مشرک کی پہچان اور ان کا انجام اس سورت کے شروع میں پہلی آیت کے متعلق ہم پوری تفسیر کر چکے ہیں اور وہیں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں بھی بیان کر دی ہیں ، حضرت علی فرمایا کرتے تھے قرآن کی کوئی آیت مجھے اس آیت سے زیادہ محبوب نہیں ( ترمذی ) مشرکین سے دنیا اور آخرت کی بھلائی دور ہو جاتی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہو جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنے دونوں جہانوں کو برباد کر لیتے ہیں ، یہ مشرکین عورتوں کے پرستار ہیں ، حضرت کعب فرماتے ہیں ہر صنم کے ساتھ ایک جنبیہ عورت ہے ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں اِنَاثًا سے مراد بت ہیں ، یہ قول اور بھی مفسرین کا ہے ، ضحاک کا قول ہے کہ مشرک فرشتوں کو پوجتے تھے اور انہیں اللہ کی لڑکیاں مانتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کی عبادت ہے ہماری اصل غرض اللہ عزوجل کی نزدیکی حاصل کرنا ہے اور ان کی تصویریں عورتوں کی شکل پر بناتے تھے پھر حکم کرتے تھے اور تقلید کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ صورتیں فرشتوں کی ہیں جو اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہ تفسیر ( اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى ) 53 ۔ النجم:24 ) کے مضمون سے خوب ملتی ہے جہاں ان کے بتوں کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ خوب انصاف ہے کہ لڑکے تو تمہارے اور لڑکیاں میری؟ اور آیت میں ہے ( وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:19 ) ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات میں نسب نکالے ہیں ، ابن عباس فرماتے ہیں مراد مردے ہیں ، حسن فرماتے ہیں ہر بےروح چیز اناث ہے خواہ خشک لکڑی ہو خواہ پتھر ہو ، لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ دراصل یہ شیطانی پوجا کے پھندے میں تھے ، شیطان کو رب نے اپنی رحمت سے کر دیا اور اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا ہے ، اس نے بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ اللہ کے بندوں کو معقول تعداد میں بہکائے ، قتادہ فرماتے ہیں یعنی ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کو جنم میں اپنے ساتھ لے جائے گا ، ایک بچ رہے گا جو جنت کا مستحق ہو گا ، شیطان نے کہا ہے کہ میں انہیں حق سے بہکاؤں گا اور انہیں امید دلاتا رہوں گا یہ توبہ ترک کر بیٹھیں گے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ جائیں گے موت کو بھول بیٹھیں گے نفس پروری اور آخرت سے غافل ہو جائیں گے ، جانوروں کے کان کاٹ کر یا سوراخ دار کرکے اللہ کے سوا دوسروں کے نام کرنے کی انہیں تلقین کروں گا ، اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑنا سکھاؤں گا جیسے جانوروں کو خصی کرنا ۔ ایک حدیث میں اس سے بھی ممانعت آئی ہے ( شاید مراد اس سے نل منقطع کرنے کی غرض سے ایسا کرنا ہے ) ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چہرے پر گودنا گدوانا ، جو صحیح مسلم کی حدیث میں ممنوع ہے اور جس کے کرنے والے پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے ، ابن مسعود سے صحیح سند سے مروی ہے کہ گود نے والیوں اور گدوانے والیوں ، پیشانی کے بال نوچنے والیوں اور نچوانے والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر جو حسن و خوبصورتی کے لئے اللہ کی بناوٹ کو بگاڑتی ہیں اللہ کی لعنت ہے میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں؟ جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے پھر آپ نے ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ) 59 ۔ الحشر:7 ) پڑھی بعض اور مفسرین کرام سے مروی ہے کہ مراد اللہ کے دین کو بدل دینا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 30 ۔ الروم:30 ) یعنی اپنا چہرہ قائم رکھ کر اللہ کے یکطرفہ دین کا رخ اختیار کرنا یہ اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو اس نے پیدا کیا ہے اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں ، اس سے پچھلے ( آخری ) جملے کو اگر امر کے معنی میں لیا جائے تو یہ تفسیر ٹھیک ہو جاتی ہے یعنی اللہ کی فطرف کو نہ بدلو لوگوں کو میں نے جس فطرف پر پیدا کیا ہے اسی پر رہنے دو ، بخاری ومسلم میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ پھر اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ بےعیب ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہیں اور اسے عیب دار کر دیتے ہیں ، صحیح مسلم میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو یکسوئی والے دین پر پیدا کیا لیکن شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا پھر میں نے اپنے حلال کو ان پر حرام کر دیا ۔ شیطان کو دوست بنانے والا اپنا نقصان کرنے والا ہے جس نقصان کی کبھی تلافی نہ ہو سکے ۔ کیونکہ شیطان انہیں سبز باغ دکھاتا رہتا ہے غلط راہوں میں ان کی فلاح وبہود کا یقین دلاتا ہے دراصل وہ بڑا فریب اور صاف دھوکا ہوتا ہے ، چنانچہ شیطان قیامت کے دن صاف کہے گا اللہ کے وعدے سچے تھے اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تم پر تھا ہی نہیں میری پکار کو سنتے ہی کیوں تم مست و بےعقل بن گئے؟ اب مجھے کیوں کوستے ہو؟ اپنے آپ کو برا کہو ۔ شیطانی وعدوں کو صحیح جاننے والے اس کی دلائی ہوئی اُمیدوں کو پوری ہونے والی سمجھنے والے آخرش جہنم واصل ہو نگے جہاں سے چھٹکارا محال ہو گا ۔ ان بدبختوں کے ذکر کے بعد اب نیک لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جو دل سے میرے ماننے والے ہیں اور جسم سے میری تابعداری کرنے والے ہیں میرے احکام پر عمل کرتے ہیں میری منع کردہ چیزوں سے باز رہتے ہیں میں انہیں اپنی نعمتیں دوں گا انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کی نہریں جہاں یہ چاہیں خود بخود بہنے لگیں جن میں زوال ، کمی یا نقصان بھی نہیں ہے ، اللہ کا یہ وعدہ اصل اور بالکل سچا ہے اور یقینا ہونے والا ہے اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہو گی؟ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نہ ہی کوئی اس کے سوا مربی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے سب سے زیادہ سچی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور تمام کاموں میں سب سے برا کام دین میں نئی بات نکالنا ہے اور ہر ایسی نئی بات کا نام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ۔
[١٥٤] اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں :- ١۔ شرک ناقابل معافی جرم ہے جسے اللہ کسی صورت میں بھی معاف نہیں کرے گا۔- ٢۔ کیسے گناہوں کی معافی کی توقع ہوسکتی ہے :۔ دوسرے گناہوں کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ معاف ہوجائیں گے۔ اللہ جس کو چاہے اور جونسا گناہ چاہے معاف کردینے کا اختیار رکھتا ہے اور چاہے تو ان پر مواخذہ بھی کرسکتا ہے۔ گناہ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں یا ایک ہی گناہ میں دو قسم کے حقوق ہوتے ہیں۔ ایک اللہ کا حق، دوسرے بندوں کا حق، اللہ جسے چاہے اپنا حق معاف کر دے اور جسے چاہے نہ کرے مگر بندوں کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہے تب ہی اللہ اپنا حق بھی معاف کرے گا۔ بندوں کا حق خواہ اس دنیا میں ادا کردیا جائے یا ان سے معاف کرا لیا جائے یا اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے حقدار کو بدلہ اپنی طرف سے ادا کر دے۔ بہرحال بندوں کے حقوق کی معافی کے بعد اللہ کے حق کی معافی کی توقع ہوسکتی ہے۔- ٣۔ اور تیسری بات یہ کہ شرک ہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔ شرک کو ہی ایک دوسرے مقام پر ظلم عظیم کہا گیا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ : پچھلی آیت میں اس شخص کا ذکر ہے جو رسول کی مخالفت کرتا ہے اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرتا ہے۔ ایسا ہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنے کفر پر اصرار کرے اور دین اسلام قبول نہ کرے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے کفر پر اڑنے کو شرک قرار دیا اور صراحت قرار دیا اور صراحت فرما دی کہ اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص دین سلام قبول کرلے اللہ کی توحید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دے اس کا عملی ثبوت دے اور ایسے فعل سے بچا رہے جس سے آدمی ملت اسلام سے خارج ہوجاتا ہے پھر کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے چاہے تو ویسے ہی معاف کر دے یا سزا دے کر جنت میں داخل کر دے مگر جو شخص اسلام ہی قبول نہ کرے یا اسلام لا کر صریح ارتداد والے اعمال کا ارتکاب کرے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی نہیں کیونکہ اسے معافی دینے کا مقصد باغی اور غدار کو معافی دینا ہے جو اپنی بغاوت اور عذر پر قائم ہو۔ بغاوت کو کوئی معمولی سے معمولی بادشاہ بھی برداشت نہیں کرتا تو بادشاہوں کا بادشاہ جس کی غیرت بےپناہ ہے بغاوت کو کیسے معاف کرسکتا ہے ؟ معلوم ہوا ابدی جہنمی صرف کفار و مشرکین ہوں گے مسلمان گناہ گار ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے۔ اس سے ان لوگوں کا رد نکلتا ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب مسلم کو دائمی جہنمی کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے اسی سورة کی آیت (٤٨)- 2 اوپر سے منافقوں کا ذکر آ رہا ہے جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلوں کو پسند نہ کرتے اور جدا راستے پر چلتے تھے۔ اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشتا، تو معلوم ہوا کہ اسلام کے سوا کسی دوسرے دین ( طریقہ) کو محبوب رکھا جائے اور اس کو معمول بنایا جائے تو یہ شرک ہے، کیونکہ اسلام کے سوا جو دین بھی ہے شرک ہے، اگرچہ پرستش کا شرک نہ بھی کیا جائے۔ (موضح)
خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو (سزا دے کر بھی) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے (بلکہ سزائے ابدی میں مبتلا رکھیں گے) اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں (خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ) جس کے لئے منظور ہوگا (بلا سزا) وہ گناہ بخش دیں گے (البتہ اگر وہ مشرک مسلمان ہوجائے تو پھر مشرک ہی نہ رہا اب وہ سزائے دائمی بھی نہ رہی گی) اور (وجہ اس شرک کے نہ بخشنے کی یہ ہے کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھراتا ہے وہ (امر حق سے) بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا (وہ امر حق توحید ہی جو عقلاً بھی واجب ہے اور کار ساز کی تعظیم اس کے حقوق میں سے ہے، پس مشرک نے حضرت صانع کار ساز کی اہانت کی، اس لئے ایسی سزا کا مستحق ہوگا، بخلاف دوسرے گناہوں کے کہ وہ گمراہی تو ہے مگر توحید کے خلاف اور اس سے بعید نہیں، اس لئے قابل مغفرت قرار دیا یا اور شرک کی طرح دوسری قسم کے کفر بھی ناقابل معافی ہونے میں شریک ہیں، کیونکہ اس میں بھی انکار ہوتا ہے، صانع کی کسی بتلائی ہوئی بات کا پس وہ اس کی صفت صدق کا انکار کرتا ہے اور بعض کافر