اچھے کاموں کی دعوت اور برے کاموں سے روکنے کے علاوہ تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں لوگوں کے اکثر کلام بےمعنی ہوتے ہیں سوائے ان کے جن کی باتوں کا مقصد دوسروں کی بھلائی اور لوگوں میں میل ملاپ کرانا ہو ، حضرت سفیان ثوری کی عیادت کے لئے لوگ جاتے ہیں ان میں سعید بن حسان بھی ہیں تو آپ فرماتے ہیں سعید تم نے ام صالح کی روایت سے جو حدیث بیان کی تھی آج اسے پھر سناؤ ، آپ سند بیان کرکے فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں بجز اللہ کے ذکر اور اچھے کاموں کے بتانے اور برے کاموں سے روکنے کے ، حضرت سفیان نے کہا یہی مضمون اس آیت میں ہے ، یہی مضمون آیت ( يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ) 78 ۔ النبأ:38 ) میں ہے یہی مضمون سورہ والعصر میں ہے مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لوگوں کی آپس میں محبت بڑھانے اور صلح صفائی کے لئے جو بھی بات کہے اِدھر اُدھر سے کہے یا قسم اٹھائے وہ جھوٹوں میں داخل نہیں ، حضرت ام کلثوم بنت عقبہ فرماتی ہیں میں نے آپ کو اِدھر کی بات اُدھر کہنے کی تین صورتوں میں اجازت دیتے ہوئے سنا ہے جہاد کی ترغیب میں ، لوگوں میں صلح کرانے اور میاں بیوی کو ملانے کی صورت میں یہ ہجرت کرنے والیوں اور بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاؤں؟ جو روزہ نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے لوگوں نے خواہش کی تو آپ نے فرمایا وہ آپس میں اصلاح کرانا ہے فرماتے ہیں اور آپس کا فساد نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے ( ابوداؤد وغیرہ ) بزار میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب سے فرمایا آ میں تجھے ایک تجارت بتاؤں لوگ جب لڑ جھگڑ رہے ہوں تو ان میں مصالحت کرا دے جب ایک دوسرے سے رنجیدہ ہوں تو انہیں ملا دے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی بھلی باتیں رب کی رضامندی خلوص اور نیک نیتی سے جو کرے وہ اجر عظیم پائے گا ۔ جو شخص غیر شرعی طریق پر چلے یعنی شرع ایک طرف ہو اور اس کی راہ ایک طرف ہو ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ہو اور اس کا مقصد عمل اور ہو ۔ حالانکہ اس پر حق واضح ہو چکا ہو دلیل دیکھ چکا ہو پھر بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی لگا دیتے ہیں اسے وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں جا پہنچتا ہے ۔ مومنوں کی راہ کے علاوہ راہ اختیار کرنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی کے مترادف ہے جو کبھی تو شارع علیہ السلام کی صاف بات کے خلاف اور کبھی اس چیز کے خلاف ہوتا ہے جس پر ساری امت محمدیہ متفق ہے جس میں انہیں اللہ نے بوجہ ان کی شرافت وکرامت کے محفوظ کر رکھا ہے ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں اور ہم نے بھی احادیث اصول میں ان کا بڑا حصہ بیان کر دیا ہے ، بعض علماء تو اس کے تواتر معنی کے قائل ہیں ، حضرت امام شافعی غورو فکر کے بعد اس آیت سے امت کے اتفاق کی دلیل ہونے پر استدلال کیا ہے حقیقتاً یہی موقف بہترین اور قوی تر ہے ، بعض دیگر ائمہ نے اس دلالت کو مشکل اور دور از آیت بھی بتایا ہے ، غرض ایسا کرنے والے کی رسی اللہ میاں بھی ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( آیت سنستدر جھم اور فلمازاغوا اور نذرھم ) یعنی ہم ان کی بےخبری میں آہستہ آہستہ مہلت بڑھاتے رہتے ہیں ، ان کے بہکتے ہی ہم بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں ، ہم انہیں ان کی سرکشی میں گم چھوڑ دیتے ہیں ، بالآخر ان کی جائے بازگشت جہنم بن جاتی ہے جیسے فرمان ہے ظالموں کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ قبروں سے اٹھائیں گے ، اور جیسے فرمایا ظالم آگ کو دیکھ کر جان لے گا کہ اس میں کودنا پڑے گا لیکن کوئی صورت چھٹکارے کی نہ پائے گا ۔
