Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

117۔ 1 اِنّاثً (عورتیں) سے مراد یا تو وہ بت ہیں جن کے نام مؤنث تھے جیسے لات، عزیٰ ، مناۃ، نائلہ وغیرہ۔ یا مراد فرشتے ہیں۔ کیونکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ 117۔ 2 بتوں، فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت دراصل شیطان کی عبادت ہے۔ کیونکہ شیطان ہی انسان کو اللہ کے در سے چھڑا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٥] مشرکوں میں شرک کی جملہ اقسام پائی جاتی ہیں :۔ شرک کی موٹی موٹی تین اقسام ہیں اور وہ تینوں ہی اس جملہ میں آگئی ہیں مثلاً (١) شرک فی الذات۔ اس لحاظ سے مشرکین اپنی دیویوں کو اللہ کی بیویاں اور بیٹیاں سمجھتے تھے اور ان دیویوں کے ناموں سے ہی یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے جیسے الٰہ سے لات اور عزیز سے عزی وغیرہ (٢) شرک فی الصفات۔ اللہ کی یہ صفت ہے کہ جہاں سے بھی اسے کوئی شخص پکارے وہ اس کی فریاد سنتا ہے اور مشرکین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ دیویاں ان کی فریاد سنتی ہیں (٣) شرک فی العبادت۔ قرآن کی تصریح کے مطابق کسی کو اس عقیدہ سے پکارنا کہ وہ اس کی فریاد سن کر اس کی مشکل دور کرسکتا ہے یا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اس کی عین عبادت ہے اور مشرکین بھی ایسا ہی عقیدہ رکھ کر دیویوں کو پکارتے تھے اور یہ صریح شرک ہے۔ نیز وہ اپنی دیویوں کے سامنے عبادت کے وہ سب مراسم بجا لاتے تھے جو صرف اللہ کے لیے سزا وار ہیں۔- [١٥٦] ابلیس کا انسانوں کو گمراہ کرنے کا دعویٰ :۔ شیطان کو پکارنا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کو شرک کی جتنی راہیں سجھائی ہیں سب شیطان ہی نے سجھائی ہیں۔ گویا ایسا عقیدہ رکھ کر خواہ کسی کو بھی پکارا جائے وہ پکار بھی شیطانی ہے اور شیطان ہی کو پکارنے کے مترادف ہے اگرچہ سب لوگ شیطان کو اللہ کا باغی اور سرکش سمجھ کر ظاہری طور پر گالیاں ہی دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