خود ذات باری تعالیٰ ہی کے منکر ہیں، بعض کسی صفت کے منکر ہیں اور بعض صفت اور ذات دونوں کے منکر ہیں اور ان میں سے جس کا بھی انکار ہو وہ توحید کا انکار اور اس سے بعد ہے، پس کفر و شرک دونوں قابل معافی نہیں ہیں، آگے مشرکین کی بیوقوفی ان کے مذہبی طریقے میں بیان کرتے ہیں کہ) یہ (مشرک) لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر (ایک تو) صرف چند زنانی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں اور (ایک) صرف شیطان کی عبادت کرتے ہیں جو کہ (خدا تعالیٰ کے) حکم سے باہر ہے (اور) جس کو (اس بےحکمی کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت (خاصہ) سے دور ڈال رکھا ہے اور جس نے (جس وقت کہ رحمت خاصہ سے دور اور ملعون ہونے لگا) یوں کہا تھا ( جس سے اس کی عداوت صاف ظاہر معلوم ہو رہی تھی) کہ میں (پوری کوشش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ) ضرر تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ اطاعت کا لوگوں اور (اس حصہ کی تفصیل یہ ہے کہ) میں ان کو (عقائد میں) گمراہ کروں گا اور میں ان کو (خیالات میں) ہوسیس دلاؤں گا (جس سے گناہ کی طرف میلان ہو اور ان کی مضرت نظر میں نہ رہے) اور میں ان کو (برے اعمال کرنے کی) تعلیم دوں گا جس سے وہ (بتوں کے نام پر) چوپاؤں کے کانوں کو تراشا وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے (اور یہ اعمال فسقیہ میں سے ہے جیسے ڈاڑھی منڈانا بدن گدوانا وغیرہ) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنا دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرے اور شیطان کی اطاعت کرے، وہ (شخص) صریح نقصان (وزیان) میں واقع ہوگا (وہ زیان جہنم میں جانا ہے) شیطان ان لوگوں سے (عقائد کے متعلق جھوٹے) وعدے کیا کرتا ہے (کہ تم بےفکر رہو نہ کہیں حساب ہے نہ کتاب ہے) اور (خیالات میں) ان کو ہوسیں دلاتا ہے (کہ اس گناہ میں ایسی لذت ہے اس حرام ذریعہ میں ایسی آمدنی ہے اور اعمال شیطانیہ کا وجود اور لغویت اور مضرت خود ظاہر ہے) اور شیطان ان سے صرف جھوٹے (فریب آمیز) وعدے کرتا ہے (کیونکہ واقع میں حساب و کتاب حق ہے اور اس کی ہوسوں کا فریب ہونا تو بہت جلدی کھل جاتا ہے) ایسے لوگوں کا (جو کہ شیطان کی راہ پر چلتے ہیں) ٹھکانا جہنم ہے (اور وہ خسران مبین یہی ہے) اور اس (جہنم) سے ہیں بچنے کی جگہ نہ پائیں گے (کہ وہاں جا کر پناہ لیں۔ )- معارف ومسائل - ربط آیات :۔- اوپر ذکر جہاد میں گو سب مخالفین اسلام داخل ہیں، لیکن بیان احوال میں اب تک یہود اور منافقین کے احوال کا بیان ہوا تھا، اور مخالفین میں ایک جماعت بلکہ اوروں سے بڑی مشرکین کی تھی، آگے کچھ ان کے عقائد کی حالت اور طریقہ مذمت اور اس کی سزا کا مذکور ہے، اور اس مقام پر یہ اس لئے اور زیادہ مناسب ہوگیا کہ اوپر جس سارق کا قضیہ ذکر کیا گیا ہے اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ وہ سارق مرتد تھا، پس اس سے اس کی دائمی سزا کا حال معلوم ہوگیا (بیان القرآن) - پہلی آیت یعنی ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشآء شروع میں سورة نساء (آیت نمبر ٨٤) میں انہی الفاظ کے ساتھ آ چکی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں خاتمہ آیت پر ومن یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیماً آیا ہے اور یہاں ومن یشرک بااللہ فقد ضل ضلاً بعیداً وجہ فرق کی ائمتہ تفسیر کی تصریحات کے مطابق یہ ہے کہ پہلی آیت کے مخاطب براہ راست یہود اہل کتاب تھے، جن کو بذریعہ تورات توحید کا حق ہونا اور شرک کا باطل ہونا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبی برحق ہونا سب کچھ معلوم تھا، اس کے باجود وہ شرک میں مبتلا ہوگئے تو گویا اپنے عمل سے انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ تورات کی یہی تعلیم ہے جو سراسر افتراء اور بہتان ہے، اس لئے اس آیت کے آخر میں فقد افتری اثما عظیما ارشاد ہوا اور دوسری آیت کے مخاطب براہ راست مشرکین مکہ تھے، جن کے پاس اس سے پہلے نہ کوئی کتاب تھی نہ پیغمبر، مگر توحید کے عقلی دلائل بالکل واضح تھے اور اپنے ہاتھوں کے گھڑے ہوئے پتھروں کو اپنا معبود بنا لینا ادنی عقل والے کے لئے بھی لغو و باطل اور گمراہی تھا، اس لئے یہاں ارشاد ہوا فقد ضل ضلاً بعیداً- شرک اور کفر کی سزا کا دائمی ہونا :۔ یہاں بعض لوگ یہ شبہ کرتے ہیں کہ سزا بقدر عمل ہونی چاہئے، مشرک اور کافر نے جو جرم کفر اور شرک کا کیا ہے، وہ محدود مدت عمر کے اندر کیا ہے تو اس کی سزا غیر محدود اور دائمی کیوں ہوئی ؟ جواب یہ ہے کہ کفر و شرک کرنے والا چونکہ اس کا جرم ہی نہیں سمجھتا بلکہ نیکی سمجھتا ہے، اس لئے اس کا عزم و قصد یہی ہوتا ہے کہ ہمیشہ اسی حال پر قائم رہے گا اور جب مرتے دم تک وہ اسی پر قائم رہا تو اپنے اختیار کی حد تک اس نے جرم دائمی کرلیا اس لئے سزا بھی دائمی ہوئی۔- ظلم کی تین قسمیں :۔ ظلم کی ایک قسم وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہرگز نہ بخشیں گے، دوسری قسم وہ ہے جس کی مغفرت ہو سکے گی اور تیسری قسم وہ ہے کہ جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ لئے بغیر نہ چھوڑیں گے۔- پہلی قسم کا ظلم شرک ہے، دوسری قسم کا ظلم حقوق اللہ میں کوتاہی ہے اور تیسری قسم کا ظلم حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے (ابن کثیر بحوالہ مسند بزار)- شرک کی حقیقت :۔- شرک کی حقیقت، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق کو عبادت یا محبت و تعظیم میں اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا ہے، قرآن کریم نے مشرکین کے اس قول کو جو وہ جہنم میں پہنچ کر کہیں گے، نقل کیا ہے :- ” یعنی قسم خدا کی ہم کھلی گمراہی میں تھے جب کہ ہم نے تم کو اللہ رب العالمین کے برابر قرار دے دیا تھا۔ “- ظاہر ہے کہ مشرکین کا بھی یہ عقیدہ تو نہ تھا کہ ہمارے گھڑے ہوئے پتھر اس جہان کے خالق اور مالک ہیں، بلکہ انہوں نے دوسری غلط فہمیوں کی بناء پر ان کو عبادت میں یا محبت و تعظیم میں اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دے رکھا تھا، یہی وہ شرک تھا جس نے ان کو جہنم میں پہنچا دیا (فتح الملہم) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات خالق، رازق، قادر مطلق، عالم الغیب والشہادة وغیرہ میں کسی مخلوق کو اللہ کے برابر سمجھنا شرک ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ٠ۭ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَگ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا ١١٦- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔
(١١٦) طعمہ کے طریقہ پر جو حالت شرک پر مرجائے گا، اس کی مغفرت نہ ہوگی اور شرک سے کم جو گناہ ہوں گے جو اس کا اہل ہوگا تو اس کی مغفرت فرما دیں گے۔
آیت ١١٦ (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ط) ۔- گویا یہ بھی کوئی فری لائسنس نہیں ہے۔ یاد رہے کہ یہ آیت اس سورة مبارکہ میں دوسری بار آرہی ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :144 اس رکوع میں اوپر کے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ اپنی جاہلیت کے طیش میں آکر یہ شخص جس راہ کی طرف گیا ہے وہ کیسی راہ ہے ، اور صالحین کے گروہ سے الگ ہو کر جن لوگوں کا ساتھ اس نے اختیار کیا ہے وہ کیسے لوگ ہیں ۔
69: یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرے اور توحید پر ایمان لے آئے۔ یہی مضمون پیچھے آیت نمبر 48 میں بھی گذر چکا ہے