Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

میاں بیوی میں صلح وخیر کا اصول اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے حالات اور ان کے احکام بیان فرما رہا ہے کبھی مرد اس سے ناخوش ہو جاتا ہے کبھی چاہنے لگتا ہے اور کبھی الگ کر دیتا ہے ۔ پس پہلی حالت میں جبکہ عورت کو اپنے شوہر کی ناراضگی کا خیال ہے اور اسے خوش کرنے کے لئے اپنے تمام حقوق سے یا کسی خاص حق سے وہ دست برداری کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ۔ مثلاً اپنا کھانا کپڑا چھوڑ دے یا شب باشی کا حق معاف کر دے تو دونوں کے لئے جائز ہے ۔ پھر اسی کی رغبت دلاتا ہے کہ صلح ہی بہتر ہے ۔ حضرت سودہ بنت زمعہ جب بہت بڑی عمر کی ہو جاتی ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا ۔ ابو داؤد میں ہے کہ اسی پر یہ آیت اتری ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میاں بیوی جس بات پر رضامند ہو جائیں وہ جائز ہے ۔ آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی نوبیویاں تھیں جن میں سے آپ نے آٹھ کو باریاں تقسیم کر رکھی تھیں ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت سودہ کا دن بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو دیتے تھے ۔ حضرت عروہ کا قول ہے کہ حضرت سودہ کو بڑی عمر میں جب یہ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دینا چاہتے ہیں تو خیال کیا کہ آپ کو صدیقہ سے پوری محبت ہے اگر میں اپنی باری انہیں دیدوں تو کیا عجب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو جائیں اور میں آپ کی بیویوں میں ہی آخر دم تک رہ جاؤں ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ حضور رات گزارنے میں اپنی تمام بیویوں کو برابر کے درجے پر رکھا کرتے تھے عموماً ہر روز سب بیویوں کے ہاں آتے بیٹھتے بولتے چالتے مگر ہاتھ نہ بڑھاتے پھر آخر میں جن بیوی صاحبہ کی باری ہوتی ان کے ہاں جاتے اور رات وہیں گزارتے ۔ پھر حضرت سودہ کا واقعہ بیان فرماتے جو اوپر گذار ( ابوداؤد ) معجم ابو العباس کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور نے حضرت سودہ کو طلاق کی خبر بجھوائی یہ حضرت عائشہ کے ہاں جابیٹھیں جب آپ تشریف لائے تو کہنے لگیں آپ کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم ہے جس نے آپ پر اپنا کلام نازل فرمایا اور اپنی مخلوق میں سے آپ کو برگزیدہ اور اپنا پسندیدہ بنایا آپ مجھ سے رجوع کر لیجئے میری عمر بڑی ہوگئی ہے مجھے مرد کی خاص خواہش نہیں رہی لیکن یہ چاہت ہے کہ قیامت کے دن آپ کی بیویوں میں اٹھائی جاؤں چنانچہ آپ نے یہ منظور فرمالیا اور رجوع کر لیا پھر یہ کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی باری کا دن اور رات آپ کی محبوب حضرت عائشہ کو ہبہ کرتی ہوں ۔ بخاری شریف میں آتا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ایک بڑھیا عورت جو اپنے خاوند کو دیکھتی ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کر سکتا بلکہ اسے الگ کرنا چاہتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ میں اپنے حق چھوڑتی ہوں تو مجھے جدانہ کر تو آیت دونوں کی رخصت دیتی ہے یہی صورت اس وقت بھی ہے کہ جب کسی کو دو بیویاں ہوں اور ایک سے اس کی بوجہ اس کے بڑھاپے یا بدصورتی کے محبت نہ ہو اور وہ اسے جدا کرنا چاہتا اور یہ بوجہ اپنے لگاؤ یا بعض اور مصالح کے الگ ہونا پسند نہ کرتی تو اسے حق ہے کہ اپنے بعض یا سب حقوق سے الگ ہو جائے اور خاوند اس کی بات کو منظور کر کے اسے جدا نہ کرے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے ایک سوال ( جسے اس کی بیہودگی کی وجہ سے ) آپ نے ناپسند فرمایا اور اسے کوڑا ماردیا پھر ایک اور نے اسی آیت کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ باتیں پوچھنے کی ہیں اس سے ایسی صورت مراد ہے کہ مثلاً ایک شخص کی بیوی ہے لیکن وہ بڑھیا ہو گئی ہے اولاد نہیں ہوتی اس نے اولاد کی خاطر کسی جوان عورت سے اور نکاح کیا پھر یہ دونوں جس چیز پر آپس میں اتفاق کرلیں جائز ہے ۔ حضرت علی سے جب اس آیت کی نسبت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جو بوجہ اپنے بڑھاپے کے یا بدصورتی کے یا بدخلقی کے یا گندگی کے اپنے خاوند کی نظروں میں گر جائے اور اس کی چاہت یہ ہو کہ خاوند مجھے نہ چھوڑے تو یہ اپنا پورا یا ادھورا مہر معاف کر دے یا اپنی باری معاف کر دے وغیرہ تو اس طرح صلح کر سکتے ہیں سلف اور ائمہ سے برابری اس کی یہی تفسیر مروی ہے بلکہ تقریباً اس پر اتفاق ہے میرے خیال سے تو اس کا کوئی مخالف نہیں واللہ اعلم ۔ محمد بن مسلم کی صاحبزادی حضرت رافع بن خدیج کے گھر میں تھیں بوجہ بڑھاپے کے یا کسی اور امر کے یہ انہیں چاہتے نہ تھے یہاں تک کہ طلاق دینے کا ارادہ کر لیا اس پر انہوں نے کہا آپ مجھے طلاق تو نہ دیجئے اور جو آپ چاہیں فیصلہ کریں مجھے منظور ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ان دونوں آیتوں میں ذکر ہے اس عورت کا جس سے اس کا خاوند بگڑا ہوا ہو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ اگر وہ چاہے تو اسے طلاق دے دے اور اگر وہ چاہے تو اس بات کو پسند کر کے اس کے گھر میں رہے کہ وہ مال کی تقسیم میں اور باری کی تقسیم میں اس پر دوسری بیوی کو ترجیح دے گا اب اسے اختیار ہے اگر یہ دوسری شق کو منظور کر لے تو شرعاً خاوند کو جائز ہے کہ اسے باری نہ دے اور جو مہر وغیرہ اس نے چھوڑا ہے اسے اپنی ملکیت سمجھے ۔ حضرت رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ جب سن رسید ہوگئیں تو انہوں نے ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کیا اور پھر اسے زیادہ چاہنے لگے اور اسے پہلی بیوی پر مقدم رکھنے لگے آخر اس سے تنگ آ کر طلاق طلب کی آپ نے دے دی پھر عدت ختم ہونے کے قریب لوٹالی ، لیکن پھر وہی حال ہوا کہ جوان بیوی کو زیادہ چاہنے لگے اور اس کی طرف جھک گئے اس نے پھر طلاق مانگی آپ نے دوبارہ طلاق دے دی پھر لوٹالیا لیکن پھر وہی نقشہ پیش آیا پھر اس نے قسم دی کہ مجھے طلاق دے دو تو آپ نے فرمایا دیکھو اب یہ تیسری آخری طلاق ہے اگر تم چاہو تو میں دے دوں اور اگر چاہو تو اسی طرح رہنا منظور کرو اس نے سوچ کر جواب دیا کہ اچھا مجھے اسے طرح منظور ہے چنانچہ وہ اپنے حقوق سے دست بردار ہوگئیں اور اسی طرح رہنے سہنے لگیں ۔ اس جملے کا کہ صلح خیر ہے ایک معنی تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی کو یہ اختیار دینا کہ اگر تو چاہے تو اسی طرح رہ کر دوسری بیوی کے برابر تیرے حقوق نہ ہوں اور اگر تو چاہے تو طلاق لے لے ، یہ بہتر ہے اس سے کہ یونہی دوسری کو اس پر ترجیح دئے ہوئے رہے ۔ لیکن اس سے اچھا مطلب یہ ہے کہ بیوی اپنا کچھ چھوڑے دے اور خاوند اسے طلاق نہ دے اور آپس میں مل کر رہیں یہ طلاق دینے اور لینے سے بہتر ہے ، جیسے کہ خود نبی اللہ علیہ صلوات اللہ نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنی زوجیت میں رکھا اور انہوں نے اپنا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہبہ کر دیا ۔ آپ کے اس فعل میں بھی آپ کی امت کے لئے بہترین نمونہ ہے کہ ناموافقت کی صورت میں بھی طلاق کی نوبت نہ آئے ۔ چونکہ اللہ اعلیٰ و اکبر کے نزدیک صلح افتراق سے بہتر ہے اس لئے یہاں فرما دیا کہ صلح خیر ہے ۔ بلکہ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے تمام حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسند چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے ۔ پھر فرمایا تمہارا احسان اور تقویٰ کرنا یعنی عورت کی طرف کی ناراضگی سے درگذر کرنا اور اسے باوجود ناپسندیدگی کے اس کا پورا حق دینا باری میں لین دین میں برابری کرنا یہ بہترین فعل ہے جسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور جس پر وہ بہت اچھا بدلہ عطا فرمائے گا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ گو تم چاہو کہ اپنی کئی ایک بیویوں کے درمیان ہر طرح بالکل پورا عدل و انصاف اور برابری کرو تو بھی تم کر نہیں سکتے ۔ اس لئے کہ گو ایک ایک رات کی باری باندھ لو لیکن محبت چاہت شہوت جماع وغیرہ میں برابری کیسے کر سکتے ہو؟ ابن ملکیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بہت چاہتے تھے ، اسی لئے ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے درمیان صحیح طور پر مساوات رکھتے تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرماتے تھے الٰہی یہ وہ تقسیم ہے جو میرے بس میں تھی اب جو چیز میرے قبضہ سے باہر ہے یعنی دلی تعلق اس میں تو مجھے ملامت نہ کرنا ( ابو داؤد ) اس کی اسناد صحیح ہے لیکن امام ترمذی فرماتے ہیں دوسری سند سے یہ مرسلاً مروی ہے اور وہ زیادہ صحیح ہے ۔ پھر فرمایا بالکل ہی ایک جانب جھک نہ جاؤ کہ دوسری کو لٹکا دو وہ نہ بےخاوند کی رہے نہ خاوند والی وہ تمہاری زوجیت میں ہو اور تم اس سے بےرخی برتو نہ تو اسے طلاق ہی دو کہ اپنا دوسرا نکاح کر لے نہ اس کے وہ حقوق ادا کرو جو ہر بیوی کے لئے اس کے میاں پر ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ہی ایک کی طرف جھک جائے تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط ہو گا ( احمد وغیرہ ) امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث مرفوع طریق سے سوائے ہمام کی حدیث کے پہچانی نہیں جاتی ۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اپنے کاموں کی اصلاح کر لو اور جہاں تک تمہارے اختیار میں ہو عورتوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات برتو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو ، اس کے باوجود اگر تم کسی وقت کسی ایک کی طرف کچھ مائل ہوگئے ہو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا ۔ پھر تیسری حالت بیان فرماتا ہے کہ اگر کوئی صورت بھی نباہ کی نہ و اور دونوں الگ ہو جائیں تو اللہ ایک کو دوسرے سے بےنیاز کر دے گا ، اسے اس سے اچھا شوہر اور اسے اس سے اچھی بیوی دے دے گا ۔ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے وہ بڑے احسانوں والا ہے اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے تمام افعال ساری تقدیریں اور پوری شریعت حکمت سے سراسر بھرپور ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

128۔ 1 خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا اور اعراض کرنا معمول بنا لے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کو کم ترخوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان و نفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کرلے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنیں سودۃ (رض) نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کے لئے ہبہ کردی تھی جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرما لیا۔ (صحیح بخاری) 128۔ 2 شُحّ بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٧] اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔ سیدہ عائشہ (رض) اس آیت کا مطلب یہ بیان فرماتی ہیں کہ مثلاً ایک شخص کے پاس عورت ہو جس سے وہ کوئی میل جول نہ رکھتا ہو اور اسے چھوڑ دینا چاہے اور عورت کہے کہ اچھا میں تجھے اپنی باری یا نان و نفقہ معاف کردیتی ہوں (مگر مجھے طلاق نہ دے) یہ آیت اس باب میں اتری (بخاری، کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سیدہ سودہ کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں طلاق نہ دے دیں، تو انہوں نے آپ سے کہا مجھے طلاق نہ دیجیے اپنے پاس ہی رکھیے اور میں اپنی باری عائشہ (رض) کو دے دیتی ہوں چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہی کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں وہ جائز ہے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر)- [١٦٩] یہاں لالچ سے مراد صرف مال و دولت کا لالچ نہیں بلکہ اس میں تمام مرغوبات نفس شامل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر ٢ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اگر عورت اپنے خاوند کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھے گی تو یقینا مرد کا دل بھی نرم ہوجائے گا اور صلح کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔- [١٧٠] یعنی اگر تم بغیر کسی لالچ کے محض اللہ سے ڈر کر اپنی بیوی سے بہتر سلوک کرو اور اسے طلاق نہ دو تو اللہ سے یقینا تمہیں اس احسان کا بدلہ مل جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ ۔۔ : ” نشوزا “ کا مطلب ہے زیادتی، لڑائی جھگڑا، اعراض، بےرخی۔ نشوز یا اعراض یہ ہے کہ اس سے بدسلوکی کرے، اس کو حقیر سمجھے، اس کے پاس سونا بیٹھنا چھوڑ دے، اسے نان و نفقہ نہ دے، مارنے کے لیے بہانے تراشے، یا اس کے پاس اور بیوی ہے جسے وہ زیادہ چاہتا ہے، اس لیے اس کی طرف توجہ کم ہے، تو اس صورت میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ عورت سمجھے کہ میں اسی شخص کے نکاح میں رہوں تو میرے حق میں بہتر ہے، خواہ مجھے اپنے کچھ حقوق چھوڑنے پڑیں۔ دوسری یہ کہ وہ اس سے علیحدہ ہوجائے آیت (١٢٨) میں پہلی صورت کا ذکر ہے اور آیت (١٣٠) میں دوسری صورت کا ذکر ہے۔ - اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا : ” صلحاً “ کی تنکیر ( کسی طرح کی صلح) سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی آپس میں کسی طریقے سے بھی صلح کرلیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں : ” کسی مرد کے پاس کوئی عورت ہوتی اور اب وہ اسے مزید نہ رکھنا چاہتا اور طلاق دینے کا ارادہ کرتا تو وہ عورت کہہ دیتی کہ ( مجھے طلاق نہ دے، اپنے نکاح میں رہنے دے) میں اپنی باری کے بارے میں تمہیں اجازت دیتی ہوں (کہ تو جس بیوی کے پاس چاہے رہے) چناچہ یہ آیت اس سلسلے میں نازل ہوئی۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب (وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَت۔۔ ) : ٤٦٠١ ]- عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ سودہ (رض) کو اندیشہ لاحق ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں طلاق دے دیں گے تو انھوں نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول میری باری کا دن عائشہ کو دے دیں مگر مجھے طلاق نہ دیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح کیا، اس پر یہ آیت اتری : ( وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا ) ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” وہ دونوں جس چیز پر صلح کرلیں وہ جائز ہے۔ “ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة النساء : ٣٠٤٠ ] عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب سودہ بنت زمعہ (رض) عمر رسیدہ ہوگئیں تو انھوں نے اپنا دن عائشہ (رض) کو ہبہ کردیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا دن بھی عائشہ کے پاس گزارتے تھے۔ [ بخاری، النکاح، باب المرء ۃ تہب یومہا من زوجھا۔۔ : ٥٢١٢ ]- وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۭ : یعنی صلح ہر حال میں بہتر ہے، کیونکہ شیطان اپنے کارندوں میں سے اس کارندے کو اپنے قریب کر کے شاباش دیتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کروا دے۔ [ مسلم، صفات المنافقین و أحکامھم، باب تحریش الشیطان ۔۔ : ٦٧؍٢٨١٣ ] - وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۭ : ” الشح “ کا معنی ہے بخل، جس کے ساتھ حرص بھی ہو، یعنی انسان کا بخل اور لالچ تو فطری امر ہے، مرد کا شح یہ ہے کہ عورت سے فائدہ اٹھائے مگر اس کے پورے حقوق ادا نہ کرے اور عورت کا شح یہ ہے کہ مہر اور نان و نفقہ تو پورا وصول کرے مگر حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے۔ - وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا ۔۔ : یعنی اس لالچ کے جذبے کے باوجود اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے احسان اور فیاضی کا سلوک کریں اور اللہ سے ڈرتے رہیں تو اللہ کے ہاں اس کا اجر ضرور پائیں گے، جو ان کے ہر عمل سے پورا باخبر ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - ازدواجی زندگی سے متعلق چند قرآنی ہدایات :- وان امراة خافت من بعلھا (انی قولہ) واسعاً حکیماً ان تینوں آیتوں میں حق تعالیٰ شانہ نے ازدواجی زندگی کے اس تلخ اور کٹھن پہلو کے متعلق ہدایات دی ہیں جو اس طویل زندگی کے مختلف ادوار میں ہر جوڑے کو کبھی نہ کبھی پیش آ ہی جاتا ہے، وہ ہے باہمی رنجش اور کشیدگی اور یہ ایسی چیز ہے کہ اس پر صحیح اصول کے ماتحت قابو پانے کی کشش نہ کی جائے تو نہ صرف زوجین کے لئے دنیا جہنم بن جاتی ہے، بلکہ بسا اوقات یہ گھریلو رنجش خاندانوں اور قبیلوں کی باہمی جنگ اور قتل و قتال تک نوبت پہنچا دیتی ہے قرآن عزیز مرد عورت دونوں کے تمام جذبات اور احساسات کو سامنے رکھ کر ہر فریق کو ایک ایسا نظام زندگی بتلانے کے لئے آیا ہے جس پر عمل کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا گھر دنیا ہی میں جنت بن جائے گا گھریلو تلخیاں محبت و راحت میں تبدیلی ہوجائیں گی، اور اگر ناگزیر حالات میں علیحدگی کی نوبت بھی آجائے تو وہ بھی خوشگوار طبقہ خوش اسلوبی کے ساتھ ہو، قطع تعلق بھی ایسا ہو کہ عداوت دشمنی اور ایذاء رسانی کے جذبات پیچھے نہ چھوڑے۔- آیت نمبر ٨٢١ ایسے حالات سے متعلق ہے جس میں غیر اختیاری طور پر میاں بیوی کے تعلقات کشیدہ ہوجائیں، ہر فریق اپنی جگہ معذور سمجھا جائے اور باہمی تلخی کی وجہ سے اس کا اندیشہ ہوجائے کہ باہمی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے گی، جیسے ایک بیوی سے اس کے شوہر کا دل نہیں ملتا اور نہ ملنے کے اسباب رفع کرنا عورت کے اختیار میں نہیں، مثلاً عورت بدصورت یا سن رسیدہ بوڑھیا ہے، شوہر خوش رو ہے، تو ظاہر ہے کہ اس میں نہ عورت کا کوئی قصور ہے اور نہ مرد ہی کچھ مجرم کہا جاسکتا ہے۔- چنانچہ اس آیت کے شان نزول میں اسی طرح کے چند واقعات مظہری وغیرہ میں منقول ہیں، ایسے حالات میں مرد کے لئے تو ایک عام قانون قرآن کریم نے یہ بتلایا ہے کہ فامساک بمعروف اوتسریح بااحسان کہ اس عورت کو رکھنا ہو تو دستور کے مطابق اس کے پورے حقوق ادا کر کے رکھو اور اگر اس پر قدرت نہیں تو اس کو خوش اسلوبی سے آزاد کردو، اب اگر عورت بھی آزاد ہونے کے لئے تیار ہے تو معاملہ صاف ہے کہ قطع تعلق بھی خوشگور انداز میں ہوجائے گا، لیکن اگر ایسے حالات میں عورت کسی وجہ سے آزادی نہیں چاہتی خواہ اپنی اولاد کے مفاد کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ اس کا کوئی دوسرا سہارا نہیں تو یہاں ایک ہی راستہ ہے کہ شوہر کو کسی چیز پر راضی کیا جائے، مثلاً عورت اپنے تمام یا بعض حقوق کا مطالبہ چھوڑ دے اور شوہر یہ خیال کرے کہ بہت سے حقوق کے بارے سے تو سبکدوشی ہوتی ہے، بیوی مفت میں ملتی ہے اس پر صلح ہوجائے۔