے آپ کے پاس یہ کتاب بھیجی (جس سے) واقع کے موافق (حال معلوم ہوگا) تاکہ آپ (اس واقعہ میں) ان لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ اللہ تعالیٰ نے (وحی کے ذریعہ سے) آپ کو (اصل حال) بتلا دیا ہے (وہ وحی یہ ہے کہ واقع میں بشیر چور ہے اور قبیلہ بنو ابیرق جو اس کے حامی ہیں کاذب ہیں) اور (جب اصل حال معلوم ہوگیا تو) آپ ان خائنوں کی طرف داری کی بات نہ کیجئے (جیسا بنو ابیرق کی اصل خواہش یہی تھی چناچہ دوسرے رکوع میں آتا ہے : لھمت طآئفة منھم ان یضلوک مگر آپ نے ایسا کیا نہ تھا، خود اسی جملہ سے آپ کا اس پر عمل نہ کرنا بھی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ فضل الہی نے غلطی سے بچا لیا جس میں ہر غلطی کی نفی ہوگئی اور منع فرمانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ فعل ماضی میں واقع ہوچکا ہو، بلکہ اصل فائدہ منع کا یہ ہے کہ آئندہ کے لئے حقیقت حال سے آگاہ کر کے اس کے کرنے سے روکتے ہیں، پس آپ کی حالت اور نہی کے مجموعہ کا حاصل یہ ہوگا کہ کہ جیسے اب تک طرفداری نہیں کی آئندہ بھی نہ کیجئے اور یہ انتظامات بھی مکمل نبی کو معصم رکھنے کے لئے ہیں اور آیت میں سب کو خائن کہا حالانکہ خائن سب نہ تھے، اس لئے کہ جو لوگ خائن نہ تھے وہ بھی خائن کی اعانت کر رہے تھے اس لئے وہ خائن ٹھہرے) اور (لوگوں کے کہنے سے حسن ظن کے طور پر آپ نے جو بنا بیرق کو دیندار سمجھ لیا ہے، گو ایسا سمجھنا گناہ تو نہیں، لیکن چونکہ اس میں یہ احتمال تھا کہ آپ کے اتنا فرما دینے سے اہل حق اپنا حق چھوڑ دیں گے، چناچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت رفاعہ خاموش ہو کر بیٹھ رہے، لہذا یہ کام نامناسب ہوا، اس لئے اس سے) آپ استغفار فرمایئے (کہ آپ کی شان عظیم ہے اتنا امر بھی آپ کے لئے قابل استغفار ہے) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے بڑے رحمت والے ہیں اور آپ ان لوگوں کی طرف سے کوئی جواب دہی کی بات نہ کیجئے (جیسا وہ لوگ آپ سے چاہتے تھے) جو کہ (لوگوں کی خیانت اور نقصان کر کے باعتبار وبال و ضرر کے درحقیقت) اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نہیں چاہتے (بلکہ اس کو مبغوض رکھتے ہیں) جو بڑا خیانت کرنیوالا بڑا گناہ کرنیوالا ہو (جیسا کہ تھوڑے خیانت کرنے والے کا بھی محبوب نہیں رکھتے، لیکن چونکہ بشیر کا بڑا خائن ہونا بتلانا مقصود ہے، اس لئے یہ صیغہ مبالغہ کا لایا گیا) جن لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ (اپنی خیانت کو) آدمیوں سے تو (شرما کر) چھپاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے، حالانکہ وہ (مثل ہر وقت کے) اس وقت (بھی) ان کے پاس ہے جب کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف گفتگو کے متعلق تدبیریں کیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے سب اعمال کو اپنے (علمی) احاطہ میں لئے ہوئے ہیں ہاں (جو بشیر وغیرہ کی حمایت میں بعض اہل محلہ جمع ہو کر آئے تھے وہ سن لیں کہ) تم ایسے ہو کہ تم نے دنیوی زندگی میں تو ان کی طرف سے جواب دہی کی باتیں کرلیں سو (یہ بتلاؤ کہ) اللہ تعالیٰ کے روبرو قیامت کے دن ان کی طرف سے کون جوابدہی کرے گا یا وہ کون شخص ہوگا جو ان کا کام بنانے والا ہوگا (یعنی نہ کوئی زبانی جواب دہی کرسکے گا نہ کوئی عملی درستگی مقدمہ کی کرسکے گا) اور (یہ خائنین اگر اب بھی توبہ موافق قاعدہ شرعیہ کے کرلیتے تو معافی ہوجاتی کیونکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ) جو شخص کوئی (متعد) برائی کرے یا (صرف) اپنی جان کا ضرر کرے (یعنی) ایسا گناہ نہ کرے جس کا اثر دوسروں تک پہنچتا ہے اور) پھر اللہ تعالیٰ سے (حسب قاعدہ شرعیہ) معانی چاہے (جس میں بندوں کے حقوق کو ادا کرنا یا ان سے معاف کرانا بھی داخل ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا پائے گا اور (ضرور گنہگاروں کو اس کی کوشش کرنا چاہئے کیونکہ) جو شخص کچھ گناہ کا کام کرتا ہے تو وہ فقط اپنی ذات ہی کے لئے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں (سب کے گناہوں کی ان کو خبر ہے) بڑے حکمت والے ہیں (مناسب سزا تجویز فرماتے ہیں) اور (یہ تو خود گناہ کرنے کا انجام ہوا اور جو کہ دوسروں پر تہمت لگا دے اس کا حال سنو کہ) جو شخص کوئی چھوٹا گناہ کرے یا بڑا گناہ پھر (بجائے اس کے کہ خود ہی توبہ کرلینا چاہئے تھی اس نے یہ کام کیا کہ) اس (گناہ) کی تہمت کسی بےگناہ پر لگا دی اس نے تو بڑا بھاری بہتان اور صریح گناہ اپنے (سر کے) اوپر لاد لیا (جیسا بشیر نے کیا کہ خود تو چوری کی اور ایک نیک بخت بزرگ آدمی لبید کے ذمہ چوری کی تہمت رکھ دی) اور اگر (اس مقدمہ میں) آپ پر (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہو (جو کہ ہمیشہ آپ پر رہتا ہے) تو ان چالاک) لوگوں میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی ہی میں ڈال دینے کا ارادہ کرلیا تھا (لیکن خدا کے فضل سے ان کی رنگ آمیز باتوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہ ہوگا، چناچہ فرماتے ہیں) اور وہ (کبھی آپ کو) غلطی میں نہیں ڈال سکتے، لیکن (ارادہ سے) اپنی جانوں کو (مبتلائے گناہ اور عذاب کے اہل بنا رہے ہیں) اور آپ کو ذرہ برابر (اس قسم کا) ضرر نہیں پہنچا سکتے اور (آپ کو غلطی سے ضرر پہنچانا کب ممکن ہے جب کہ) اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور علم کی باتیں نازل فرمائیں ( جس کے ایک حصہ میں اس قصہ کی اطلاع بھی دیدی) اور آپ کو وہ (مفید اور عالی) باتیں بتلائی ہیں جو آپ (پہلے سے) نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔- معارف ومسائل - ربط آیات :۔ اوپر ظاہری کفار کے معاملات کے ضمن میں چند جگہ منافقین کا ذکر آیا ہے کہ کفر دونوں میں یکساں ہے، آگے بھی بعض منافقین کے ایک خاص قصہ کے متعلق مضمون مذکور ہوتا ہے (بیان القرآن)- آیات کا شان نزول :۔ - مذکورہ سات آیات ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں، لیکن عام قرآنی اسلوب کے مطابق جو ہدایات اس سلسلہ میں دی گئی وہ مخصوص اس واقعہ کے ساتھ نہیں بلکہ تمام موجودہ اور آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لئے عام اور بہت اصولی اور فروعی مسائل پر مشتمل ہیں۔- پہلے واقعہ معلوم کیجئے پھر اس سے متعلقہ ہدایات اور ان سے نکلنے والے مسائل پر غور کیجئے، واقعہ یہ ہوا کہ مدینہ میں ایک خاندان بنو ابیرق کے نام سے معروف تھا، ان میں سے ایک شخص جس کا نام ترمذی اور حاکم کی روایت میں بشیر ذکر کیا گیا ہے اور بغوی اور ابن جریر کی روایت میں طعمہ نام بتلایا گیا ہے اس نے حضرت قتادہ بن نعمان کے چچا رفاعہ (رض) کے گھر میں نقب لگا کر چوری کرلی۔- ترمذی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ شخص درحقیقت منافق تھا، مدینہ میں رہتے ہوئے بھی صحابہ کرام کی توہین میں اشعار لکھ کر دوسروں کے ناموں سے ان کی اشاعت کیا کرتا تھا۔- اور چوری کی صورت یہ ہوئی کہ ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں تمام مسلمان فقر و فاقہ کے ساتھ تنگی سے بسر اوقات کرتے تھے اور ان کی عام خوراک جو کا آٹا تھا یا کھجوریں یا گیہوں کا آٹا جو بہت کم میسر تھا اور مدینہ میں ملتا بھی نہ تھا، ملک شام سے جب آتا تو کچھ لگ مہمانوں کے لئے یا کسی خاص ضرورت کے لئے خرید لیا کرتے تھے، حضرت رفاعہ نے اسی طرح کچھ گیہوں کا آٹا خرید کر ایک بوری میں اپنے لئے رکھ لیا، اسی میں کچھ اسلحہ وغیرہ بھی رکھ کر ایک چھوٹی کوٹھڑی میں محفوظ کردیا، ابن ابیرق، بشیر، یا طعمہ نے اس کو بھانپ لیا، تو نقب لگا کر یہ بوری نکال لی، حضرت رفاعہ نے جب صبح کو یہ ماجرا دیکھا تو اپنے بھتیجے قتادہ کے پاس آئے اور واقعہ چوری کا ذکر کیا، سب نے مل کر محلہ میں تفتیش شروع کی، بعض لوگوں نے بتایا کہا آج رات ہم نے دیکھا کہ بنو ابیرق کے گھر میں آگ روشن تھی، ہمارا خیال ہے کہ وہی کھانا پکایا گیا ہے، بنو ابیرق کو جب راز فاش ہونے کی خبر ملی تو خود آئے اور کہا کہ یہ کام لبید بن سہل کا ہے، حضرت لبید کو سب جانتے تھے کہ مخلص مسلمان اور نیک بزرگ ہیں ان کو جب یہ خبر ہوئی تو وہ تلوار کھینچ کر آئے اور کہا کہ چوری میرے سر لگاتے ہو اب میں تلوار اس وقت تک میان میں نہ رکھوں گا جب تک چوری کی حقیقت واضح نہ ہوجائے۔- بنو ابیرق نے آہستہ سے کہا کہ آپ بےفکر رہیں آپ کا نام کوئی نہیں لیتا، نہ آپ کا یہ کام ہوسکتا ہے، لغوی اور ابن جریر کی روایت میں اس جگہ یہ ہے کہ بنو ابیرق نے چوری ایک یہودی کے نام لگائی اور ہوشیاری یہ کی کہ آٹے کی بوری کو تھوڑا سا پھاڑ دیا تھا جس سے آٹا گرتا رہا اور رفاعہ کے مکان سے یہودی مذکور کے مکان تک اس آٹے کے آثار پائے گئے شہرت ہونے کے بعد چوری کیا ہوا اسلحہ اور زر ہیں بھی اس یہودی کے پاس رکھوا دیں اور تحقیق کے وقت اسی کے گھر سے برآمد ہوئیں، یہودی نے قسم کھائی کہ زرہیں مجھے ابن ابیرق نے دی ہیں۔- ترمذی کی روایت اور بغوی کی روایت میں تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ بنو ابیرق نے اولا چوری کو لبید بن سہل کے نام لگایا ہو، پھر جب بات بنتی نظر نہ آئی تو اس یہودی کے سر ڈالا ہو، بہرحال اب معاملہ یہودی اور بنو ابیرق کا بن گیا۔- ادھر حضرت قتادہ اور رفاعہ کو مختلف صورتوں سے یہ گمان غالب ہوگیا تھا کہ یہ کارروائی بنو ابیرق کی ہے، حضرت قتادہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر چوری کا واقعہ اور بسلسلہ تفتیش بنو ابیرق پر گمان غالب کا ذکر کردیا،- بنو ابیرق کو خبر ملی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت رفاعہ اور قتادہ کی شکایت کی کہ بلا ثبوت شرعی چوری ہمارے نام لگا رہے ہیں حالانکہ مسروقہ مال یہودی کے گھر سے برآمد ہوا ہے، آپ ان کو روکئے کہ ہمارے نام نہ لگائیں، یہودی پر دعویٰ کریں۔