صحبت بد سے بچو ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہو جائے پھر وہ مومن ہو کر کافر بن جائے پھر اپنے کفر پر جم جائے اور اسی حالت میں مر جائے تو نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان اس کا چھٹکارا ، نہ فلاح ، نہ اللہ اسے بخشے ، نہ راہ راست پر لائے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تلاوت فرما کر فرماتے تھے مرتد سے تین بار کہا جائے کہ توبہ کر لے ۔ پھر فرمایا یہ منافقوں کا حال ہے کہ آخرش ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ مومنوں کو چھوڑ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں ، ادھر بظاہر مومنوں سے ملے جلے رہتے ہیں اور کافروں میں بیٹھ کر ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں دراصل ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ، پس اللہ تعالیٰ ان کے مقصود اصلی کو ان کے سامنے پیش کر کے اس میں ان کی ناکامی کو بیان فرماتا ہے کہ تم چاہتے ہو ان کے پاس تمہاری عزت ہو مگر یہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور تم غلطی کر رہے ہو بگوش ہوش سنو عزتوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ ہے ۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور آیت میں ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ) 35 ۔ فاطر:10 ) یعنی عزت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کا حق ہے ، لیکن منافق بےسمجھ لوگ ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو اللہ کے نیک بندوں کے اعمال اختیار کرو اس کی عبادت کی طرف جھک جاؤ اور اس جناب باری سے عزت کے خواہاں بنو ، دنیا اور آخرت میں وہ تمہیں وقار بنا دے گا ، مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص فخر و غرور کے طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے کے لئے اپنا نسب اپنے کفار باپ دادا سے جوڑے اور نو تک پہنچ جائے وہ بھی ان کے ساتھ دسواں جہنمی ہو گا ۔ پھر فرمان ہے جب میں تمہیں منع کر چکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس میں نہ بیٹھو ، پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے رہو گے تو یاد رکھو میرے ہاں تم بھی ان کے شریک کار سمجھے جاؤ گے ۔ ان کے گناہ میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جس دستر خوان پر شراب نوشی ہو رہی ہے اس پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنا چاہئے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس آیت میں جس ممانعت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورہ انعام کی جو مکیہ ہے یہ ( وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ ) 6 ۔ الانعام:68 ) جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں میں غوطے لگانے بیٹھ جاتے ہیں تو تو ان سے منہ موڑ لے ۔ حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں اس آیت کا یہ حکم ( اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعَۨا ) 4 ۔ النسآء:140 ) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ( وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:69 ) سے منسوخ ہو گیا ہے یعنی متقیوں پر ان کے احسان کا کوئی بوجھ نہیں لکین نصیحت ہے کیا عجب کہ وہ بچ جائیں ۔ پھر فرمان باری ہے اللہ تعالیٰ تمام منافقوں کو اور سارے کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔ یعنی جس طرح یہ منافق ان کافروں کے کفر میں یہاں شریک ہیں قیامت کے دن جہنم میں بھی اور ہمیشہ رہنے والے وہاں کے سخت تر دل ہلا دینے والے عذابوں کے سہنے میں بھی ان کے شریک حال رہیں گے ۔ وہاں کی سزاؤں میں وہاں کی قید و بند میں طوق و زنجیر میں گرم پانی کے کڑوے گھونٹ اتارنے میں اور پیپ کے لہو کے زہر مار کرنے میں بھی ان کیساتھ ہوں گے اور دائمی سزا کا اعلان سب کو ساتھ سنا دیا جائے گا ۔