” اناثا “ یہ ” أُنْثَی “ کی جمع ہے، یعنی مونث۔ ان سے مراد یا تو بت ہیں جن کے اکثر نام (لات، مناۃ، عزیٰ وغیرہ) مؤنث تھے۔ یونانیوں اور ہندوؤں نے بھی عبادت کے لیے دیویاں بنا رکھی ہیں۔ مسلمانوں نے ان کی دیکھا دیکھی ایسی ہستیوں میں ایسے اوصاف مشہور کر رکھے ہیں جیسے وہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی محبوبائیں ہوں، بلکہ ان کے خیال میں جو پہنچ چکے ہیں وہ اپنی وضع قطع بھی عورتوں والی بنا کر رکھتے ہیں، وہی چوڑیاں وہی زیور وغیرہ۔ ” اناثا “ سے مراد فرشتے بھی ہیں، کیونکہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور ان کی مائیں جنوں کی سردارنیوں کو مانتے تھے۔ - 2 اِنْ يَّدْعُوْنَ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی وضاحت اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے کے ساتھ کی ہے، کیونکہ عبادت میں اصل ہے ہی پکارنا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ ) ” پکارنا ہی تو عبادت ہے “ [ ترمذی، الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء : ٣٣٧٠۔ أبوداؤد : ١٤٧٩ ] اور دیکھیے سورة مومن (٦٠) ” جو شخص بھی غیبی مدد کے لیے کسی کو اللہ کے سوا پکارتا ہے وہ مشرک ہے، کیونکہ عبادت اسی پکارنے ہی کا نام ہے، بلکہ عبادت کی جتنی بھی صورتیں ہیں، یعنی قیام، رکوع، سجدہ، نذرو نیاز اور پکارنا وغیرہ، ان سب کا اصل مقصد اسے غیبی قوتوں کا مالک جان کر مانگنا ہی ہوتا ہے، کوئی اللہ کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے تو اس سے مانگتا ہے، غیر اللہ کے ساتھ کرتا ہے تو اس سے مانگتا ہے۔ - شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا : بتوں، فرشتوں، دیوی دیوتاؤں اور دوسری ہستیوں کی عبادت کرنے والے اپنے خیال میں جس کی بھی عبادت کرتے رہیں حقیقت میں وہ سرکش شیطان ہی کی عبادت کر رہے ہیں، کیونکہ شیطان ہی انھیں اللہ کے دروازے سے ہٹا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ جن لوگوں کی یہ پوجا کرتے ہیں، انھیں تو خبر ہی نہیں کہ کوئی ہمیں پکار رہا ہے۔ [ دیکھیے الأحقاف : ٥، ٦۔ یونس : ٢٨، ٢٩ ] یہ لوگ صرف شیطان کے کہنے پر اپنے وہم و گمان سے بنائی ہوئی ہستیوں کو پوج رہے ہیں۔ [ دیکھیے النجم : ٢٣۔ یونس : ٦٦ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝ ٠ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا۝ ١١٧ۙ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] - ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) - - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - مرد - قال اللہ تعالی: وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] والمارد والمرِيد من شياطین الجنّ والإنس : المتعرّي من الخیرات . من قولهم : شجرٌ أَمْرَدُ : إذا تعرّى من الورق، ومنه قيل : رملةٌ مَرْدَاءُ : لم تنبت شيئا، ومنه : الأمرد لتجرّده عن الشّعر . وروي : «أهل الجنّة مُرْدٌ» «4» فقیل : حمل علی ظاهره، وقیل : معناه : معرون من الشّوائب والقبائح، ومنه قيل : مَرَدَ فلانٌ عن القبائح، ومَرَدَ عن المحاسن وعن الطاعة . قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] أي : ارتکسوا عن الخیر وهم علی النّفاق، وقوله : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] أي : مملّس . من قولهم : شجرةٌ مَرْدَاءُ : إذا لم يكن عليها ورق، وكأنّ المُمَرَّدَ إشارة إلى قول الشاعرفي مجدل شيّد بنیانه ... يزلّ عنه ظفر الظّافر ومَارِدٌ: حصن معروف وفي الأمثال : تَمرَّدَ ماردٌ وعزّ الأبلق قاله ملک امتنع عليه هذان الحصنان .- ( م ر د ) المارد والمرید ۔ جنوں اور انسانوں سے اس شیطان کو کہاجاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوچکا ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] اور ہر شیطان سرکش سے اس کی حفاظت کے لئے ۔ یہ شجر امرد سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں وہ درخت جس کے پتے نہ ہوں ۔ اور اسی سے رملۃ مرداء ہے یعنی ریت کا ٹیلہ جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو اور اس سے امرد اس نوجوان کو کہتے ہیں جس کے ہنوز سبزہ نہ اگاہو ۔ حدیث میں ہے اھل الجنۃ کلم مرد ) کہ اہل جنت سب کے سب امرد ہوں گے ۔ چناچہ بعض نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر ہی حمل کیا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں گے ۔ جیسے محاورہ ہے : مرد فلان عن القیائح فلاں ہر قسم کی قباحت سے پاک ہے ۔ مرر فلان عن المجاسن وہ محاسن سے عاری ہے ۔ مرر عن للطاعۃ ۔ سرکشی کرنا ۔ پس آیت کریمہ : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] ومن اھل المدینہ مردو ا عن النفاق کے معنی یہ ہیں ۔ کہ اہل مدینہ سے بعض لوگ ۔۔۔ نفاق پر اڑ کر ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] شیشے جڑے ہونے کی وجہ سے ہموار ۔ میں ممرد کے معنی ہموار ی چکنا کیا ہوا کے ہیں ۔ اور یہ شجرۃ مردآء سے ماخوذ ہے ۔ گویا ممرد کے لفظ سے اس کی اس صفت کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے ( سریع ) (406) فی مجلدل شید بنیانہ یزل عنہ ظفرا لطائر ایک مضبوط محل میں جس پر ایسا پلا سڑ لگا گیا ہے کہ اس سے پرند کے ناخن بھی پھسل جاتے ہیں ۔ مارد ایک مشہور قلعے کا نام ہے ۔ مثل مشہور ہے مرد مارد وعزالابلق۔ مارہ ( قلعہ ) نے سرکشی کی اور ابلق ( قلعہ ) غالب رہا ۔ یعنی وہ دونوں قلعے سر نہ ہوسکے ۔ یہ مقولہ ایک باشاہ کا ہے جو ان دونوں قلعوں کو زیر نہیں کرسکا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٧) اہل مکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ لات، عزی، مناۃ ایسے بتوں کو پوجتے ہیں کہ جن میں کچھ بھی جان نہیں گویا یہ صرف شیطان کی پوجا کرتے ہیں جو کہ سخت قسم کا سرکش ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک خیر سے دور کردیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٧ (اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًاج وَاِنْ یَّدْعُوْنَ الاَّ شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا ) ُیہاں پہلی مرتبہ مشرکین مکہ کی بات بھی ہو رہی ہے۔ مشرکین مکہ نے اپنی دیویوں کے مؤنث نام رکھے ہوئے تھے ‘ جیسے لات ‘ منات ‘ عزیٰ وغیرہ۔ لیکن اصل میں نہ لات کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی منات کی کچھ حقیقت ہے۔ البتہ شیطان ضرور موجود ہے جو ان کی پکار سن رہا ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :145 شیطان کو اس معنی میں تو کوئی بھی معبود نہیں بناتا کہ اس کے آگے مراسم پرستش ادا کرتا ہو اس کو الوہیت کا درجہ دیتا ہو ، البتہ اسے معبود بنانے کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے ۔ اور جدھر جدھر وہ چلاتا ہے ادھر ادھر چلتا ہے گویا کہ یہ اس کا بندہ ہے اور وہ اس کا خدا ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے احکام کی بے چون وچرا اطاعت اور اندھی پیروی کرنے کا نام بھی عبادت ہے اور جو شخص اس طرح کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اس کی عبادت بجا لاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

70: کفار مکہ جن من گھڑت دیویوں کو پوجتے تھے ان سب کو مؤنث سمجھتے تھے، لات، منات، عزی سب کو مؤنث سمجھاجاتا تھا، نیز فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، آیت میں اشارہ یہ ہے کہ ایک طرف توکفار مکہ عورتوں کو کمتر مخلوق سمجھتے ہیں اور دوسری طرف جن کو اپنا خدا بنارکھا ہے وہ ان کے خیال کے مطابق سب مؤنث ہیں