- ظاہری حالات و آثار سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی اسی طرف رجحان ہوگیا کہ یہ کام یہودی کا ہے، بنو ابیرق پر الزام صحیح نہیں، یہاں تک کہ بغوی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ ہوگیا کہ یہودی پر چوری کی سزا جاری کردی جائے اور اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔- ادھر جب حضرت قتادہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آپ بغیر دلیل اور ثبوت کے ایک مسلمان گھرانے پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں، حضرت قتادہ اس معاملہ سے بہت رنجیدہ ہوئے، اور افسوس کیا کہ کاش میں اس معاملہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کوئی بات نہ کرتا، اگرچہ میرا مال بھی جاتا رہتا اسی طرح حضرت رفاعہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ارشاد فرمایا تو انہوں نے بھی صبر کیا اور کہا : واللہ المستعان - اس معاملہ پر کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ قرآن کریم کا ایک پورا رکوع اس بارے میں نازل ہوگیا جس کے ذریعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واقعہ کی حقیقت منکشف کردی گی اور ایسے معاملات کے متعلق عام ہدایات دی گئیں۔- قرآن کریم نے بنوا بیرق کی چوری کھول دی اور یہودی کو بری کردیا تو بنو ابیرق مجبور ہوئے اور مال مسروقہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا، آپ نے رفاعہ (رض) کو واپس دلایا اور انہوں نے اب سب اسلحہ کہ جہاد کے لئے وقف کردیا، ادھر بنو ابیرق کی چوری کھل گئی تو بشیر بن ابیرق مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلا گیا اور مشرکین کے ساتھ مل گیا، اگر وہ پہلے سے منافق تھا تو اب کھلا کافر ہوگیا اور اگر پہلے مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا۔- تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اللہ اور رسول کی مخالفت کے وبال نے بشیربن ابیرق کو مکہ میں بھی چین سے نہ رہنے دیا، اسی طرح پھرتے پھرتے آخر اس نے ایک اور شخص کے مکان میں نقب لگائی، تو دیوار اس کے اوپر گر گئی، اور وہیں دب کر مر گیا۔- یہاں تک تو واقعہ کی پوری تفصیل تھی، اب اس کے متعلق قرآنی ارشادت پر غور کیجئے۔:- پہلی آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چوری کے واقعہ کی اصل حقیقت بتلا کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ پر قرآن اور وحی اسی لئے نازل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم و معرفت آپ کو عطا فرمایا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں اور خائنوں کی یعنی بنوا بیرق کی طرف داری نہ کریں اور اگرچہ ظاہری حالات اور قرائن کی بناء پر چوری کے معاملہ میں یہودی کی طرف آپ کا رجحان کوئی گناہ نہ تھا مگر تھا تو واقعہ کے خلاف،- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا :۔ انا انزلنا الیک الکتب بالحق الخ اس آیت سے پانچ مسائل ثابت ہوئے، ایک تو یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے مسائل میں جن میں قرآن کریم کی کوئی نص صریح وارد نہ ہو اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا، اور مہمات کے فیصلوں میں آپ بہت سے فیصلے اپنے اجتہاد سے بھی فرماتے تھے۔- دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجتہاد رائے وہی معتبر ہے جو قرآنی اصول اور نصوص سے ماخوذ ہو، خالص رائے اور خیال معتبر نہیں اور نہ اس کو شریعت میں اجتہاد کہا جاسکتا ہے۔- تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجتہاد دوسرے ائمہ، مجتہدین کی طرح نہ تھا، جس میں غلطی اور خطاء کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے، بلکہ جب آپ کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے فرماتے تو اگر اس میں کوئی غلطی ہوجاتی تو حق تعالیٰ اس پر آپ کو متنبہ فرما کر آپ کے فیصلہ کو صحیح اور حق کے مطابق کرا دیتے تھے اور جب آپ نے کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف کوئی چیز نہ آئی تو یہ علامت اس کی تھی کہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کو پسند اور اس کے نزدیک صحیح ہے۔