(2) بعض مفسرین نے اس سے مراد یہود لیے ہیں۔ یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے لیکن حضرت عزیر (علیہ السلام) کا انکار کیا، پھر حضرت عزیر (علیہ السلام) پر ایمان لائے تو حضرت عیسیٰ کا انکار کیا۔ پھر کفر میں پڑھتے چلے گئے۔ حتی کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا بھی انکار کیا اور بعض نے اس سے مراد منافقین لئے ہیں، چونکہ مقصد ان کا مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا، اس لئے وہ بار بار اپنی مسلمانی کا ڈھونگ رچاتے تھے بالآخر کفر و ضلالت میں اتنے بڑھ گئے کہ ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوگئی۔
[١٨٤] ایمان اور فکر کی بار بار تبدیلی :۔ ان سے مراد منافقین اور مرتدین کا گروہ ہے جو ہر وقت مذبذب ہی رہتے کہ جس طرف کا پلہ بھاری نظر آئے اس میں شامل ہوجائیں۔ ایسے لوگ ہوا کا رخ دیکھتے، حالات کا جائزہ لے کر اپنی خواہش نفس کے پیروکار ہوتے ہیں اور جتنی دفعہ بھی ہوا کا رخ بدلے اتنی دفعہ ہی ان کا ایمان اور کفر بدلتا رہتا ہے۔ ایسے ایمان کا چونکہ کچھ فائدہ نہیں ہوتا لہذا ان پر کفر ہی کی چھاپ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ اور کفر میں بڑھتے چلے جانے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ خود تو کافر ہیں ہی دوسروں کو بھی کافر بنانے کے لیے اور اسلام کی راہ روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کی راہ راست پر آنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا۔۔ : ان لوگوں سے مراد منافقین ہیں جو مسلمان تو ہوگئے مگر جب کوئی فائدہ دیکھتے تو ایمان کی طرف بڑھ جاتے اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی تو کافر ہوجاتے۔ یہ لوگ مشرکین اوس و خزرج میں سے بھی تھے اور یہود مدینہ سے بھی۔ اب بھی بیشمار مسلمانوں کا یہی حال ہے، فرمایا : ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ ) [ حج : ١١ ] ” اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے۔ “ پھر ” کفر میں بڑھ گئے “ یعنی پھر وہ کفر پر قائم رہے اور اسی پر مرگئے، کیونکہ کفر کا یہی وہ درجہ ہے جس کی بخشش نہیں ہوتی، لیکن اگر کوئی شخص تائب ہوجائے اور ایمان لے آئے تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ یہاں بات ان لوگوں کی ہو رہی ہے جنھوں نے ایمان قبول کیا، پھر اسے چھوڑ دیا، پھر اسے قبول کرلیا، پھر اسے چھوڑ کر گمراہی کو قبول کرلیا اور پھر گمراہی میں بڑھتے ہی گئے، حتیٰ کہ کفر کی حالت میں مرگئے، تو مرنے کے بعد ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں، اللہ انھیں معاف نہیں کرے گا، کیونکہ اس صورت حال تک پہنچنے کے بعد اس سے نکلنے کی کوئی صورت ہی نہیں کہ اب انھیں نکلنے کی کوئی صورت مل سکے۔ انھی لوگوں کا ذکر سورة آل عمران (٧٢) سورة منافقون (٣) اور سورة نساء (١٨) میں کیا گیا ہے۔
معارف ومسائل - فوائد مہمہ :- (قولہ تعالی) ان الذین امنوا ثم کفروا الخ اس سے مراد منافقین میں اور بعض فرماتے ہیں کہ یہ آیت یہودیوں کی شان میں ہے کہ اہل ایمان لائے پھر گوسالہ کی عبادت کر کے کافر ہوگئے پھر توبہ کر کے مومن ہوئے، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) سے منکر ہو کر کافر ہوئے، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کر کے کفر میں ترقی کر گئے (روح المعانی)- (قولہ تعالی) لم یکن اللہ لیغفر لھم ولالیھدیھم سبیلاً ، مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ ان کے بار بار کفر کی طرف لوٹنے سے ان کی توفیق حق ہی سلب ہو جائیگی، اور آئندہ توبہ کرنے اور ایمان لانے کا موقع ہی نصیب نہ ہوگا، ورنہ جو قاعدہ قرآن و سنت کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ کیسا ہی کافر یا مرتد ہو اگر سچی توبہ کرے تو پچھلا گناہ معاف ہوجاتا ہے، یہ لوگ بھی توبہ کرلیں تو معافی کا قانون کھلا ہوا ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللہُ لِيَغْفِرَ لَھُمْ وَلَا لِيَہْدِيَھُمْ سَبِيْلًا ١٣٧ۭ- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
(١٣٧) اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حالت کو بیان فرماتے ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لائے یعنی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کا انکار کیا اور حضرت عزیز (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور پھر عزیر (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا۔- اب رسول اکرم (علیہ السلام) اور قرآن کریم کے انکار پر تلے ہوئے ہیں، سو جب تک یہ لوگ اس پر قائم رہیں گے نہ ان کو دین حق کی رہنمائی ہوگی اور نہ صحیح راستہ ملے گا۔
آیت ١٣٧ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا) - یہاں کفر سے مراد کفر حقیقی ‘ کفر معنوی ‘ کفر باطنی یعنی نفاق ہے ‘ قانونی کفر نہیں۔ کیونکہ منافقین کے ہاں کفر و ایمان کے درمیان جو بھی کشمکش اور کھینچا تانی ہو رہی تھی ‘ وہ اندر ہی اندر ہورہی تھی ‘ لیکن ظاہری طور پر تو ان لوگوں نے اسلام کا انکار نہیں کیا تھا۔- (لَّمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلاً ) - واضح رہے کہ منافقت کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی دن میں کوئی شخص منافق ہوگیا ہو۔ منافقین میں ایک تو شعوری منافق تھے ‘ جو باقاعدہ ایک فیصلہ کر کے اپنی حکمت عملی اختیار کرتے تھے ‘ جیسے ہم سورة آل عمران میں ان کی پالیسی کے بارے میں پڑھ آئے ہیں کہ صبح ایمان کا اعلان کریں گے ‘ شام کو پھر کافر ہوجائیں گے ‘ مرتد ہوجائیں گے۔ تو معلوم ہوا کہ ایمان انہیں نصیب ہوا ہی نہیں اور انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ دل سے جانتے تھے کہ ہم ایمان لائے ہی نہیں ہیں ‘ ہم تو دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ شعوری منافقت ہے۔ - دوسری طرف کچھ لوگ غیر شعوری منافق تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام قبول تو کیا تھا ‘ ان کے دل میں دھوکہ دینے کی نیت بھی نہیں تھی ‘ لیکن انہیں اصل صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ پھولوں کی سیج ہے ‘ لیکن ان کی توقعات کے بالکل برعکس وہ نکلا کانٹوں والا بستر۔ اب انہیں قدم قدم پر رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے ‘ ارادے میں پختگی نہیں ہے ‘ ایمان میں گہرائی نہیں ہے ‘ لہٰذا ان کا معاملہ ہرچہ بادا باد والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا حال ہم سورة البقرۃ کے آغاز (آیت ٢٠) میں پڑھ آئے ہیں کہ کچھ روشنی ہوئی تو ذرا چل پڑے ‘ اندھیرا ہوا تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ کچھ ہمت کی ‘ دو چار قدم چلے ‘ پھر حالات نا موافق دیکھ کر ٹھٹک گئے ‘ رک گئے ‘ پیچھے ہٹ گئے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ ان کو ملامت کرتے کہ یہ تم کیا کرتے ہو ؟ تو اب انہوں نے یہ کیا کہ جھوٹے بہانے بنانے لگے ‘ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر جھوٹی قسمیں کھانی شروع کردیں ‘ کہ خدا کی قسم یہ مجبوری تھی ‘ اس لیے میں رک گیا تھا ‘ ایسا تو نہیں کہ میں جہاد میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ میری بیوی مر رہی تھی ‘ اسے چھوڑ کر میں کیسے جاسکتا تھا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی جھوٹی قسمیں کھانا ایسے منافقین کا آخری درجے کا حربہ ہوتا ہے۔ تو ایمان اور کفر کا یہ معاملہ ان کے ہاں یوں ہی چلتا رہتا ہے ‘ اگرچہ اوپر ایمان باللّسان کا پردہ موجود رہتا ہے۔ جب کوئی شخص ایمان لے آیا اور اس نے ارتداد کا اعلان بھی نہیں کیا تو قانونی طور پر تو وہ مسلمان ہی رہتا ہے ‘ لیکن جہاں تک ایمان بالقلب کا تعلق ہے تو وہ مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِککی کیفیت میں ہوتا ہے اور اس کے اندر ہر وقت تذبذب اور اہتزاز ( ) کی کیفیت رہتی ہے کہ ابھی ایمان کی طرف آیا ‘ پھر کفر کی طرف گیا ‘ پھر ایمان کی طرف آیا ‘ پھر کفر کی طرف گیا۔ اس کی مثال بعینہٖ اس شخص کی سی ہے جو دریا یا تالاب کے گہرے پانی میں ڈوبتے ہوئے کبھی نیچے جا رہا ہے ‘ پھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے تو ایک لمحے کے لیے پھر اوپر آجاتا ہے مگر اوپر ٹھہر نہیں سکتا اور فوراً نیچے چلا جاتا ہے۔ بالآخر نیچے جا کر اوپر نہیں آتا اور ڈوب جاتا ہے۔ بالکل یہی نقشہ ہے جو اس آیت میں پیش کیا جارہا ہے۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ یہ کن لوگوں کا تذکرہ ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :168 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے دین محض ایک غیر سنجیدہ تفریح ہے ۔ ایک کھلونا ہے جس سے وہ اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق کھیلتے رہتے ہیں ۔ جب فضائے دماغی میں ایک لہر اٹھی ، مسلمان ہو گئے اور جب دوسری لہر اٹھی ، کافر بن گئے ۔ یا جب فائدہ مسلمان بن جانے میں نظر آیا ، مسلمان بن گئے اور جب معبود منفعت نے دوسری طرف جلوہ دکھایا تو اس کی پوجا کرنے کے لیے بے تکلف اسی طرف چلے گئے ۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے پاس نہ مغفرت ہے نہ ہدایت ۔ اور یہ جو فرمایا کہ” پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص محض کافر بن جانے ہی پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرے ، اسلام کے خلاف خفیہ سازشیں اور علانیہ تدبیریں شروع کر دے ، اور اپنی قوت اس سعی و جہد میں صرف کرنے لگے کہ کفر کا بول بالا ہو اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے دین کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے ۔ یہ کفر میں مزید ترقی ، اور ایک جرم پر پے در پے جرائم کا اضافہ ہے جس کا وبال بھی مجرد کفر سے لازماً زیادہ ہونا چاہیے ۔
82: اس سے مراد منافق بھی ہوسکتے ہیں جن کا ذکر چل رہا ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے پاس آکر مسلمان ہونے کا اعلان کرتے تھے، مگر تنہائی میں کفر اختیار کرلیتے تھے، پھر کبھی مسلمانوں کا سامنا ہوتا تو دوبارہ ایمان لانے کا مظاہرہ کرتے، مگر پھر اپنے لوگوں کو اپنے کفر کا یقین دلاتے، اور اپنے عمل سے کفر ہی میں بڑھتے چلے جاتے۔ نیز بعض روایات میں کچھ ایسے لوگوں کا بھی ذکر آیا ہے جو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوئے، پھر توبہ کر کے مسلمان ہوئے، مگر بالآخر دوبارہ مرتد ہو کر کفر ہی کی حالت میں مرے۔ آیت کے الفاظ میں دونوں قسم کے لوگوں کی گنجائش ہے۔ اور ان کے بارے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ اللہ نہ ان کو بخشے گا، نہ راستے پر لائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے اختیار سے کفر اور اس کے نتیجے میں دوزخ کی راہ کو چن لیا تو اللہ ان کو زبردستی ایمان اور جنت کے راستے پر نہیں لائے گا کیونکہ دنیا دار الامتحان ہے، اور ہر شخص کا انجام اس کے اپنے اختیار سے چنئے ہوئے راستے کے مطابق ہونا ہے۔ اللہ نہ کسی کو زبردستی مسلمان بناتا ہے نہ کافر۔