Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٦] ان لوگوں سے مراد وہی چور انصاری کے خاندان کے لوگ ہیں جنہوں نے محض خاندانی تعصب کی بنا پر چور کی حمایت کی۔ پھر آپ کے سامنے چور کے مجرم نہ ہونے کے متعلق قسمیں بھی کھائی تھیں اور سارا الزام بےگناہ یہودی کے سر تھوپ دیا تھا اور مجرم کے گناہ دو تھے، ایک چوری، دوسرے اس یہودی کو مورد الزام ٹھہرانا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ... مطلب یہ کہ یہ لوگ جنھوں نے دوسروں کی خیانت کی ہے، در حقیقت سب سے پہلے انھوں نے اپنی جانوں سے خیانت کی ہے، کیونکہ دوسروں سے دغا کرنے والا پہلے اپنے آپ سے دغا کرتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت (یعنی آیت ٧٠١) میں پھر اس کی تاکید فرمائی کہ خیانت کرنے والوں کی طرف سے آپ کوئی جواب دہی نہ کریں، کیونکہ وہ اللہ کو پسند نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۝ ١٠٧ۚۙ- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٧۔ ١٠٨۔ ١٠٩) اللہ تعالیٰ ایسے فاجر، کذاب اور بےقصور لوگوں پر بہتان لگانے والوں کو نہیں چاہتے جن کی حالت یہ ہے کہ چوری کی بنا پر لوگوں سے تو شرماتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی تمام باتوں سے باخبر ہے، جس وقت پر یہ لوگ ایسی باتیں کہہ رہے تھے کہ جن کو نہ اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور نہ یہ خود پسند کرتے ہیں اور جو یہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے، قوم طعمہ یعنی بنی ظفر دنیاوی زندگی میں تو تم نے طعمہ کی طرف سے جھگڑا کرلیا، لیکن اللہ تعالیٰ کو طعمہ کی جانب سے کون جواب دے گا یا طعمہ پر عذاب خداوندی کا کون ذمہ دار ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٧ (وَلاَ تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَہُمْ ط) ۔- اس حکم کے حوالے سے ذرا مسئلہ شفاعت پر بھی غور کریں۔ ہم یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف سے شفاعت کریں گے ‘ چاہے ہم نے بےایمانیاں کی ہیں ‘ حرام خوریاں کی ہیں ‘ شریعت کی دھجیاں بکھیری ہیں۔ لیکن یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو دو ٹوک انداز میں خائن لوگوں کی وکالت سے منع کیا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :141 جو شخص دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے وہ دراصل سب سے پہلے خود اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرتا ہے ۔ کیونکہ دل اور دماغ کو جو قوتیں اس کے پاس بطور امانت ہیں ان پر بے جا تصرف کر کے وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ خیانت میں اس کا ساتھ دیں ۔ اور اپنے ضمیر کو جسے اللہ نے اس کے اخلاق کا محافظ بنایا تھا ، اس حد تک دبا دیتا ہے کہ وہ اس خیانت کاری میں سد راہ بننے کے قابل نہیں رہتا ۔ جب انسان اپنے اندر اس ظالمانہ دست برد کو پایہ تکمیل تک پہنچا لیتا ہے تب کہیں باہر اس سے خیانت و معصیت کے افعال صادر ہوتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani