Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

129۔ 1 یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرسکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنی بیویوں میں سے زیادہ محبت حضرت عائشہ سے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عند اللہ قابل مؤاخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بناکر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے " جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کئے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہوگا۔ (ترمذی، کتاب النکاح)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧١] کسی ایک بیوی کی طرف میلان طبع کی وجوہ :۔ وہ اس لیے کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے، دوسری بوڑھی ہے، ایک خوبصورت ہے دوسری قبول صورت یا بدصورت ہے، ایک کنواری ہے دوسری شوہر دیدہ ہے، ایک خوش مزاج ہے دوسری تلخ مزاج ہے ایک ذہین و فطین ہے تو دوسری غبی اور کند ذہن ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ایسی صفات ہیں جن میں اگرچہ عورت کا اپنا کچھ عمل دخل نہیں تاہم یہ خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان طبع کا باعث ضرور بن جاتی ہیں اور یہ فطری امر ہے۔ اس قسم کے میلان و عدم میلان پر انسان کا چونکہ اپنا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا لہذا ایسے امور پر اللہ کی طرف سے گرفت اور مواخذہ نہیں۔ مواخذہ تو صرف ان باتوں پر ہوگا جو انسان کے اپنے اختیار میں ہوں مثلاً نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھنا عورتوں کی باری مقرر کرنا وغیرہ۔ اب جو باتیں انسان کے بس میں نہیں ان کے متعلق ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کما حقہ عدل نہ کرسکو گے۔- [١٧٢] بیویوں کے درمیان عدل کی حقیقت :۔ یعنی جن باتوں میں انسان انصاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے ان کا ضرور لحاظ رکھا کرو۔ اس سے خودبخود ہی یہ نتیجہ پیدا ہوجائے گا کہ نہ تو تم ایک ہی بیوی کی طرف پوری طرح جھکو گے اور نہ کسی دوسری سے بالکل بےتعلق رہ سکو گے۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ آپ نے فرمایا جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف میلان رکھے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔ (دارمی، کتاب النکاح، باب فی العدل بین النسائ)- ٢۔ سیدہ سودہ بنت زمعہ نے اپنا باری کا دن (اور ایک روایت میں ہے کہ دن اور رات) سیدہ عائشہ (رض) کو ہبہ کردیا تھا۔ اس طرح آپ سیدہ عائشہ (رض) کے ہاں دو دن رہا کرتے، ایک ان کا اپنا باری کا دن اور ایک سودہ کا دن۔ (بخاری، کتاب النکاح باب المراۃ تھب یومھا من زوجہا لضرتھا و کیف یقسم ذلک)- ٣۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ کا یہ دستور تھا کہ عصر کے بعد آپ اپنی تمام بیویوں کے ہاں جایا کرتے تھے (بخاری، کتاب النکاح، باب دخول الرجل علی نسائہٖ فی الیوم) - ٤۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ جب (مرض الموت میں) بیمار ہوئے اور بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ نے باقی بیویوں سے اجازت لی کہ آپ کی تیمار داری میرے گھر میں کی جائے تو تمام بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامرأتِہٖ والمراۃ لزوجھا)- ٥۔ نظریہ زوجگی کا رد :۔ سیدنا انس (رض) فرماتے ہیں، یہ سنت ہے کہ جب کسی کنواری سے نکاح کرے تو اس کے ہاں سات دن رہے پھر باری مقرر کرے۔ اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے ہاں تین دن رہے پھر باری مقرر کرے (بخاری کتاب النکاح، باب اذاتزوج البکر علی الثیب و باب اذاتزوج الثیب علی البکر) بعض مسلمان جو تہذیب مغرب سے مرعوب ہیں اور یک زوجگی کے قائل ہیں، یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام ایک طرف تو تعدد ازواج کی اجازت دیتا ہے لیکن دوسری طرف عدل کو ناممکن قرار دے کر عملاً اس اجازت کو منسوخ کردیتا ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل کو ناممکن صرف ان امور میں کہا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہیں اور ان پر مواخذہ بھی نہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ اور دوسرا جواب اسی آیت کے اندر موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ لہٰذا ایک ہی بیوی کی طرف نہ جھک جاؤ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی اللہ نے اجازت دے رکھی ہے۔ اس طرح ان کے شبہ یا اعتراض کی مکمل تردید ہوجاتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا ۔۔ : یعنی دو یا دو سے زیادہ بیویوں کے درمیان ہر لحاظ سے پوری پوری مساوات برتنا انسانی طاقت سے باہر ہے، کیونکہ عورتوں میں اپنی طبیعتوں، اخلاق و عادات، حسن صورت اور عمر وغیرہ میں ایک دوسری سے فرق ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مرد کا میلان ایک کی طرف زیادہ اور دوسری کی طرف کم ہو تو یہ ایک فطری امر ہے، جس پر وہ چاہے بھی تو قابو نہیں پاسکتا۔ لہٰذا قرآن نے اس بات پر زور دیا کہ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں ایک کی طرف اس طرح جھک جانا کہ دوسری معلق (لٹکی ہوئی) ہو کر رہ جائے، گویا اس کا کوئی شوہر ہی نہیں اور نہ وہ غیر شادی شدہ ہے کہ کہیں اور نکاح کرلے، تو یہ حرام ہے، ظاہری حقوق میں عورتوں سے مساوی سلوک کیا جائے، دل کے میلان پر گرفت نہیں ہے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : ” یا اللہ یہ میری بیویوں کے درمیان اس چیز کی تقسیم ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں ( یعنی کھانا پینا، کپڑا، سونا بیٹھنا وغیرہ) لہٰذا تو مجھے اس چیز پر ملامت نہ فرما جس کا میں اختیار نہیں رکھتا ( یعنی دلی میلان اور محبت) ۔ “ [ أبو داوٗد، النکاح، باب فی القسم بین النساء : ٢١٣٤۔ ترمذی : ١١٤٠ ]- 2 بعض لوگوں نے اس آیت اور اس سورت کی آیت (٣) دونوں کو ملا کر نتیجہ نکالا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل ممکن ہی نہیں۔ دوسرا حکم ہے کہ اگر عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو بس ایک بیوی یا لونڈی رکھو۔ معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح جائز نہیں۔ اس کے جواب کے لیے سورة نساء کی آیت (٣) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ بلکہ زیر تفسیر آیت میں تو عورتوں کے درمیان عدل میں اتنی رعایت دی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے منع نہ کیا ہوتا تو آدمی چار سے زیادہ بیویاں بھی رکھ سکتا تھا، بشرطیکہ کوئی عورت ایسی لٹکی ہوئی نہ ہوتی کہ خاوند اس کے پاس چکر ہی نہ لگاتا، نہ اس کے کھانے پینے کی فکر کرتا۔ اگر آدمی اصلاح کرے اور ڈرے تو جو کمی بیشی ہے وہ اللہ معاف کر دے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

امور غیر اختیاریہ پر مواخذہ نہیں :- ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور پائیدار بنانے کے لئے قرآن عظیم نے مذکورہ آیات میں جو ہدایتیں فریقین کو دی ہیں ان آیات میں ایک آیت یہ ہے : ولن تستطعیوا ان تعدلو ابین النسآء جس میں فریقین کو ایک خاص ہدایت فرمائی وہ یہ کہ ایک مرد کے نکاح میں ایک سے زائد عورتیں ہوں تو قرآن کریم نے سورة نساء کے شروع میں اس کو یہ ہدایت دی کہ سب بیویوں میں عدل و مساوات قائم رکھنا اس کے ذمہ فرض ہے اور جو خیال کرے کہ اس فرض کو میں ادا نہ کرسکوں گا تو اس کو چاہئے کہ ایک سے زائد بیبیاں نہ کرے، ارشاد ہے فان خفتم الا تعدلوا افواحدة ” یعنی اگر تم کو یہ خطرہ ہو کہ دو بییوں میں مساوات نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو۔ “- اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے بیویوں میں عدل اور برابری کو نہایت تاکیدی حکم قرار دیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت و عید سنائی ہے، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج مطہرات میں برابری اور عدل کا پورا اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ساتھ ہی بارگاہ جل شانہ میں عرض کیا کرتے تھے :- ” یعنی اے اللہ : یہ میری منصفانہ تقسیم اور مساوات اس چیز میں ہے جو میرے اختیار میں ہے اس لئے جو چیز آپ کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں، یعنی قلبی میلان اور رجحان اس میں مجھ سے مواخذہ نہ فرمایئے۔ “- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ اپنے آپ پر قابو رکھنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ مگر قلبی میلان کو آپ نے بھی اپنے اختیار سے باہر قرار دیا اور اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عذر پیش کیا۔- سورة نساء کی شروع کی آیت کے ظاہری الفاظ سے بیویوں میں مطلقاً مساوات و برابری کا فرض ہونا معلوم ہوتا تھا، جس میں قلبی میلان میں بھی مساوات کرنا داخل ہے اور یہ معاملہ انسان کے اختیار میں نہیں، اس لئے سورة نساء کی اس آیت میں حقیقت حال کی وضاحت فرما دی کہ جن چیزوں پر تمہیں قدرت نہیں ہے ان میں مساوات فرض نہیں ہے، البتہ برابری اختیاری معاملات میں ہوگی، مثلاً شب باشی، طرز معاشرت اور نفقہ وغیرہ، اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اس عنوان سے بیان فرمایا، جس سے ایک شریف انسان عمل کرنے پر مجبور ہوجائے، فرمایا :- ولن تستطیعوا ان تعدلو ا بین النسآء ولو حرصتم فلاتمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقة ” یعنی تمہیں معلوم ہے کہ تم سب بیویوں میں اگر کوشش بھی کرو تو قلبی میلان کے بارے میں مساوات نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تمہارے اختیار میں نہیں، تو پھر ایسا نہ کرو کہ پورے ہی ایک طرف ڈھل جاء یعنی قلبی میلان تو اس طرف تھا ہی اور اختیاری معاملات میں بھی اسی کو ترجیح دینے لگو، جس کا نتیجہ یہ ہوجائے کہ دوسری عورت لٹکی ہی رہ جائے۔ یعنی شوہر اس کے حقوق بھی اد نہ کرے اور اس کو آزاد بھی نہ کرے۔- معلوم ہوا کہ اس آیت میں عدل پر کسی کی قدرت نہ ہونے کا جو ذکر ہے وہ قلبی میلان کی برابری ہے جو انسان کے اختیار میں نہیں اور اس آیت کے الفاظ فلا تمیلوا کل المیل میں خود اس مفہوم کا قرینہ موجود ہے، کیونکہ معنی ان الفاظ کے یہ ہیں کہ اگرچہ قلبی میلان میں برابری تمہاری قدرت میں نہیں، مگر بالکل ایک ہی طرف کے نہ ہو رہو، کہ اختیاری معاملات میں بھی اس کو ترجیح دینے لگو۔ - اس طرح یہاں یہ سورة نساء کی پہلی آیت کی تشریح ہوگئی کہ اس کے ظاہری الفاظ سے قلبی میلان میں بھی مساوات کا فرض ہونا معلوم ہو رہا تھا، اس آیت نے کھول دیا کہ یہ بوجہ غیر اختیاری ہونے کے فرض نہیں، بلکہ فرض امور اختیاریہ میں مساوات ہے۔- اس آیت سے تعدد ازدواج کے خلاف استدلال قطعاً غلط ہے :۔ مذکورہ تفصیل سے ان لوگوں کی غلط فہمی بھی واضح ہوگئی، جو ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ شروع سورة نساء کی آیت نے یہ حکم دیا کہ اگر چند بیویوں میں مساوات نہ کرسکو، تو پھر ایک ہی نکاح پر قناعت کرو، دوسرا نکاح نہ کرو، اور اس دوسری آیت نے یہ بتلا دیا کہ دو بییوں میں مساوات ممکن ہی نہیں، اس لئے نتیجہ یہ نکل آیا کہ دو بیویوں کو نکاح میں رکھنا ہی جائز نہیں اور عجب بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے خود ان دونوں آیتوں کے اندر اس غلط فہمی کے ازالہ کا سامان رکھ دیا ہے، دوسری آیت کا قرینہ ابھی گذر چکا ہے، کہ فلاتمیلوا کل المیل کے الفاظ ہیں، اور پہلی آیت میں یہ فرمایا فان خفتم الاتعدلوا فواحدة اس میں بطور شرط کے یہ فرمانا کہ اگر تمہیں خطرہ ہو۔ “ یہ لفظ کھلا ہوا قرینہ اس کا ہے کہ دو بیویوں میں عدل و برابری ناممکن با اختیار سے خارج نہیں ورنہ اس طویل عبارت کی اور پھر وہ بھی دو آیتوں میں کوئی ضرورت ہی نہ تھی، جیسے حرمت علیکم امھتکم وبنتکم والی آیت میں ان عورتوں کی تفصیل دی جن سے نکاح حرام ہے اور وان تجمعوابین الاختین فرما کردو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت بتلائی گئی ہے، اسی طرح یہ بھی فرما دیا جاتا کہ ایک وقت میں ایک سے زائد بیویاں رکھنا حرام ہے اور پھر ان تجمعوا کے ساتھ بین الاختین کی قید فضول ہوجاتی، اسی ایک ہی جملہ میں یوں فرما دیا جاتا و ان تجمعوا بین امراتین یعنی مطلقاً دو عورتوں کو نکاح میں جمع رکھنا حرام ہے، مگر قرآن کریم نے اس مختصر کلام کو چھوڑ کر نہ صرف ایک طویل عبارت اختیار کی، بلکہ دو آیتوں میں اس کی تفصیل بیان فرمائی، اس یہ بھی معلوم ہوا کہ آیت وان تجمعوا بین الاختین بھی ایک حیثیت سے اس کا جواز بتلا رہی ہے، کہ ایک سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع رکھنا تو جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ دونوں آپس میں بہنیں نہ ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَۃِ۝ ٠ۭ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ١٢٩- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - حرص - الحِرْص : فرط الشّره، وفرط الإرادة . قال عزّ وجلّ : إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ- [ النحل 37] ، أي : إن تفرط إرادتک في هدایتهم، وقال تعالی: وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] ،- ( ح ر ص ) الحرص - شدت آزیا شرط ارادہ ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ [ النحل 37] یعنی ان کی ہدایت کے لئے تمہارے دل میں شدید آزر اور خواہش ہو وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] بلکہ ان کو تم اور لوگوں سے زندگی پر کہیں زیادہ حریص دیکھو گے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- علق - العَلَقُ : التّشبّث بالشّيء، يقال : عَلِقَ الصّيد في الحبالة، وأَعْلَقَ الصّائد : إذا علق الصّيد في حبالته، والمِعْلَقُ والمِعْلَاقُ : ما يُعَلَّقُ به، وعِلَاقَةُ السّوط کذلک، وعَلَقُ القربة كذلك، وعَلَقُ البکرة : آلاتها التي تَتَعَلَّقُ بها، ومنه : العُلْقَةُ لما يتمسّك به، وعَلِقَ دم فلان بزید : إذا کان زيد قاتله، والعَلَقُ : دود يتعلّق بالحلق، والعَلَقُ : الدّم الجامد ومنه : العَلَقَةُ التي يكون منها الولد . قال تعالی: خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق 2] ، وقال : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله :- فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً «1» والعِلْقُ : الشّيء النّفيس الذي يتعلّق به صاحبه فلا يفرج عنه، والعَلِيقُ : ما عُلِّقَ علی الدّابّة من القضیم، والعَلِيقَةُ : مرکوب يبعثها الإنسان مع غيره فيغلق أمره . قال الشاعر : أرسلها علیقة وقد علم ... أنّ العلیقات يلاقین الرّقم - «2» والعَلُوقُ : النّاقة التي ترأم ولدها فتعلق به، وقیل للمنيّة : عَلُوقٌ ، والعَلْقَى: شجر يتعلّق به، وعَلِقَتِ المرأة : حبلت، ورجل مِعْلَاقٌ: يتعلق بخصمه .- ( ع ل ق ) العلق کے معنی کسی چیز میں پھنس جانیکے ہیں کہا جاتا ہے علق الصید فی الحبالتہ شکار جال میں پھنس گیا اور جب کسی کے جال میں شکار پھنس جائے تو کہا جاتا ہے اعلق الصائد ۔ المعلق والمعلاق ہر وہ چیز جس کے ساتھ کسی چیز کا لٹکا یا جائے اسی طرح علاقتہ السوط وعلق القریتہ اس رسی یا تسمیہ کو کہتے ہیں جس سے کوڑے کا یا مشک کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ۔ علق الکبرۃ وہ لکڑی وغیرہ جس پر کنوئیں کی چرخی لگی رہتی ہے ۔ اسی سے العلقتہ ہر اس چیز کہا کہا جاتا ہے جسے سہارا کے لئے پکڑا جاتا ہے ۔ علق دم فلان بزید فلاں کا خون زید کے ساتھ چمٹ گیا یعنی زید اس کا قاتل ہے ۔ العلق ( جونک ) ایک قسم کا کیڑا جو حلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ نیز جما ہوا خون اسی سے لوتھڑے کی قسم کے خون کو علقہ کہا جاتا جس سے بچہ بنتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ؛ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله کے آخر میں فرمایا : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًپھر لو تھڑے کی بوٹی بنائی ۔ العلق اس عمدہ چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مالک کا دل چمٹا ہوا ہو اور اس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو العلیق ۔ جو وغیرہ جو سفر میں جو نور کے کھانے کے لئے اس پر باندھ دیتے ہیں اور العلیقتہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھیجا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) ( ارسلھا علیقتہ وقد علم ان العلیقات یلاقیں الرقم اس نے غلہ لینے کے لئے لوگوں کے ساتھ اپنا اونٹ بھیجد یا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ دوسروں کے ساتھ بھیجے ہوئے اونٹ تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ العلوق وہ اونٹنی جو اپنے بچے پر مہربان ہو اور اس سے لپٹی رہے اور موت کو بھی علوق کہا جاتا ہے العلقی درخت جس میں انسان الجھ جائے تو اس سے نکلنا مشکل علقت المرءۃ عورت حاملہ ہوگئی ۔ رجل معلاق جھگڑالو آدمی جو اپنے مخالف کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس سے چمٹار ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بیویوں میں پورا پورا عدل کرو - قول باری ہے ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقۃ۔ بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جائو کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو ) ۔ ابوعبیدہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد دلی محبت اور میلان طبعی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) حسن اور قتادہ سے بھی یہی مروی ہے قول باری فلاتمیلواکل المیل۔ میں مراد۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ اس میلان کا بالفعل اس طرح اظہار نہ کیا جائے کہ ایک بیوی سے پوری طرح منہ موڑ کر دوسری بیوی کا رخ کرلیا جائے۔ اس پر قول باری فتذروھا کالمعلقۃ) دلالت کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سعید بن جبیر، حسن ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ اس بیوی کی کیفیت یہ ہوجائے کہ وہ نہ تو شوہر والی شمار ہو اور نہ ہی بن بیاہی۔- قتادہ نے نضہ بن انس ہے، انہوں نے بشیر بن نہیک سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من کانت لہ امراتان یمیل مع احدھما علی الاخری جاء یوم القیامۃ واحد شقیہ ساقط۔ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کے مقابلہ میں دوسری کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہو تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک کنارہ جھک کر گرا ہوا ہوگا) ۔ یہ روایت بھی دو بیویوں کے درمیان انصاف کے ساتھ باریاں مقرر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے نیز یہ کہ اگر شوہر انصاف نہیں کرسکتا تو علیحدگی بہتر ہے کیونکہ قول باری ہے فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اسے رخصت کردیا جائے) ۔- باری مقرر کرنے میں انصاف سے کام لینے کے وجوب اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف میلان کو ترک کرنے کے ذکر کے بعد فرمایا وان یتفرقایغن اللہ کلا من سعتہ۔ لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بےنیاز کر دے گا) اس میں ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے تسلی دی گئی ہے اور دل کا بوجھ ہلکا کیا گیا ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بےنیاز کر دے گا اگر دونوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ حقوق کی پامالی کے خوف سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجانے کا قصد کیا ہو۔ یہ بھی واضح کردیا گیا کہ تمام بندوں کا رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بندے اگر رزق کا ذریعہ بنتے بھی ہیں تو اس صورت میں بھی سبب پیدا کرنے والا اللہ ہی ہوتا ہے اور اس پر تمام تعریفوں اور حمد و ثناء کا وہی مستحق ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٩) اور تم دلی محبت میں اگرچہ پوری کوشش کرو کبھی بھی اپنی سب بیبیوں میں برابری نہیں کرسکتے لہٰذا تم بالکل جوان کی طرف مت جھک جاؤ (بلکہ ظاہرا عدل کی پوری کوشش کرتے رہو) ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- اور دوسری بوڑھی کو قیدی کی طرح مت کردو کہ نہ اس کا خاوند والیوں میں شمار ہو اور نہ وہ بیوہ ہی سمجھی جائے، اسے یہ اذیت مت دو اور اگر تم سب میں برابری کرو اور ایک طرف بالکل جھک جانے سے ڈرو اور تقاضائے عدل کی تکمیل میں جو کمی رہ جائے اس پر توبہ کرو اور ایسی توبہ پر تمہیں موت آجائے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے اور رحم فرمانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ (وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ) - سورۃ کے آغاز (آیت ٣) میں فرمایا گیا تھا : (فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ) یعنی اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم اپنی بیویوں میں ( اگر ایک سے زائد ہیں) عدل نہیں کرسکو گے تو پھر ایک پر ہی اکتفا کرو ‘ دوسری شادی مت کرو۔ اگر تمہیں کلی طور پر اطمینان ہے ‘ اپنے اوپر اعتماد ہے کہ تم عدل کرسکتے ہو تب دوسری شادی کرو ‘ ورنہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو گنتی اور ناپ تول کی ہوتی ہیں ‘ ان میں تو عدل کرنا ممکن ہے ‘ لیکن جو قلبی میلان ہے یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تمام ازواج کے لیے ہرچیز گِن گِن کر طے کی ہوئی تھی۔ شب بسری کے لیے سب کی باریاں مقرر تھیں۔ دن میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر گھر میں چکر لگاتے تھے۔ عصر اور مغرب کے درمیان تھوڑی تھوڑی دیر ہر زوجہ محترمہ کے پاس ٹھہرتے تھے۔ اگر کہیں زیادہ دیر ہوجاتی تو گویا کھلبلی مچ جاتی تھی کہ آج وہاں زیادہ دیرکیوں ٹھہر گئے ؟ یہ چیزیں انسانی معاشرے میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کا آپس کا معاملہ بہت اچھا تھا ‘ لیکن سوکناپے کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ہوتے ہیں ‘ یہ عورت کی فطرت ہے ‘ جو اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس لیے فرمایا کہ مکمل انصاف کرنا تمہارے بس میں نہیں۔ اس سے مراد دراصل قلبی میلان ہے۔ ایک حدیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں نے ظاہری چیزوں میں پورا پورا عدل کیا ہے ‘ باقی جہاں تک میرے دل کے میلان کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے کہ اس بارے میں تو مجھ سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ تم چاہو بھی تو عدل نہیں کرسکتے۔- (فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ ط) ۔- دوسری بیوی اس طرح معلّق ہو کر نہ رہ جائے کہ اب وہ نہ شوہر والی ہے اور نہ آزاد ہے۔ اس سے خاوند کا گویا کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔- (وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ) - اب اگلی آیت میں طلاق کے معاملے میں ایک اہم نکتہ بیان ہو رہا ہے۔ طلاق یقیناً ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے ‘ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ ) (١) حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ‘ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس کو بسا اوقات کفر تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ لڑائیاں ہو رہی ہیں ‘ مقدمات چل رہے ہیں ‘ مزاجوں میں موافقت نہیں ہے ‘ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں ‘ دن رات کا جھگڑا ہے ‘ لیکن طلاق نہیں دینی۔ یہ طرز عمل نہایت احمقانہ ہے اور شریعت کی منشاء کے بالکل خلاف بھی۔ اس آیت میں آپ دیکھیں گے کہ ایک طرح سے طلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :161 مطلب یہ ہے کہ آدمی تمام حالات میں تمام حیثیتوں سے دو یا زائد بیویوں کے درمیان مساوات نہیں برت سکتا ۔ ایک خوبصورت ہے اور دوسری بدصورت ، ایک جوان ہے اور دوسری سن رسیدہ ، ایک دائم المرض ہے اور دوسری تندرست ، ایک بدمزاج ہے اور دوسری خوش مزاج اور اسی طرح کے دوسرے تفاوت بھی ممکن ہیں جن کی وجہ سے ایک بیوی کی طرف طبعًا آدمی کی رغبت کم اور دوسری کی طرف زیادہ ہو سکتی ہے ۔ ایسی حالتوں میں قانون یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ محبت و رغبت اور جسمانی تعلق میں ضرور ہی دونوں کے درمیان مساوات رکھی جائے ۔ بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تم بے رغبتی کے باوجود ایک عورت کو طلاق نہیں دیتے اور اس کی اپنی خواہش یا خود اس کی خواہش کی بنا پر بیوی بنائے رکھتے ہو تو اس سے کم از کم اس حد تک تعلق ضرور رکھو کہ وہ عملاً بے شوہر ہو کر نہ رہ جائے ۔ ایسے حالات میں ایک بیوی کی بہ نسبت دوسری کی طرف میلان زیادہ ہونا تو فطری امر ہے ، لیکن ایسا بھی نہ ہونا چاہیے کہ دوسری یوں معلق ہو جائے گویا کہ اس کا کوئی شوہر نہیں ہے ۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن ایک طرف عدل کی شرط کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت دیتا ہے اور دوسری طرف عدل کو ناممکن قرار دے کر اس اجازت کو عملاً منسوخ کر دیتا ہے ۔ لیکن درحقیقت ایسا نتیجہ نکالنے کے لیے اس آیت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اگر صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا گیا ہو تا کہ ”تم عورتوں کے درمیان عدل نہیں کر سکتے“ تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا ، مگر اس کے بعد ہی جو یہ فرمایا گیا کہ ” لہٰذا ایک بیوی کی طرف بالکل نہ جھک پڑو ۔ “ اس فقرے نے کوئی موقع اس مطلب کے لیے باقی نہیں چھوڑا جو مسیحی یورپ کی تقلید کرنے والے حضرات اس سے نکالنا چاہتے ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :162 یعنی اگر حتی الامکان تم قصداً ظلم نہ کرو اور انصاف ہی سے کام لینے کی کوشش کرتے رہو تو فطری مجبوریوں کی بنا پر جو تھوڑی بہت کوتاہیاں تم سے انصاف کے معاملہ میں صادر ہوں گی انہیں اللہ معاف فرما دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

78: یعنی یہ بات انسان کے اختیار سے باہر ہے کہ وہ قلبی محبت اور لگاؤ میں بیویوں کے درمیان پوری پوری برابری کرے ؛ کیونکہ دل کا جھکاؤ انسان کے بس میں نہیں ہوتا ؛ لہذا اگر ایک بیوی سے دلی محبت دوسری کے مقابلے میں زیادہ ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ نہیں ہے ؛ البتہ عملی سلوک میں برابری کرنا ضروری ہے، یعنی جتنی راتیں ایک کہ پاس گزارے اتنی ہی دوسری کے پاس گزارے، جتنا خرچ ایک کو دے اتنا ہی دوسری کو دے، نیز ظاہری توجہ میں بھی ایسا نہ کرے جس سے کسی بیوی کی دل شکنی ہو اور وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ بیچ میں لٹکی ہوئی ہے۔