106۔ 1 یعنی بغیر تحقیق کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے اس کی حمایت اور وکالت کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور اپنی چرب زبانی سے عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے گا درآں حالیکہ وہ صاحب حق نہ ہو تو ایسے فیصلے کی عند اللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اس بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا خبردار میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل و حجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہوشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں درآنحالیکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری)
[١٤٥] قاضی ظاہری شہادات کی بنا پر فیصلہ کرنے کا پابند ہے اس لحاظ سے اگر آپ انصاری کے حق میں فیصلہ دے بھی دیتے تو آپ کا کچھ قصور نہ تھا۔ تاہم آپ کی عظمت شان کی وجہ سے آپ کو بخشش طلب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ایک غلط سوچ آپ کے ذہن میں راہ پانے لگی تھی۔
وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰهَ : یعنی جو حمایت آپ نے کی اس کی مغفرت طلب کریں۔ ایک معنی مفسرین نے یہ بھی کیا ہے کہ ان گناہ گاروں کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات قاضی ایک فریق کی چرب زبانی کی وجہ سے اس کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہوجائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خبر دار میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کردیتا ہوں، ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل و حجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہوشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، حالانکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آگ کا ٹکڑا ہے، اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ “ [ بخاری، المظالم، باب إثم من خاصم۔۔ : ٢٤٥٨ ]
اس لئے دوسری آیت میں آپ کو استغفار کا حکم دیا گیا کہ انبیاء (علیہم السلام) کا مقام بہت بلند ہے، ان سے اتنی بات بھی پسند نہیں۔- توبہ کی حقیقت :۔ - اور آیت نمبر ٠١١ یعنی ومن یعمل سوء اویظلم نفسہ الخ سے یہ معلوم ہوا کہ گناہ خواہ متعدی ہو یا لازمی یعنی حقوق العباد سے متعلق ہو یا حقوق اللہ سے، ہر قسم کا گناہ توبہ و استغفار سے معاف ہوسکتا ہے، البتہ توبہ و استغفار کی حقیقت جاننا ضروری ہے، محض زبان سے استغفر اللہ واتوب الیہ کہنے کا نام توبہ و استغفار نہیں ہے، اسی لئے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہے اس پر اس کو ندامت بھی نہیں اور اس کو چھوڑا بھی نہیں یا آئندہ کے لئے چھوڑنے کا عزم نہیں کیا اور اس حالت میں زبان سے استغفر اللہ کہتا ہے تو یہ توبہ کے ساتھ مذاق کرنا ہے۔- خلاصہ یہ کہ توبہ کے لئے تین چیزیں ہونا ضروری ہیں، ایک گزشتہ پر نادم ہونا، دوسرے جس گناہ میں مبتلا ہو اس کو اسی وقت چھوڑ دینا اور تیسرے آئندہ کے لئے گناہ سے بچنے کا پختہ ارادہ کرنا، البتہ جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان کو انہی سے معاف کرانا یا حقوق ادا کرنا بھی توبہ کی شرط ہے۔
وَّاسْتَغْفِرِ اللہَ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١٠٦ۚ- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
قول باری ہے ( ومن یکسب خطیئۃ او اثما ثم یرم بہ یریئاً فقد احتمل بھتاناً و اثما مبینا۔ اور جس نے کوئی خطا یا گناہ کر کے اس کا الزام کسی بےگناہ پر تھوپ دیا اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا۔ ) خطیئہ اولاثم کے درمیان فرق کے متعلق ایک قول ہے کہ اگر کوئی غلط کام جان بوجھ کر کیا جائے تو وہ اثم کہلاتا ہے ، اگر عمداً نہ کیا جائے تو وہ خطیئہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ایک ساتھ اس لیے ذکر کیا کہ ان دونوں کا حکم بیان ہوجائے اور یہ واضح کردیا جائے۔ - کہ خواہ یہ عمداً ہوا ہو یا عمد کے بغیر دونوں صورتیں یکساں ہیں۔ جو شخص کسی بےگناہ انسان پر کوئی الزام لگائے گا و بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لے گا ۔ کیونکہ کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے پر ایسی بات کا الزام عائد کرے جس کا اسے علم نہ ہو۔
(١٠٦) اور آپ نے یہودی کو سزا دینے کا جو ارادہ کیا ہے اس سے استغفار کیجیے جو آپ کے دل میں خیال آیا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمانے والا ہے۔
آیت ١٠٦ (وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا )- یعنی اس منافق کے حق میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت میں جو نرمی پیدا ہوگئی تھی اس پرا للہ سے استغفار کیجئے ‘ مغفرت طلب کیجیے۔