114۔ 1 نَجْوَیٰ (سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ 114۔ 2 یعنی صدقہ خیرات معروف (جو ہر قسم کی نیکی میں شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں مشورے، خیر پر مبنی ہیں جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ 114۔ 3 کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع ہوجائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ 114۔ 4 احادیث میں اعمال مزکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہوجائے گا، نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی رشتہ داروں دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نمازوں اور نفلی صدقات و خیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا (الا اخبرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ ؟ قالوابلیٰ (اصلاح ذات البین،۔ قال۔: وفسادذات البینھی الحالقۃ) (ابوداود کتاب الأدب۔ ترمذی، کتاب البرومسند أحمد 6 445، 444) حتیٰ کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے (لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس، فینمی خیرا اور یقول خیرا) (بخاری) وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا اچھی بات کرتا ہے۔ ،
[١٥٢] کون سے خفیہ مشورے بہتر ہیں ؟ منافق لوگ جو راتوں کو الگ بیٹھ کر مشورے کرتے ہیں۔ وہ بسا اوقات بری باتیں ہی سوچتے ہیں، جو خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ کیونکہ بھلائی کی اور صاف ستھری سچی بات کو چھپانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی البتہ کچھ امور ایسے ہیں جو چھپا کر کرنا بہتر ہوتے ہیں مثلاً کسی کو صدقہ دے تو چھپا کر دے تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو۔ یا صدقہ دینے کے متعلق الگ مشورہ کرنا بھی اچھا کام ہے۔ اسی طرح بھلائی کے کاموں اور بالخصوص لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے متعلق اگر خفیہ مشورہ بھی کیا جائے تو بھی یہ ایک نیکی کا کام ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ لوگ ان امور میں سے تو کسی بات کا مشورہ نہیں کرتے۔ وہ ایسے مشورے کرتے ہیں جن سے شر پیدا ہو اور دوسروں کو نقصان پہنچے۔ اور جو شخص مذکورہ بالا امور کے متعلق محض اللہ کی رضا کے لیے مشورہ کرے تو یہ بڑے نیکی کے کام ہیں۔- خ لوگوں میں اصلاح کے لئے اپنی طرف سے کوئی اچھی بات کہہ دینا جھوٹ :۔ نہیں چناچہ آپ نے ایک دفعہ صحابہ کرام سے فرمایا کیا میں تمہیں ایسے کام کی خبر نہ دوں جو نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا بتائیے تو آپ نے فرمایا دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا۔ کیونکہ دو آدمیوں کے درمیان فساد ڈالنا (دین کو) مونڈنے والا (برباد کرنے والا) کام ہے۔ (ترمذی، ابو اب صفۃ القیامۃ) نیز آپ نے فرمایا۔ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اگر کوئی شخص (اپنی طرف سے) کوئی اچھی بات کسی فریق کی طرف منسوب کر دے یا کوئی اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹا نہیں ہے۔ (بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس)
لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ ۔۔ : ” نَجْوَی “ کچھ لوگوں سے علیحدہ ہو کر صلاح مشورہ کو کہتے ہیں، یہ مصدر ہے اور مبالغہ کے طور پر ” عَدْلٌ“ اور ” رِضًی “ کی طرح جمع پر بھی بولا جاتا ہے۔ اور ” اِلاَّ “ کے بعد ” نَجْوَی “ محذوف ہے، یعنی ” اِلاَّ نَجْوَی مَنْ اَمْرُ بِصَدَقَۃٍ “ یعنی ان کی بہت سی سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں، سوائے اس شخص کی سر گوشی کے جو صدقے کا حکم دے۔ - ” بصدقۃ “ صدقہ اس مال کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ یہ اصل میں نفل پر بولا جاتا ہے لیکن بعض اوقات فرض پر بھی بول دیتے ہیں، جیسے : ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ ) [ التوبۃ : ٦٠ ] مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل دل کے صدق سے ادا ہو رہا ہے۔ (راغب) ” معروف “ یہ لفظ نیکی کے تمام کاموں کو شامل ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہارا اپنے بھائی کو کھلے چہرے سے ملنا بھی معروف میں سے ہے۔ “ [ ترمذی، البر والصلۃ، باب ما جاء فی طلاقۃ الوجہ ۔۔ : ١٩٧٠، عن جابر (رض) و صححہ الألبانی ]- ” اصلاح بین الناس “ کے الفاظ مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے اختلافات ختم کرنے کو شامل ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ) [ الأنفال : ١ ] ” سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ “- ام کلثوم (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : ” وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرتا ہے اور ( اس مقصد کے لیے) کوئی اچھی بات دوسرے تک پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔ “ [ بخاری، الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس : ٢٦٩٢ ] - 2 منافق لوگ جو راتوں کو الگ بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں، وہ اکثر اوقات بری باتیں ہی سوچتے ہیں، جو خیر سے خالی ہوتی ہیں، کیونکہ بھلائی کی بات اور صاف ستھری بات کو چھپانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ البتہ کچھ کام چھپا کر کرنے بہتر ہوتے ہیں، مثلاً کسی کو صدقہ دے تو چھپا کر دے، تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو یا صدقہ دینے سے متعلق الگ مشورہ بھی اچھا کام ہے۔ اسی طرح بھلائی کے کاموں اور بالخصوص لوگوں کے درمیان صلح کرانے سے متعلق اگر خفیہ مشورہ بھی کیا جائے تو یہ بھی ایک نیکی کا عمل ہے، لیکن افسوس ہے کہ یہ لوگ ان امور میں سے تو کسی بات کا مشورہ نہیں کرتے، اور ایسے مشورے کرتے ہیں جن سے شر پیدا ہو اور دوسروں کو نقصان پہنچے اور جو شخص مذکورہ بالا امور سے متعلق محض اللہ کی رضا کے لیے مشورہ کرے تو یہ بڑی نیکی کے کام ہیں۔
خلاصہ تفسیر - عام لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر (یعنی ثواب و برکت) نہیں ہوتی، ہاں مگر جو لوگ ایسے ہیں کہ (خیر) خیرات کی یا اور کسی نیک کام کام کی یا لوگوں میں باہم اصلاح کردینے کی ترغیب دیتے ہیں (اور اس تعلیم و ترغیب کی تکمیل و انتظام کے لئے خفیہ تدبیریں اور مشورے کرتے ہیں، یا خود ہی صدقہ وغیرہ کی دوسروں کو خفیہ ترغیب دیتے ہیں، کیونکہ بعض اوقات خفیہ ہی کہنا مصلحت ہوتا ہے، ان کے مشوروں میں البتہ خیر یعنی ثواب اور برکت ہے) اور جو شخص یہ کام کرے گا (یعنی ان اعمال کی ترغیب دے گا) حق تعالیٰ کی رضا جوئی کے واسطے (نہ کہ جاہ و شہرت کی غرض سے) سو ہم اس کو عنقریب اجر عظیم عطاء فرمائیں گے اور جو شخص رسول (مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ حق کام ظاہر ہوچکا تھا اور مسلمانوں کا (دینی) راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ ہو لیا (جیسا بشیر مرتد ہوگیا حالانکہ اسلام کا حق ہونا اور نیز اس خاص واقعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کا خود اس کی نظر میں حق ہونا معلوم تھا، پھر بھی اسے بدبختی نے گھیرا) تو ہم اس کو (دنیا میں) جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دیں گے اور (آخرت میں) اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے کی۔