- قرآن کریم کی اس آیت میں ایک تو اس طرح کی مصالحت کے متوقع ہونے کی طرف رہنمائی اس طرح فرمائی وا حضرت الانفس الشح یعنی حرص تمام نفوس کے سامنے دھری رہتی ہے ایسی مصالحت میں عورت کو تو یہ حرص ہے کہ مجھے آزاد کردیا تو اولاد برباد ہوجائے گی یا میری زندگی دوسری جگہ تلخ ہوگی اور شوہر کو یہ لالچ ہے کہ جب عورت نے اپنا کل مہر یا بعض معاف کردیا اور دوسرے حقوق کا بھی مطالبہ چھوڑ دیا تو اب اس کو رکھنے میں میرے لئے کیا مشکل ہے، اس لئے مصالحت باہمی آسان ہوجائے گی، اس کے ساتھ ارشاد فرمایا :- وان امراہ خافت من بعلھا نستوزا او اعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا، یعنی اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑائی جھگڑے یا بےرخی کا خطرہ محسوس کرے تو دونوں میں سے کسی کو گناہ نہیں ہوگا اگر آپس میں خاص شرائط پر صلح کرلیں اور گناہ نہ ہونے کے عنوان سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اس معاملہ کی صورت بظاہر رشوت کی سی ہے کہ شوہر کو مہر وغیرہ کی معافی کا لالچ دے کر ازدواجی زندگی کا تعلق باقی رکھا گیا ہے لیکن قرآن کے اس ارشاد نے واضح کردیا کہ یہ رشوت میں داخل نہیں بلکہ مصلحت میں داخل ہے جس میں فریقین اپنے کچھ کچھ کا مطالبہ چھوڑ کر کسی درمیانی صورت میں رضامند ہوجایا کرتے ہیں اور یہ جائز ہے۔- زوجین کے جھگڑے میں دوسروں کا دخل بلا ضرورت مناسب نہیں :۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے ان یصلحا بینھما صلحاً فرمایا یعنی ” میاں بیوی دونوں آپس میں کسی صورت پر مصالحت کرلیں۔ “ اس میں لفظ بینھما سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ میاں بیوی کے معاملات میں بہت بہتریہ ہے کہ کوئی تیسرا دخیل نہ ہو، یہ دونوں خود ہی آپس میں کوئی بات طے کرلیں، کیونکہ تیسرے کے دخل سے بعض اوقات تو مصالحت ہی ناممکن ہوجاتی ہے اور ہو بھی جائے تو طرفین کے عیوب تیسرے آدمی کے سامنے بلا وجہ آتے ہیں جس سے بچنا دونوں کے لئے مصلحت ہے۔- مذکورہ آیت کے آخر میں فرمایا : وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعلمون خبیراً یعنی ایسے حالات میں جبکہ بیوی سے تمہارا دل نہیں ملتا اور اس وجہ سے تم اس کے حقوق ادا کرنا مشکل سمجھ کر آزاد کرنا چاہتے ہو تو گو ضابطہ میں تمہیں آزاد کردینے کا اختیار بھی حاصل ہے اور آیت کے ابتدائی جملہ کی رو سے عورت کے کچھ مطالبات چھوڑنے پر صلح کرلینا بھی جائز ہے، لیکن اگر حق تعالیٰ کے خوف کو سامنے رکھ کر احسان سے کام لو اور دل نہ ملنے کے باجود اس کے تعلق کو بھی نبھاؤ اور اس کے سب حقوق بھی پورے کرو، تو تمہارا یہ حسن عمل اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے، جس کا یہ نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس تحمل اور حسن عمل کا بدلہ ایسی نعمتوں اور حقوق سے دے گا جس کا تم کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے اور شاید اسی وجہ سے یہاں صرف یہ بتلا کر چھوڑ دیا کہ تمہارا یہ حسن عمل ہمارے سامنے ہے، اس کا ذکر نہیں کیا کہ اس کا بدلہ کیا دیں گے ؟ اشارہ اس طرف ہے کہ وہ بدلہ تمہارے وہم و خیال سے بھی زائد ہوگا۔- متعلقہ آیات کے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگیا کہ شوہر جب یہ دیکھے کہ کسی وجہ سے اس کا دل اپنی بیوی سے نہیں ملتا اور اس کے حقوق پورے نہیں ہوتے تو جہاں تک بیوی کے اختیاری معاملات کا تعلق ہے ان کی تو اصلاح کی کوشش کرے، تنبیہ کے لئے عارضی طور پر بےرخی، زبانی تنبیہ اور مجبوری معمولی مار پیٹ بھی کرنا پڑے تو کرے، جیسا کہ سورة نساء کی شروع کی آیات میں گزر چکا ہے اور اگر ساری کوششوں کے باوجود اصلاح سے مایوس ہوجائے، یا معاملہ کوئی ایسا ہے جس کا درست کرنا عورت کے اختیار ہی میں نہیں، تو اب اس کو قانون شرع یہ حق دیتا ہے کہ خوش اسلوبی کے ساتھ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے طلاق دے کر آزاد کر دے، لیکن اگر وہ اس کے تعلق کو اسی حالت میں نبھائے، اپنے حقوق کو نظر انداز اور اس کے حقوق پورے پورے ادا کرے تو یہ اس کے لئے افضل و اعلی اور موجب ثواب عظیم ہے، اس کے بالمقابل اگر معاملہ برعکس ہو کہ مرد حقوق واجبہ نہیں ادا کرتا، اس لئے عورت آزادی چاہتی ہے تو اس صورت میں اگر شوہر بھی آزاد کرنے پر راضی ہے تو معاملہ صاف ہے، عورت کو بھی یہ حق ملتا ہے کہ جب شوہر اداء حقوق میں کوتاہی کی بناء پر اس کو آزاد کرنا چاہے تو عورت بھی اپنی آزادی اختیار کرلے اور اگر شوہر با اختیار خود آزاد کرے پر آمادہ نہیں تو عورت کو حق پہنچتا ہے کہ اسلامی عدالت سے اپنی آزادی کا مطالبہ کر کے آزاد ہوجائے لیکن اگر وہ شوہر کی بےرخی اور کج روی پر صبر کر کے اپنے حقوق کا مطالبہ چھوڑ کر اس کو نبھائے اور شوہر کے حقوق کو ادا کرے تو یہ اس کے لئے افضل و اعلی اور موجب ثواب عظیم ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف اپنی تکلیف کو دور کرنے اور اپنا حق وصول کرنے کا فریقین کو قانونی حق قرآن کریم نے دے دیادوسری طرف دونوں کو بلند اخلاقی اور اپنے حقوق کے ترک کرنے پر صبر کی تلقین فرما کر یہ ہدایت فرما دی کہ جہاں تک ممکن ہو اس تعلق کو قطع کرنے سے بچنا چاہئے اور چاہئے کہ جانبین سے کچھ کچھ حقوق ترک کر کے کسی خاص صورت پر صلح کرلیں۔- اس آیت کے شروع میں تو میاں بیوی کے باہمی اختلاف کے وقت صلح کا صرف جائز ہونا بتلایا گیا ہے اور آخر آیت میں صلح نہ ہونے کی صورت میں بھی صبر و تحمل کے ساتھ تعلق نبھانے کی تلقین فرمائی گئی ہے، درمیان میں ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا ہے جس سے مصالحت کا پسندیدہ اور افضل و بہتر ہونا ثابت ہوتا ہے، ارشاد ہے والصلح خیر یعنی باہم مصالحت کرنا بہتر ہے “ اور یہ جملہ ایسے عام عنوان سے بیان فرمایا جس میں زیر بحث میاں بیوی کے جھگڑے بھی داخل ہیں اور دوسری قسم کے گھریلو اختلافات بھی اور تمام دنیا کے معاملات کے باہمی جھگڑے اور خصومات و مقدمات بھی کیونکہ الفاظ قرآن عام ہیں کہ صلح بہتر ہے۔- خلاصہ مضمون یہ کہ طرفین سے اپنے اپنے پورے مطالبہ پر اڑے رہنے کے بجائے یہ بہتر ہے کہ طرفین اپنے کچھ مطالبات دستبردار ہو کر کسی درمیاین صورت پر رضامندی کے ساتھ مصالحت کرلیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ” یعنی مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کی مصالحت جائز ہے بجز اس صلح کے جس میں کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام ٹھہرایا گیا ہو اور مسلمانوں کو اپنی مانی ہوئی شرطوں پر قائم رہنا چاہئے، بجز ان شرائط کے جن کے ذریعہ کسی حلال کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ “- مثلاً کسی عورت سے اس بات پر صلح کرلینا جائز نہیں کہ اس کے ساتھ اس کی بہن کو بھی نکاح میں رکھا جائے، کیونکہ دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا شرعاً حرام ے، یا اس پر صلح کرے کہ دوسری بیوی کے حقوق ادا نہ کرے گا، کیونکہ اس میں ایک حلال کو حرام ٹھہرانا ہے۔