Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَشِّرِ الْمُنٰفِقِيْنَ : بشارت خوشی کی خبر کو کہتے ہیں، یہاں بطور طنز کہا ہے کہ منافقوں کو عذاب الیم کی خوش خبری دے دو ، جو مسلمانوں کے بجائے کافروں کو اس لیے دوست بناتے ہیں کہ اس سے انھیں عزت حاصل ہوگی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عزت کافروں کی دوستی میں نہیں بلکہ وہ تو سب کی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہی بات سورة فاطر (١٠ ) میں اور سورة منافقون (٨) میں بیان فرمائی، بلکہ سورة منافقون میں فرمایا : ” لیکن منافق نہیں جانتے “ کہ اللہ کے ہاں عزت تو کفر کی وجہ سے گئی اور کفار کے پاس عزت تھی ہی نہیں جو انھیں ملتی، اگر بظاہر کچھ تھی بھی تو ان کے دوغلے پن کی وجہ سے ان کا اعتبار بھی اٹھ گیا۔ [ خَسَرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - منافقین کو خوش خبری سنا دیجئے اس امر کی کہ ان کے واسطے (اخرت میں) بڑی درد ناک سزا (تجویز کی گئی) جن کی یہ حالت ہے کہ (عقائد تو اہل ایمان کے نہ رکھتے تھے مگر وضع بھی اہل ایمان کی نہ رکھ سکے چنانچہ) کافروں کو دوست بناتے ہیں مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا ان کے پاس (جا کر) عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں سو (خوب سمجھ لو کہ) عزت تو ساری اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے (وہ جس کو چاہیں دیں، پس اگر اللہ تعالیٰ ان کو یا جن سے جاجا کر دوستی کرتے ہیں ان کو عزت نہ دیں تو کہاں سے معزز بن جاویں گے) اور (اے مسلمانو : دیکھو تم منافقین کی طرح کفار کے ساتھ خصوصیت مت رکھنا خاص کر جس وقت وہ کفریات کا تذکرہ کرتے ہوئے چناچہ اس سورة مدینہ کے قبل بھی) اللہ تعالیٰ تمہارے پاس یہ فرمان ( سورة انعام (آیت نمبر ٨٦) میں جو مکیہ ہے) بھیج چکا ہے ( جس کا حاصل یہ ہے کہ جب (کسی مجمع میں) احکام الہیہ کے ساتھ استہزاء اور کفر ہوتا ہوا سنو تو ان لوگوں کے پاس مت بیٹھو جب تک کہ وہ کوئی اور بات شروع نہ کریں (اور یہ مضمون اس آیت کا حاصل ہے واذا رایت الذین یخوضون الخ سو یہ استہزاء کرنے والے مکہ میں مشرکین تھے اور مدینہ میں یہود تو علانیہ اور منافقین صرف غرباء، وضعفاء مسلمین کے روبرو پس جس طرح وہاں مشرکین کی مجالست ایسے وقت میں ممنوع تھی یہاں یہود اور منافقین کی مجالست سے نہی ہے اور یہ ممانعت ہم اس لئے کرتے ہیں) کہ اس حالت میں تم بھی (گناہ میں) انہی جیسے ہوجاؤ گے (گو دونوں کی نوعیت میں فرق ہو کہ ایک گناہ کفر کا ہے دوسرا فسق کا اور اس ممانعت مجالست میں کفار اور منافقین سب برابر ہیں، کیونکہ علت اس کی خوض فی الکفر یعنی کفر کی باتوں کا تذکرہ اور اس خوض کا منشاء کفر ہے، اور اس میں دونوں برابر ہیں، چناچہ سزائے کفر یعنی دوزخ کا ایندھن ہونے میں بھی دونوں برابر ہوں گے، کیونکہ) یقینا اللہ تعالیٰ منافقوں کو اور کافروں کو سب کو دوزخ میں جمع کردیں گے (اور) وہ (منافقین) ایسے ہیں کہ تم پر افتاد پڑنے کے منتظر (اور آرزو مند) رہتے ہیں پھر (ان کے اس انتظار کے بعد) اگر تمہاری فتح منجانب اللہ ہوگئی تو (تم سے آ کر) باتیں بناتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ (جہاد میں شریک) نہ تھے (کیونکہ نام و نمود کو تو مسلمانوں میں گھسے ہی رہتے تھے، مطلب یہ کہ ہم کو بھی