Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

130۔ 1 یہ تیسری صورت ہے کہ کوشش کے باوجود اگر نباہ کی صورت نہ بنے پھر طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔ ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت ناپسند کیا گیا ہے، طلاق حلال تو ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے " اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے اس لئے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ مزکورہ حدیث میں صحت اسناد کے اعتبار سے اگرچہ ضعف ہے تاہم قرآن وسنت کی نصوص سے یہ واضح ہے کہ یہ حق اسی وقت استعمال کرنا چاہیے جب نباہ کی کوئی صورت کسی طرح بھی نہ بن سکے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٣] اور اگر ان میں نباہ اور حسن معاشرت کی کوئی صورت نظر نہ آرہی ہو تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور جہنم زار بنا رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ خواہ مرد طلاق دے دے یا عورت خلع لے لے۔ پھر دونوں کا اللہ مالک ہے وہ ان کے لیے بہت سامان پیدا فرما دے گا۔ اور یہ بات کئی بار تجربہ میں آچکی ہے کہ جن دو میاں بیوی کا آپس میں نباہ ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نالاں اور ایک دوسرے پر الزام دھرتے تھے جب دونوں الگ ہوگئے تو ان دونوں کو اللہ نے اپنے اپنے گھروں میں سکھ چین سے آباد کردیا اور پھر زندگی بھر ان نئے جوڑوں میں موافقت و موانست کی فضا برقرار رہی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات میاں اور بیوی دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں دوسرے کے متعلق ایسی بدظنیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر سیدھی بات سے بھی غلط نتیجہ ہی اخذ کرتے ہیں۔ پھر جب انہیں نیا ماحول میسر آجاتا ہے جس میں ذہن ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوتے ہیں تو ایسی کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی اور ان دونوں کی خوش باش زندگی کا نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ ۭ : یہ دوسری صورت ہے کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت باقی ہی نہیں رہی تو اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ مرد کو دوسری بیوی مل جائے گی، جو اسے پسند ہو اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا جو اس سے محبت کرے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔ (قرطبی) اس سے اسلام کے احکام کی حکمت، وسعت اور رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعض مذاہب میں طلاق کو حرام قرار دیا گیا ہے، ایک دفعہ جب نکاح ہوگیا اب وہ خواہ ایک دوسرے سے کتنے متنفر ہوجائیں، خواہ ان کی زندگی جہنم کا نمونہ بن جائے، طلاق نہیں دے سکتے۔ نہیں ہرگز نہیں، جب تعلق روگ بن جائے تو اس کا ٹوٹنا ہی اچھا ہے۔ اسلام نے دونوں کے لیے علیحدگی کا راستہ رکھا ہے، جس کے ذریعے سے وہ نئی زندگی شروع کر کے امن و اطمینان سے زندگی بسر کرسکتے ہیں، رہی وہ حدیث جس میں ہے : ( اَبْغَضُ الْحَلاَلِ عِنْدَ اللّٰہِ الطَّلاَقُ ) ( اللہ کے نزدیک حلال میں سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے) تو یہ حدیث صحیح سند سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [ دیکھیے إرواء الغلیل : ٧؍١٠٦، ح : ٢٠٤٠ ]- وَكَان اللّٰهُ وَاسِعًا حَكِيْمًا : یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کسی کا رزق میرے ہاتھ میں ہے، اگر میں نہ دوں گا تو وہ بھوکا مرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ رازق مطلق ہے اور اس کے انتظامات انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں، اس نے جس طرح ملاپ میں حکمت رکھی ہے، جدائی میں بھی رکھی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللہُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِہٖ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ وَاسِعًا حَكِيْمًا۝ ١٣٠- تفریق - والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ،- ( ف ر ق ) الفرق - التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - وُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔- حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٠) اور اگر دونوں میاں بیوی طلاق وغیرہ کی بنا پر علیحدہ ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ خاوند کو دوسری بیوی دے کر اور بیوی کو دوسرا خاوند عطا کر کے غنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ نے دنوں کے لیے عدل و انصاف والا راستہ نکال دیا ہے، اسعد بن ربیع (رض) کی ایک بیوی جوان تھیں وہ ان کی طرف زیادہ مائل تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع فرمایا اور جوان اور بوڑھی کے درمیان برابری کرنے کا حکم دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٠ (وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّنْ سَعَتِہٖ ط) ۔- ہو سکتا ہے کہ اس عورت کو بھی کوئی بہتر رشتہ مل جائے جو اس کے ساتھ مزاجی موافقت رکھنے والاہو اور اس شوہر کو بھی اللہ تعالیٰ کوئی بہتر بیوی دے دے۔ میاں بیوی کا ہر وقت لڑتے رہنا ‘ دنگا فساد کرنا اور عدم موافقت کے باوجود طلاق کا اختیار ( ) استعمال نہ کرنا ‘ یہ سوچ ہمارے ہاں ہندو معاشرت اور عیسائیت کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہندومت کی طرح عیسائیت میں بھی طلاق حرام ہے۔ در اصل انجیل میں تو شریعت اور قانون ہے ہی نہیں ‘ صرف اخلاقی تعلیمات ہیں۔ چناچہ جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ ) ایسی ہی کوئی بات حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بھی فرمائی تھی کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے کہ معاشرے میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ طلاق شدہ عورت کی دوسری شادی نہ ہونے کی صورت میں اس کے آوارہ ہوجانے کا امکان ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کا وبال اسے بلاوجہ طلاق دینے والے کے سر جائے گا۔ لیکن یہ محض اخلاقی تعلیم تھی ‘ کوئی قانونی شق نہیں تھی۔ عیسائیت کا قانون تو وہی ہے جو تورات کے اندر ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) فرما گئے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ میں قانون کو ختم کرنے آیا ہوں ‘ بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت تم پر بد ستور نافذ رہے گی۔ قانون بہر حال قانون ہے ‘ اخلاقی ہدایات کو قانون کا درجہ تو نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن عیسائیت میں اس طرح کی اخلاقی تعلیمات کو قانون بنا دیا گیا ‘ جس کی وجہ سے بلا جواز پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ چناچہ ان کے ہاں کوئی شخص اپنی بیوی کو اس وقت تک طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بدکاری کا جرم ثابت نہ کرے۔ لہٰذا وہ طلاق دینے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کر کے بیوی کو پہلے بدکردار بناتے ہیں ‘ پھر اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ‘ تب جا کر اس سے جان چھڑاتے ہیں۔ تو شریعت کے درست اور آسان راستے اگر چھوڑ دیے جائیں تو پھر اسی طرح غلط اور مشکل راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں عدم موافقت کی صورت میں طلاق کے بارے میں ایک طرح کی ترغیب نظر آتی ہے۔- (وَکَان اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا ) - اللہ کے خزانے بڑے وسیع ہیں اور اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

79: مصالحت کی تمام کوششوں کے باوجود ایک مرحلہ ایسا آسکتا ہے کہ اس کے بعد نکاح کا رشتہ میاں بیوی پر تھوپے رکھنا دونوں کی زندگی کو اجیرن بناسکتا ہے، ایسی صورت میں طلاق اور علیحدگی کا راستہ اختیار کرنا بھی جائز ہے، اور یہ آیت اطمینان دلارہی ہے کہ جب خوش اسلوبی سے جدائی عمل میں آجائے تو اللہ تعالیٰ دونوں کے لئے ایسے راستے پیدا کردیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