مانگو تو صرف اللہ اعلیٰ و اکبر سے مانگو اللہ تعالیٰ مطلع کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم وہی ہے فرماتا ہے جو احکام تمہیں دیئے جاتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو اس کی وحدانیت کو مانو اس کی عبادت کرو اور کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی احکام تم سے پہلے کے اہل کتاب کو بھی دئے گئے تھے اور اگر تم کفر کرو ( تو اللہ کا کیا بگاڑو گے؟ ) وہ تو زمین آسمان کا تنہا مالک ہے ، جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کفر کرنے لگو تو بھی اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور لائق ستائش ہے اور جگہ فرمایا ( فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ ) 64 ۔ التغابن:6 ) انہوں نے کفر کیا اور منہ موڑ لیا اللہ نے ان سے بےنیازی کی اور اللہ بہت ہی بےنیاز اور تعریف کیا گیا ہے ۔ اپنے تمام بندوں سے غنی اور اپنے تمام کاموں میں حمد کیا گیا ہے ۔ آسمان و زمین کی ہر چیز کا وہ مالک ہے اور ہر شخص کے تمام افعال پر وہ گواہ ہے اور ہر چیز کا وہ عالم اور شاہد ہے ۔ وہ قادر ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو تو وہ تمہیں برباد کر دے اور غیروں کو آباد کر دے ، جیسا کہ دوسری آیت میں ہے ( وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ ) 47 ۔ محمد:38 ) اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بدل کر تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے بعض سلف سے منقول ہے کہ اس آیت پر غور کرو اور سوچو کہ گنہگار بندے اللہ اکبر و اعلیٰ کے نزدیک کس قدر ذلیل اور فرومایہ ہیں؟ اور آیت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ مقتدر پر یہ کام کچھ مشکل نہیں ۔ پھر فرماتا ہے اے وہ شخص جس کا پورا قصد اور جس کی تمام تر کوشش صرف دنیا کے لئے ہے تو جان لے کہ دونوں جہاں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اللہ کے قبضے میں ہیں ، تو جب اس سے دونوں ہی طلب کرے گا تو وہ تجھے دے گا اور تجھے بےپرواہ کر دے گا اور آسودہ بنا دے گا اور جگہ فرمایا بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا دے ان کا کوئی حصہ آخرت میں نہیں اور ایسے بھی ہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی بھلائیاں دے اور آخرت میں بھی بھلائیاں عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے ہمیں نجات عطا فرما ۔ یہ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا پورا حصہ ملے گا اور جگہ ہے جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھے ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کریں گے اور آیت میں ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:18 ) جو شخص دنیا طلب ہو تو ہم جسے چاہیں جتنا چاہیں دنیا میں دے دیں امام ابن جریر نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جن منافقوں نے دنیا کی جستجو میں ایمان قبول کیا تھا انہیں دنیا چاہے مل گئی یعنی مسلمان سے مال غنیمت میں حصہ مل گیا ، لیکن آخرت میں ان کے لئے الہ العلمین کے پاس جو تیاری ہے وہ انہیں وہاں ملے گی یعنی جہنم کی آگ اور وہاں کے گوناگوں عذاب تو امام صاحب مذکور کے نزدیک یہ آیت مثل ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ ) 11 ۔ ہود:15 ) کے ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کے معنی تو بظاہر یہی ہیں لیکن پہلی آیت کو بھی اسی معنی میں لینا ذرا غور طلب امر ہے کیونکہ اس آیت کے الفاظ تو صاف بتا رہے ہیں کہ دنیا اور آخرت کی بھلائی دینا الہ العالمین کے ہاتھ ہے تو ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ہمت ایک ہی چیز کی جستجو میں خرچ نہ کر دے بلکہ دونوں چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرے جو تمہیں دنیا دیتا ہے وہی آخرت کا مالک بھی ہے اور آخرت دے سکتا ہے یہ بڑی پست ہمتی ہو گی کہ تم اپنی آنکھیں بند کر لو اور بہت دینے والے سے تھوڑا مانگو ، نہیں نہیں بلکہ تم دنیا اور آخرت کے بڑے بڑے کاموں اور بہترین مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ، اپنا نصب العین صرف دنیا کو نہ بنا لو ، عالی ہمتی اور بلند پردازی سے وسعت نظری کو کام میں لا کر عیش جاودانی کی کوشش وسعی کرو یاد رکھو دونوں جہان کا مالک وہی ہے ہر ہر نفع اسی کے ہاتھ میں ہے کوئی نہیں جسے اس کے ساتھ شراکت ہو یا اس کے کاموں میں دخل ہو سعادت و شقاوت اس نے تقسیم کی ہے خزانوں کی کنجیاں اس نے اپنی مٹھی میں رکھ لی ہیں ، وہ ہر ایک مستحق کو جانتا ہے اور جس کا وہ مستحق ہوتا ہے اسے وہی پہچانتا ہے ، بھلا تم غور تو کرو کہ تمہیں دیکھنے سننے کی طاقت دینے والے کا اپنا دیکھنا سننا کیسا ہو گا ۔