غنیمت کا حصہ دو ) اور اور اگر کافروں کو (غلبہ کا) کچھ حصہ مل گیا (یعنی وہ اتفاق سے غالب آئے) تو (ان سے جا کر) باتیں بناتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے (مگر ہم نے قصداً تمہارے اور غالب کرنے کے لئے مسلمانوں کی مدد نہ کی اور ایسی تدبیر کی کہ لڑائی بگڑ گئی) اور کیا ہم نے (جب تم مغلوب ہونے لگے تھے) تم کو مسلمانوں سے بچا نہیں لیا ( اس طرح کہ ان کی مدد نہ کی، اور تدبیر سے لڑائی بگاڑ دی، مطلب یہ کہ ہمارا احسان مانو اور جو کچھ تمہارے ہاتھ آیا ہے ہم کو بھی کچھ حصہ دلواؤ، غرض دونوں طرف سے ہاتھ مارتے ہیں) سو (دنیا میں گو اظہار اسلام کی برکت سے مسلمانوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن) اللہ تعالیٰ تمہارا اور ان کا قیامت میں (عملی) فیصلہ فرما دیں گے اور (اس فیصلہ میں) ہرگز اللہ تعالیٰ کافروں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں غالب نہ فرمائیں گے (بلکہ کفار مجرم قرار پا کر دوزخ میں جاویں گے اور مسلمان اہل حق ثابت ہو کر جنت میں جائیں گے اور فیصلہ عملی یہی ہے)- معارف و مسائل - پہلی آیت میں منافقین کے لئے درد ناک عذاب کی خبر دی گئی ہے اور اس رنج دہ خبر کو لفظ بشارت سے تعبیر کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا گیا کہ ہر انسان اپنے مستقبل کے لئے خوشخبری سننے کا منتظر رہا کرتا ہے، مگر منفاقین کے لئے اس کے سوا کئی خبر نہیں، ان کے لئے بشارت کے عوض میں یہی خبر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَشِّرِ الْمُنٰفِقِيْنَ بِاَنَّ لَھُمْ عَذَابًا اَلِيْـمَۨا۝ ١٣٨ۙ- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے بشر المنافقین بان لھم عذاباً الیماً الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المومنین۔ منافقین کو خوش خبری سنا دو کہ ان کے لئے ایک دردناک عذاب تیار ہے یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ انہوں نے کافروں کو اپنا مددگار اور پشت پناہ بنا لیا تھا کیونکہ اس بات کا وہم ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ عداوت اور دشمنی نیز ان کے ساتھ صف آراء ہونے کی بنا پر کافروں میں زبردست یکجہتی قوت و طاقت پیدا ہوگئی ہے اور ان کا اب بڑا دبدبہ ہے لیکن ان منافقین کو اللہ کے دین کا کچھ علم نہیں تھا اور اگر انہیں اس کا علم ہوتا تو وہ مسلمانوں کو اپنا دوست بناتے۔ آیت میں جن منافقین کا ذکر کیا گیا ان کی یہ خصوصیت تھی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کافروں کے مقابلے کے لئے دوسرے کافروں سے مدد حاصل کریں کیونکہ انہیں غلبہ حاصل ہونے کی صورت میں کفر غالب آجائے گا۔ ہمارے اصحاب کا یہی مسلک ہے۔- عزت کفار کے پاس نہیں ہے - قول باری ایبتغون عندھما لغزۃ۔ کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں ان کے پاس جاتے ہیں ) ہمارے اصحاب کے درج بالا قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ کافروں سے مدد لینا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ جب انہیں غلبہ حاصل ہوگا تو اس صورت میں مدد کرنے والے کافروں کو بھی غلبہ حاصل ہوگا اور انہیں ابھرنے کا بھی موقع ملے گا جس کے نتیجے میں کفر کو پروان چڑھنے کے لئے زمین ہموار ہوجائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں منافقین کا ذکر ہے جو کافر تھے اس سے مسلمانوں کے متعلق یہ استدلال کیسے ہوسکتا ہے کہ کافروں سے ان کی استعانت جائز نہیں ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ کافروں سے استعانت ممنوع ہے تو اس کے بعد اس حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مدد حاصل کرنے والے کون لوگ ہیں مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی فعل پر کسی قوم کی مذمت کرے دے تو اس فعل کی قباحت مسلم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد کسی بھی شخص کو اس کا ارتکاب جائز نہیں رہتا۔ البتہ اگر کوئی ایسی دلالت وجود میں آجائے جو اس کے جواز کی نشاندہی کرتی ہو تو یہ الگ بات ہوگی ایک قول یہ ہے کہ عزت کے اصل معنی شدت اور سختی کے ہیں۔ اسی بنا پر سخت اور ٹھوس زمین کو عزاز کا نام دیا جاتا ہے۔- ایک محاورہ ہے ” قداسعزالمرض علی المریض “ جو اس وقت بولا جاتا ہے جب مریض کا مرض شدت اختیار کرلے۔ اس سے یہ محاورہ بھی ہے عزعلی کذا میرے لئے یہ کام مشکل ہوگیا ہے۔ اسی طرح کسی چیز کی کامیابی پر یہ فقرہ کہاجاتا ہے ” عزاشئی “ کیونکہ اس صورت میں اس چیز کا حصول بڑی دقت اور جان جوکھوں کا کام ہوجاتا ہے جب کوئی شخص کی معاملہ میں دوسرے شخص کے ساتھ سختی سے پیش آئے تو کہا جاتا ہے ” عازہ فی الامر “ اس نے اس معاملے میں اس کے ساتھ بڑی سختی کی ہے) اس طرح اگر بکری کے تھن کی تنگی کی بنا پر اس کا دوہنا بڑا کٹھن ہوجائے تو ایسی بکری کو ” شاۃ عزور “ کہتے ہیں۔ عزت بمعنی قوت دراصل شدت کے اس معنی سے ماخوذ ہے عزیز اس شخص کو کہتے ہیں جو بڑا قوی اور اپنے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتا ہو کہ اس پر ہاتھ ڈالنا آسان نہ ہو۔ آیت اس حکم کو متضمن ہے کہ کفار کو اپنا دوست اور مددگار بنانا لیکن ان کے سہارے قوت و طاقت حاصل کرنا اور اس مقصد کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا سب ممنوع ہے۔- ہمیں ایک شخص نے روایت کی ہے کہ جس پر روایت کے سلسلے میں کوئی انگشت نمائی نہیں کرسکتا۔ انہیں عبداللہ بن اسحاق بن ابراہیم الدوری نے، انہیں یعقوب بن حمید بن کا سب نے انہیں عبداللہ بن عبداللہ اموی نے حسن بن الحر سے انہوں نے یعقوب بن عتبہ سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے، انہوں نے حضرت عمر (رض) سے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا، من اعتزبالعید ذلہ اللہ، جس شخص نے غلاموں کے ذریعے عزت و قوت حاصل کی اللہ تعالیٰ اسے ذیلی کر دے گا) یہ ان لوگوں پر محمول ہے جو کافروں اور فاسقوں کے سہارے عزت و قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں کے سہارے عزت و قوت حاصل کرنا کوئی قابل مذمت بات نہیں ہے۔ ارشاد باری وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین اللہ۔ اس کے رسول اور اہل ایمان کے لئے عزت و غلبہ ہے) قول باری ایبتغون عندھم العزۃ فان العزۃ اللہ جمیعاً ۔ کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں ان کے پاس جاتے ہیں حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے) میں کافروں کے سہارے قوت و عزت حاصل کرنے کی نہی کی مزید تاکید ہے اور یہ خبر دی گئی ہے کہ عزت صرف اللہ کو حاصل ہے کافروں کو نہیں۔ اس مفہوم کو کئی صورتوں میں بیان کیا گیا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی ذات کے لئے عزت کا اطلاق ممتنع ہے کیونکہ اللہ کی عزت اور قوت کے مقابلے میں کسی اور کی عزت اور قوت کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی شمار و قطار میں ہے اس لئے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی اور کی عزت اور قول اس قدر حقیر اور پست ہوتی ہے کہ اس پر اس لفظ کا اطلاق کسی طرح سجتا ہی نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کی تمام مخلوقات میں جسے بھی کوئی عزت و قوت حاصل ہے اس کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے اس نے ہی اسے یہ عزت و قوت بخشی ہے اس لئے تمام عزت و قوت کا دراصل مالک وہی ہے اس لئے کہ وہ خود اپنی ذات کے لحاظ سے عزیز یعنی قوی ہے اور اس کائنات میں جس کسی کی طرف عزت کا کوئی مفہوم اور کوئی صورت منسوب ہے اس کا منبع اور سرچشمہ بھی وہی ہے۔- تیسری صورت یہ ہے کہ کفار اللہ کی نظروں میں ذلیل ہیں اس لئے ان سے عزت کی صفت منتقی ہوگئی ہے اور یہ عزت صرف اللہ کو حاصل ہے یا ان لوگوں کو جن کے متعلق اللہ کی طرف سے اس کی نسبت کی خبر دی گئی ہے یعنی اہل ایمان اس بنا پر کافروں کو اگر عزت اور قوت کی کوئی صورت حاصل بھی ہوجائے پھر بھی وہ اس کے مستحق نہیں ہوتے کہ ان پر اس لفظ کا اطلاق کیا جاسکے۔ کفار کی ہم نشینی سے گریز کیا جائے حی کہ وہ اسلام کا مذاق اڑائیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٨۔ ١٣٩) اس کے بعد والی آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو اور جو قیامت تک ان میں اس حالت پر قائم رہے گا ایسے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے کہ جس کی تکلیف ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی، اب منافقین کی علامات بیان فرماتے ہیں کہ یہ یہودی خالص مومنین کو چھوڑ کر کفار کو مددگار بناتے ہیں کیا یہ ان یہودیوں کے پاس جا کر طاقتور اور باعزت رہنا چاہتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٨ (بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ) - یعنی واضح طور پر فرما دیا گیا کہ یہ لوگ منافق ہیں اور ان کو عذاب کی بشارت بھی دے دی گئی۔ یہ عذاب کی بشارت دینا طنزیہ انداز ہے ۔- یہاں پر قبول حق کے دعویداروں کو یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ‘ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں ‘ ان کے لیے یہاں پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ اس لیے جو شخص اس گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ یکسو ہو کر آئے ‘ دل میں تحفظات ( ) رکھ کر نہ آئے۔ یہاں تو قدم قدم پر آزمائشیں آئیں گی ‘ یہ اللہ کا اٹل فیصلہ ہے : (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط) (البقرۃ : ١٥٥) ۔ یہاں تو علی الاعلان بتایا جا رہا ہے : (لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا ط) (آل عمران : ١٨٦) ۔ یہاں تو مال و جان کا نقصان اٹھانا پڑے گا ‘ ہر قسم کی تلح ونازیبا باتیں سننی پڑیں گی ‘ کڑوے گھونٹ بھی حلق سے اتارنے پڑیں گے ‘ قدم قدم پر خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا ؂- در رہ منزل لیلیٰ کہ خطر ہاست بسے - شرطِ اوّل قدم ایں است کہ مجنوں باشی

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani