Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٥] شرعی احکام انسانوں کی مصالح پر مبنی ہیں :۔ ان آیات ١٣٠ تا ١٣٢ میں تین بار یہ جملہ دہرایا گیا ہے ( وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَكَفٰى باللّٰهِ وَكِيْلًا ١٣٢۔ ) 4 ۔ النسآء :132) اور تینوں دفعہ اس کا استعمال الگ الگ مقصد کے لیے ہوا ہے۔ پہلی بار سے کشائش اور وسعت مقصود ہے یعنی اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ کیونکہ آسمانوں اور زمین کی ایک ایک چیز اسی کی ملکیت ہے، اگر کسی جوڑے میں حالات کی ناسازگاری کی بنا پر جدائی ہوگئی ہے تو اللہ ان دونوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرسکتا ہے کیونکہ ہر طرح کے اسباب و وسائل پر اس کا پورا پورا کنٹرول ہے۔ دوسری بار یہ جملہ ایک دوسرے مدلول کی دلیل کے طور پر آیا ہے جو یہ ہے کہ یہ اللہ کی خاص مہربانی اور فضل ہے کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی اور خاص تمہیں بھی شریعت نازل فرما کر ان احکام پر عمل کرنے اور اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا اور شریعت کے یہ تمام احکام تمہارے ہی دینی اور دنیوی مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں تمہارا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ واجب کردیئے جاتے ہیں اور جن کاموں میں تمہارا نقصان ہوتا ہے وہ حرام کردیئے جاتے ہیں اب اگر تم ان احکام پر عمل کرو گے تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے اور اگر نہ کرو گے تو اس میں تمہیں ہی نقصان پہنچے گا۔ اللہ کا نہ تمہاری اطاعت سے کچھ سنورتا ہے اور نہ تمہاری نافرمانی سے کچھ بگڑ سکتا ہے اس لیے کہ پوری کائنات کا مالک تو وہ پہلے ہی ہے۔ لہذا وہ تمہاری فرمانبرداری یا نافرمانی سے بےنیاز ہے اور اس کے کارنامے ایسے ہیں جو خود اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا خالق مالک اور منتظم فی الواقع مستحق حمد ہے، تمہارے اس کی حمد کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا۝ ١٣٢- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٢ (وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَکَفٰی باللّٰہِ وَکِیْلاً ) ۔- اگر میاں بیوی میں واقعی نباہ نہیں ہورہا تو بیشک وہ علیحدگی اختیارکر لیں ‘ دونوں کا کارساز اللہ ہے۔ عورت بھی یہ سمجھے کہ میرا شوہر مجھ پر جو ظلم کر رہا ہے اور میرے ساتھ انصاف نہیں کر رہا ہے ‘ اس صورت میں اگر میں اس سے تعلق منقطع کرلوں گی تو اللہ کار ساز ہے ‘ وہ میرے لیے کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔ اور اسی طرح کی سوچ مرد کی بھی ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس یہ سوچ انتہائی احمقانہ اور خلاف شریعت ہے کہ ہر صورت میں عورت سے نباہ کرنا ہے ‘ چاہے اللہ سے بغاوت ہی کیوں نہ ہوجائے۔ لہٰذا ہرچیز کو اس کے مقام پر رکھنا چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

80: یہ جملہ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے، ان آیتوں میں تین بار دہرایا گیا ہے، پہلی مرتبہ اس کا مقصد میاں بیوی کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ اللہ کی رحمت کے خزانے بڑے وسیع ہیں وہ دونوں کے لئے کوئی مناسب ذریعہ پیدا کرسکتا ہے، دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی بیان کرنا مقصود ہے کہ کسی کے کفر سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہے ؛ کیونکہ ساری کائنات اس کے تابع فرمان ہے، اسے کسی کی حاجت نہیں ہے، اور تیسری جگہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کارسازی کا بیان ہے کہ اگر تم تقوی اور اطاعت کا راستہ اختیار کرو تو وہ تمہارے سارے کام بنادے گا۔