[١٧٤] اللہ کی بےنیازی :۔ اس کائنات اور اس عالم دنیا سے اللہ کی بےنیازی کا یہ عالم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے پچھلے، انسان اور جن ّسب کے سب، سب سے زیادہ متقی آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہوگا۔ اور اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان اور جن سب کے سب، سب سے فاجر آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کچھ بھی کمی واقع نہ ہوگی۔ اور اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے انسان اور جن سب کے سب ایک میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مطلوبہ چیز دے دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس میں کوئی کمی نہ آئے گی مگر اتنی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے آتی ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ۔۔ الخ)
وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ : گزشتہ آیات میں عورتوں اور یتیم بچوں سے متعلق احکام بیان کیے گئے تھے، اب جو یہ فرمایا کہ زمین و آسمان کی ہر شے اللہ کی ہے، تو اس سے لوگوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ان احکام پر عمل کرنے میں تمہارا ہی فائدہ ہے، اللہ تعالیٰ کسی کے فائدے اور نقصان سے بےنیاز ہے۔ - وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ۔۔ : یعنی تم سے پہلے لوگوں کو اور تم سب کو اس بات کا تاکیداً حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو، یعنی اس کے دیے گئے احکام پر عمل کرو۔ یہ جملہ ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ قرآن کی تمام آیات کے لیے بمنزلہ رحی (چکی) کے ہے کہ اسی کی لٹھ پر تمام آیات گھومتی ہیں۔ ابن عاشور (رض) نے فرمایا : ” قرآن مجید میں اللہ کے اسماء کے بعد سب سے زیادہ اسی کا ذکر ہوا ہے۔ “ - 3 شاہ عبدالقادر (رض) لکھتے ہیں : ” تین بار فرمایا کہ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، پہلی بار کشائش ( کھلا رزق دینے) کا بیان ہے کہ علیحدگی کی صورت میں اللہ تعالیٰ دونوں کو غنی کر دے گا، کیونکہ جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کا ہے، جسے جس طرح چاہے دیتا ہے) دوسری دفعہ اس کی بےپروائی کا بیان ہے کہ اگر تم کفر کرو، منکر بنو تو اللہ بھی بےپروا ہے، کیونکہ سبھی کچھ اس کا ہے اور تیسری بار اللہ کے کارساز ہونے کا بیان ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو وہ کافی وکیل ہے۔
ربط آیات :- عورتوں اور یتیموں کے احکام بیان کرنے کے بعد قرآنی اسلوب کے مطابق پھر ترغیب و ترہیب کا مضمون ارشاد فرمایا گیا۔- خلاصہ تفسیر - اور اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمان میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں (تو ایسے مالک کے احکام کا ماننا بہت ہی ضرری ہے) اور (بجا آوری احکام کا خطاب خاص تم ہی کو نہیں ہوا بلکہ) واقعی ہم نے ان لوگوں کو بھی حکم دیا تھا جن کو تم سے پہلے کتاب (آسمانی یعنی توراة و انجیل) ملی تھی اور تم کو بھی (حکم دیا ہے) کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر (جس کو تقوی کہتے ہیں، جس میں تمام احکام کی موافقت داخل ہے، اسی لئے اس سورة کو تقوی سے شروع کر کے اس کی تفصیل میں مختلف احکام لائے ہیں) اور (یہ بھی ان کو اور تم کو سنایا گیا) کہ اگر تم ناشکری کرو گے (یعنی احکام الٓہیہ کی مخالفت کرو گے) تو (خدا تعالیٰ کا کوئی ضرر نہیں ہاں تمہارا ہی ضرر ہے، کیونکہ) اللہ تعالیٰ کی (تو) ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں (ایسے بڑے سلطان کا کیا ضرر ہوگا، البتہ ایسے بڑے سلطان کی مخالفت بلاشک مضر ہے) اور اللہ تعالیٰ کسی (کی اطاعت) کے حاجت مند نہیں (اور) خود اپنی ذات میں محمود (کامل الصفات) ہیں (پس کسی کی مخالفت سے ان کی صفات میں کوئی نقص لازم نہیں آتا) اور اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمان میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں اور (جب وہ ایسے قادر و مختار ہیں تو اپنے اطاعت گذار بندوں کے لئے وہ) اللہ تعالیٰ کافی کار ساز ہیں (پس ان کی کار سازی کے ہوتے ان کے فرمانبرداروں کو کون ضرر پہنچا سکتا ہے، پس کسی سے ڈرنا نہ چاہئے اور اللہ تعالیٰ جو تم کو دین کے کام بتلا رہے ہیں تو تمہاری ہی سعادت کے لئے ورنہ وہ دوسروں سے بھی کام لے سکتے ہیں کیونکہ ان کی ایسی قدرت ہے کہ) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اے لوگوں تم سب کو فنا کردیتا اور دوسروں کو موجود کردیتا (اور ان سے کام لے لیتا، جیسا دوسری آیت میں ہے ان تتولو ایستبدل الخ (٧٤: ٨٣) اور اللہ اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں (پھر ایسا جو نہیں کیا تو ان کی عنایت ہے، اطاعت حکم کو غنیمت سمجھ کر سعادت حاصل کرو اور دیکھو دین کے کام کا اصلی ثمرہ آخرت