[١٤٧] زرہ کا چور دراصل سچا مسلمان نہیں بلکہ منافق آدمی تھا اور اس کے خاندان والے بھی کچھ پختہ ایمان والے نہ تھے۔ جب یہ مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں چلا گیا تو ان لوگوں کے مشورے کا موضوع یہ ہوتا تھا کہ چور کس طرح چوری کے اس جرم سے بچ سکتا ہے اور یہ جرم اس یہودی کے سر کیسے تھوپا جائے۔ دراصل اس طرح راتوں کو مشورے کرنا اور یہ سمجھنا کہ اس طرح ان کے جرم پر پردہ پڑا رہے گا، یہی ان لوگوں کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے اور اللہ سے کوئی معاملہ بھلا کیسے چھپا رہ سکتا ہے۔
يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ : یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ گناہوں کا ارتکاب کرنے میں لوگوں سے چھپاؤ تو کرتے، ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے چھپاؤ نہیں کرتے جو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کی گھڑیوں میں نا مناسب کاموں کے مشورے کر رہے ہوتے ہیں، وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، اس سے بچ کر کہاں جائیں گے ؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کے مطلب کے لیے دیکھیے سورة حدید (٤) اور سورة مجادلہ (٧) ۔
چوتھی آیت (یعنی آیت نمبر ٨٠١) میں ان خیانت کرنے والوں کے برے حال اور بیوقوفی کا بیان ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی جیسے آدمیوں سے تو شرماتے اور چوری کو چھپاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے جو ہر وقت ان کے ساتھ ہے اور ان کے ہر کام کو دیکھ رہا ہے، خصوصاً اس واقعہ کو جب انہوں نے باہم مشورہ کر کے یہ رائے قائم کی کہ الزام یہودی پر لگاؤ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رفاعہ اور قتادہ کی شکایت کرو کہ بلاوجہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں اور آپ سے اس کی درخواست کرو کہ آپ یہودی کے مقابلہ میں ہماری حمایت فرمائیں۔
يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللہِ وَھُوَمَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطًا ١٠٨- اسْتِخْفَاءُ- والاسْتِخْفَاءُ : طلب الإخفاء، ومنه قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ [هود 5] والخَوَافي : جمع خافية، وهي : ما دون القوادم من الرّيش .- ۔ الا ستخفاء ۔ چھپنا ۔ قرآن میں ہے : أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ [هود 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ خدا سے پردہ کریں ۔ الخوافی ۔ پرند کے بازوں کے نیچے چھپے ہوئے پر اس کا مفرد خفیتہ ہے اور القوادم کی ضدہی - بَيَّتَ ( رات گزارنا)- : ما يفعل باللیل، قال تعالی: بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء 81] . يقال لكلّ فعل دبّر فيه باللیل : بُيِّتَ ، قال تعالی: إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء 108] ، وعلی ذلک قوله عليه السلام : «لا صيام لمن لم يبيّت الصیام من اللیل» وبَاتَ فلان يفعل کذا عبارة موضوعة لما يفعل باللیل، كظلّ لما يفعل بالنهار، وهما من باب العبارات .- البیوت وہ معاملہ جس پر رات بھر غور و خوض کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے ؛۔ بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء 81] ان میں بعض لوگ رات کو مشورے کرتے ہیں ۔ اور بیت الامر کے معنی ہیں رات کے وقت کسی کام کی تدبیر کرنا ۔ چناچہ فرمایا ؛۔ إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء 108] حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا اسی طرح ایک روایت ہے (48) لاصیام لمن لم یبیت الصیام من الیل کہ جو شخص رات سے روزہ کی پختہ نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اور بات فلان یفعل کذا کے معنی رات بھر کوئی کام کرنا کے ہیں جیسا کہ ظل کے معنی دن بھر کام کرنا آتے ہیں اور یہ دونوں افعال عادات سے ہیں ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
آیت ١٠٨ (یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ ) - یہ لوگ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے۔- (وَہُوَ مَعَہُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لاَ یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ ط) - یہ منافقین کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب وہ مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف چوری چھپے سازشیں کر رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اگر اللہ پر ان کا ایمان ہو تو انہیں معلوم ہو کہ اللہ ہماری باتیں سن رہا ہے۔ یہ مسلمانوں سے ڈرتے ہیں ‘ ان سے اپنی باتوں کو خفیہ رکھتے ہیں ‘ مگر ان بد بختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت ہمارے پاس موجود ہے ‘ اس سے تو کچھ نہیں چھپ سکتا۔- (وَکَان اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا ) - یعنی اس کی پکڑ سے یہ کہیں باہر نہیں نکل سکتے۔