- چوتھی بات یہ معلم ہوئی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ قرآن سے سمجھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا سمجھایا ہوا ہوتا تھا، اس میں غلط فہمی کا امکان نہ تھا، بخلاف دوسرے علماء و مجتہدین کے کہ ان کا سمجھا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بتلایا ہے، جیسا کہ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بما آرئک اللہ وارد ہے، اسی وجہ سے جب ایک شخص نے فاروق اعظم (رض) سے یہ کہا فاحکم بما اراک اللہ تو آپ نے اس کو ڈانٹا کہ یہ خصوصیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے۔- پانچواں مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ جھوٹے مقدمہ اور جھوٹے دعویٰ کی پیروی یا وکالت کرنا یا اس کی تائید و حمایت کرنا سب حرام ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝ ٠ۭ وَلَا تَكُنْ لِّلْخَاۗىِٕنِيْنَ خَصِيْمًا۝ ١٠٥ۙ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - خون - الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة :- الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ- [ الأنفال 27] ،- ( خ و ن ) الخیانۃ - خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ - خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ( انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تا کہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو) آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب اس لیے نازل کی ہے کہ اس کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جن احکامات و عبادات سے آگاہ کیا جائے آپ ان کی روشنی میں لوگوں کے درمیان فیصلے کریں۔ قول باری ہے ( ولا تکن للخائنین خصیما۔ تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو) روایت ہے کہ آیت ایک شخص کے متعلق نازل ہوئی تھی جس نے ایک زدہ چرالی تھی۔ جب اسے چوری ظاہر ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تو اس نے یہ زرہ ایک یہودی کے گھر یمں پھینک دی، جب یہ زرہ برآمد ہوگئی تو یہودی نے اس کی چوری سے انکار کیا لیکن اصل چور نے یہ ظاہر کیا کہ یہودی اس کا چور ہے۔- مسلمانوں کے ایک گرہ نے یہودی کے مقابلہ میں مسلمان کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا میلان بھی ان کی بات کی طرف ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اصل چور کے بارے میں مطلع کردیا اور یہودی کی برأت واضح کر کے آپ کو اس مخاصمت سے منع فرما دیا اور چور کا ساتھ دینے والوں کی طرف میلان کی بنا پر آپ کو استغفار کا حکم دیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایک شخص کو جب تک کسی معاملے کی حقیقت کا علم نہ ہوجائے اس وقت تک حق کے اثبات یا نفی کے سلسلے میں کسی کی طرف سے اس کے لیے جھگڑنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جیسی صورت حال پر اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گرفت کی اور انہیں استغفار کا حکم دیا۔ یہ آیت اور اس کے مابعد کی آیت جس میں بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے کی نہی ہے اور اس سلسلے میں آخر تک جو کچھ ارشاد ہوا ہے، یہ سب اس شخص کی حمایت کی نہی کی تاکید مزید ہے جس کے حق پر ہونے کا کوئی علم نہ ہو۔- قول باری ( لتحکم بین الناس بما اراک اللہ) سے ان لوگوں نے بعض دفعہ استدلال کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنے اجتہاد سے نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ کے تمام اقوال و اقعال کا صدور نصوص کی بنا پر ہوتا تھا۔ نیز یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے ( وما ینطق عن الھویٰان ھو الا وحی یوحی اور نہ وہ اپنی خواہش نفسانی سے باتیں بناتے ہیں۔ ان کا کام تو تمام تروحی ہی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دونوں میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنے اجتہاد کی بنا پر نہیں فرماتے تھے۔ اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو باتیں اجتہاد کی بنا پر آپ سے صادر ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان سے آگاہ کردیا تھا، ان کی رہنمائی کردی تھی اور ان کے کرلینے کا بذریعہ وحی حکم بھیج دیا تھا اس لیے آیت میں احکام کے اندر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کی نفی پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ قول باری ( ولا تکن للخائنین خصیما) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس میں یہ گنجائش ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی طرف سے مدافعت کی تھی اور یہ بھی گنجائش ہے کہ آپ نے مدافعت کا ارادہ کیا تھا اس لیے کہ آپ کا میلان مسلمانوں کی طرف تھا، یہودی کی طرف نہیں تھا۔ کیونکہ آپ کو یہ گمان نہیں تھا کہ مسلمان حق پر نہیں ہوں گے، اور جبکہ ظاہری طور پر زرہ بھی یہودی کے گھر سے برآمد ہوئی تھی تو یہودی پر چوری کی تہمت زیادہ مناسب تھی اور مسلمان کی اس سے برأت اولیٰ تھی۔- اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دونوں فریق میں سے کسی ایک طرف میلان کا اظہار کرنے سے منع فرما دیا اگرچہ ایک فریق یہودی تھا اور دسورا فریق مسلمان تھا۔ عدالتی فیصلوں کے سلسلے میں یہ بات ایک بنیاد اور اصل بن گئی کہ قاضی یا حاکم فریقین میں سے کسی کی طرف دوسرے کے خلاف کوئی میلان یا جھکائو نہ رکھے خواہ ان میں سے ایک فریق اس کے لیے قابل احترام ہو اور دوسرا فریق اس کے برعکس ہو۔ یہ آیت اس پر بھی دلالت کتری ہے کہ اگر مال مسروقہ کسی شخص کے ہاتھ میں نظر آ جائے تو اس سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس شخص پرچوری کا حکم لگا دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰنے یہودی کے پاس مال مسروقہ موجود ہونے کے باوجود اس پر چوری کا حکم لگانے سے منع فرما دیا تھا۔ کیونکہ یہودی یہ بات ماننے سے انکار کر رہا تھا کہ اس نے یہ زرہ اٹھائی ہے۔ یہ بات حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اقدام کی طرح نہیں ہے جب آپ نے صاع یعنی پیمانہ خود اپنے بھائی کے شتیلہ بعنی کجاوے میں رکھوا دیا تھا اور پھر اسی بنا پر بھائی کو پکڑ کر اپنے پاس محبوس کردیا تھا۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس سلسلے میں جو کارروائی کی تھی وہو مصر کے لوگوں کے دستور کے مطابق جائز تھی، ان لوگوں کا دستور تھا کہ یہ چور کو غلام بنا لیا کرتے تھے۔ - چنانچہ آپ نے بھی اپنے بھائی کو اپنے پاس روک لیا تھا۔ آپ بھی اس دستور کو اپنا سکتے تھے لیکن آپ نے اسے غلام نہیں بنایا اور نہ ہی یہ کہا کہ یہ چور ہے ۔ چور ہونے کی بات کسی اور شخص نے کیہ تھی، جس نے آپ کے بھائی کو چور سمجھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ظن اور خواہشات نفسانی کی بنا پر فیصلہ کرنے اور حکم لگانے سے منع فرما دیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے ( اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اتم، بہت سے گمانوں سے بچو، بعض ظن گناہ ہوتے ہیں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( ایاکم والظن فانہ اکذت الحدیث گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے بڑھ کر جھوٹ بات ہے) قول باری ہے ( ولا تکن للخائنین خصیما) نیز ارشاد ہے ( ولا تجادل عن الذین یختانون انفسھم جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت نہ کرو) ان دونوں آیتوں کے مفہوم میں اس بات کی گنجائش ہے ۔ یہودی کے گھر میں مسروقہ زرہ کی موجودگی کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذہن اس کے خلاف ہوگیا تھا اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ آپ نے اس کا ارادہ کرلیا ہو۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو یہودی کی بےگناہی کی خبر دے دی گئی اور ان مسلمانوں کی طرف سے یہودی کے ساتھ جھگڑنے سے آپ کو روک دیا گیا جو چور کی طرفداری کر رہے تھے۔ - مسلمانوں کا یہ گرہ بددیانت شخص کی بےگناہی کی گواہی دے رہا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا طلبگار تھا کہ آپ صحابہ سے خود اس شخص کی بےگناہی بیان کردیں اور جو لوگ اس کے خلاف الزام لگا رہے تھے انہیں ڈانٹ دیں۔ اس صورت حال کے تحت یہ ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کی حمایت کا اظہار کیا ہو کیونکہ مذکورہ بالا گروہ کی طرف سے اس کی بےگناہی کیی گواہی دی جا رہی تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ اس جیسے شخص پر ایسا الزام نہیں لگ سکتا۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اس گروہ کے باطن کو اپنے ارشاد ( ولو لا فضل اللہ علیک ورحمتہ لھمت طآئفۃ منھم ان یضلوک۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا) کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آشکار کردیا کہ یہ لوگ آپ سے اس خائن کی حمایت کا مطالبہ کر کے آپ کو غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے تھے۔- ایک قول یہ ہے کہ جس گروہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کا مطالبہ کیا تھا اور خائن کی حمایت کی تھی وہ مسلمان تھا اور اسے بھی اس خائن کی بددیانتی اور چوری کے بارے میں صحیح علم نہیں تھا، تا ہم اس گروہ کے لیے یہ درست نہیں تھا کہ وہ یہودی کے گھر میں زرہ کی موجودگی کی وجہ سے اس پرچوری کا الزام لگا دیتا۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ ظاہری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس کے مطابق حاکم کا فیصلہ، جبکہ باطن اس کے برعکس ہو، کیسے غلط قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ حاکم پر تو صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ظاہری صورت حال کے مطابق فیصلہ صادر کر دے۔ باطن کی حالت کا اعتبار کرنا اس کی ذمہ داری کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس سوال کا یہ جواب ہے کہ ظاہری صورت حال کے مطابق فیصلہ گمراہی نہیں کہلائے گا اور نہ ہی غلط متصور ہوگا۔ گمراہی یہ ہوگی کہ بددیانت انسان کے متعلق حقیقت حال معلوم کیے بغیر اس کی بےگناہی کا فیصلہ صادر کردیا جائے۔ مذکورہ بالا واقعہ میں خائن کے حمائتیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی ہی صورت حال کے تحت غلط فہمی میں مبتلا کرنے اور صحیح سمت سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٥) اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) حق اور باطل کو واضح کردینے کے لیے قرآن کریم نازل کیا ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طعمہ اور زید بن سمین کے درمیان اس چیز کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن کریم میں بتلایا ہے فیصلہ کردیں اور آپ طعمہ کی طرفداری نہ کیجیے۔- شان نزول : (آیت) ” انا انزلنا الیک “۔ (الخ)- امام ترمذی (رح) اور حاکم (رح) وغیرہ نے قتادہ بن نعمان سے روایت نقل کی ہے، فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں میں سے ایک گھرانے کو بنو ابیرق کہا جاتا تھا، یعنی بشر، بشیر، مبشر، مگر بشیر منافق آدمی تھا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو میں خود اشعار کہتا اور پھر اہل عرب میں سے کسی اور کی طرف منسوب کردیتا تھا اور پھر کہتا کہ فلاں نے ایسا کہا ہے۔- صحابہ کرام (رض) جب اس کے شعر کو سنتے تو فرماتے اللہ کی قسم اس خبیث کے سوا یہ شعر کسی اور کا نہیں ہوسکتا اور یہ گھرانہ زمانہ جاہلیت اور اسلام میں غربت اور فاقہ مستی والا تھا اور لوگوں کی اس تنگی کے زمانہ میں خوراک جو اور کھجوریں تھیں، چناچہ میرے چچا رفاعۃ بن زید نے ایک آٹے کی بوری خریدی اور اس کو ایک کمرہ میں رکھ دیا، جہاں ہتھیار، زرہ اور تلوار وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھی تو کسی نے نیچے کی جانب سے اس کمرہ میں نقب لگائی اور وہ کھانا اور ہتھیار چرا کرلے گیا، جب صبح ہوئی تو میرے چچا رفاعۃ پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئے اور بولے بھتیجے اس رات تو ہم پر کسی نے بہت ظلم کیا ہے کوئی ہمارے کمرے میں نقب لگا کر ہمارا کھانا اور ہتھیار لے گیا ہے، ہم نے گھروالوں سے اس کی تحقیق اور تلاش شروع کی، ہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنو البیرق کو اس رات آگ روشن کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ہم نے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا یعنی کہ وہ چور ہے اور اب ہم نے اس کو تمہارے کھانے پر دیکھا ہے۔- ہم گھر میں اس چیز کی تحقیق کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں بنو البیرق کہنے لگے کہ واللہ ہم لبید بن سہل کے اوپر چور ہونے کا گمان رکھتے ہیں اور لبید بن سہل (رض) ہم لوگوں سے بہت نیک مسلمان شخص تھے، لبید (رض) نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی اور فرمایا اگر میں چوری کروں گا تو اللہ کی قسم میں اس تلوار سے اپنی گردن اڑا دوں گا، ورنہ اس چوری کے مسئلے کو میرے سامنے واضح بیان کردیں تو وہ لوگ کہنے لگے آپ کو ہم نہیں کہہ رہے آپ ایسے شخص نہیں، چناچہ ہم نے گھر میں اس چیز کی تحقیق کی، ہمیں اس قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہا کہ وہ ایسے لوگ ہیں، میرے، چچا نے مجھ سے کہا، بھتیجے اگر تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس چیز کا تذکرہ کر دو تو اچھا ہو، چناچہ میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ ہمارے پڑوسی ظالم ہیں، انہوں نے میرے چچا کے کمرہ میں نقب لگائی اور ہتھیار اور کھانا لے گئے بہتر ہے کہ ہو ہمارے ہتھیار واپس کردیں، کھانے کی تو کوئی بات نہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اچھا میں اس کی تحقیق کرتا ہوں، بنوالبیرق نے جب یہ سنا تو ان میں سے ایک شخص اسیر بن عروہ نامی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور آپ سے اس چیز کے بارے میں گفتگو کی، اس بارے میں گھر والوں میں سے بہت سے لوگ جمع ہوگئے اور بولے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتادہ اور اس کے چچا نے ہمارے گھروالوں کو جو جو مسلمان اور نیک آدمی ہیں، بغیر گواہ اور ثبوت کے چوری کا الزام لگانے کا ارادہ کیا ہے ؟- قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا مسلمان اور نیک گھرانے پر بغیر گواہ اور ثبوت کے تم نے چوری کی تہمت لگانے کا ارادہ کیا ہے ؟- یہ سن کر میں واپس آیا اور اپنے چچا کو آکر اس چیز سے مطلع کیا، چچا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہی مددگار ہے ہمیں اس پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اتنے میں قرآن کریم کی ” انا انرلنا “۔ سے اخیر تک یہ آیات نازل ہوگئیں یعنی آپ بنو البیرق کے حمایتی نہ بنیے اور قتادہ (رض) سے جو کچھ آپ نے فرمایا اس پر استغفار کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰٹک اللّٰہُ ط) - یعنی ایک تو اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب دی ہے ‘ قانون دیا ہے ‘ اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بصیرت خاص دی ہے۔ مثلاً عدالت میں ایک جج بیٹھا ہے ‘ اس کے سامنے قانون کی کتاب ہے ‘ مقدمے سے متعلق متعلقہ ریکارڈ ہے ‘ شہادتیں ہیں ‘ اب ایک اس کی اپنی عقل (چھٹی حِس) اور قوت فیصلہ بھی ہوتی ہے ‘ جس کو بروئے کار لا کر وہ فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جیسا ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھاتے ہیں اس کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ کریں۔- (وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآءِنِیْنَ خَصِیْمًا ) - یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف سے وکالت نہ فرمائیں۔ ایک شخص جو کہنے کو تو مسلمان ہے لیکن ہے خائن ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے پس منظر میں در اصل ایک واقعہ ہے۔ ایک منافق نے کسی مسلمان کے گھر میں چوری کے لیے نقب لگائی اور وہاں سے آٹے کا ایک تھیلا اور کچھ اسلحہ چرا لیا۔ آٹے کے تھیلے میں سوراخ تھا ‘ جب وہاں سے وہ اپنے گھر کی طرف چلا تو سوراخ میں سے آٹا تھوڑا تھوڑا گرتا گیا۔ اس طرح اس کے راستے اور گھر کی نشاندہی ہوتی گئی ‘ مگر اسے خبر نہیں تھی کہ آٹے کی لکیر اس کا راز فاش کر رہی ہے۔ گھر پہنچ کر اسے خیال آیا کہ ممکن ہے مجھ پر شک ہوجائے ‘ چناچہ اس نے اسی وقت جا کر وہ سامان ایک یہودی کے ہاں امانتاً رکھوا دیا ‘ لیکن آٹے کا نشان وہاں بھی پہنچ گیا۔ اگلے روز جب تلاش شروع ہوئی تو آٹے کی لکیر کے ذریعے لوگ کھوج لگاتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچ گئے ‘ لیکن پوچھ گچھ پر اس نے صاف انکار کردیا۔ تلاشی لی گئی ‘ مگر کوئی چیز برآمد نہ ہوئی۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ آٹے کے نشانات مزید آگے جا رہے ہیں تو وہ کھوج لگاتے ہوئے یہودی کے گھر پہنچے ‘ اس کے ہاں سے سامان بھی بر آمد ہوگیا۔ یہودی نے حقیقت بیان کردی کہ یہ سامان رات کو فلاں شخص نے اس کے پاس امانتاً رکھوایا تھا۔ منافق کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ یہودی جھوٹ بولتا ہے ‘ وہی چور ہے۔ جب کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو یہ جھگڑا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لایا گیا۔ منافق کے قبیلے والوں نے قسمیں کھا کھا کر خوب وکالت کی کہ ہمارا یہ آدمی تو بہت نیک ہے ‘ اس پر خواہ مخواہ کا جھوٹا الزام لگ رہا ہے۔ یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل بھی اس شخص کے بارے میں کچھ پسیجنے لگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ خیانت کرنے والے کے حمایتی نہ بنیں ‘ اس کی طرف سے وکالت نہ کریں ‘ اس کا سہارا نہ بنیں ‘ اس کو مدد نہ پہنچائیں۔ یہاں خَصِیْمًا کے معنی ہیں جھگڑا کرنے والا ‘ بحث کرنے والا۔ لِلخَاءِنِیْنَ کا مطلب ہے خائن لوگوں کے حق میں۔ لیکن اگر عَلَی الخَاءِنِین ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا خائن لوگوں کے خلاف۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

" سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :140 اس رکوع اور اس کے بعد والے رکوع میں ایک اہم معاملہ سے بحث کی گئی ہے جو اسی زمانہ میں پیش آیا تھا ۔ قصہ یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طَعْمہ یا بشیر بن اُبَیرِق تھا ۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرا لی ۔ اور جب اس کا تجسس شروع ہوا تو مال مسروقہ ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا ۔ زرہ کے مالک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کی اور طعمہ پر اپنا شبہہ ظاہر کیا ۔ مگر طعمہ اور اس کے بھائی بندوں اور بنی ظفر کے بہت سے لوگوں نے آپس میں اتفاق کر کے اس یہودی پر الزام تھوپ دیا ۔ یہودی سے پوچھا گیا تو اس نے اپنی برأت ظاہر کی ۔ لیکن یہ لوگ طعمہ کی حمایت میں زور شور سے وکالت کرتے رہے اور کہا کہ یہ یہودی خبیث جو حق کا انکار اور اللہ کے رسول سے کفر کرنے والا ہے ، اس کی بات کا کیا اعتبار ، بات ہماری تسلیم کی جانی چاہیے کیونکہ ہم مسلمان ہیں ۔ قریب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدمہ کی ظاہری روداد سے متاثر ہو کر اس یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے اور مستغیث کو بھی بنی اُبَیرق پر الزام عائد کرنے پر تنبیہ فرماتے ۔ اتنے میں وحی آئی اور معاملہ کی ساری حقیقت کھول دی گئی ۔ اگرچہ ایک قاضی کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روداد کے مطابق فیصلہ کر دینا بجائے خود آپ کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا ۔ اور ایسی صورتیں قاضیوں کو پیش آتی رہی ہیں کہ ان کے سامنے غلط روداد پیش کر کے حقیقت کے خلاف فیصلے حاصل کر لیے جاتے ہیں ۔ لیکن اس وقت جبکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی ، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم روداد مقدمہ کے مطابق یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے تو اسلام کے مخالفوں کو آپ کے خلاف اور پوری اسلامی جماعت اور خود دعوت اسلامی کے خلاف ایک زبر دست اخلاقی حربہ مل جاتا ۔ وہ یہ کہتے پھرتے کہ اجی یہاں حق و انصاف کا کیا سوال ہے ، یہاں تو وہی جتھہ بندی اور عصبیت کام کر رہی ہے جس کے خلاف تبلیغ کی جاتی ہے ۔ اسی خطرے سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس مقدمہ میں مداخلت فرمائی ۔ ان رکوعوں میں ایک طرف ان مسلمانوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جنہوں نے محض خاندان اور قبیلہ کی عصبیت میں مجرموں کی حمایت کی تھی ۔ دوسری طرف عام مسلمانوں کو سبق دیا گیا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کسی تعصب کا دخل نہ ہونا چاہیے ۔ یہ ہرگز دیانت نہیں ہے کہ اپنے گروہ کا آدمی اگر برسر باطل ہو تو اس کی بے جا حمایت کی جائے اور دوسرے گروہ کا آدمی اگر برسر حق ہو تو اس کے ساتھ بے انصافی کی جائے ۔ "

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

66: یہ آیتیں اگرچہ عام ہدایتوں پر مشتمل ہیں مگر ایک خاص واقعے میں نازل ہوئی ہیں، خاندان بنو ابیرق کے ایک شخص بشر نے جو ظاہری طور پر مسلمان تھا، ایک صحابی حضرت رفاعہ (رض) کے گھر میں نقب لگاکر کچھ غلہ اور کچھ ہتھیار چرالئے، اور لے جاتے وقت ہوشیاری یہ کی کہ غلے کی بوری کا منہ اس طرح کھولا کہ تھوڑا تھوڑا غلہ راستے میں گرتا جائے یہاں تک کہ ایک یہودی کے گھر کے دروازے پر پہنچ کر بوری کا منہ بند کردیا اور بعد میں چوری کئے ہوئے ہتھیار اسی یہودی کے پاس رکھوادئے، جب چوری کی تفتیش شروع ہوئی توایک طرف غلے کے نشانات یہودی کے گھر تک پائے گئے اور دوسری طرف ہتھیار اسی کے پاس سے برآمد ہوئے، اس لئے شروع میں آنحضرتﷺ کا خیال یہ ہونے لگا کہ یہ چوری اسی یہودی نے کی ہے، یہودی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ ہتھیار تو میرے پاس بشر نامی شخص نے رکھوائے تھے، مگر چونکہ وہ اس پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکا تھا، اس لئے آپ کا رجحان اس طرف ہونے لگا کہ وہ جان بچانے کے لئے بشر کا نام لے رہا ہے، دوسری طرف بشر کے خاندان بنو ابیرق کے لوگ بھی بشر کی وکالت کرتے ہوئے اس بات پر زور لگارہے تھے کے سزا بشر کے بجائے یہودی کو دی جائے، ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ یہ آیات کریمہ نازل ہوگئیں اور ان کے ذریعے بشر کی دھوکہ بازی کا پردہ چاک کردیا گیا اور یہودی کو بے گناہ قرار دے کر بری کردیا گیا، بشر کو جب راز فاش ہونے کا پتہ لگا تو وہ فرار ہو کر کفار مکہ سے جاملا اور وہاں کفر کی حالت میں بری طرح اس کی موت واقع ہوئی، ان آیات کے ذریعے ایک طرف تو معاملے کی اصل حقیقت آنحضرتﷺ پر کھول دی گئی، اس کے علاوہ مقدمات کے فیصلے کرنے کے لئے اہم اصول بتادئے گئے ہیں، پہلا اصول یہ کہ تمام فیصلے کتاب اللہ کے احکام کے تابع ہونے چاہئیں، دوسرا اصول یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرﷺ پر بہت سے ایسے امور کھولتے رہتے ہیں جو صراحۃً قرآن میں مذکور نہیں ہیں، فیصلے ان کی روشنی میں ہونے چاہئیں، آیت کے الفاظ اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں سمجھادیا ہے، اسی طرف اشارہ کررہے ہیں اور ان سے قرآن کریم کے علاوہ آنحضرتﷺ کی سنت کی حجیت کا بھی ثبوت ملتا ہے، تیسرا اصول یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جس کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ کسی مقدمے میں غلطی پر ہے، اس کی وکالت کرنا جائز نہیں ہے، بنو ابیرق جو بشر کی وکالت کررہی تھی ان کی تنبیہ کی گئی ہے کہ اول تو یہ وکالت جائز نہیں دوسرے اس کا فائدہ ملزم کو زیادہ سے زیادہ دنیا میں پہنچ سکتا ہے آخرت میں تمہاری وکالت اس کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