میں ہے دنیا میں نہ لینے سے بد دل نہ ہونا بلکہ) جو شخص (دین کے کام میں) دنیا کا معاوضہ چاہتا ہو تو (وہ بڑی غلطی میں ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ کے پاس (یعنی ان کی قدرت میں) تو دنیا اور آخرت دونوں کا معاوضہ (موجود) ہے جب ادنی اعلی دونوں پر ان کی قدرت ہے، تو اعلی ہی چیز کیوں نہ مانگی جائے) اور اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے دیکھنے والے ہیں (سب کے اقوال اور درخواستوں کو دنیا کی ہوں یا دین کی سنتے ہیں اور سب کی نیتوں کو دیکھتے ہیں، پس طالبان آخرت کو ثواب دیں گے اور طالبان دنیا کو آخرت میں محروم رکھیں گے، پس آخرت ہی کی نیت اور درخواست کرنا چاہئے، البتہ دنیا کی حاجت مستقل طور پر مانگنا مضائقہ نہیں، لیکن عبادت میں یہ قصد نہ کرے۔- معارف و مسائل - فوائد مہمہ :۔ - للہ مافی السموت وما فی الارض، ” یعنی اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات “ اس جگہ ان الفاظ کو تین مرتبہ دہرایا گیا، اول سے کشائش اور وسعت مقصود ہے کہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں، دوسرے سے بےنیازی اور بےپروائی کا بیان مقصود ہے کہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں، دوسرے سے بےنیازی اور بےپروائی کا بیان مقصود ہے اس کو کسی کی پرواہ نہیں اگر تم منکر ہو، تیسری دفعہ میں رحمت اور کارسازی کا اظہار ہے کہ اگر تقوی اور اطاعت اختیار کرو تو وہ تمہارے سب کام بنا دے گا۔
وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ٠ۭ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَاِيَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللہَ ٠ۭ وَاِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ غَنِيًّا حَمِيْدًا ١٣١- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى - ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ - إِيَّا - لفظ موضوع ليتوصل به إلى ضمیر المنصوب إذا انقطع عمّا يتصل به، وذلک يستعمل إذا تقدّم الضمیر، نحو : إِيَّاكَ نَعْبُدُ [ الفاتحة 4] أو فصل بينهما بمعطوف عليه أو بإلا، نحو : نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ [ الإسراء 31] ، ونحو : وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ایا)- یہ کلمہ ضمیر منصوب منفصل کے تلفظ کے لئے وضع کیا گیا ہے جب ضمیر ( منصوب ) اپنے عامل پر ) مقدم ہو یا اس پر کسی کلمہ کا عطف ڈالا جائے اور یا الا کے بعد آئے تو اس ( ایا) کے ساتھ استعمال ہوتی ہے جیسے ( تقدیم ) کی صو رت میں فرمایا ) إِيَّاكَ نَعْبُدُ ( سورة الفاتحة 5) اور عطف کی صورت میں ) فرمایا نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ [ الإسراء 31] ان کو اور تم کو ہی ہی رزق دیتے ہیں وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تیرے پروردگار نے قطعی طور اشارہ فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ می۔ 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔
(١٣١۔ ١٣٢) تمام آسمانوں اور زمینوں کے خزانے اور ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہے۔- اور ہم نے اہل توریت کو توریت میں اور اہل انجیل کو انجیل میں اور ہر ایک کتاب والے کو اس کی کتاب میں اور امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی کتاب میں اطاعت خداوندی کا حکم دیا تھا اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرو تو تمام فرشتے اور جن و انس سب اسکی غلامی میں داخل ہیں، اور وہ تمہارے ایمان سے بےنیاز ہے وہ تمہارا محتاج نہیں لیکن اس کی بندہ نوازی ہے کہ ہو تمہاری معمولی سی نیکی قبول کرتا ہے اور بہت زیادہ ثواب دیتا ہے۔
آیت ١٣١ (وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط) (وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَاِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ط) - احکام شریعت کی تعمیل کے سلسلے میں اصل جذبۂ محرکہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے بغیر شریعت بھی مذاق بن جائے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک خطبہ کے یہ الفاظ بہت مشہور ہیں اور خطبات جمعہ میں بھی اکثر انہیں شامل کیا جاتا ہے : (اُوْصِیْکُمْ وَنَفْسِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ ) (١) مسلمانو میں تمہیں بھی اور اپنے نفس کو بھی اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیّت کرتا ہوں۔ قرآن حکیم میں جابجا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سورة التحریم میں ارشاد ہے : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا) (آیت : ٦) اے ایمان والو ‘ بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے۔ یہاں بھی تقویٰ کا حکم انتہائی تاکید کے ساتھ دیا جا رہا ہے۔