- معارف و مسائل - باہمی مشروں اور مجلسوں کے آداب :۔ - ارشاد ہے لاخیر فی کثیر من نجوہم یعنی لوگوں کے باہمی مشورے اور تدبیریں جو آخرت کی فکر اور انجام پر غور سے آزاد ہو کر محض چند روزہ دنیوی اور وقتی منافع کے لئے ہوا کرتے ہیں ان میں کوئی خیر نہیں۔- آگے ارشاد فرمایا الا من امر بصد قة او معروف او اصلاح بین الناس یعنی ان مشوروں اور سرگوشیوں میں اگر خیر کی کوئی چیز ہو سکتی ہے تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو صدقہ خیرات کی ترغیب دے، یا نیکی کا حکم کرے، یا لوگوں کے آپس میں صلح کرانے کا مشورہ دے، ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ انسان کا ہر کلام اس کے لئے مضر ہی ہے، بجز اس کے کہ کلام میں اللہ کا ذکر ہو یا امر بالمعروف یا نہی عن المنکر ہو۔ - معروف کے عنی ہیں ہر وہ کام جو شریعت میں اچھا سمجھا جائے اور جس کو اہل شرع پہچانتے ہوں اور اس کے مقابل منکر ہے، یعنی ہر وہ کام جو شریعت میں ناپسندیدہ اور اہل شرع میں اوپر اور اجنبی ہو۔ - امربالمعروف، ہر نیکی کے حکم اور ترغیب کو شامل ہے، جس میں مظلوم کی امداد کرنا، حاجتمندوں کو قرض دینا، گم شدہ کو راستہ بتادینا وغیرہ سب نیک کام داخل ہیں اور صدقہ اور اصلاح بین الناس بھی اگرچہ اس میں داخل ہے، لیکن ان کو تخصیص کے ساتھ علیحدہ اس لئے بیان کیا گیا کہ ان دونوں چیزوں کا نفع متعدی ہے اور ان سے ملت کی اجتماعی زندگی سدھرتی ہے۔- نیز یہ دونوں کام خدمت خلق کے اہم ابواب پر حاوی ہیں، ایک جلب منفعت یعنی خلق اللہ کو نفع پہنچانا، دوسرے دفع مضرت یعنی لوگوں کو تکلیف اور رنج سے بچانا، صدقہ نفع رسانی کا اہم عنوان ہے، اور اصلاح بین الناس خلق اللہ کے مضرت اور نقصان سے بچانے کا اہم عنوان ہے، اس لئے جمہور علماء تفسیر کا قول ہے کہ اس جگہ صدقہ عام ہے جس میں زکوة، صدقات واجبہ بھی داخل ہیں اور نفلی صدقات بھی اور ہر نفع جو کسی کو پہنچایا جائے۔- صلح کرانے کی فضیلت :۔- لوگوں کی باہمی رنجشیں دور کرنے اور ان کے آپس میں مصالحت و موافقت پیدا کرنے کے متعلق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نہایت اہم ہیں، آپ نے فرمایا :- ” کیا میں تم کو ایسا کام نہ بتلاؤں جس کا درجہ روزے، نماز اور صدقہ میں سب سے افضل ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور بتایئے، آپ نے فرمایا کہ وہ کام اصلاح ذات البین ہے، یعنی دو شخصوں کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہوجائے تو اس کو دور کرکے آپس میں صلح کرانا اور فساد کو ختم کرنا۔ “- نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : فساد ذات البین ھی الحالقہ “ ” یعنی لوگوں کے آپس میں جھگڑا فساد مونڈ دینے والی چیز ہے۔ “ پھر اس کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ ” یہ جھگڑا سر کو نہیں مونڈتا، بلکہ انسان کے دین کو مونڈ ڈالتا ہے۔ “- آیت کے آخر میں ایک اور اہم مضمون یہ ارشاد فرمایا کہ نیکیاں صدقہ اور امر بالمعروف اور اصلاح بین الناس اسی وقت معتبر اور مقبول ہو سکتی ہیں، جبکہ ان کو اخلاص کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے، اس میں کوئی نفسانی غرض شامل نہ ہو۔
لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ ٠ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا ١١٤- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- نجو) سرگوشي)- والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا - [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80]- ( ن ج و )- النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔- صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
قول باری ہے ( لاخیر فی کثیر من نجواھم الا من امربصد قۃ اذ معروف او اصلاح بین الناس۔ لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طورپر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلا کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو البتہ بھلی بات ہے) ۔ اہل لغت کا قول ہے کہ نجویٰ اسرار یعنی خفیہ سرگوشی کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ البتہ صدقہ و خیرات کرنے کے لیے کوئی شخص کسی کو خفیہ طور پر تلقین کرے یا نیکی کرنے کا حکم دے یا لوگوں کے درمیان معاملات کی اصلاح کے لیے خفیہ طور پر سلسلہ جذباتی کرے تو اس میں بھلائی ہوگی اور یہ خیر کی بات ہوگی۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں کی تمام صورتیں معروف میں داخل ہیں کیونکہ عقل انسانی اسے تسلیم کرتی ہے۔ عقل انسانی اس حیثیت سے حق کا اعتراف کرلیتی ہے کہ وہ نہ صرف اسے تسلیم کرتی ہے بلکہ اس کا التزام بھی کرتی ہے۔- دوسری طرف عقل انسانی باطل کو اس حیثیت سے ناپسند کرتی ہے کہ وہ نہ صرف اس سے روکتی ہے بلکہ اس سے اپنی برأت اور لاتعلقی کا بھی اظہار کرتی ہے۔ ایک اور جہت سے بھی بھلائی کے کاموں کو معرف کا نام دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل فضل اور اہل دین خیر اور بھلائی کی پوری شناخت رکھتے ہیں کیونکہ بھلائی ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے اور یہ اس سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ شر اور برائی سے واقف نہیں ہوتے جس طرح یہ بھلائی سے واقت ہوتے ہیں کیونکہ یہ برائی سے دامن کشاں ہوتے ہیں اور اس کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا اسی لیے نیکی کے کاموں کو معروف اور برائی کے کاموں کو منکر کا نام دیا گیا۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے، انہیں سہیل بن بکار نے، انہیں ابوالخلیل عبدالسلام نے عبیدہ ہجیمی سے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوجری جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ روانہ ہوگیا۔ مسجد کے دروازے پر اپنا اونٹ بٹھا کر اندر گیا تو وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے۔ آپ پر دو اونی چادریں تھیں جن میں سرخ لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ میں نے جاتے ہی ” السلام علیک یا رسول اللہ “ کہا تو آپ نے جواب میں ” وعلیک السلام “ کہا پھر میں نے عرص کیا کہ ہم اہل بادیہ یعنی صحرا نشین ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میں جفا یعنی سختی، اور طبیعت کی خشکی ہوتی ہے۔ اس لیے آپ مجھے ایسے کلمات کی تلقین فرما دیجئے جو میرے لیے فائدہ مند ہو، اس پر آپ نے تین دفعہ ” قریب ہو جائو “ فرمایا : میں قریب ہوگیا، آپ نے فرمایا : ” اپنی بات دوبارہ بیان کرو “ میں نے اپنی وہی بات دوبارہ بیان کردی، اس پر آپ نے فرمایا : ” اللہ سے ڈرتے رہو، بھلائی اور نیکی کے کسی کام کو بھی معمولی اور حقیر نہ سمجھو۔- اگرچہ اس کی یہ صورت کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو، اور یہ کہ تم اپنے ڈول کا باقی ماندہ پانی اس شخص کے برتن میں ڈال دو جو پانی کا طلبگار ہو، اگر کوی شخص تمہیں عار دلانے کے لیے تمہاری اس کمزوری کو گالی کے طور پر استعمال کرے جس سے وہ واقف ہو تو تم اس کے جواب میں اس کمزوری کو گالی کے طور پر استعمال نہ کرو۔ کیونکہ اگر تم اس کی یہ بات برداشت کرلو گے تو اس کا تمہیں اجر ملے گا اور اس کے لیے گناہ کا بوجھ بنے گا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں یعنی مویشی وغیرہ تمہیں عطا کی ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو “۔ ابوحبری کہتے ہیں :” قسم ہے اس ذات کی جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس بلا لیا میں نے اس کے بعد کبھی کسی کو گالی نہیں دی، نہ کسی بکری کو اور نہ ہی کسی اونٹ کو “۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن محمد بن مسلم الدقاق نے ، انہیں ہارون بن معروف نے ، انہیں سعید بن مسلمہ نے جعفر سے، انوہں نے اپنے والد سے ، انہوں نے دادا سے انہوں نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( اصنع المعروف الی من ھو اھلہ ۔۔۔ من لیس الھہ فان اصبت اھلہ فھوا ھلہ وان لم تصب اھلہ فانت اھلہ۔ ہر شخص کے ساتھ نیکی کرو خواہ وہ اس کا اہل ہو یا نہ ہو۔ اگر تم نے کسی ایسے شخص کے ساتھ نیکی کی جو اس کا اہل تھا تو وہ اس کا اہل ہوجائے گا اور اگر وہ اس کا اہل نہ ہو تو تم اس کے اہل ہو جائو گے۔ ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابوزکریا یا یحییٰ بن محمد الحمانی اور حسین بن اسحاق نے ، ان دونوں کو شیبان نے ، انہیں عیسیٰ بن شعیب نے، انہیں حفص بن سلیمان نے یزید بن عبدالرحمن سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابو امامہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کل معروف صدقۃ و اول اھل الجنۃ دخولاً اہل المعروف صنائع المعروف تقی مصارع السوء۔ ہر نیکی اور بھلائی صدقہ ہے اور بھلائیاں کرنے والے سب سے پہلے جنت میں جائیں گے،- بھلائی کے کام برے انجام سے انسان کو بچا لیتے ہیں۔ ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں معاذ بن المثنیٰ اور سعید بن محمد الاعرابی نے، ان دونوں کو محمد کثیر نے، انہیں سفیان ثوری نے سعید بن ابی سعید المقبری یعنی عبداللہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ ( انکم لا تسعون الناس باموالکم ولکن لیسعھم منکم بسط الوجہ وحسن الخلق تمہارے اموال میں تو لوگوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن تمہارے اندر ان کے لیے خندہ روئی اور حسن اخلاق کی تو ضرور گنجائش ہونی چاہیے) صدقہ کی کئی صورتیں ہیں، فقراء پر مال کا صدقہ کرنا جو کبھی زکوٰۃ کی شکل میں ہوسکتا ہے اور کبھی خیرات وغیرہ کی صورت میں، صدقہ کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی حیثیت اور جاہ کی بنیاد پر یا اپنی زبان کے ذریعے کسی مسلمان کی امدا دکر دی جائے۔ جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ( کل معروف صدقۃ ہر نیکی اور بھلائی صدقہ ہے) نیز آپ کا ارشاد ہے ( علی کل سلامی من بنی ادم صدقۃ انسان کے جسم کے ہر جوڑ کا ایک صدقہ ہے۔ ) نیز آپ کا ارشاد ہے کہ ” کیا تم میں سے کوئی شخص ابو ضمفم جیسا کردار ادا کرنے سے بھی قاصر ہے ؟ “ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ ابوضمضم کون تھے ؟ آپ نے فرمایا : گزشتہ زمانے کا اییک انسان تھا جس کی عادت یہ تھی کہ جب گھر سے نکلتا تو یہ دعا کرتا، اللہ میں اپنی عزت و آبرو کو اس شخص پر صدقہ کرتا ہوں، جو اسے برا بھلا کہنے پر اتر آئے۔ اس طرح ابو ضمضم نے لوگوں کی ایذا رسانی اس صورت میں برداشت کی کہ اپنی عزت و آبرو کو ان پر صدقہ کردیا۔