Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

115۔ 1 ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رض) کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رض) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رض) کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رض) کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔ (صحیح ترمذی)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٣] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا خطاب اسی منافق سے ہے جس نے چوری کی تھی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی الٰہی کی بنا پر مذکورہ مقدمہ کا فیصلہ بےگناہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ تو اس منافق کو سخت صدمہ ہوا۔ وہ مدینہ سے نکل کر - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی مختلف صورتیں :۔ اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کے پاس مکہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر اتر آیا۔ لیکن حکم کے لحاظ سے یہ خطاب سب لوگوں کے لیے ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔ یعنی جو شخص بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے طریق زندگی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریق اختیار کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا اور جس قدر زیادہ مخالفت کرے گا اسی قدر گمراہی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کی یہ ذہنی اور عملی مخالفت اسے جہنم میں پہنچا کے چھوڑے گی۔ اب اس مخالفت یا گمراہی کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً شرکیہ عقائد و اعمال اپنا لے یا سنت کو چھوڑ کر بدعات میں جا پڑے یا سنت رسول کو حجت ہی نہ سمجھے، یا کوئی نیا نبی بھی تسلیم کرلے یا ایسے بدعی عقائد اپنے مذہب میں شامل کرے جن کا اس دور میں وجود نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ غرض مخالفت اور گمراہی کی بیشمار اقسام ہیں لہذا اس معاملہ میں مسلمان کو انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔- [١٥٣۔ الف ] اجماع صحابہ حجت ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجماع امت یا صحابہ کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا منجملہ ادلہ شرعیہ ایک قابل حجت امر ہے اور اس اجماع کی مخالفت کرنے والا اور اجماع کو تسلیم نہ کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے تاہم اس سلسلہ میں دو باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ صحابہ کرام کے اجماع کے حجت ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں لیکن مابعد کے ادوار کا حجت ہونا بذات خود مختلف فیہ مسئلہ ہے اور راجح قول یہی ہے کہ مابعد کا اجماع امت کے لیے قابل حجت نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ صحابہ کا اجماع تو ثابت کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کا زمانہ بھی محدود اور علاقہ بھی محدود تھا۔ لیکن مابعد کے ادوار میں اجماع امت کا ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے جبکہ امت اقصائے عالم میں پھیل چکی ہے اور علماء بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ دور صحابہ کے بعد جتنے مسائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان پر امت کا اجماع ہے، ان میں سے زیادہ ایسے ہیں کہ ان کو فی الواقع ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ : ” یشاقق “ ” شَقَّ “ سے باب مفاعلہ کا فعل مضارع معلوم ہے۔ ” شَقَّ “ کا معنی طرف، کنارہ ہے، یعنی جو شخص یا گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس طرح مخالفت کرے کہ آپ کے مقابلے میں آجائے، ایک طرف اللہ کے رسول ہوں دوسری طرف یہ شخص یا گروہ ہو اور حق معلوم ہوجانے کے باوجود مومنوں کے سیدھے اور صاف راستے سے ( جو ہر حال میں اتباع رسول ہے) ہٹ جائے، تو ہم بھی اسے اسی طرف پھیر دیں گے جدھر وہ پھرے گا اور اسی ٹیڑھی راہ پر جانے دیں گے جو اسے جہنم میں لے جا کر ڈال دے گی اور وہ بہت برا راستہ ہے۔ - 2 ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی کرنا در حقیقت دین اسلام ہی سے نکل جانا ہے، جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رض) ہیں جو دین اسلام کے سب سے پہلے پیرو کار اور اس کی تعلیم کا مکمل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی اور گروہ مومنین کا موجود نہ تھا، جو یہاں مراد ہو سکے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کی پیروی دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجات پانے والے گروہ کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا : ( مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ ) ” یہ وہ لوگ ہیں جو اس راستے پر چلیں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ “ [ ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی افتراق۔۔ : ٢٦٤٠ ]- اس لیے صحابہ کرام (رض) کے راستے سے ہٹنا بھی کفر اور گمراہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا ہے، یعنی پوری امت کے اجماع سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق، یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رض) کا اتفاق ہو، یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں۔ صحابہ کرام (رض) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے، یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے لیکن اجماع صحابہ کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت مسائل میں کیے گئے ہیں، لیکن ایسے اجماعی مسائل بہت کم ہیں جن میں فی الواقع امت کے تمام علماء و فقہاء میں اتفاق ہو، پھر ایسے مسائل پر سب علماء و فقہاء کے اتفاق کا پتا چلانا اور بھی مشکل ہے۔ پھر امت میں بہت سے فرقوں کے بن جانے نے یہ نتیجہ دکھایا ہے کہ ہر گروہ اپنی بات کو مضبوط بنانے کے لیے اجماع کا دعویٰ کردیتا ہے، خواہ وہ صریحاً قرآن و حدیث کے خلاف ہو، مثلاً قبروں پر عمارت بنانا، ان پر غلاف چڑھانا، چراغ جلانا، غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا، تعزیہ نکالنا، انبیاء کو انسان نہ سمجھنا، انھیں خدائی اوصاف دینا، میلاد، گیا رھویں، تیجہ، ساتواں، دسواں، چالیسواں، عرس میلے، پیر کا تصور باندھنا، اس کی ہر صحیح غلط بات ماننا، الغرض صریح شرک و بدعت کے کاموں کو اجماع کا نام دے دیا گیا ہے۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسے مسائل جن پر فی الواقع پوری امت کے علماء و فقہاء کا اجماع ہو ان کا انکار بھی صحابہ کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ” اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ “ [ ترمذی، الفتن، باب ما جاء فی - لزوم الجماعۃ : ٢١٦٧ ]- وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا : اس آیت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور سلف صالحین کے مسلک سے منہ موڑ کر دوسروں کی پیروی کرتے ہیں اور آئے دن نئی بدعات ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تقلید کی ایجاد بھی بعد کی صدیوں میں ہوئی، سلف صالحین کے دور میں اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ کتاب و سنت کی دلیل سے اس کی کوئی گنجائش نکلتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اجماع امت حجت ہے :- ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی الخ (آیت نمبر ٥١١) اس آیت میں دو چیزوں کا جرم عظیم اور دخول جہنم کا سبب ہونا بیان فرمایا ہے ایک مخالفت رسول اور یہ ظاہر ہے کہ مخالفت رسول کفر اور وبال عظیم ہے، دوسرے جس کام پر سب مسلمان متفق ہوں اس کو چھوڑ کر ان کے خلاف کوئی راستہ اختیار کرنا، اس سے معلوم ہوا کہ اجماع امت حجت ہے، یعنی جس طرح قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے اسی طرح امت کا اتفاق جس چیز پر ہوجائے اس پر بھی عمل کرنا واجب ہے اور اس کی مخالفت گناہ عظیم ہے جیسا کہ آپ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا : ید اللہ علی الجماعة من شد شدفی النار :” یعنی جماعت کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت مسلمین سے علیحدہ ہوگا وہ علیحدہ کر کے جہنم میں ڈالا جائے گا۔ “- حضرت امام شافعی سے کسی نے سوال کیا کہ کیا اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل قرآن کو معمول بنایا، ہر روز دن میں تین مرتبہ اور رات میں تین مرتبہ پورا قرآن ختم کرتے تھے بالاخر یہی مذکورہ آیت ذہن میں آئی اور اس کو علماء کے سامنے بیان کیا تو سب نے اقرار کیا کہ اجماع کی حجیت پر یہ دلیل کافی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝ ٠ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝ ١١٥ۧ- شقاق - والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ- [ الأنفال 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل :- ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً.- ( ش ق ق ) الشق - الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ( ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین الہ الھدیٰ و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ماتولی و نصلہ جھنم) اور جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہوچکی ہو تو ہم اس کو اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت ، آپ سے علیحدگی اور آپ کی دشمنی کی صورت یہ ہے کہ مخالفت کرنے والا ایک جانب ہو جو اس جانب کے ما سوا ہو جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اسی طرح یہ قول باری ہے ( ان الذین یحادون اللہ ورسولہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں) وہ اس طرح کہ مخالفت کرنے والا اس کنارے پر ہو جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والے کنارے کے علاوہ ہو اس سے اعتقاد اور دین میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی اور آپ کی مخالفت مراد ہے۔- قول باری ( من بعد ما تبین لہ الھدی) کے ذریعے ڈانٹ میں اور تیزی پیدا کی گئی ہے، متعلقہ شخص کے روپے کی قباحت کو اور واضح کیا گیا ہے اور آیت میں مذکورہ وعید کی وجہ بیان کی گئی ہے کیونکہ اس شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر دلالت کرنے والے معجزات اور آیات کے ظہر کے بعد ی معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اس وعید کے سلسلے میں اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلنے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے ساتھ مقرون ذکر کیا ہے۔ یہ بات اجماع امت کی صحت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وعید کا الحاق ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اہل ایمان کی روش کو چھوڑ کر کوئی اور روش اختیار کرلیں۔ قول باری ( نولہ ماتولی) کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے بری الذمہ ہے اور اسے اللہ تعالیٰ ان بتوں کے حوالے کر دے گا جن کی طرف وہ پھر گیا تھا اور جن کا اس نے سہارا لیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی نصرت اور معونت سے سرفراز نہیں کرے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٥) اور جو شخص توحید اور امر حق کے ظاہر ہونے کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان باتوں میں مخالفت کرے یعنی طعمہ اور مسلمانوں کے دین پر مشرکین مکہ کے دین کو ترجیح دے اور اس راستہ کو اختیار کرے، سو دنیا میں جو طریقہ اس نے اختیار کیا ہے یعنی کفر، اسی پر ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں اور آخرت میں دوزخ میں داخل کریں گے ،- شان نزول : (آیت) ” ومن یشاقق الرسول “۔ (الخ)- جب قرآن کریم کا یہ حکم نازل ہوا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہتھیار لے کر آئے اور رفاعہ (رض) کو دے دیے اور بشیر منافق مشرکوں کے ساتھ جا کر مل گیا اور سلافہ بنت سعد کے پاس جاکر اترا، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں، امام حاکم (رح) فرماتے ہیں امام مسلم کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے۔- اور ابن سعد (رح) نے طبقات میں اپنی سند کے ساتھ محمود بن لبید سے روایت نقل کی ہے کہ بشیر بن حارث نے قتادہ بن نعمان (رض) کے چچا علیتہ رفاعۃ بن زید پر زیادتی کی اور اس کے گھر میں نقب لگا کر ان کا کھانا اور دو زرہیں چرالیں، قتادہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ بتایا، آپ نے بشیر کو بلایا اور اس سے اس کی تحقیق کی، اس نے اسی گھرانے میں سے لبید بن سہل کو جو حسب و نسب والے تھے مہتم کیا، چناچہ آیات قرآنیہ بشیر کی تکذیب اور لبید (رض) کی برأت میں نازل ہوگئیں جب آیات قرآنیہ بشیر کی تکذیب میں نازل ہوئیں تو وہ مرتد ہو کر مکہ مکرمہ سے بھاگ گیا اور سلافہ بنت سعد کے پاس پڑاؤ کیا اور وہاں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی ہجو میں اشعار کہنا شروع کیے۔ (سازش کے طور پر مسلمان ہوا تھا اب ظاہری اسلام کا پردہ اتار کر اپنے اصل روپ میں سامنے آگیا جو ارتداد و کفر کا تھا وگرنہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت پایا ہوا کوئی شخص اسلام سے نہیں پھرا، یہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گستاخ تھا اس کا اسلام تھا ہی نہیں (مترجم)- تب اس کے بارے میں (آیت) ” ومن یشاقق الرسول “۔ (الخ) یہ آیت نازل ہوئی اور حضرت حسان بن ثابت (رض) نے اس کی ہجو کی یہاں تک کہ وہ وہاں سے لوٹ آیا۔ اور یہ واقعہ ماہ ربیع ٤ ھ میں پیش آیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٥ (وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی) - یعنی جو کوئی خفیہ سازشوں اور چوری چھپے کی لگائی بجھائی کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بھڑکاتا ہے کہ دیکھو جی یہ اپنے لوگوں کو نواز رہے ہیں۔ جیسا کہ غزوۂ حنین میں ہوا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ کے ان مسلمانوں کو جو فتح مکہّ کے بعد مسلمان ہوئے تھے ‘ مال غنیمت میں سے ان کی دلجوئی کے لیے (جسے قرآن میں تالیف قلوب کہا گیا ہے) ذرا زیادہ مال دے دیاتو اس پر بعض لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھ لیا ‘ جب کڑا وقت تھا ‘ مشکل وقت تھا تو اسے ہم جھیلتے رہے ‘ اب یہ اچھا وقت آیا ہے تو اپنے رشتہ دار یاد آگئے ہیں۔ ظاہر ہے مکہ والے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار تھے ‘ قریش کا قبیلہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا قبیلہ تھا۔ تو طرح طرح کی باتیں جو آج کے دور میں بھی ہوتی ہیں ویسی ہی باتیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔ یہ انسان کی فطرت ہے جو ہمیشہ ایک سی رہی ہے ‘ اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ ّ - (وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ط) (وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا ) - یہ آیت اس اعتبار سے بڑی اہم ہے کہ امام شافعی (رح) کے نزدیک اجماعِ اُمتّ کی سند اس آیت میں ہے۔ یہ بات تو بہت واضح ہے کہ اسلامی قوانین کے لیے بنیادی ماخذ قرآن ہے ‘ پھر حدیث و سنت ہے۔ اسی طرح اجتہاد کا معاملہ بھی سمجھ میں آتا ہے ‘ مگر اجماع کس چیز کا نام ہے ؟ اس کا ذکر قرآن میں کہاں ہے ؟ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے اجماع کی دلیل قرآن سے تلاش کرنے کی کوشش کی اور قرآن کو شروع سے آخر تک تین سو مرتبہ پڑھا مگر مجھے اجماع کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ پھر بالآخر تین سو ایک مرتبہ پڑھنے پر میری نظر جا کر اس آیت پر جم گئی : (وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ ) ۔ گویا اہل ایمان کا جو راستہ ہے ‘ جس پر اجماع ہوگیا ہو اہل ایمان کا ‘ وہ خود اپنی جگہ بہت بڑی سند ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اِنَّ اُمَّتِیْ لاَ تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ ) (١) میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :143 جب مذکورہ بالا مقدمہ میں وحی الہٰی کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خائن مسلمان کے خلاف اور اس بے گناہ یہودی کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا تو اس منافق پر جاہلیت کا اس قدر سخت دورہ پڑا کہ وہ مدینہ سے نکل کر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے پاس مکہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر آمادہ ہو گیا ۔ اس آیت میں اس کی اسی حرکت کی طرف اشارہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

68: اس آیت سے علمائے کرام، بالخصوص امام شافعی نے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے یعنی جس مسئلے پر پوری امت مسلمہ متفق رہی ہو وہ یقینی طور پر برحق ہوتا ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں۔