- اور روایت میں چونکہ عموم کے ساتھ ہر صلح کو جائز قرار دیا ہے اس عموم سے امام اعظم (رح) نے یہ مسئلہ نکالا کہ صلح کی سب اقسام جائز ہیں خواہ اقرار کے ساتھ ہو جیسے مدعا علیہ یہ اقرار کرے کہ مدعی کے دعوے کے مطابق میرے ذمہ اس کے ایک ہزار روپیہ واجب الادا ہیں، پھر مصالحت اس پر ہوجائے کہ مدعی اس میں سے کچھ رقم چھوڑ دے، یا اس رقم کے معاوضہ میں اس سے کوئی چیز لے لے، یا مدعا علیہ دعوے کے بارے میں اقرار و انکار کچھ نہ کرے اور کہے کہ حقیقت میں جو کچھ بھی ہو میں چاہتا ہوں کہ تم اس صورت پر صلح کرلو، یا مدعا علیہ دعوے سے قطعی انکار کرلو، لیکن انکار کے باوجود جھگڑا قطع کرنے کے لئے کچھ دینے پر راضی ہوجائے اور اس پر صلح ہوجائے، یہ تینوں قسمیں صلح کی جائز ہیں، سکوت اور انکار کی صورت میں بعض ائمہ فقہاء کا اختلاف بھی ہے۔- آخر میں ایک مسئلہ قابل ذکر ہے جس کا تعلق زوجین کی باہمی مصالحت سے ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وہ یہ کہ اگر کسی عورت نے اپنے بعض حقوق کا مطالبہ ترک کردینے پر صلح کرلی تو یہ صلح عورت کے اس حق کو تو قطعی طور پر ختم کر دے گی جو بوقت صلح شوہر کے ذمہ عائد ہوچکا ہے، جیسے دین مہر کہ وہ شوہر پر اس صلح سے پہلے واجب الاداء ہوچکا ہے، لہذا جب وہ پورا مہر یا اس کا کوئی جز معاف کردینے پر صلح کرے تو یہ مہر یا اس کا حصہ ساقط ہوجائے گا اس کے بعد اس کو مطالبہ کا حق باقی نہ رہے گا، لیکن جو حقوق ایسے ہیں کہ بوقت صلح ان کی ادائیگی شوہر پر واجب ہی نہ تھی، مثلاً آئندہ زمانہ کا نان نفقہ یا حق شب باشی جس کا وجوب آنیوالے زمانہ میں ہوگا، بالفعل اس کے ذمہ واجب الادا نہیں ہے ان حقوق کو ترک پر اگر مصالحت کرلی گئی تو عورت کا حق مطالبہ ہمیشہ کے لئے ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ جب اس کا دل چاہے یہ کہہ سکتی ہے کہ آئندہ میں اپنا یہ حق چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، اس صورت میں شوہر کو اختیار ہوگا کہ اس کو آزاد کر دے (تفسیر مظہری وغیرہ)- آخری آیت یعنی وان یتفر قایغن اللہ کلامن سعتہ میں فریقین کو تسلی دی گئی کہ اگر اصلاح و مصالحت کی سب کوششیں ناکام ہو کر الگ ہی ہونا پڑے تو اس سے بھی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دوسرے سے مستغنی فرما دیں گے، عورت کے لئے کوئی دوسرا ٹھکانا اور تکفل کا ذریعہ اور مرد کے لئے دوسری عورت مل جائے گی، اللہ تعالیٰ کی قدرت بڑی وسیع ہے، اس سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں، ان میں سے ہر ایک نکاح سے پہلی زندگی پر نظر ڈالے کہ ایک دوسرے کو پہچانتا بھی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے جوڑا ملا دیا، آج بھی پھر ایسی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔- آخر آیت میں وکان اللہ واسعاً حکیماً فرما کر اس بات کو اور پختہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی وسعت ہے اور اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے ممکن ہے کہ اس علیحدگی ہی میں حکمت و مصلحت ہو، جدائی کے بعد دونوں کو ایسے جوڑے مل جائیں کہ دونوں کی زندگی سدھر جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَہُمَا صُلْحًا۝ ٠ۭ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ۝ ٠ۭ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۝ ٠ۭ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝ ١٢٨- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - بعل - البَعْلُ هو الذکر من الزوجین، قال اللہ عزّ وجل : وَهذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وجمعه بُعُولَة، نحو : فحل وفحولة . - ( ب ع ل البعل - کے معنی شوہر کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا ( سورة هود 72) اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں اس کی جمع بعولۃ آتی ہے جیسے فحل وفحولۃ - نشز - النَّشْزُ : المُرْتَفِعُ من الأرضِ ، ونَشَزَ فلانٌ: إذا قصد نَشْزاً ، ومنه : نَشَزَ فلان عن مقرِّه : نَبا، وكلُّ نابٍ نَاشِزٌ. قال تعالی: وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] ويعبّر عن الإحياء بِالنَّشْزِ والإِنْشَازِ ، لکونه ارتفاعا بعد اتِّضاع . قال تعالی: وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] ، وقُرِئَ بضَمِّ النون وفَتْحِهَا وقوله تعالی: وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] ونُشُوزُ المرأة : بُغْضُها لزَوْجها ورفْعُ نفسِها عن طاعتِه، وعَيْنِها عنه إلى غيره، وبهذا النَّظر قال الشاعر :إِذَا جَلَسَتْ عِنْدَ الإمامِ كأَنَّهَا ... تَرَى رُفْقَةً من ساعةٍ تَسْتَحِيلُهَا وعِرْقٌ نَاشِزٌ. أيْ : نَاتِئٌ.- ( ن ش ز ) النشز۔ بلند زمین کو کہتے ہیں ۔ اور نشز فلان کے معنی بلند زمین کا قصد کرنے کے ہیں ۔ اسی سے نشز فلان عن مقرہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کے اپنی قرارگاہ سے اوپر ابھر آنے کے ہیں ۔ اور ہر اوپر اٹھنے والی چیز کو ناشز کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ اور نشز ونشاز کے معنی زندہ کرنا ۔۔۔ بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ زندگی میں بھی ایک طرح کا ابھار پایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] اور ( وہاں ) گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکہ جوڑ دیتے ہیں اور ان پر ( کس طرح ) گوشت ( پوست) چڑھادیتے ہیں ۔ اور نشرھا کے نون پر ضمہ اور فتحۃ دونوں جائز ہیں ۔ اور نشوزا المرءۃ کے معنی عورت کے اپنے شوہر کو برا سمجھنے اور سرکشی کرنے اور کسی دوسرے مرد پر نظر رکھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی ( اور بدخوئی ) کرنے لگی ہیں ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (426) اذا جلست عندا الامام کانھا تریٰ رفقۃ من ساعۃ تستحیلھا اور عرق ناشز کے معنی پھولی ہوئی رگ کے ہیں - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8]- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ - - شح - الشُّحُّ : بخل مع حرص، وذلک فيما کان عادة . قال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، وقال سبحانه : وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر 9] . يقال : رجل شَحِيحٌ ، وقوم أَشِحَّةٌ ، قال تعالی: أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب 19] ، أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ [ الأحزاب 19] . وخطیب شَحْشَح : ماض في خطبته، من قولهم : شَحْشَحَ البعیر في هديره «2» .- وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبائع تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں ۔ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر 9] اور جو شخص حرص نفس سے بچالیا گیا ۔ رجل شحیح بخیل آدمی قوم اشحۃ بخیل لوگ قرآن میں ہے : أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب 19] مال میں بخل کریں ۔ ( یہ اس لئے کہ تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں ۔ خطیب شحیح خوش بیان ار بلیغ ۔ لیکچرار ۔ یہ شحشح البعیر فی ھدیرہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے مستی میں آواز کو پھرانے کے ہیں ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بیوی اور اس کے شوہر کے درمیان مصالحت - قول باری ہے وان امراۃ حافت من بعلھا نشوراً اوامراضا فلاجناح علیھا ان یصلحا بینھما صلحا۔ جب کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بےرخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں) نشوز کے معنی میں ایک قول مروی ہے کہ اس سے مراد بیوی سے نفرت اور بغض کی بنا پر شوہر کا ہر دم اس پر سوار رہنا ہے یعنی شوہر ہر گھڑی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے کام لے یہ لفظ نشز الارض، سے ماخوذ ہے جس کے معنی ابھری ہوئی اور بلند زمین کے ہیں۔ قول باری اواعراضاً کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کسی ناراضگی کی بنا پر کسی اور بیوی کو اس پر ترجیح دے کر اس سے بےرخی کرے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لئے صلح کے عمل کو مباح کردیا۔ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اپنے بغض حقوق میں کمی بیشی کے ذریعے صلح کرلینے کی اجازت دے دی ہے مثلا بیوی اپنے مہر کے کچھ حصے سے دست بردار ہوجائے یا اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دے دے۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ میاں بیوی جس بات پر بھی صلح کرلیں ان کی صلح درست ہوگی۔ سماک نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ (رض) کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں طلاق نہ دے دیں) چناچہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے طلاق نہ دیں مجھے اپنی زوجیت میں رہنے دیں اور میری باری عائشہ (رض) کو دے دیں، چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی کیا۔ اس پر درج بالا آیت نازل ہوئی۔ اس لئے میاں بیوی جس چیز پر بھی صلح کرلیں ان کی صلح جائز ہوگی۔ ہشام نے عروہ سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آیت اس عورت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کسی کے عقد میں ہو۔ وہ شخص اسے طلاق دے کر کسی اور عورت سے نکاح کرنے کا خواہش مند ہو۔ بیوی اس سے یہ کہے کہ مجھے اپنی زوجیت میں رہنے دو اور طلاق نہ دو ۔ تمہیں میرے نان و نفقہ اور باری کے سلسلے میں پوری آزادی ہے۔ قول باری فلا جناح علیھما تا قول باری واصلح خیر کا یہ مفہوم ہے۔- حضرت عائشہ (رض) سے متعدد طرق سے مروی ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ (رض) نے اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو دے دی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باری میں حضرت عائشہ (رض) کے گھر میں شب باشی کرتے تھے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت متعدد بیویوں کی صورت میں ان کے مابین باریاں مقرر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور ایک بیوی کی صورت میں اس کے پاس رہنے کے وجوب پر بھی دال ہے۔ حضرت عمر (رض) کے سامنے ایک شخص کعب بن سور نے اپنی بیوی کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا کہ ہر چار دنوں میں سے ایک دن اس کا ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے نہ صرف کعب کی یہ بات پسند کی بلکہ اسے بصرہ کا قاضی مقرر کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی جائز کردی ہے کہ ایک عورت اپنی باری سے دست بردار ہو کر اسے اپنی سوکن کو دے دے۔ آیت کا عموم اس بات کا مقتضی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اس شرط پر بھی صلح ہوسکتی ہے کہ بیوی اپنا مہر، نان و نفقہ اور باری نیز زوجیت کی بنا پر ملنے والے تمام حقوق سے دستبردار ہوجائے۔ اس میں اتنی بات ضرور ہے کہ بیوی کے لئے ماضی میں واجب ہونے والے نان و نفقہ سے دست برداری جائز ہوتی ہے۔ مستقبل کے نان و نفقہ سے شوہر کو بری الذمہ قرار دینا درست نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر بیوی شوہر کو ہمبستری سے بری الذمہ قرار دے دے تو اس کا یہ اقدام درست نہیں ہوگا بلکہ اسے یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ شوہر سے اپنے حصے کی ہمبستری کا مطالبہ کرے۔- اگر بیوی خوشدلی کے ساتھ نان و نفقہ اور شب باشی کے مطالبے سے دست بردار ہوجائے تو اس کا یہ اقدام جائز ہوگا لیکن اگر مستقبل میں بھی وہ شوہر کو ان چیزوں سے بری الذمہ قرار دے دے تو پھر اس کا یہ اقدام درست نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی جائز نہیں ہوگی کہ شوہر بیوی کی طرف سے باری ہمیشہ کے حق سے دستبرداری پر اسے اس کا کوئی معاوضہ ادا کرے کیونکہ یہ باطل طریقے سے مال کھانے کی صورت ہے یا یہ ایسا حق ہے جس کے بدلے کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں ہوتا کیونکہ یہ حق نکاح کی موجودگی میں جو اس حق کے وجوب کا سبب ہے ساقط نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو مہر میں دے جانے والے غلام کو اس کے حوالے کرنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دے دے بیوی کا یہ اقدام اس کے لئے درست نہیں ہوگا کہ عقد نکاح جو اس غلام کو بیوی کے حوالے کرنے کا موجب ہے اپنی جگہ موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے اصحاب نے اس بات کے جواز کا فتویٰ دیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے عدت کے دوران نان و نفقہ نہ دینے کی شرط پر خلع کرسکتا ہے اس طرح گویا انہوں نے شوہر کو ایسے نان و نفقہ سے بری الذمہ قرار دے دیا جو ابھی واجب نہیں ہوا جبکہ ان نان و نفقہ کو واجب کردینے والا سبب یعنی عدت موجود ہے۔ اس لئے گزشتہ سطور میں آپ نے مستقبل کے نان و نفقہ سے عدم برات کی جو بات کی ہے وہ یہاں آکر ٹوٹ گئی۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا ہمارے اصحاب نے نان و نفقہ کی ادائیگی سے شوہر کی برات کو جائز نہیں کیا۔ جہاں تک ایسے نان و نفقہ سے جو ابھی واجب نہیں ہوا یعنی مستقبل کے نان و نفقہ سے شوہر کی برات کے امتناع کا تعلق ہے اس کے لحاظ سے خلع حاصل کرلینے والی بیوی اور عقد میں موجود بیوی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لیکن شوہر نے جب عدت کے دوران نان و نفقہ کی عدم ادائیگی کی شرط پر اس کا خلع قبول کرلیا تو گویا اس نے نان و نفقہ کی اس مقدار کو خلع کا معاوضہ قرار دیا جو عدت کی پوری مدت کے لئے اس پر واجب ہوتی۔ اگرچہ یہ مقدار پوری طرح معلوم و متعین نہیں ہے لیکن خلع میں دیا جانے والا معاوضہ اگر ایک حد تک نامعلوم اور غیر متعین ہو تو بھی درست وہ جاتا ہے۔ عقد خلع کی بنا پر یہ معاوضہ عورت کے زیر ضمانت ہوگا۔ پھر عدت کے نان و نفقہ کے طور پر مستقبل میں عورت کے لئے شوہر پر جو رقم واجب ہوگی یہ معوضہ اس کا بدل بن جائے گا۔ آیت زیر بحث کی اس امر پر دلالت ہو رہی ہے کہ اگر میاں بیوی اس شرط پر آپس میں صلح کرلیں کہ بیوی مہر کی پوری رقم یا اس کے کچھ حصے سے دستبردار ہوجائے یا مہر کی رقم کے اضافے کی شرط پر صلح ہوگئی ہو تو صلح کی یہ تمام صورتیں درست ہوں گی کیونکہ آیت نے اس معاملے میں کسی صورت کے حکم پر کوئی فرق نہیں رکھا اور تمام صورتوں میں صلح کرلینے کو جائز قرار دیا ہے۔- قول باری ہے والصلح خیر۔ صلح بہرحال بہتر ہے) بعض اہل علم کا قول ہے کہ صلح کرلینا بےرخی کرنے اور بدسلوکی سے پیش آنے سے بہتر ہے۔ بعض کا قول ہے کہ صلح علیحدگی یعنی طلاق سے بہتر ہے۔ آیت اس بارے میں عموم کا امکان موجود ہے کہ میاں بیوی کے درمان صلح ہر شرط اور صورت میں جائز ہے۔ البتہ اس سے وہ صورتیں خارج ہیں جو کسی دلیل کی بنا پر خاص ہوگئی ہیں۔ ناپسندیدگی کی بنا پر صلح نیز غیر متعین اور مجہول چیز پر صلح کے جواز پر بھی آیت کی دلالت ہو رہی ہے۔ قول باری ہے لاحضرت الانفس الشح۔ نفس تنگ دلی کی طرف جلد مائل ہوجاتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ عورتوں کو ان کے شوہروں کے اموال میں سے جو حصے ملتے ہوں وہ انہیں دینے میں تنگ دلی کا مظاہر ہ کرنا مراد ہے۔ حسن کا قول ہے کہ میاں اور بیوی میں سے یہ ایک کے دل میں دوسرے کے حق کی ادائیگی کے سلسلے میں تنگی اور بخل کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ شح بخل کو کہتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے دل میں بھلائی اور خیر کو دوسرے تک پہنچنے سے روک رکھنے کا جذبہ اور حرص پیدا ہوجائے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٨) عمیرہ کو اپنے خاوند اسعد بن ربیع کے بارے میں یہ خوف ہوا کہ وہ ان سے ہمبستری اور گفتگو اور ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ایسی صورت میں میاں بیوی کو باہم اس طریقہ پر صلح کرلینی چاہیے کہ جس سے عورت راضی ہوجائے اور ظلم و زیادتی سے باز آکر عورت کی خوشنودی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صلح کرلینا بہتر ہے ،- کیونکہ نفس میں طبعا بخل وحرص ہوتا ہے، عورت خاوند کے حقوق کی ادائیگی میں بخل کرتی ہے اور یا یہ کہ بعض عورت کی حرص وطمع اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ وہ راضی نہ ہوجائے۔- اور اگر تم جوان اور بوڑھی کے درمیان تقسیم اور خرچہ میں برابر کرو اور غلط برتاؤ اور بےرخی سے احتیاط رکھو تو یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔- شان نزول : (آیت) ” وان امراۃ خافت “۔ (الخ)- ابوداؤد (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب حضرت سودہ (رض) بوڑھی ہوگئیں تو ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو علیحدہ کردیں گے، انھوں نے اس چیز کا حضرت عائشہ (رض) سے ذکر کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، امام ترمذی نے اسی طرح ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے۔- اور سعید بن منصور نے سعید بن مسیب (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ محمد من مسلمہ (رض) کی صاحبزادی رافع بن خدیج (رض) کے نکاح میں تھیں، رافع کو ان سے کچھ لاپروائی ہوئی بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے تو انہوں نے انکو طلاق دینا چاہی تو یہ بولیں کہ مجھے طلاق مت دو اور جو تم چاہو، وہ حصہ میرے لیے متعین کردو، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اس روایت کا موصول طریقہ پر ایک شاہد پر ایک شاہد موجود ہے، جس کو امام حاکم نے بواسطہ سعید بن مسیب (رض) رافع ابن خدیج سے روایت کیا ہے۔- نیز امام حاکم (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اور والصلح خیرا “۔ (الخ) ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے نکاح میں ایک عورت تھی اور اس سے اولاد بھی کافی تھی، اس شخص نے اس عورت کو طلاق دینا چاہی مگر یہ اس بات پر راضی ہوگئیں کہ مجھے اپنے پاس ہی رکھو اور میرے لیے اپنی جائیداد میں سے کوئی حصہ متعین نہ کرو۔- ابن جریر (رح) نے سعید بن جبیر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی اپنے خرچہ میں سے میرے لیے کچھ حصہ متعین کر دو اگرچہ وہ پہلے اس بات پر راضی ہوگئی تھی، کہ اس کا خاوند نہ اس کو طلاق دے اور نہ اس کے پاس آئے۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ جملہ نازل فرمایا (آیت) ” واحضرت الانفس “۔ یعنی انسان حرص کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْم بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا) - ایک نشوز تو وہ تھا جس کا تذکرہ اسی سورة کی آیت ٣٤ میں عورت کے لیے ہوا تھا : (وَالّٰتِی تَخَافُوْنَ نَشُوْزَھُنَّ ) اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو۔ یعنی وہ عورتیں ‘ وہ بیویاں جو خاوندوں سے سر کشی کرتی ہیں ‘ ان کے احکام نہیں مانتیں ‘ ان کی اطاعت نہیں کرتیں ‘ اپنی ضد پر اڑی رہتی ہیں ‘ ان کے بارے میں حکم تھا کہ ان کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے۔ اب یہاں ذکر ہے اس نشوزکا جس کا اظہار خاوند کی طرف سے ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر ظلم کر رہا ہو ‘ اس کے حقوق ادا کرنے میں پہلو تہی کر رہا ہو ‘ اپنی قوّ امیت کے حق کو غلط طریقے سے استعمال کر رہا ہو ‘ بےجا رعب ڈالتا ہو ‘ دھونس دیتا ہو ‘ یا بلاوجہ ستاتا ہو ‘ تنگ کرتا ہو ‘ اور تنگ کر کے مہر معاف کروانا چاہتا ہو ‘ یا اگر بیوی کے والدین اچھے کھاتے پیتے ہوں تو ہوسکتا ہے اسے بلیک میل کر کے اس کے والدین سے دولت ہتھیانا چاہتا ہو۔ یہ ساری خباثتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور عورتیں بیچاری ظلم و ستم کی اس چکی میں پستی رہتی ہیں۔ آیت زیر نظر میں اس مسئلے کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے اندیشہ ہوجائے کہ وہ زیادتی کرے گا ‘ یا اگر شوہر زیادتی کر رہا ہو اور وہ بیوی کے حقوق ادا نہ کر رہا ہو ‘ یا اس کی طرف میلان ہی نہ رکھتا ہو ‘ کوئی نئی شادی رچا لی ہو اور اب ساری توجہ نئی دلہن کی طرف ہو۔- (فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا ط) - یہاں صلح سے مراد یہ ہے کہ سارے معاملات باہم طے کر کے عورت خلع لے لے۔ لیکن خلع لینے میں ‘ جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں جبکہ عورت کو مہر چھوڑنا پڑے گا ‘ اور اگر لیا تھا تو کچھ واپس کرنا پڑے گا۔- (وَالصُّلْحُ خَیْرٌط وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط) - مردچا ہے گا کہ میرا پورا مہر واپس کیا جائے جبکہ عورت چاہے گی کہ مجھے کچھ بھی واپس نہ کرنا پڑے۔ یہ مضامین سورة البقرۃ میں بیان ہوچکے ہیں۔ - (وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا )- تم مرد ہو ‘ مردانگی کا ثبوت دو ‘ اس معاملے میں اپنے اندر نرمی پیدا کرو ‘ بیوی کا حق فراخ دلی سے ادا کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :157 یہاں سے اصل استفتاء کا جواب شروع ہوتا ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوال کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے ۔ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص غیر محدود تعداد تک بیویاں کر نے کے لیے آزاد تھا اور ان کثیر التعداد بیویوں کے لیے کچھ بھی حقوق مقرر نہ تھے ۔ سورہ نساء کی ابتدائی آیات جب نازل ہو ئیں تو اس آزادی پر دو قسم کی پابندیاں عائد ہوگئیں ۔ ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دی گئی ۔ دوسرے یہ کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے عدل ( یعنی مساویانہ برتا ؤ ) کو شرط قرار دیا گیا ۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے ، یا دائم المرض ہے ، یا تعلق زن و شو کے قابل نہیں رہی ہے ، اور شوہر دوسری بیوی بیاہ لاتا ہے تو کیا وہ مجبور ہے کہ دونوں کے ساتھ یکساں رغبت رکھے؟ یکساں محبت رکھے؟ جسمانی تعلق میں بھی یکسانی برتے؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا عدل کی شرط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کو چھوڑ دے؟ نیز یہ کہ اگر پہلی بیوی خود جدا نہ ہونا چاہے تو کیا زوجین میں اس قسم کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جو بیوی غیر مرغوب ہو چکی ہے وہ اپنے بعض حقوق سے خود دست بردار ہو کر شوہر کو طلاق سے باز رہنے پر راضی کر لے؟ کیا ایسا کرنا عدل کی شرط کے خلا ف تو نہ ہوگا ؟ یہ سوالات ہیں جن کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :158 یعنی طلاق و جدائی سے بہتر ہے کہ اس طرح باہم مصالحت کر کے ایک عورت اسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصہ گزار چکی ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :159 عورت کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر شوہر کے لیے بے رغبتی کے اسباب کو خود محسوس کرتی ہو اور پھر بھی وہ سلوک چاہے جو ایک مرغوب بیوی کے ساتھ ہی برتا جا سکتا ہے ۔ مرد کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ جو عورت دل سے اتر جانے پر بھی اس کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہو اس کو وہ حد سے زیادہ دبانے کی کوشش کرے اور اس کے حقوق ناقابل برداشت حد تک گھٹا دینا چاہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :160 یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے مرد ہی کے جذبہ فیاضی سے اپیل کی ہے جس طرح بالعموم ایسے معاملات میں اس کا قاعدہ ہے ۔ اس نے مرد کو ترغیب دی ہے کہ وہ بے رغبتی کے باوجود اس عورت کے ساتھ احسان سے پیش آئے جو برسوں اس کی رفیق زندگی رہی ہے ، اور اس خدا سے ڈرے جو اگر کسی انسان کی خامیوں کے سبب سے اپنی نظر التفات اس سے پھیر لے اور اس کے نصیب میں کمی کرنے پر اتر آئے تو پھر اس کا دنیا میں کہیں ٹھکانا نہ رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

76: تشریح : بعض اوقات کسی شوہر کا اپنی بیوی سے دل نہیں ملتا اور وہ اس سے بے رخی اختیار کرکے اسے طلاق دینا چاہتا ہے، اس صورت میں اگر بیوی طلاق پر راضی نہ ہو تو وہ اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو کر شوہر سے صلح کرسکتی ہے، یعنی یہ کہہ سکتی ہے کہ میں اپنے فلاں حق کا مطالبہ نہیں کروں گی، مگر مجھے اپنے نکاح میں رہنے دو، ایسی صورت میں شوہر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ صلح پر آمادہ ہوجائے اور طلاق پر اصرار نہ کرے ؛ کیونکہ مصالحت کا رویہ ہی بہتر ہے، نیز اگلے جملے میں احسان کی نصیحت فرماکر شوہر کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ دل نہ ملنے کی باوجود بیوی سے نباہ کرنے کی کوشش کرے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حقوق ادا کرتا رہے تو اس کے لئے دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری کا ذریعہ ہوگا۔ 77: مطلب بظاہر یہ ہے کہ ہر انسان کی طبیعت میں دنیوی فائدوں کا کچھ نہ کچھ لالچ ہوتا ہے، اس لئے اگر عورت اپنے کچھ دنیوی مفادات چھوڑرہی ہے تو شوہر کو یہ سوچنا چاہئے کہ اسے طلاق کی صورت میں کوئی سخت تکلیف پیش آنے کا اندیشہ ہے، اسی لئے وہ اپنے یہ مفادات چھوڑنے پر آمادہ ہوئی ہے، ایسی صورت میں صلح کرلینا بہتر ہے، دوسری طرف بیوی کو یہ سوچنا چاہئے کہ شوہر نے کچھ دنیوی فائدوں کے لئے نکاح کیا تھا جو اس کو میری زوجیت میں حاصل نہیں ہورہے ہیں، لہذا وہ میری جگہ کسی اور سے نکاح کرکے وہ فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے، اب میں اپنے بعض حقوق سے دستبردارہوکر اسے کچھ دوسرے فوائد مہیا کردوں تو وہ اس ارادے سے باز آسکتا ہے۔