- قول باری ( او اصلاح مبین الناس) اس قول باری کی نظیر ہے ( وان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحو بینھما اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ و جدل پر اتر آئیں تو ان کے معاملات کی اصلاح کر دو ) نیز قول باری ہے ( فان فاء ت فاصلحوا بینھما بالعدل و اقسطوا ان اللہ یحب المقسطین پھر اگر وہ رجوع کرے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف کا خیال رکھو۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ نیز فرمایا ( فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما و الصلح خیرو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں بیوی آپس میں مصالحت کرلیں، صلح بہر حال بہتر ہے) نیز فرمایا ( ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما اگر دونوں ثالث اصلاح کا ارادہ کریں گے تو اللہ بھی ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں ابوالعلاء نے ، انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے سالم سے،- انہوں نے ام الدرداء سے انہوں نے حضرت ابو الدردارضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( الا اجبرکم بافضل من درجۃ الصیام و الصلوٰۃ و الصدقۃ کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتائوں جس کا درجہ نماز، روزہ اور صدقے کے درجے سے بھی بڑھ کر ہے) لوگوں نے عرض کیا کہ ضرور بتائیے۔ اس پر آپ نے فرمایا ( اصلاح ذات المین و فسادات البینھی الحائقۃ لوگوں کے آپس کے تعلقات اور معاملات کو درست کرنا، آپس کے تعلقات اور معاملات کا بگڑنا مہلک ہوتا ہے) آیت زیر بحث میں مذکورہ افعال کی انجام دہی کو اللہ کی خوشنودی کے حصول کی خواہش اور جذبے کی شرط ک ساتھ مشروط کردیا گیا ہے تا کہ یہ وہم پیدا نہ ہو کہ جو شخص لوگوں پر اپنی سرداری قائم کرنے اور اپنا حکم چلانے کی خاطر نیکی اور بھلائی کے یہ کام سرانجام دے گا وہ بھی آیت میں کیے گئے وعدے میں شامل ہے۔
(١١٤) قوم طعمہ کی سرگوشیوں میں کوئی خیر اور برکت نہیں، البہت جو مساکین کو صدقہ و خیرات دینے یا کسی شخص کو قرض دینے یا طعمہ اور زید بن سمین کے درمیان باہم اصلاح کرنے کی ترغیب کرے تو ایسی صلاح پر مبنی سرگوشیوں کی بھی گنجایش ہے سو جو شخص محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے یہ باتیں کرے تو ہم اس کو جنت میں پورا ثواب دیں گے۔
آیت ١١٤ (لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰٹہُمْ ) - منافقین کی منفی سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ علیحدہ بیٹھ کر سرگوشیاں کرنا ‘ دوسروں کو دیکھ کر مسکرانا اور ساتھ اشارے بھی کرنا تاکہ دیکھنے والے کے دل میں خلجان پیدا ہو کہ میرے بارے میں بات ہو رہی ہے ‘ آج بھی ہماری مجلسوں میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ سارے معاملات جوں کے توں انسانی معاشرے کے اندر ویسے ہی آج بھی موجود ہیں۔ مگر اللہ کا فرمان ہے کہ اس انداز کی خفیہ سرگوشیوں کا زیادہ حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں کوئی خیر نہیں ہوتی۔- (اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلاَحٍم بَیْنَ النَّاسِ ط) ۔- خیر والی سرگوشی یہ ہوسکتی ہے کہ خاموشی سے کسی کو علیحدگی میں لے جا کر اس کو صدقہ و خیرات کی تلقین کی جائے کہ بھائی دیکھو آپ کو اللہ نے غنی کیا ہے ‘ فلاں شخص محتاج ہے ‘ میں اس کو جانتا ہوں ‘ آپ کو اس کی مدد کرنی چاہیے ‘ وغیرہ۔ پھر معروف اور بھلائی کے امور میں خفیہ صلاح مشورے اگر کیے جائیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح کسی غلط فہمی یا جھگڑے کی صورت میں فریقین میں صلح صفائی کرانے کی غرض سے بھی خفیہ مذاکرات کسی سازش کے زمرے میں نہیں آتے۔ مثلاً دو بھائی جھگڑ پڑے ہیں ‘ اب آپ ایک کی بات علیحدگی میں سنیں اور دوسرے کے پاس جا کر اس بات کو بہتر انداز میں پیش کریں کہ آپ کو مغالطہ ہوا ہے ‘ انہوں نے یہ بات یوں نہیں ‘ یوں کہی تھی۔ اس طرح کی علیحدہ علیحدہ گفتگو جو نیک نیتی سے کی جا رہی ہو ‘ یہ یقینا نیکی اور بھلائی کی بات ہے ‘ جو باعث اجر وثواب ہے۔